پیامبر رحمت(ص) کی عملی زندگی کے چند نمونے -2

جسمانی تنبیہ
ابو مسعود انصاری کہتے ہیں: میرا ایک غلام تھا جس کی میں پٹائی کرتا تھا ایک دن میں نے پیٹھ کے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا تھا: ابو مسعود ! خدا نے تمہیں اس پر قدرت دی ہے ( اور اسے تمہار غلام بنایا ہے) ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ ہیں۔ میں نے رسول خدا (ص) سے عرض کیا: میں نے اسے راہ خدا میں آزاد کر دیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تم اس کام کو انجام نہ دیتے تو آگ کا شعلہ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔[۳۱]

دوسروں کی طرف توجہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی طرف رخ کرتے تھے تو پورے بدن کے ساتھ اس کی طرف مڑتے تھے، اور کسی پر ظلم و جفا نہیں کرتے تھے اور سامنے والے کی معذرت خواہی کو فورا قبول کرتے تھے۔[۳۲]

کام کا ثواب
ایک سفر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعض اصحاب روزہ سے تھے شدید گرمی کی وجہ سے بے حال ہو کر ایک جگہ کونے میں پڑے ہوئے تھے اور باقی والے خیمہ لگانے، جانوروں کوسیراب کرنے اور دیگر کاموں میں مشغول تھے ۔ آنحضرت نے فرمایا: تمام ثواب ان لوگوں کا ہے جو ان کاموں میں مشغول ہیں۔[۳۳]

سلام کا جواب
ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کو ” السلام علیکم‘‘ کہا، آپ نے جواب میں ”علیکم السلام و رحمۃ اللہ ‘‘کہا۔ دوسرا شخص آیا اس نے ”السلام علیکم و رحمۃ اللہ ‘‘کہا آپ نے اس کے جواب میں ”علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ کہا۔ تیسرا شخص آیا اس نے سلام میں ” السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘کہا آنحضرت نے جواب میں صرف’ علیک‘‘ کہا۔ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ نے میرا جواب اتنا کم دیا ہے مگر اللہ کا فرمان نہیں ہے کہ جو تمہیں سلام کرے اسے بہتر طریقہ سے جواب دو؟۔آنحضرت نے فرمایا: تم نے میرے لیے اس سے بہتر جواب کے لیے کوئی چیز باقی نہیں چھوڑی۔ لہذا مجھے تمہارے ہی سلام کو واپس لوٹانا پڑا۔[۳۴]

جوانوں کی قدر کرنا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ثقافتی، سماجی اور لشکری ذمہ داریوں میں سے سخت ترین ذمہ داریاں ہمیشہ جوانوں کو سونپا کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام (ص) کے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے آپ نے مصعب بن عمیر کو جو ایک نوجوان تھا ثقافتی اور تبلیغی فعالیتوں کی انجام دہی کے لیے مدینہ بھیجا اور یہی نوجوان جنگ بدر میں لشکر اسلام کا علمبردار اور سپہ سالار بھی رہا کہ جنگ احد میں شجاعانہ جنگ کے بعد شہید ہو گیا۔[۳۵]

علی علیہ السلام کی محبت
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: شب معراج جب مجھے آسمان پر لے جارہے تھے تو جس مقام پر بھی پہنچتا تھا فرشتوں کا ایک ایک گروہ خوشی اور مسرت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کے لیےآتا تھا، یہاں تک کہ جبرائیل بھی کچھ ملائکہ کے ساتھ میرا استقبال کرنے آئے اس دن جبرائیل نے نہایت اچھی بات کہی۔ کہا: اگر آپ کی امت علی کی محبت پر جمع ہو جاتی تو خدا وند عالم جہنم کو خلق ہی نہ کرتا۔[۳۶]

حسن معاشرت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے لباس اور جوتوں کو خود سیتے تھے اپنی گوسفندوں کا دودھ خود نکالتے تھے غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے زمین پر بیٹھتے تھے بغیر کسی شرم و حیا کے اپنے گھر کی چیزوں کو بازار سے خرید کر لاتے تھے اور مصافحہ کے وقت اپنا ہاتھ پہلے نہیں کھینچتے تھے ہر کسی کو سلام کرتے تھے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا فقیر ہو یا امیر۔ اگر کوئی دعوت کرتا تھا تو اسکی دعوت کو قبول کرتے تھے اور اسے ہلکا شمار نہیں کرتے تھے چاہے چند خرما پر ہی دعوت کیوں نہ ہو۔
آپ کی زندگی کا خرچ بہت کم تھا آپ کے اندر سادہ زیستی اور میانہ روی پائی جاتی تھی، آپ خوش مزاج اور خشاش بشاش چہرے کے مالک تھے، کبھی ٹھاٹھیں مار کر نہیں ہنستے تھے لیکن ہمیشہ مسکراہٹ آپ کے چہرے پر رہتی تھی، کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے البتہ معمولی سا غم ان کے چہرہ پر نظر آتا تھا۔ منکسر المزاجی آپ کی طبیعت میں تھی۔ اسراف سے پرہیز کرتے تھے لیکن سخی تھے تمام مسلمانوں کے ساتھ مہربان رہتے تھے۔[۳۷]

حضرت خدیجہ
جیسا کہ تاریخ میں منقول ہے حضرت خدیجہ(س) پندرہ سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑی تھیں ان کی وفات کے بعد جب بھی کوئی ان کا تذکرہ ہوتا تھا تو پیغمبر اکرم ایک خاص تعظیم کے ساتھ انہیں یاد کرتے تھے اور کبھی کبھی ان کی یاد سے آپ کی آنکھوں سے اشک بھی جاری ہو جاتے تھے کہ جس کی وجہ سے عائشہ ناراض ہو جاتی تھی۔ ایک جگہ پیغمبر اکرم(ص) جناب خدیجہ(س) کے بارے میں فرماتے ہیں : بیشک میں خدیجہ کو اپنی امت کی خواتین پر برتری دیتا ہوں جس طریقے سے مریم کو خواتین عالم پر برتری دی گئی ہے۔ خدا کی قسم خدیجہ کے بعد کسی نے ان کی جگہ نہیں لی۔[۳۸]

پیدل چلنے والے کا حق
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب خود سوار ہوتے تھے تو اپنے ساتھ چلنےوالے کو پیدل چلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے یا اسے اپنے ساتھ سوار کر لیتے تھے اور اگر وہ قبول نہیں کرتا تھا تو اسے آگے بھیج دیتے تھے تاکہ وہ آگے جا کر کچھ دیر آرام کر لے۔[۳۹]

بیٹے کا حق
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سے پو چھا: بیٹے کا حق کیا ہے؟
آنحضرت نے فرمایا: اس کا اچھا نام انتخاب کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو اور اس کے بعد اس کے لیے اچھا اور مناسب کام تلاش کرو۔[۴۰]

حرام و حلال
ایک عرب رسول خدا(ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور عرض کیا:
یا رسول اللہ ! خدا سے دعا کیجیے کہ ہماری دعا قبول کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو حلال راستے سے روزی کماو، اپنےمال کو پاک کرو اور حرام کو پیٹ میں مت بھرو۔[۴۱]

بردباری
انس بن مالک کہتے ہیں: میں دس سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تھا۔ کبھی آپ نے یہ نہیں فرمایا:ایسا کیوں کیا ویسا کیوں نہیں کیا؟ نیز انس سے منقول ہے کہ: میں نے کئی سال رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت کی ہے کبھی انہوں نے مجھے برا بھلا نہیں کہا۔ کبھی مجھے مارا پیٹا نہیں۔ کبھی مجھے خود سے دور نہیں کیا۔ اور کبھی مجھے ڈانٹا جھپٹا نہیں اور کبھی مجھے کسی کام کی نسبت میری سستی اور کاہلی کی بنا پر اونچی آواز سے پکارا نہیں۔ اور اگر ان کے خاندان میں سے کوئی مجھ پر غصہ کرتا تھا تو آنحضرت فرماتے تھے: رہنے دو، جو مقدّر میں ہوگا ملے گا۔[۴۲]

حمد و ثنا
جب کبھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوشی کی خبر دیتا تھا تو آپ فرماتے تھے: ” الحمد للہ علی کل نعمۃ‘‘۔ اور جب غم و اندوہ کی خبر ملتی تھی تو فرماتے تھے:” الحمد للہ علی کل حال‘‘ خلاصہ یہ کہ آپ ہر حال میں اپنے پروردگار کی حمد و ثنا کرتے تھے۔ [۴۳]

غصہ
ایک دن ایک شخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:کچھ مجھے تعلیم کریں تاکہ خدا مجھے بخش دے اور مختصر بتائیں تاکہ میں حفظ کر سکوں ۔ فرمایا: غصہ مت کرو۔ عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ چیز مجھے تعلیم دیں جو میرے لیے فائدہ مند ہو اور جتنا وہ اپنی بات کی تکرار کرتا گیا آنحضرت اس کو جواب میں یہی کلمہ فرماتے رہے : غصہ مت کرو۔ [۴۴]

سونا
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیند سے اٹھنے کے بعد سجدہ کرتے تھے اور اس دعا کو پڑھتے تھے : ”الحمد للہ بعثنی من مرقدی ھذا و لو شاء لجعلہ الی یوم القیمۃ‘‘۔ شکر اس خدا کا جس نے مجھے میرے بستر سے اٹھایا، اگر وہ چاہتا تو قیامت تک مجھے میرے بستر پر لٹائے رکھتا‘‘۔ نیز آپ سونے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد مسواک کرتے تھے۔[۴۵]

خود بینی
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس ایک شخص کی بہت تعریف کی گئی، ایک دن وہ آدمی خود پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ وہ شخص ہے جس کی اس دن تعریف کی گئی تھی۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا: میں تو اس کے چہرے میں شیطان کی سیاہی دیکھ رہا ہوں ۔ وہ نزدیک آیا اوراس نے پیغمبر کو سلام کیا۔
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: تجھے قسم ہے خدا کی کیا تو نے خود سے نہیں کہا کہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں ہے؟
اس نے جواب دیا: جی ہاں، ایسا ہی کہا تھا جیسا آپ نے فرمایا ہے۔ [۴۶]

کھانا کھانا
عمر بن ابی سلمہ، زوجہ رسول ام سلمہ کے بیٹے کا کہنا ہے: ایک دن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا میں تھالی کے اطراف سے لقمہ اٹھا رہا تھا رسول اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: اپنے سامنے سے لقمہ اٹھاو ۔ [۴۷]

دار النصرۃ
عبد اللہ بن جزعان کہ جو ایک فقیر اور بوڑھا آدمی تھا گھر بنا رہا تھا، پیغمبر اسلام (ص) کا سن مبارک اس وقت سات سال تھا آپ نے بچوں کو اکٹھا کیا اور عبد اللہ کی مدد کی تاکہ اس کا گھر بن جائے۔ اس کے بعد اس گھر کا آپ نے دار النصرۃ نام رکھا اور کچھ لوگوں کو مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے معین کیا۔[۴۸]
حوالہ جات
[۳۱] بحار الانوار،۱۴۲ْ۷۴،ح۱۲۔
[۳۲] بحار الانوار،ج۱۶،ص۲۲۸۔
[۳۳] صحیح مسلم،ج۳،ص۱۴۴۔
[۳۴] تفسیر المیزان،ج۵،ص۲۳بہ نقل از تفسیر صافی۔
[۳۵] بحار الانوار،ج۶، ص ۴۰۵۔
[۳۶] بحار الانوار، ج۴۰، ص۳۵۔
[۳۷] سنن النبی، ص۴۱،ھ ۵۲،
[۳۸] الزوائد، ج۹،ص۲۱۳۔
[۳۹] سنن النبی، ص۵۰،ح ۶۸ از مکارم الاخلاق ، ج۱، ص۲۲۔
[۴۰] وسائل الشیعہ، ج۱۵ص۱۹۸،ح۱۔
[۴۱] سینۃ البحار، ج۱، ص۴۴۸۔
[۴۲] حمید رضا کفاش، ۱۲۰ درس زندگی پیامبر اکرم۔ص۴۶۔
[۴۳] اصول کافی، ج۱، ص ۴۹۰۔۵۰۳ ۔
[۴۴] سنن بیہقی، ج ۱۰، ص۱۰۵۔
[۴۵] بحار الانوار،ج ۷۳،ص ۲۰۲۔
[۴۶] محجۃ البیضاء، ج۶، ص۲۴۰۔
[۴۷] صحیح بخاری، ج۷،ص۸۸۔
[۴۸] حیاۃ القلوب،ج۲،ص۶۷۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تبصرے
Loading...