پانچویں مجلس امام زمانہ

قال اللہ تبارک وتعالیٰ فی کتابہ المجید و فر قانہ الحمید بسم اللہ الرحمن الرحیم ”بقیة اللہ خیرلکم ان کنتم مومنین “ (سورہٴ ہود آیت ۸۶) 

قرآن کریم میں خداوند عالم کا ارشاد ہو رہاہے ”بقیة اللہ خیرلکم ان کنتم مومنین“ امام کا وجود تمہارے لئے خیر ہے اگر تم مومن ہو۔ 

خصوصاً غیبت کبریٰ میں مو منین کے لئے کچھ ذمہ داریاں ہیں ان میں سے ایک معرفت امام حاصل کرنا ہے ہر مومن مسلمان پر فر ض ہے ” من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة “ اگر کسی کو مو ت آ جائے اور زمانے کے امام کی معرفت حاصل نہ کرے تو اس کی موت جہالت کی موت ہے اس کی موت کفر کی موت ہے معرفت امام حاصل کرنا تمام مسلمانوں پر فر ض ہے یہ سورہ آل عمران میں ہے کہ فرمایا: ”رابطوا“ یعنی امام زمانہ سے رابطہ برقرار کرنا بھی شرائط میں سے ہے ۔ احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ غیبت کبریٰ میں مومنین اپنے مرکز کو مضبوط کریں کیونکہ دشمن اسلام مرکز پر حملہ کرتا ہے۔ کیونکہ شیاطین ہمیشہ مومنین میں انتشار چا ہتے ہیں تاکید ہے کہ غیبت کبریٰ میں مو منین اپنے مر کز پر متحد رہیں۔ 

تمام شیعوں کا مرکزان کے مراجع ہیں ہمارے مجتہدین ہیں جن کے بارے میں امام زمانہ نے فرما یا میں غیبت کبریٰ میں جا رہاہوں اے شیعو! مگر ہم تمہیں بے وارث چھوڑ کر نہیں جارہے ہیں تم پر لازم ہے تم پر واجب ہے اس عالم کی تقلید کرنا جوزمانے میں سب سے بڑا اعلم ہو اور سب سے زیادہ متقی ہو ۔ 

لہذا آج کل اسلام کہ خلاف اور شیعت کے خلاف یھودیوں کی طرف سے بڑی بھیانک سازشیں ہو رہی ہیں یہ یھودیوں ہی کی پلاننگ ہے کہ عراق پر بھی قبضہ ہو اور دیگر اسلامی ممالک پر بھی امریکا خبیث کا قبضہ ہو اور اسی سلسلہ میں شیعوں کے خلاف مشغول ہیں ، مگر یہودیوں نے شیعوں کے خلاف سازشیں تیار کی ہیں ہم سونچیں گے کہ پاکستان کے شیعوں کا تو اسرائیل سے کو ئی ڈائریکٹ کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے وہ ہمارے خلاف سازش کیوں تیارکریں گے اور اس کا جواب یہ ہے کہ آج جو آپ فلسطینیوں کے دلوں میں جذبہ شہادت دیکھ رہے ہیں کہ اب فلسطیینیوں کے دلوں سے موت کا خوف ختم ہو گیاہے یہ لوگ ہر روز جام شہادت نوش کر رہے ہیں دو سال سے قربانیوں پر قربانیاں دے رہے ہیں یہ جو جذبہ شہادت فلسطینیوں میں جو آج دیکھ رہے ہیں یہ لبنان کے شیعوں کا صدقہ ہے یہ پہلے بھی اسرائیل تھا لیکن ان دو سالوں میں اسرائیل کا ملین کا نقصان ہوا ہے ان کے لوگ بھاگ رہے ہیں ان کی تجارت تباہ ہو رہی ہے یہ سب جذبہ شہادت ہے جو فلسطینیوں کے پاس ہے اور انہوں نے یہ جذبہ شہادت لبنان کے حزب اللہ شیعوں سے سیکھا ہے اور حزب اللہ کے شیعوں نے بھی فکر ان تک پہنچائی یہ جو اس صدی میں امام خمینی کی فکر تھی کہ جو قوم مرنا سیکھ لے اسے دنیا کی کوئی طاقت ما رنہیں سکتی سب سے بڑا نمرود سب سے بڑا فر عون ان کی سب سے بڑی دہمکی یہی ہو تی ہے کہ میں تمہیں ما ردوں گا تو اس حملہ کے بارے میں امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں : جو قوم مرنا سیکھ لے اسے دنیا کی کوئی طاقت مارہی نہیں سکتی ہے موت ایک لمحہ کے لئے ہے ، مگر یاد رکھئے جو قوم موت سے ڈرتی ہے وہ ہزار ہزار بار ذلیل بھی ہو تی ہے اور ہزار ہزار بار مرتی بھی ہے اصل یہ فکر دینے والے ہمارے امام حسین (ع) ہیں امام حسین (ع) نے کر بلا میں بھی درس سکھا یا ہے ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہترہے یہ یہودیوں کو جو عربہا ڈالرز کا نقصان ہوا ہے یہ اصل میں اس کے پیچھے شیعوں کی فکر ہے لبنان کے شیعوں کی فکر ہے لہذا یہودیوں نے سوچا کہ ہم اس کا انتقام شیعوں سے لیں لہذا امریکیوں اور یہودیوں نے مل کر شیعیت کے خلاف تین خطرناک سازشیں تیار کی ہیں․ اُن میں سے ایک سازش یہ ہے کہ شیعوں کے اندر وہابی عقائد کو داخل کردیا جا ئے تا کہ شیعوں کے ا ندر ایک فرقہ بن جا ئے لہذ ا انہوں نے ایسے مو لویوں کو خرید بھی لیا ہے اور انہوں نے کتابیں بھی لکھ دی ہیں اور وہ لوگ امام زمانہ کی دعا کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ دعاء پڑھنا بدعت ہے یہ کیوں بدعت ہے اس دعاء کو مراجع پڑھتے ہیں علماء مجتہدین پڑھتے ہیں کیوں کہ اس دعاء میں آپ لوگ کہتے ہیں یا محمد یا علی پھر کہتے ہیں ادرکنی ادرکنی ہماری مدد کریہ مدد تو ڈائرکٹ خدا سے مانگی جاتی ہے اسی طریقے سے وہ یاعلی کے بھی منکر ہو رہے ہیں اور یا رسول خدا کے بھی منکر ہو رہے ہیں یہ جو ہم یا علی مدد کہتے ہیں ہم اپنی طرف سے نہیں کہتے ہیں ہم یہ یاعلی مدد قرآن کی آیتوں سے ثابت ہے یا علی مدد احادیث پیامبر سے ثابت ہے یا علی مدد نادعلی سے ثابت ہے یا علی مدد تو ریت و انجیل سے ثابت ہے قرآن میں کئی آیتیں ہیں جن میں پروردگار نے فرما یا اگر کوئی اللہ کے نبی سے مدد مانگ رہا ہے یا اللہ کے ولی سے مدد مانگ رہاہے گویا وہ خدا سے مدد مانگ رہا ہے سورہ حدید میں آیت ہے ”وانزلنا الحدید فیہ باس شدید و منافع للناس“(سورہٴ حدید آیت ۲۵) خدا فر ما رہا ہے ہم نے لوہہ کو آسمان سے نازل کیا ہے جس میں لوگوں کے لئے نفع بھی ہے اور شدید لڑائی بھی ہے آج جو عیسائی ہمارے دشمن ہیں یہودی جو ہمارے دشمن ہیں وہ اعتراض کریں گے یہ قرآن کی آیت غلط ہے لوہہ کبھی آ سمان سے نازل ہوتے ہو ئے دیکھا ہے ہم کہیں گے نہیں دیکھا ہے تو یہ تمہارے قرآن کی آیت غلط ہے قرآن میں ہے کہ ہم نے لوہہ کو آسمان سے نازل کیا لوہہ تو زمین سے نکلتا ہے اگر اس اعتراض کا جواب نہیں دیا تو کیا ہوگا یہ قرآن کی عزت و عظمت کا مسئلہ ہے اگر قرآن کی ایک آیت غلط نکلے گی تو کہیں گے کہ قرآن سارا غلط ہے، اب اس کا جواب کیا دیا گیا شیعہ مفسر ہو یا سنی مفسر ہو اسلام کی عظمت کو بچا نا ہے لہذا ہر مفسر نے شیعہ مفسر نے سنی مفسر نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ایک لوہہ ایسا ہے جو زمین سے نہیں نکلاہے بلکہ آسمان سے نازل ہوا ، یہ کون سا لوہہ ہے یہ کب نازل ہوا ہے تو مفسرین نے لکھا جنگ احد میں جب مو لا علی (ع) پیامبر اسلام کی حفاظت کر رہے تھے مو لا کی تلوار ٹوٹ گئی تو غیب سے آ واز آئی ” لا فتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار “ یہ وہ لوہہ ہے جو زمین سے نہیں آسمان سے آیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس آیت میں پہلے ذوالفقار اور اُس کے بعد صاحب ذوالفقار کا ذکر کیا تا کہ کسی کو شک و شبہہ نہ رہے فرما یا ”ولیعلم اللہ من ینصرہ ورسلہ بالغیب“ (سورہٴ حدید آیت ۲۵) اللہ کو علم ہے کہ کون اللہ کا مدد گار ہے اور اللہ کے رسولوں کا مدد گار ہے ایک رسول نہیں کہا بلکہ یہ جمع کا صیغہ ہے ”رسلہُ“ یہ صاحب ذوالفقار تو اکیلا ہے مگر ہزاروں رسولوں کا مددگار ہے ظاہراً مولا علی ہمارے نبی کے زمانے میں ہیں مگر قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ علی ایک رسول کے مدد گار نہیں علی ہزاروں رسولوں کے مددگارہیں دوسرے زمانے میں مولا علی موجود نہ تھے؟ اب اس سوال کا جواب کہاں سے ملے تو آگے کے الفاظ ہیں ”بالغیب“ علی غیب میں رہکر رسولوں کا مددگار ہے۔ 

یہ قرآن کی آیت ہے قرآن سے یاعلی مدد ثابت ہے تو اگر مو لا علی غیب میں رہکر رسولوں کی مدد کر سکتے ہیں تو ہم گنہگاروں کی مدد کیوں نہیں کرسکتے ہیں تو ریت اور انجیل میں کتنی مرتبہ مولا علی کا ذکر آیا ہے اُس میں آ یا ہے کہ مو لا علی نے کس کس کی مدد کی ہے کتنے انبیاء کی مدد کی ہے متھیو27چپٹر آ یت ما نمبر ۴۹ 

((It about three o”clock jeuses cried out with loud shourt )) ایلی ایلی لماشبکتنی “ انجیل میں لکھا ہوا ہے کہ تین بجے کا وقت تھا جب حضرت عیسیٰ کو پھانسی کے تختہ پر لے گئے تو ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ نے بلند آ واز سے فریادکی ” ایلی ایلی لما شبکتنی “ اے ایلی میری مدد کے لئے آ وٴ یہی جملہ ہم جب عیسائی ممالک میں جاتے ہیں جب اُن سے کہتے ہیں اے عیسائیو! تم تو یہ کہتے ہوحضرت عیسیٰ خدا ہیں اگر حضرت عیسیٰ خدا ہیں تو مولا علی سے مدد کیوں مانگ رہے ہیں ۔ 

اب آپ کو معلوم ہوا کہ یاعلی توریت سے ثابت ہے انجیل سے ثابت ہے زبور سے ثابت ہے قرآن سے ثابت ہے یہ یہودیوں کی سازش ہے کہ شیعوں کے ا ندر ایک اور فرقہ پیدا کردیں ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردو کیونکہ انہوں نے فلسطینیوں کو شہادت کا جذبہ دیا ہے انہوں نے موت کا ڈران کے دلوں سے نکالاہے ان خبیثوں نے تین حملہ شیعت پر کئے ہیں تا کہ شیعت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس سازش میں کیسے کامیاب ہو گئے کیسے ایسے لوگ ہمارے اندرداخل ہوگئے یقیناً کہیں نہ کہیں ہماری سرحدیں کمزور ہیں دشمن اُس وقت کامیاب ہوتا ہے جب سرحد کمزور ہو ۔ 

اگر ہماری سرحدیں مضبوط ہوں تو دشمن کبھی بھی ہم پر حملہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے ہمیں اپنی سرحدوں کو مضبوط کرنا ہے ہماری سرحدیں کہاں کمزور ہیں کہ دشمن تین حملوں میں کامیاب ہوچکا ہے کہ ہم مولا کے عاشق تو ہیں مولا کے ماننے والے تو ہیں ایک غلطی جو ہم با ر بار کر رہے ہیں کہ ہم معصوم امام کے فرمان پر عمل نہیں کر رہے ہیں یہاں ہماری سرحدیں کمزور ہیں ہم خود کو عاشق کہلواتے ہیں محب اور شیعہ کہلواتے ہیں مگر اپنے ائمہ معصومین کے فرامین پربعض مقامات پر عمل نہیں کرتے ہیں وہیں سر حدیں کمزور ہیں ہماری سب سے بڑی کتاب اصول کافی ہے امام صادق (ع) فر ما تے ہیں: اے شیعو! ہر عالم سے دین مت لینا ہمارے یہاں کیا معیار ہے ہمارے یہاں کو ئی معیار ہی نہیں ہے اگر کو ئی کسی مدرسہ کا پڑھالکھا ہی نہیں ہے کو ئی سٹی فکرٹ بھی نہیں ہے اگر اچھا مقرر خطیب ہے تو ہم اُس کو ممبر پر بڑے احترام سے بٹھاتے ہیں اور دس بیس ہزار دیتے ہیں یہ دین کا مسئلہ ہے مثال اگر کوئی ڈاکٹر ہو اور ام بی بی اس فیل ہو تو آپ اُس کے پاس علاج کے لئے نہیں جا ئیں گے وہاں لوگوں کے جان کا خطرہ ہے اگر ممبر پر کو ئی فاسق آ گیا تو انسان کے ایمان کا خطرہ ہے مگر اس پر کوئی معیار ہی نہیں رکھا گیا ہے اگر کوئی اچھا خطیب ہے تو ہم اُسے کہیں گے کہ یہ بڑا اچھا مو لوی ہے اُسے ہم ممبر پر بٹھالیتے ہیں یا مثال زیادہ آیتیں پڑھتا ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ زیادہ آ یتیں پڑھتا ہے بہت اچھا مو لو ی ہے تو ہم اُسے ممبر پر بٹھالیتے ہیں یعنی ہمارے یہاں کو ئی معیار نہیں ہے اس کے بارے میں ہمارے امام کیا فر ماتے ہیں امام جعفر صادق(ع ) فر ما تے ہیں ہر عالم کو ممبر پر مت بٹھا نا تو سوال کیا گیا مو لا کسے بٹھا ئیں اُس عالم کو ممبر پر بٹھاؤ جس پر یقین ہو کہ اُس کے دل میں پیسے کی محبت تو نہیں ہے اُس کے بعد امام فر ماتے ہیں اے شیعو! اگر تم ایسے عالم کو ممبر پر بٹھا دیا جو پیسہ کا پجا ری ہو جس کے دل میں پیسے کی محبت ہے تو وہ تمہیں دین نہیں دے گا بلکہ وہ تمہیں بے دین بنا دے گا ہمارے یہاں ۸۰ فیصد ایسے عالم ہیں جنھیں کہا جا ئے کہ مولانا صاحب ہمارے یہاں مجلس پڑھیں گے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ پندرہ ہزار دو گے تو میں مجلس پڑھوں گا مجلس حسین (ع) کو انہوں نے تجارت بنا دیا آج یہ ممبر کا تقدس پامال ہو رہا ہے بجا ئے رضا ئے خدا کے یہ تجارت کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے امام فر ماتے ہیں اگر ایسے کو ممبر پر بٹھا یا جو پیسہ کہہ ر ہا ہے جس کے دل میں پیسے کی محبت ہے اے شیعو! وہ تمہیں دین نہیں دے گا بلکہ وہ تمہیں بے دین بنا ئے گا جو حسین (ع) کا سودا کرسکتا ہے کیا وہ قوم کا سودا نہیں کر ے گا ۔ 

شیطان کا پورا کام یہ ہو تا ہے کہ لو گوں کو نماز سے ہٹا دے اور یہی شیطان کا نمائندہ بھی ممبر حسین پر بیٹھ کر لو گوں کو نماز سے ہٹا رہا ہے یہ لوگ دلیل بھی دیتے ہیں کہ حضرت حُر نے کو ن سی نماز پڑھی تھی وہ جنت میں چلے گئے تم لوگ بھی نماز نہیں پڑھو فقط علی علی کرو تو جنت میں چلے جا وٴ گے ایک تو وہ حضرت حُر شہید پر تہمت لگا تے ہیں اور دوسرا قرآن کی ساری آیتوں کو پامال کرنا یعنی قرآن کہہ رہا ہے ” اقیموا الصلاة ولا تکونوا من المشرکین “ خدا کہہ ر ہا ہے کہ اے میرے بندہ اگر تو نے نماز کو ترک کر دیا تو اگر پوری دنیاتجھے مو من کہے میں خدا تجھے مشرک کہوں گا یعنی اُس عالم نے اُس آ یت پر اپنی جوتی رکھدی ایک تو ظاہری جوتی رکھنا ہے اور دوسرا اپنے عمل سے قرآن کی آیتوں کو پامال کرنا ہے یہ دنیا کے کسی ملک میں شیعوں پر یہ ظلم نہیں یہ فقط ہی فقط ہندوستان اور پاکستان میں ہے اگر ایران میں کو ئی ذاکر مو لوی کہہ دے کہ نماز کی کوئی ضرورت نہیں یعنی اُس نے قرآن کی ساری آیتوں کا انکار کر دیا تو دوسرے دن مرجع اور مجتہد کا فتویٰ آ ئے گا کہ یہ مرتد ہو گیا ہے اس پر اس کی بیوی بھی حرام ہے ہمارے یہاں تو اُس ذاکر کی مجلس میں نعرے بھی لگتے ہیں اور اُسے دس ہزار رو پیہ بھی دیئے جاتے ہیں یہ فقط قرآ ن کی تو ہین نہیں ہے ۔ 

مگر اللہ کے رسول فر ماتے ہیں ” لیس من اُمتی من استخف بالصلاة“ جو نماز کو اہمیت نہ دے وہ میری اُمت میں سے نہیں ہے اور یہ تا جر خون حسین کہہ رہا ہے کہ نماز کی کوئی ضرورت نہیں ہے پھر یہاں رسول خدا (ص) سچے ہیں یا یہ تا جرخون حسین، مو لاعلی فرماتے ہیں ”لا ینال شفاعتنامن استخف بالصلاة“ اے شیعو! ا گر تم نے نماز کوچھوڑدیا تو میری ولایت کا نور تیرے دلوں میں باقی نہیں رہے گا قبر میں جدا ہو جائے گا، قیامت میں جدا ہو جائے گا امام جعفر صادق (ع) وصیت میں فر ماتے ہیں ” لاینال شفاعتنا من استخف بالصلاة “ اُس مسلمان اُ س شیعہ کو ہماری شفاعت نہیں ملے گی جس نے نماز کو اہمیت نہ دی اور یہ تا جر خون حسین (ع) کہہ رہا ہے کہ نماز کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہیں ہماری سرحدیں کمزور ہیں ۔ 

اے بدبخت اے تاجر خو ن حسین کہاں لکھاہوا ہے کہ حضرت حُر بے نماز ی تھے جب نماز کا وقت آیا تو مو لا حسین (ع) نے حُر سے کہا کہ تم امامت کراو تو حُر نے سر جھکا کر کہا کہ زہرا کے لا ل آپ کے ہو تے ہو ئے مجھے کیا مجال یہی تو بات خد اکو پسند آئی امام حسین نے امامت کروائی جہاں امام حسین کے قد م تھے وہاں حُر کا سر تھا ایسے دروس میں جا نا جہاں کہہ رہے ہیں کہ نماز کی کوئی ضرورت نہیں وہاں قرآن کی تو ہین ہو رہی ہے قرآن میں سورہٴ مائدہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فر ماتا ہے ” من قتل نفساً․․․ فکانما قتل الناس جمیعا“ (سورہٴ مائدہ آیت ۳۲) یعنی اگر کسی نے ایک انسان کو قتل کیا تو گویا اُس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا ہے امام نے فر ما یا اس کا ظاہری یہی معنی ہے مگر اس کی تفسیر اگر آپ کی غلطی سے اگر ایک بندہ گمراہ ہو گیا یہ نہ سمجھنا کہ آپ نے فقط ایک بندہ کو گمراہ کیا بلکہ آپ نے اللہ کے سارے بندوں کو گمرہ ا کردیا ۔ 

یہ جب ہم حسین پر گر یہ کرتے ہیں یہ عزاداری اس لئے ہے کہ قیامت کے دن شفاعت اہل بیت مل جا ئے مگر یہ مقصد حسین نہیں ہے یہ ہم اپنی نجات کے لئے کرتے ہیں قبر کے نور کے لئے کرتے ہیں مو لا حسین کا مقصد کیا ہے کر بلا میں حسین نے ایک ایک قدم پر اپنا مقصد بتلا یا ہے امام حسین (ع) کے دو طر ح کے قاتل ہیں ایک تو مولا حسین (ع) کے جسم کے قاتل ہیں جس میں شمر ، حرملا بھی ہیں ابن سعد یزید بھی ہیں اور پو ری فوج یزید ہے یہ سب جسم کے قاتل ہیں اور دوسرے بھی مو لا حسین کے قاتل ہیں وہ مو لا حسین کے مقصد کے قاتل ہیں اور مقصد حسین کے قاتل آج بھی مو جود ہیں مولا حسین نے اپنے عمل سے بتلا یا کہ علی اکبر تیری جوانی رہے یا نہ رہے مگر مقصد زندہ رہے علی اصغر تیری مسکراہٹ رہے یا نہ رہے مگر میرا مقصد زندہ رہے امام حسین نے اپنے مقصد سے بتلا یا عباس تیرے بازو رہیں یا نہ رہیں مگر میرا مقصد زندہ رہے قاسم تو میرے حسن کی نشانی ہے مگر تیری لاش سالم رہے یا نہ رہے مگر میرا مقصد زندہ رہے امام حسین نے اپنے مقصد کے لئے عظیم قربابیاں دیں ہیں نہ فقط یہ قر با نیاں دیں ہیں نہیں اس سے عظیم قربا نیاں دیں ہیں امام حسین نے اپنے عمل سے بتلا یا ،کیا فر ما یا بہن زینب تیری چادر رہے یا نہ رہے مگر میرا مقصد زندہ رہے مو لا حسین کا مقصد کتنا عظیم ہے اور مو لا حسین کی قربانیاں کتنی عظیم ہیں زینب نے اپنے عمل سے بتلا یا بھیا اسیر بنوں گی کر بلا سے کو فہ، کو فہ سے شام جا وٴں گی ، مگر تیرا مقصد زندہ ر کھو ں گی سکینہ نے اپنے عمل سے بتلا یا با با میں طما چے کھاوٴں گی مگر تیرے مقصد کو کامیاب بناوٴں گی مقصد حسین کیا تھا پانچ برس کے باقر سے سوال کیجئے مو لا آ پ کے داد ا کا مقصد کیا تھا ہر امام نے مقصد حسین ہر زیارت میں مقصد حسین بتلا یا گیا ہے زیارت عاشورہ میں بھی زیارت وارثہ میں بھی ہر معصوم نے بتلا یا ” اشہد انک قد اقمت الصلا ة و آتیت الزکاة و امرت بالمعروف و نہیت عن المنکر“ حضرت سجاد فر ما تے ہیں مقصد حسین یہ تھا کہ نماز قائم رہے زکا ت قائم رہے امر بالمعروف زندہ رہے نھی عن المنکر زندہ رہے ۔ 

امام فر ما تے ہیں اگر کوئی عالم امر بالمعروف نہ کرے اگر وہ ما حول کو دیکھ رہا ہے کہ کتنا گندا ہو گیا ہے بے حیا ئی دیکھ ر ہا ہے گندگی دیکھ رہا ہے مگر پھر بھی امر بالمعروف نہ کرے تو امام فر ما تے ہیں اُس پر خدا کی لعنت کرتا ہے جس قوم کے نو جوان بے غیرت ہو جائیں تو وہ قوم ہمیشہ غلام رہتی ہے امریکا چاہتا ہے کہ نو جوانوں سے غیرت ختم کردیں حیا ختم کرو تو جیسے ہم نے ا ٓسانی سے عراق پر قبضہ کرلیا ویسے ہی ہم پاکستان پر قبضہ کرلیں گے یہ سب یہودیوں کی پلاننگ ہے ایک عالم دین سے کسی نے کہا مو لا نا صاحب آ پ حجاب پر کچھ پرھئے تو اُس نے جواب میں کہا اگر میں حجاب کے بارے میں پڑھوں گا تو لوگ مجھ سے حجاب کرنے لگیں گے یہ لوگ جو پانچ منٹ کے لئے ا مربالمعروف کر نے کے لئے تیار نہیں ہیں یہ لوگ خون حسین کے تا جر ہیں یہ لوگ قوم کو بے عملی تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں یہ لوگ مقصد حسین کی مخالفت کر رہے ہیں یہ لوگ نائب امام مراجع کی مخالفت کر رہے ہیں اے مو منو! ہم اُسے ممبر پر بٹھا تے ہیں جس کی آ واز اچھی ہو اُس کے مصائب اچھے ہوں اب اگر شمر زندہ ہو جا ئے پھر کیا ہم شمر کو ممبر پر بٹھائیں گے شمر بدبخت سے تو بڑھ کر کو ئی مصائب نہیں پڑھ سکتا ہے کیونکہ اُسی نے ظلم کیا ہے شمر امام حسین (ع) کے جسم کا قاتل مگر جو مقصد حسین کا قاتل ہے وہ شمر سے بھی بدتر ہے ۔ 

امام محمد باقر (ع) فر ما تے ہیں : اے شیعو! ہر زمانے میں دو طرح کے علماء رہے ہیں ایک علماء حق اور دوسرے علمائے باطل علمائے حق کو علمائے خیر کہتے ہیں علمائے باطل کو گندے علماء کہتے ہیں امام نے فر ما یا ہر زمانے میں علمائے حق بھی ہوں گے اور علمائے باطل بھی ہوں گے اُس کے بعد امام فر ما تے ہیں اے شیعو! علمائے باطل سے بچو امام نے فر ما یا علمائے باطل یزید کے لشکر سے بھی بدتر اور برے ہیں کیوں امام فر ما تے ہیں یزید کے لشکر نے ہمارا مال لوٹاتھا یہ لوگ تمہار ا ایمان لوٹ رہے ہیں ۔ 

تبصرے
Loading...