پاکستان، کورونا اور شیعہ زائرین قرنطینہ یا پھر قرون وسطی کا عقوبت خانہ

حکومت پاکستان نے کورونا وائرس کو عرصے سے چھپا رکھا تھا اور چونکہ پاکستان چین کا پڑوسی ملک ہے اور ان دو ملکوں کے درمیان سرحدوں پر لوگوں کی آمد و رفت مسلسل جاری رہتی ہے لہذا ایران سے بہت پہلے کورونا وائرس پاکستان میں منتقل ہوچکا تھا؛ گوکہ اس نے ووہان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو کورونا کے سپرد کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ “ہمارے لئے اپنے عوام کے بچوں تک کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ہم تو بس کورونا کو ملک میں نہیں آنے دیں گے” لیکن دنیا کے 180 سے زائد ممالک جو اس وقت کورونا میں مبتلا ہیں، بھی کورونا کو اپنی سرزمینوں میں نہیں آنا دینا چاہتے تھے اور ان میں سے اکثر ممالک چین سے ہزاروں میل دور بھی تھے، لیکن آج ہم دنیا بھر کے اکثر ممالک میں کورونا کی جولانیوں کے عینی شاہد ہیں؛ بہرحال امریکہ، سعودیہ اور ترکی کی طرح پاکستان نے بھی بہتیری کوشش کی اپنے ملک میں کورونا میں مبتلا افراد کو دنیا کی آنکھوں سے دور رکھا جائے ورنہ تو 22 کروڑ کا ملک جو چین کا پڑوسی ہے، اس وائرس سے کہاں بچ کر رہ سکتا ہے؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ حکومت کو معلوم تھا کہ کورونا ایک خوردبینی مخلوق ہونے کے باوجود ایک بھوت کی طرح کسی دن ضرور باہر آئے گا [بقولے بلی تھیلے سے ایک دن ضرور باہر آئے گی] اور دنیا کو معلوم ہو ہی جائے گا کہ یہ ملک بھی کورونا سے محفوظ نہیں ہے اور یہ راز آخرکار طشت از بام ہوہی جائے گا، چنانچہ خدا کی رضا و خوشنودی کے بجائے ایم بی ایس (محمد بن سلمان) اور ایم بی زیڈ (محمد بن زاید) اور ان کے آقا ٹرمپ کی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے، دنیا بھر کے معمول کے اخلاقی قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نام لے کر کراچی کے رہائشی ایک شیعہ زائر “یحیی جعفری” کو پاکستان میں کورونا میں مبتلا پہلے شخص کے طور پر پیش کیا گیا اور تکفیری ٹولوں کو تشہیری خوراک فراہم کی گئی؛ جس کے بعد وہابی-دیوبندی (= تکفیریت) نے آنکھیں بند کرکے ایران اور شیعیان پاکستان ـ بالخصوص زائرین اہل بیت(ع) ـ کے خلاف اپنا آلودہ منہ کھول دیا، اپنے آلودہ قلموں سے اوراق سیاہ کرنے لگے اور جو سوجھا لکھ لیا اور بجائے اس کے عوام کو کورونا کے سد باب کے لئے تیار کیا جائے، اہل تشیع کے خلاف ایک وسیع تشہیری-نفسیاتی جنگ کا آغاز کیا۔

سرکاری اداروں نے اعلان کیا شیعہ زائر یحیی جعفری جو ایران سے آیا تھا، وہ کورونا میں مبتلا ہے اور جب سازشیوں کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور ٹیسٹوں سے ثابت ہوا کہ یحیی جعفری اور ان کے متعدد ساتھی زائرین بالکل تندرست اور صحیح و سالم ہیں؛ تو سرکار کا منہ تو بند ہوا لیکن وہابی-دیوبندی تکفیریت اور امریکی کٹھ پتلیوں کے کٹھ پتلیوں کی سوچ اور جسم و جان میں تعصب اور منافقت کے مہلک وائرس نے جو رسوخ کرلیا ہے اس نے ان کی عقلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں چنانچہ شیعہ مخالف ہرزہ سرائیوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔

یہاں ایک وضاحت بہت اہم اور ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا کے دو باشندوں کو کورونا وائرس کے نتیجے میں مرنے والے پہلے دو پاکستانی شہریوں کے طور پر سامنے لایا گیا اور شیعہ دشمنوں کے لئے باعث خفت مسئلہ یہ بنا کہ کہ ان میں سے ایک سعودی عرب سے آیا تھا اور دوسرا ترکی سے؛ یعنی ان دو ممالک سے جن کی پاکستان میں تقدیس اور تنزیہ ہوتی ہے اور یہاں کے حکمران نیز وہابی اور اخوانی عناصر وہاں کے حکمرانوں کے مرید اور عقیدتمند یا دست نگر ہیں؛ تو پھر ایران سے آنے والے زائرین کو کیوں تنگ کیا جاتا رہا؟ کیا کفر و شرک کے علمبرداروں اور ان کے کٹھ پتلیوں کی خوشنودی کے سوا اور کوئی بھی ایسا محرک ہے جس کی وجہ سے عمران نیازی سرکار نے یہ پالیسی اپنا رکھی ہے؟ ہر مسلمان کو یقین ہے کہ مکافات عمل سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا اور “زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے”۔

چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ چونکہ ایران میں بھی دوسرے ممالک کی طرح کورونا وائرس موجود ہے اور جو پاکستانی شہری یہاں سے اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں انہیں قرنطینہ میں رکھنا چاہئے؛ لیکن کیا تفتان ہی اس حساس کام کے لئے مناسب مقام ہے؟ سرکار پاکستان نے تفتان کے غیر آباد رگستانی ماحول میں رواں ریت کے اوپر چند خیمے لگا کر لوگوں کو وہاں قید کرنا، قرنطینہ کیونکر کہلائے گا؟ جہاں نہ تو پانی ہے، نہ کھانے پینے کی اشیاء ہیں، نہ کافی شافی غسل خانے حتی کہ بیت الخلائیں ہیں، نہ علاج معالجے اور ٹیسٹوں وغیرہ کا انتظام۔ تو کیا اس کو قرنطینہ کہنے کے بجائے قرون وسطی کا عقوبت خانہ کہنا بہتر نہیں ہوگا جہاں اگر قرنطینہ میں رکھے جانے والے مسافروں اور زائرین موجودہ نقائص اور سرکاری گماشتوں کی بدسلوکی پر تنقید کریں تو ان پر گولی چلائی جاتی ہے؟ کیا قارئین حضرات میں سے کسی نے آج تک سنا یا پڑھا ہے کہ قرنطینہ کا کام ادارہ صحت کے کارکنوں کے بجائے فوجی یا نیم فوجی دستوں کے سپرد کیا گیا ہو اور قرنطینہ میں رکھے جانے والے ممکنہ مریضوں پر گولی چلائی گئی ہو؟ کیا یوٹرن پر کاربند مدنی ریاست کے کرتے دھرتوں کو معلوم نہیں ہے کہ تفتان میں اہل بیت رسول(ص) کے زائرین کو درحقیقت ٹارچر کیا جارہا ہے؟

جن دنوں زائرین کو تفتان کے مقام پر حبس بےجا میں رکھا گیا تھا ان ہی دنوں جب عمران خان نیازی سے اس بارے میں سوالات پوچھے جارہے تھے تو ان کے جوابات سے صاف واضح تھا کہ وہ زائرین کے حبس بےجا میں رکھنے کے اس شرمناک قضیئے سے باخبر ہی نہیں ہیں بلکہ بلکہ تفتان کا قرون وسطائی عقوبت خانہ ان ہی کی ہدایات پر قائم گیا تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ زائرین سے ایسا کونسا جرم سرزد ہوا ہے کہ انہیں اتنی کڑی سزا دی گئی اور یہ ان زائرین کو جب تفتان کے عقوبت خانے سے رہا کیا جاتا ہے تو انہیں اپنے صوبوں میں داخل ہوتے ہی دوبارہ قرنطینہ کے نام پر قید کرلیا جاتا ہے! حالانکہ زائرین کے درمیان بچے، بوڑھے اور خواتین کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے اور ان میں کئی لوگ پاکستان کے تمام شہریوں کی طرح مختلف قسم کے امراض میں بھی مبتلا ہوتے ہیں؛ اور وہ بھی ایسے حال میں کہ اب ثابت ہوچکا ہے کہ کورونا وائرس بنی سعود (وہابی) رجب طیب اردوان (اخوانی) کے زیر تسلط سرزمینوں سے آیا ہے اور پھر لاکھوں پاکستانیوں کا یورپ میں آنا جانا جاری رہتا ہے اور یورپ آج کورونا وائرس کا مرکز بنا ہوا گوکہ یہ مرکز بڑی تیزی سے امریکہ منتقل ہورہا ہے۔ اور اہم بات یہ کہ آج تک متعصب حکمران ثابت نہیں کرسکے ہیں کہ کورونا وائرس میں مبتلا کوئی بھی مریض ایران سے آیا ہو یا ایران سے آنے والا کوئی ایک بھی زائر کورونا میں مبتلا ہو یا کسی زائر نے کورونا وائرس ملک میں پھیلایا ہو۔

دنیا بھر کا اعتراف ہے کہ کورونا وائرس سب سے پہلے پاکستان کے دوست پڑوسی ملک چین میں نمودار ہوا ہے لیکن سعودیہ کے ماتحتوں کا اب بھی مسلسل اصرار ہے کہ نہیں جی وائرس ایران سے آرہا ہے! بعض تکفیریوں نے کچھ مضحکہ خیز ویڈیو کلپ جاری کرکے کچھ نام تجویز کئے اور کہا کہ یہ نام ایرانی سرحد پر لکھے جائیں تو یہ وائرس ایران سے پاکستان میں نہیں آئے گا!!! لیکن چونکہ ابھی تک یہ دعوی ثابت نہیں ہوسکا ہے لہذا تکفیریوں اور بعض سرکاری حکام کی کوشش ہے کہ کسی طرح ثابت کیا جاسکے کہ کورونا میں مبتلا کوئی ایک مریض ایران سے بھی آیا تھا!!!

یہاں ایک اہم مسئلہ ـ جسے سعودی عرب، ترکی، امارات، بحرین، پاکستان میں بھی اور آنکھیں بند کرکے یہودی ریاست کے پیروکاری میں مگن تکفیری ٹولوں کے درمیان بھی بالکل نظر انداز کیا جارہا ہے ـ یہ ہے کہ چینی، روسی، ایرانی اور بعض امریکی سائنسدانوں اور تزویری علوم کے ماہرین کے کہنے کے مطابق، کورونا وائرس امریکی تجربہ گاہوں میں تیار ہونے کا بہت قوی امکان موجود ہے اور چینی حکام اور بعض ایرانی سائنسدانوں نے یہ تک کہا ہے کہ ان کے پاس ایسی دستاویزات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی فوجیوں نے کورونا وائرس ووہان میں منتقل کیا ہے۔ ایران کی مسلح افواج نے کورونا وائرس کو حیاتیاتی جنگ کا ممکنہ امریکی اوزار قرار دے کر اس سے نمٹنے کے لئے حیاتیاتی دفاعی مشقوں کا اہتمام کیا ہے؛ اور ادھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اٹلی میں کورونا وائرس کے طوفان کا سبب اس ملک میں قائم امریکی فوجی-دہشت گردی کے وہ اڈے ہیں جہاں سے امریکی طیارے اور ڈرون مختلف ممالک میں کورونا وائرس پھیلانے کے لئے پرواز کرتے ہیں اور واپس آکر ان ہی اڈوں میں اترتے ہیں اور اس حوالے سے اگلے ایام میں مزید انکشافات سامنے آنے کا امکان بالکل واضح ہے۔

پاکستانی حکمرانوں سے سوال یہ ہے کہ جب کوئی آفت ظہور پذیر ہوتی ہے تو کیا حکمرانوں کی ذمہ داری یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ یہ آفت کہاں سے آئی یا پھر ان کا دیانتدارانہ فرض عین ہوتا ہے کہ عوام کے بچاؤ کا انتظام کریں اور آفت کا سد باب اور صحیح اعداد و شمار کا اعلان کرکے سد باب کا بروقت اور مؤثر بندوبست کیا جاسکے؟

البتہ یہ بھی توقع کی جاتی تھی، عالمی بینک کی طرف سے 50 ارب ڈالر کی امداد کورونا زدہ ممالک کو دینے کا اعلان ہونے کے بعد ہمارے سیاستدانوں اور اخوانی کرتے دھرتوں کے مرشد “رجب طیب اردوگان” نے اپنے ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کا اعلان کیا، نیازی صاحب نے بھی اس امداد سے کچھ حصہ پانے کی لالچ میں، ان ہی کی راہ پر گامزن ہوکر پاکستان میں کورونا میں مبتلا مریضوں کے صحیح اعداد و شمار کو واضح کرنا شروع کردیا اور باوجود اس کے کورونا کا شکار ہونے والے پاکستانی مریضوں کی تعداد 50 بتائی جارہی تھی صرف دو دن بعد اچانک 600 سے زائد ہوئی اور آج کے دن [27 مارچ 2020ع‍] یہ تعداد 1,331 تک پہنچ چکی ہے! لیکن جو کچھ ایران کو امداد دینے کے بجائے، پاکستان میں ایران کے خلاف ہورہا ہے اس میں گویا پوری قوت کو بیرونی آقاؤں کی مرضی کے مطابق اہل بیت رسول(ص) کے زائرین پر مرکوز کیا گیا ہے جس سے پاکستان کے شیعہ باشندوں کو بہت زیادہ اذیت پہنچ رہی ہے اور ایران کے ساتھ پاکستان کی دوستی کے باقی ماندہ امکانات کو مزید کمزور کیا جارہا ہے، جس سے یقینا حکومت اور نظام حکومت اور وزیر اعظم ہاؤس کے پانچ سالہ کرایہ داروں کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے؛ سوا اس کے کہ ایم بی ایس اور ایم بی زیڈ کی مرضی ہوئی تو فراغت کے کسی لمحات میں شاید وہ نیازی صاحب کو خالی خولی “آفرین” کہہ دیں اور انہیں تکفیری ٹولوں کی رضامندی حاصل ہوجائے؛ لیکن تاریخ کمزور، بلا ارادہ، ضعیف النفس اور کسی کی زبانی تعریف وصول کرنے کی خاطر ملک کے وسیع تر مفاد کو بھولنے والے حکمرانوں کو کبھی نہیں بھولا کرتی بلکہ تاریخ کا حافظہ انہیں یاد رکھتا ہے اور اگلی نسلیں کبھی بھی ایسے لوگوں کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا کریں گی۔

پاکستان میں کوئی بھی انکار نہيں کرسکتا کہ شیعیان پاکستان سے زیادہ کوئی بھی محب وطن نہیں ہوسکتا جنہوں نے سرکاری دہشت گردی کا شکار ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی طرح پاکستان کے بنیادی اداروں کو نشانہ نہیں بنایا ہے، پرچم کی بےحرمتی نہيں کی اور آگ و خون کے درمیان بھی پاکستان کا پرچم بلند رکھا ہے۔ چنانچہ حکومت پاکستان کو تجویز ہے کہ اخلاص کے ساتھ کورونا کا مقابلہ کریں، شیعیان آل رسول(ص) کو ایذائیں پہنچا کر قومی رائے عامہ کو گمراہ کرنے سے باز آئیں، اصل موضوع پر اپنی توجہ مرکوز کریں، شیعیان پاکستان کو پاکستانی قوم کے ایک بڑے اور مؤثر حصے کے طور پر کورونا کے خلاف قومی اٹھان میں کردار سونپ دیں، جس طرح کہ وہ پاکستان کی سرحدوں پر بہادر ترین اور وفادارترین باشندوں کے طور پر کردار ادا کرتے ہیں؛ اور اگر یہ رویہ جاری رہا تو لوگوں کی سوچیں بدل سکتی ہیں جو کسی بھی ریاست کے لئے خوشایند نہیں ہے۔ اور اگر کورونا وائرس پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے شیعیان پاکستان کو دیوار سے لگانے کو ریاست کا اصل مقصد بنایا جائے تو خدا نخواستہ بہت بڑا المیہ اس گنجان آباد مسلم ملک میں رونما ہوسکتا ہے، وہی المیہ جس نے اٹلی کے وزیر صحت کو “زمین کی ناکامی” کے اعتراف اور “آسمان کی طرف توجہ” دینے کی ضرورت کے اظہار پر آمادہ کیا ہے اور آج کی رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ اٹلی میں وسط جنوری سے کورونا وائرس نے اپنی جولانیوں کا آغاز کیا تھا لیکن حکومت نے غفلت برتی اور اب قبرستان میں جگہ نہیں ہے اور کورونا وائرس کا شکار ہوکر مرنے والے اطالویوں کی لاشوں کو شمشان گھاٹ میں نذر آتش کیا جانے لگا ہے۔ کورونا کے علاوہ بھی متعدد آفتیں اور بلائیں ہیں جو ناانصافی اور ظلم و ستم کے نتیجے میں ظاہر ہوا کرتی ہیں چنانچہ ذکاوت و کیاست کا تقاضا یہ ہے کہ اہل تشیع اور زائرین اہل بیت(ع) کے خلاف طوفان بدتمیزی کو ـ جو کہ ظلم و ناانصافی اور جھوٹ و فریب پر استوار ہے ـ فوری طور پر روک لینا چاہئے۔

۔۔۔۔۔
ابو اسد


تبصرے
Loading...