پانچویں امام : حضرت محمد باقر علیہ السلام

پانچویں امام :  حضرت محمد باقر علیہ السلام

آپ کا مشهور ومعروف لقب ”الباقر“ ھے او رآپ کو یہ لقب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے عطا فرمایا تھا۔واقعہ کربلا میں آپ کا عہد طفولیت تھااور اپنی جوانی میں ان تمام مشکلات ومصائب میں شریک تھے جو آپ کے پدر بزرگوار امام سجاد علیہ السلام اور دوسرے علویوں پر پڑے۔جب آپ اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد منصب امامت پر فائز هوئے تو آپ حکومت وقت سے بالکل جدا هوگئے اور کسی بھی طرح کا کوئی رابطہ نہ رکھا چنانچہ آپ نے اپنا سارا وقت علوم دینی اور حقائق اسلام کو بیان کرنے میں صرف کردیا اور گذشتہ اموی حکومت کے زمانہ میں فقہ وحدیث جو اموی دور میںغبارآلود هوگئے تھے ان کو صاف کردیا۔

در حالیکہ آپ کا حکام زمانہ سے بالکل رابطہ نھیں تھا لیکن جب بھی انھیں کوئی مشکل اور پریشانی هوتی تھی توان مشکلات کو حل کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاصر هوتے تھے، اور امام علیہ السلام بھی اس سلسلہ میں ذرہ برابر بھی بخل سے کام نھیں لیتے تھے بلکہ اُن کی مشکلات کو حل فرما دیا کردیتے تھے اور ان کو وعظ ونصیحت فرماتے تھے، اسلام اور ارکان اسلامی کی حفاظت فرماتے تھے۔

جیسا کہ بعض مورخین نے لکھا ھے کہ عبد الملک بن مروان کا امام علیہ السلام سے مشورہ کے بعد ان تمام ظروف او رکپڑوں کو بند کرادیاجن پر مصر کے بعض عیسائیوں نے سریانی زبان میں اپنا عقیدہ ”اب، ابن اور روح القدس“ چھاپ کر بازاروں میں روانہ کیا تھا۔

اسی طریقہ سے جب خلیفہ اور بادشاہ روم کے درمیان گفتگو هوئی اور خلیفہ بادشاہ روم کو کوئی مستحکم جواب نہ دے سکا ، چنانچہ اس نے خلیفہ کی طرف سے بے توجھی کی خاطر سخت رویہ اختیار کیا اور اس نے درھم ودینار پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے لئے نازیبا الفاظ لکھ کر مسلمانوں کے بازار میں بھیجے کیونکہ اس زمانہ میں درھم ودینا ر روم میں بنائے جاتے تھے۔

جب عبد الملک نے یہ حال دیکھا تو امام علیہ السلام سے مشورہ کرنے پر مجبور هوگیا اور اس سلسلہ میں آپ کوشام دعوت دی چنانچہ امام علیہ السلام نے مصلحت کے تحت اس دعوت کو قبول کیا اور آپ شام تشریف لے گئے اور جب عبد الملک نے آپ کے سامنے مشکل بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ صنعت گروں کو بلایا جائے، خلیفہ نے ان سب کو حاضر کرلیا تب امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو بتایا کہ کس طرح درھم ودینار کا سانچہ بنائیں، کس طرح ان کی مقدار معین کی جائے اور کس طرح ان پر کچھ تحریر کیا جائے،چنانچہ امام علیہ السلام نے اس طریقہ سے مسلمانوں کو رسوائی سے بچالیا اور بادشاہ روم ناکام هوگیا[76]

امام علیہ السلام کے بے شمار شاگرد تھے آپ کی میراث وہ گرانبھا ذخیرہ ھے جس سے تفسیر، فقہ، حدیث، کلام اور تاریخی کتب بھری ھیں، آپ کی شھادت ذی الحجہ   ۱۱۴ھ [77] مدینہ منورہ میں هوئی اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

چھٹے امام :   حضرت جعفر صادق علیہ السلام

آپ کا مشهور ومعروف لقب ”صادق “ھے۔

آپ کی ولادت باسعادت ۱۷/ ربیع الاول ۸۳ھ کو مدینہ منورہ میں هوئی۔

آپ کے زمانے میں اموی سلطنت کمزور هوگئی یھاں تک کہ بالکل ھی اس کا خاتمہ هوگیا اس کے بعد عباسی حکومت تشکیل پائی چنانچہ عباسی حکومت اپنے نئے منصوبوں کو تیار کرنے میں مشغول تھی لہٰذا امام علیہ السلام نے موقع غنیمت شمار کیا اور وسیع پیمانہ پر تعلیم وتربیت میں مشغول هوگئے، آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ایسے ایسے شاگرد جو بعد میں اسلام کی مشهور ومعروف شخصیتیں بن گئیں۔

آپ(ع) کے شاگرد اور آپ سے احادیث روایت کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ لوگوں کی زبان پر شیعیت کے بجائے ”مذھب جعفری“ گردش کرنے لگا، اور اس مذھب کو امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب کرنے لگے جبکہ تشیع تمام اھل بیت (ع)سے منسوب ھے اور کسی ایک امام سے مخصوص نھیں ھے۔

امام علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں کس قدر دینی خدمات انجام دیں ھیں اس کے لئے کافی ھے کہ ھم بعض تاریخوں میں آپ کے شاگردوں اور رواة کی تعداد کو ملاحظہ کریں جن کی تعدادچار ہزارا تک بتائی جاتی ھے۔[78]

اسی طرح ابو الحسن وشاء کہتے ھیں کہ :

”میں نے اس مسجد (کوفہ) میں ۹۰۰ /راویوں کو دیکھا جو کہتے تھے: ”حدثنی جعفر بن محمد(ع)“  (مجھ سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا) [79]

اسی طرح ھمارے لئے کافی ھے کہ ھم امام علیہ السلام کی بعض باقی باندہ علمی میراث کو دیکھیں اور امام علیہ السلام کی عظمت وبلندی کا اندازہ لگائیں۔

اگر آپ کی تفسیر قرآن، علم فقہ، فلسفہ اور علم کلام وغیرہ کو ایک ساتھ جمع کیا جائے تو ایک بے نظیر عظیم الشان دائرة المعارف بن جائے گا۔

آ پ کے علمی آثار میں سے :

طبی قوانین اور صحت سے متعلق دستور جن کو دو کتابوں میں جمع کیا گیا ھے۔

”توحید المفضل “ اور  ”الاھلیلجہ “[80]

ان دونوں کتابوں میں مسئلہ ”عدوی “ (جس کے ذریعہ ”مکروب“ “Microbe” کی شناخت هوتی ھے) کے بارے میں مکمل طریقہ سے وضاحت کی گئی ھے۔

اسی طرح علم الامراض کے بارے میں مکمل طور پروضاحت کی گئی ھے، امام علیہ السلام نے سب سے پھلے دورة الدمویة تھر ما میٹر”Thermometer“کشف کیا اس کے بعد کھیں ڈاکٹر ”ھارفی بقرون“ نے اس طرح اشارہ کیا ھے۔

آپ ھی نے جابر بن حیان کو علم کیمیا (Chemistry)کی تعلیم دی اسی وجہ سے آپ کو علم کیمیا کا موجد کھا جاتا ھے جیسا کہ ڈاکٹر محمد یحيٰ الھاشمی کہتے ھیں۔ [81]

امام علیہ السلام کے طریقہ کار کے بارے میں استاد ”ڈونالڈسن“ نے تدریس کے طریقہ کو بیا ن کرتے هوئے کھاھے:

”آپ کی روش تدریس سقراطی تھی آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ ھمیشہ بحث ومباحثہ کرتے تھے اور خالص او رسادہ موضوعات سے اپنی گفتگو کاآغاز فرماکر دقیق، علمی ، پیچیدہ اور مشکل موضوعات پر بحث ختم فرماتے تھے۔[82]

آپ کی شھادت   ۱۴۸ھ [83]کو مدینہ منورہ میں هوئی اور آپ کوبھی جنت البقیع میں  دفن کیا گیا۔

ساتویں امام :  حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام

آپ کے دو مشهور لقب ”کاظم“ اور ”باب الحوائج“تھے ۔

آپ کی ولادت باسعادت   ۱۲۸ھ کو مقام ”ابواء“ (مدینہ کے قریب ایک مقام)میں هوئی۔

آپ کی زندگی بنی عباس سلطنت کے زیر اثر مشکلات سے دوچار رھی ھے۔

 آپ کی زندگی کس قید خانہ میں گذری ھے اس کا بیان کرنا مشکل ھے ھارون الرشید آپ کا سخت مخالف تھا اس کا سبب بھی بعض مورخین نے یہ بیان کیا ھے کہ جس وقت ھارون الرشید مدینہ منورہ میں داخل هو کرمسجد النبی میں زیارت کے لئے گیا اور چونکہ اس نے قبر نبوی پر توجہ دی تو مدینہ کے زعماء اور سردار اس کو تحفے دینے کے لئے گئے او رجب ھارون قبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر حاضر هوا تو اس طرح سلام کیا:

”السلام علیک یا ابن العم“

(اے میرے چچازاد بھائی تم پر سلام هو)

اس کا یہ سلام لوگوں کو فریب دینے کے لئے تھا تاکہ لوگ اس قریبی رشتہ داری کو دیکھ کر اس کو خلافت کا مستحق مان لیں، لیکن جب امام علیہ السلام نے اس مکر وفریب کو دیکھا تو اس کو بے نقاب کردیا اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو مخاطب کرکے کھا:

”السلام علیک یا ابہ“

(اے پدر بزرگوار تم پر سلام هو)

یہ سن کر ھارون الرشید کا سر شرم کی وجہ سے جھک گیا اور اس پر کینہ وکدورت کے آثار ظاھر هونے لگے۔

چنانچہ اس کے بعد سے امام علیہ السلام اور ھارون الرشید میں بہت سے مناظرات هوئے کہ کون رسول اللہ سے زیادہ قریب ھے، ھارون الرشید کی دلیل یہ تھی کہ لڑکی کی اولاد ”ذریت“ اور اس کے اولاد نھیں هوتی۔ کیونکہ ذریت اور ابناء صرف باپ کے ذریعہ منسوب هوتے ھیں ماں کے ذریعہ نھیں۔

لیکن امام علیہ السلام نے ھارون الرشید کو وہ دندان شکن جوابات دئے جن کی وجہ سے اس کو منھ کی کھانی پڑی، ان میں سے بعض کا خلاصہ یہ ھے:

۱۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماب تک زندہ هوتے تو تیری بیٹی سے نکاح کرسکتے تھے لیکن میری بیٹی سے ھر گز یہ قصد نہ کرتے۔

۲۔خداوندعالم کا ارشاد ھے:

[84]

”پھر جب تمھارے پاس علم (قرآن) آچکا  اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) جناب عیسیٰ  (ع) کے بارے میں حجت کرے تو کهو کہ (اچھا میدان میں) آؤ ھم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔۔۔۔“

اور اس بات کو تمام مسلمان جانتے ھیں کہ آپ نے مباھلہ میں بیٹوں کی جگہ امام حسن وامام حسین علیھما السلام کو لیا جو آپ کی بیٹی کی اولاد ھیں اور قرآن کریم نے ان دونوں کو ابناء (بیٹے) کھا۔

قرآن مجید نے جناب ابراھیم علیہ السلام کی زبانی نقل کیا:

ہ دَاوٴُدَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسیٰ وَہَارُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِیَ الْمُحْسِنِیْنَ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیيٰ وَعِیْسٰي >[85]

”اور ان ھی (ابراھیم ) کی اولاد سے داوٴد ، سلیمان وایوب ویوسف وموسیٰ وھارون (سب کی ھم نے ہدایت کی) اور نیکوکاروں کو ھم ایسا ھی صلہ فرماتے ھیں اور زکریا اور یحيٰ اور عیسیٰ(ع)۔۔۔)

اور جناب عیسیٰ (ع)بغیر باپ کے پیدا هوئے لیکن قرآن کریم نے ان کو ماں کی طرف سے ذریت ابراھیم علیہ السلام میں شمار کیا اس کامطلب یہ ھے کہ انسان ماں کی طرف سے ذریت میں شامل هوتا ھے جیسا کہ قرآن کریم اس بات کو صاف طور پر بیان کیا ھے۔

یہ تمام چیزیں سن کر ھارون الرشید شرمندہ هوگیا لیکن اس کے دل میں بھرا بغض وحسد ظاھر هونے لگا جس کی بنا پر امام علیہ السلام پر مصائب پڑنے لگے اور آپ کو قید خانہ میں بھیج دیا گیا اور اس پر بھی ھارون کو سکون نہ ملا بلکہ امام کو ایک قید خانہ سے دوسرے قید خانہ میں بھیج دیتا تھا لہٰذا امام علیہ السلام کو تعلیم وتربیت کا موقع کم ملا ھے۔

لیکن پھر بھی آپ نے اپنی آزاد زندگی میں وہ عظیم علمی آثار چھوڑے ھیں جو اسلام کے عظیم منابع میں شمار هوتے ھیں۔

آپ(ع) کی شھادت شب ۲۵ رجب  ۱۸۳ھ [86]کو هوئی اور آپ کو قریش کے قبرستان میں دفن کیا گیا جس کو آج کل کاظمیہ (کاظمین) کھا جاتا ھے جو امام علیہ السلام سے منسوب ھے)

تبصرے
Loading...