ولایت فقیہ کی ضرورت

ولایت فقیہ کی ضرورت محض اس لئے ہے کہ وہ عنوان تداوم امامت امام معصوم ہو جس طریقہ سے امام معصوم خداوندعالم کی طرف سے ولی منصوب ہو تا ہے ٹھیک اسی طرح فقیہ جامع الشرائط بھی خدا ،رسول اور امام معصوم کی طرف سے جامعہ اسلامی میں ولی منصوب ہو تا ہے ۔چونکہ عقل یہ حکم کرتی ہے کہ انسان کی سعادت قانون الہی سے وابستہ ہے اور انسان تنہا اپنے ناقص و شکستہ قانون کے تحت دینی و دنیاوی سعادت کو حاصل نہیں کر سکتا ! اس لئے خداوند عالم نے اپنے قوانین کو ایک انسان کامل (پیغمبر اکرم ۖ)کے ذریعہ جامعہ بشریت میں ارسال کی چونکہ الہی قانون کو اجرا کرنے والا ایک ایسا انسان کامل ہو جو تمام خطاؤں اور لغزشوں سے مبرّا ہو ورنہ اسکے بھیجے ہو ئے قانون کا کو ئی فائدہ اور اسکی کو ئی تأثیر ہی نہیں ہو گی ۔لہذا خداوندعالم نے پہلے اپنے بندۂ خاص کو لباس عصمت میں ملبوس کیا اور ان کے بعد ان کے نا ئبین کو جنھوں نے گہوارۂ عصمت میں اپنی آنکھیں کھو لیں تھیں ….تا کہ وہ الہی قانون کا اجرا بطور احسن جامعہ اسلامی میں کر سکیں ….

اور یہ بات خداوند عالم کی حکمت اور اس کے لطف کے بالکل خلاف ہو تی کہ وہ امت مسلمہ کو اپنی آخری حجت کے عصر غیبت میں یو ں ہی بغیر کسی راہبر و راہنما کے ظلمت کدوں میں چھوڑدے اور اپنے محبوب کے ٢٣ سالہ زحمات پر پانی پیر دے دین و شریعت کو بغیر کسی ولایت کے وا کر دے ! فقہائے جامع الشرائط کہ جو دنیا کے تمام لو گو ں سے زیادہ امام معصوم  سے نزدیک تر ہیں (مگرتین شرط کے ساتھ :علم ،عدالت اور تدبیر و لوازم )انھیں امام عصر  کے زمانے غیبت میں انکا ولی منصوب کر دیا ہے ۔ اور اس امر کو صاحبان علم اچھی طرح جا نتے بھی ہیںاور اسے ضروری اور واجب بھی سمجھتے ہیں اور وہ ہوای نفس کی پیروی نہیں بلکہ ولی کی پیروی کیا کرتے ہیں جو امام معصوم  کے نائبین ہیں چونکہ آج عصر حاضر میں شیطان صفت انسان اس بات پر کمر بستہ ہیں کہ کل شیطان نے جسطرح آدم  کے سجدہ کا انکار کر دیا تھا ٹھیک اسی طرح نجدی افکار کی پرورش کرنے ولایت والے،ولایت فقیہ جیسے امر عظیم اور واضح و روشن مسئلہ کے منکر و مشکوک ہو گئے اور طرح طرح کے شبہات پیش کرنے لگے اور اس جیسی دیگر چیزیں….!

زمانۂ غیبت،عصر ولایت (فقہات )  : دور حاضر( عصر غیبت ) میں جامعہ اسلامی ”ولی ” زمانہ امام عصر  کے وجود نازنین کے ادراک اور ان کے برکات سے محروم  ہے ۔اب اگر آپ(امام زمانہ) کا مسلمانوں کے درمیان کو ئی نا ئب نہ ہو تو اسلام کے جاودانگی پرحرف آجاتا ہے کہ تعلیم دین اور احکام اسلا م کا اجرا کیسے اور کس طرح ہو ! لہذا ان چیزوں کے دوام کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا  کو ئی نہ کو ئی مسلمانوں کے درمیان ہو، تا کہ دینی تعلیمات اور احکام اسلام پر جمد طاری نہ ہو سکے اس لئے خود آنحضرت ۖ نے فقہاء کو اپنا نائب بنایا اور یہ وہ  لو گ ہیں جنھیں اسلام شناسی اور دیگر تمام امور پر مہارت حاصل ہو تی ہے ایسا نہیں کہ جسے چا ہا اسے اپنا نائب منصوب کر دیا انھیں پیش آنے والے جد ید مسائل اور دوسرے مو ضوعات یا جامعہ اسلامیہ کی مشکلات کا حل فرہنگی ،اجتماعی ، اقتصادی وغیرہ تمام مشکلوں کا حل یہ قرآن و سنت اور سیرت معصومین کو دیکھکر نکالا کرتے ہیں۔امام خمینی فرماتے ہیں کہ ولایت فقیہ کے پاس وہی اختیار ہے جو پیغمبر اکرم ۖ و معصومین  کو حاصل تھا چو نکہ وہ امام کی غیبت میں دین کا متولی ہے اس لئے اس پر ضروری ہے کہ وہ جامعہ اسلامی میں مختلف پہلو سے احکام اسلامی کا اجرا کرے اور اگر کو ئی اسلام پر مشکل آئے تو وہ اسے رفع کرے اور جامعہ سے مفاسد و انحرفات کو دورکرے اور تمام لوگوں سے مرتبط ہو ان کے مسائل کو سمجھے چونکہ ایک فقیہ جامع الشرائط کا فریضہ ہے ۔

امیر المؤمنین علیہ السلام ولایت کے سلسلے میں جناب کمیل سے فرمایا : یا کمیل ُ! محبة العالم دین یدان بہ تکسبہ طاعة فی حیاتہ و جمیل الا حدو ثة بعد وفاتہ فمن فات المال تزول بہ ۔

”ائے کمیل : عالم کی محبت قانون و سنت اور اساس ہے لوگوں پر ضروری ہے کہ ان کی پیروی کریں چونکہ عالم کی محبت انسان کو راہ کمال تک پہونچاتی ہے انسان اپنی حیات میں عالم کی محبت کے ذریعہ ہی راہ اطاعت کا زینہ طئے کر تا ہے اور اس محبت کے ذریعہ اپنے بعد نیک آثار چھوڑ جا تا ہے لیکن ما لی منفعت اس کے مرتے ہی مٹ جاتی اور فناء ہو جا یا کرتی ہیں ۔

ائے کمیل ! یہ لوگوں کے درمیان امناء (امین)پرودگار ہیں اور روئے زمین پر ایک روشن چراغ کے مانند ہیں ،ذکر خدا اور خدا کو طلب کرنے والوں کی اس معبود حقیقی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔میں انکے دیدار کا کس قدر مشتاق رہتا ہوں ! اور میں اپنے اور تمہارے لئے خدا سے طلب مغفرت کرتا ہوں …” (٣٦) 

اور تحف العقول کی اس روایت سے (اولئک خلفاء اللّٰہ فی ارضہ )نتیجہ یہ حاصل ہو تا ہے کہ یہ روایت ولایت فقیہ کے منصب پر ایک محکم دلیل ہے کی یہ واقعاً خلیفہ ٔ پروردگار ہیں ،اور خلیفہ ٔ پرودگار عالم یعنی ایک مکمل آئینہ ٔ، اس کے ولی کا ہو نا اور یہ فقرہ مخصوص معصومین  سے ہی نہیں ہے بلکہ آئمہ ٔ معصومین  کے ساتھ ساتھ علماء ربانی و اور فقہائے جلیل القدر جو کہ ہر زمانے میں مو جو د رہے ہیں ان کے بھی شامل حال ہے اور ان کی ولایت و خلافت پر قوی و مستحکم دلیل ہے ۔

ولایت فقیہ اور ولایت مطلقہ فقیہ سے کیا مراد ہے ؟یعنی انکو احکام اسلامی کے اجرا ….پر پورا پورا اختیار حاصل ہے یا نہیں ؟

ولایت فقیہ کے تمام اختیارات اور اس کی ولایت مطلقہ چار چوب اسلام ہے نہ یہ کہ وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے بلکہ ایک فقیہ اور حاکم اسلام کو، اجراء احکام اسلام میں پوار پورا اختیار حاصل ہے اب اس اختیار کا معنی اور مفہوم یہ بھی نہیں ہے کہ وہ احکام اسلام میں ہی رد و بدل شروع کردے !پس ولایت فقیہ کا معنی ومطلب اور اسکا مفہوم یہ ہوا کہ وہ مقام اجرا میں حاکم و مختار ہے نیز ولایت مطلقہ ٔ فقیہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ جیسے اور جس طرح چا ہے تفریح طبع کے مطابق اسلامی احکام کو اجراء کرے ! نہیں بلکہ اس طرح اجرا کرے جیسے شارع مقدس نے خالص بیان کیا ہے۔جو عقلی و نقلی ہر پہلو سے عقل و اجماع کے خلاف بھی نہ ہولہذااس مسئلہ کو مزید واضح کرنے کے لئے ہم یہاں ولایت مطلقہ ٔفقیہ کے تین رکن بیان کرنا چاہتے ہیں جسے علماء نے قبول کیا ہے:

١) فقیہ عادل عصرغیبت میں دین کا متولی و سردار ہو ا کرتا ہے ،ہر پہلو سے نظام اسلام کی شرعیت اور تمام مقرارت کے اعتبارات اسی پر منتہیٰ ہو تے ہیں اور اس کی تا ئید و تنفیذ سے مشروعیت پیدا ہو ا کرتی ہے ۔

٢) وہ سارے احکام جو اجتماعی اسلام ہیں اور اجرا ہو رہے ہیں وہ فقیہ جامع الشرائط کے عہد ہ پر ہے کہ وہ ان تمام احکام کو خود اجرا کر و اے اپنی طرف سے باصلاحیت افراد کو اجرائے احکام کے لئے مشخص و معین کرے ۔

٣)ولی فقیہ ،اجرا احکام الہی اور دستورات پروردگار کے اجرا کے وقت ان احکام اسلام کو مد نظر رکھے جو ایک دوسرے کے مزاحم و متضاد ہوں اور مصلحت نظام اسلامی اور لو گوں کی رعایت کرتے ہو ئے بعض کو بعض پر فوقیت دے کر یعنی جو ان میں سے اہم تر ہے اسے اجرا کرے اور جواہم تر نہیں ہے اسے موقتاًچھوڑ سکتا ہے اس لئے کہ یہاں یہ مختار ہے اور اسے پورا پورا اختیار بھی حاصل ہے چونکہ تمام احکام ،اسلامی تو ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے کہ متضاد و مزاحم ہیں اس لئے قائدہ کلیہ کے مطابق اہم کو مہم پر مقدم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ وہی تشخیص دے سکتا ہے جو علمی اور عملی طور سے اس مسئلہ میں غرق ہو،توسوائے فقیہ جامع الشرائط کے یہ کام کو ئی اور نہیں کر سکتا ولایت فقیہ عادل، صفات ثبوتی اور صفات سلبی کا بھی مالک ہو تا ہے چونکہ یہ صفات سلبی کے زیر تحت امت اسلامی کی حریّت اور مکتب اسلام کی آزادی کا خواھان ہو تا ہے لہذا ایسا نہ ہو جسیے آج کے مورڈن علماء امت کی طرح (جو خودبھی ڈوبے ہیں اور دوسروں کو بھی ساتھلے ڈوبتیں ہیں!)جو خود استعمار کی سیاسی زنجیروں میں قید و بند ہیں وہ اپنی مقید امتی کی حریت اور آزادی کے لئے کیا غور و فکر کریں گے !

ولایت فقیہ عادل سے مراد کیا ہے اورولایت فقیہ کو ن ہو سکتا ہے ؟

اولاًقارئین کرام یاد رکھیں کہ یہ منصب ارثی نہیں ہے کہ جسے چاہے ولایت فقیہ کے منصب پر بٹھا دیا جائے ! نہیں بلکہ یہ وہ منصب ہے جس پر آتے آتے انسان علم و عمل کا ایک ایسا مجسمہ بن جاتا ہے جسکی پیشانی سے علم ،حلم، تقوی و زہد اور بردباری و عدالت کے نورانی قطرات ٹپکتے رہتے ہیں۔ولایت فقیہ عادل سے مراد یہ ہے کہ اسے جو یہ منصب و مقام ملا ہے وارثت میں نہ ہو جس کی بنا پر وہ خود کو لوگوں کا سر پرست اور حاکم جانتا ہو۔ (جیسا کہ آج کے زمانے میں ہوتا یہ چلا آرہا ہے کہ اگر باپ کسی ملک کا بادشاہ تھا تو بیٹا ہی اسکی مسند پر بیٹھ سکتا ہے اس کے علاوہ کسی اور کو اس مسند پر جانے کی اجازت ہی نہیں دی جا تی !اور اسکے علاوہ آپ کے مشاہدہ کردہ واقعات ہیں !)ایسا نہ ہو اور نہ ہی وہ اپنی پارٹی اور حکومت کے زور پر یہ مقام حاصل کرلے !اور اگر ایسا ہو گیا تو وہ فقیہ نہیں ہوگا چونکہ فقیہ جامع الشرائط بننے کے لئے ایک انسان کو بہت سے مراحلوں کو طے کرنا پڑتا ہے لہذا: لا ولایت الا بتلک الشروط. اگر ولی امت کے پاس تمام شرائط میں سے فقط شرط نہ ہو تو وہ اصلاً اس قابل نہیں ہے کہ اسے ولایت فقیہ اور فقیہ جامع الشرائط کا درجہ دیا جا سکے !چونکہ وہ فاقد الشرائط ہے اور اسطرح وہ مسلمین کی سرپرستی سے معزول ہو جا ئیگا ۔(٣٧)

ولایت فقیہ فقہائے اسلام کی نظر میں:گرچہ بعض فقہاء نے ولایت مطلقہ فقیہ کو عصر غیبت امام معصوم علیہم السلام میں اس مسئلہ پر تامل برتا ہے لیکن بہت سے فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ ( ولایت مطلقہ فقیہ)سلسلہ امام کی طرف سے جاری ہے ۔اور وہ اپنی اس بات پر قرآن و سنت اور وہ توقیعات جو امام معصوم علیہم السلام سے صادر ہو ئی ہیں بطور دلیل پیش کی ہیں ۔ولایت فقیہ کے سلسلے میں صاحب جواہر الکلام ( آیة اللہ العظمی شیخ حسن نجفی متوفی ١٢٦٥ ھ نجف اشرف ) نے اپنی اس گراں قدر کتاب(جواہر، ہی) کی اکیسویں جلد میں مفصل بحث کی ہے اور یہ بحث صفحہ ٣٩٣ سے ١٠ ٤ تک تقریبا ١٧ سترہ صفحات میں ”آئمہ علیہم السلام کی ولایت عامہ اور ”ولایت فقیہ ” نیز جامع الشرائط فقیہ کے دائرہ اختیارات کے متعلق تحقیقی گفتگو کی ہے یہاں تک صفحہ ٣٩٧ پر تحریر فرماتے ہیں کہ تعجب ہے بعض لوگوں پر کہ وہ ولایت فقیہ (یا احتمالاً ان کے ذریعہ اجرا ء حدود کے سلسلہ میں ) وسوسہ رکھتے ہیں شاید ان لوگوں نے فقہ کی غذا سے کچھ بی نہ چکھا ہے جب کہ امام جعفر اصادق علیہ السلام نے جامع الشرائط فقہاء کے بارے میں خود فرما دیا ہے کہ : انی جعلتہ علیکم حاکماً و قاضیاً و حجّةً و خلیفةً و نحو ذالک ۔(٣٨)

میں نے ان (فقہاء ) کو تم لوگوں پر حاکم و قاضی اور اپنی حجت اور جانشین ( یا اسطرح کی دوسری تعبیریں ) قرار دیا ہے ۔ اس کے بعد صاحب جواہر فرماتے ہیں کہ ولایت فقیہ کی بحث ان روشن اور واضح امور میں سے ہے جو کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے ۔(٣٩)

صاحب جواہر سے ،مرحوم محقق نراقی نے بھی اپنی کتاب ” فوائد الایام ” میں اس سلسلے میں تحقیق و بحث کی ہے ۔(٤٠)

ان کے علاوہ امام خمینی نے اپنی کتاب البیع صفحہ ٢٦٧ ولایت فقیہ اور حکومت اسلامی کے بارے میں مفصل بحث کی ہے:آپ فرماتے ہیں کہ ”فللفقیة العادل جمیع ما للرسول و الائمة ممایرجع الی الحکومة و السیاسة و لا یعقل الفرق لانّ الوالی ای شخص کان ھو مجری  لاحکام الشریعة و المقیم للحدود الالھیة و الاخذ للخراج و سایر المالیات و التصرف فیھا بما ھو صلاح المسلمین ۔”   یعنی :ہر وہ چیز جو خدا و رسول ۖ و ائمہ معصومین علیہم السلام کے امور حکومت و سیاست میں ہے وہی فقیہ عادل کے لئے ہے اور عقل سے دور ہے کہ کو ئی اس میں فرق دیکھا جا ئے !کیونکہ (وہ چاہے معصوم ہو یا چاہے فقیہ عادل )وہ احکام شریعت کا اجرا کرنے والا ہے ،حدود الہی کو اقامہ کرنے والا ہے ،مالیا ت و خراج حاصل کرتا ہے اور اسے راہ خیر اور مسلمین کے صلا ح کے لئے صرف کرتا ہے اور ان تک پہنچا تا ہے ۔ اور ان سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ آیت اللہ منتظری نے اپنی کتاب ” دراسات حول ولایت فقیہ ”  میں اس موضوع پر بحث کی ہے …وابو عبد اللہ (ع) قد اسّس بہذا الجعل اساساً قویماً للامّة و للمذہب بحیث لونشر ھذا الطرح و التاسیس فی جامعة التشیع و ابلغہ الفقہاء و المتفکرین …(٤١)

مرحوم آیة اللہ شیخ محمد حسن صاحب کتاب جواہر الکلام اور ملا محمد باقر نراقی صاحب کتاب عواید الامامة معتقد ہیں کہ ولایت فقیہ ولایت نبی اکرم اسلام اور ائمۂ معصومین کی ولایت کو ادامہ دینے والے ہیں …علامہ میرزا محمد حسین نائینی اپنی کتاب(تنبیہ الامة و تنزیہ الملّة) میں لکھتے ہیں کہ :منجملہ ہمارے مذہب امامیہ کے یہ قطیعات میں سے ہے کہ اس زمانے (عصر غیبت )میں فقہا اور نواب عام کے وظایف میں سے ہے کہ وہ مملکت اسلامیہ کی حفاظت اور حفظ نظم اور اجرای حدود و احکام الہی ،(مالی ،سیاسی ،اقتصادی …وغیرہ)کو اجرا کریں ۔

فقیہ اہل بیت  عصمت و طہارت مرحوم آیة اللہ العظمی گلپائیگانی :اس روایت (العلماء ورثة الانبیاء )کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس روایت کا معنی یہ ہے کہ علماء تمام منصب انبیاء کے حقدار ہیں مگر وہ چیزیں جو استثناء ہیں ارث حاصل کرتے ہیں ۔نیز آپ اس روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ (فمن اخذ بشی ئٍ منھا فقد اخذ حظّاً و افراً ) وہ ان کے  شاہد ہیں ۔اور اس وراثت کا اسرار علماء کی علوم آئمہ معصومین علیہم السلام سے آگا ہی ہے لہذا یہ روایت بتا تی ہے کہ چونکہ علماء شریعت کے جاننے والے ہیں منصب انبیاء کا ان پر اختیار ہے ۔یعنی انہیں اس بات کی اجازت ہے کہ ہر وہ چیز جو انبیاء  کے احاطہ میں دخیل ہے وہ اس کے عہد ہ دار ہو جا ئیں ۔مگر یہ کہ مورد خاص جہاں دلائل کے ساتھ منع کئے گئے ہوں ۔(٤٢)

شیخ مفید علیہ الرحمہ (ت٤١٣ھ ق )قضاوت و اجرای حدود الہی ،امر بہ معروف و نہی از منکر ،خمس و زکات کا حصول ،اقامہ نماز جمعہ وغیرہ کا عہدہ ولایت فقیہ کا ہے امام کی طرف سے ہے آپ فرماتے ہیں کہ آئمہ ہدی نے اقامہ ٔ حدود کی ذمہ داری فقہائے شیعہ پر تفویض کیا ہے ۔

ولایت فقیہ سے مراد فقیہ جا مع الشرائط ہے نہ یہ کہ جس نے بھی فقہ کے ٥٢ با ب پر ایک اجمالی نظر ڈال لی وہ فقیہ بن گیا نہیں بلکہ فقیہ جامع الشرائط کے لئے ضروری ہے کہ وہ تین چیزوں کو اپنے اندر گو ہر نا یا ب کی طرح نہفتہ رکھتا ہو:

١)اجتہاد مطلق .

٢)عدالت مطلق .

٣) مدیریت اور رہبریت کی قدرت و استعداد یعنی استدلال و استنباط کے ذرعیہ بطور عمیق ،ریشۂ اسلام کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور دوسری طرف حدود و ضوابط کی ہر راہ میں رعایت کرے اور گناہ علنی تو دور (بقول معروف ترکہ اولی بھی )نہ کرے ۔(٤٣)

اور اپنے ہوی وہوس اورتفریح طبع کے مطابق کو ئی فعل انجام نہ دے اور جو فتوی دے رہا ہے خود پہلے اس پر عمل کرے ۔اور ولایت فقیہ قوم و ملت کی سرپرستی کرے چونکہ ولایت کا معنی ہی یہی ہے کہ جسے بحث گذشتہ میں بیان کیا جا چکا ہے ۔ ولایت فقیہ کی حاکمیت ،حاکمیت پیغمبر ۖ اور ائمہ معصومین  ہے جس طرح لوگ عصر پیغمبر ۖ اور آئمہ معصومین میں انھیں اپنا حاکم و سرپرست مان کر انکی بیعت کیا کرتے تھے اور انکی حاکمیت کو قبول کرتے تھے ٹھیک اسی طرح عصر غیبت میں بھی نواب اربعہ سے لیکر ابتک فقیہ جامع الشرائط امام عصر ارواحنا لہ الفداء اور بقیہ آئمہ  کی طرف سے یہ حاکم اور سرپرست اسلام ہیں لہذا اب لوگوں پر یہ ضروری ہے کہ نص امام معصومین کے مطابق انکی پیروی کریں ۔ 

کیونکہ روایت کے آئینہ میں یہ بات صاف واضح ہے کہ علماء وارث انیباء ہیں لہذا جب انھیں دیکھو تو انکے خادم بن جاؤ اور دوسری اس قسم کی حدیثیں وارد ہیں جنمیں انکی طرف رجوع اور انکی تتبع اختیار کرنے کا حکم ہے ۔لہذا ان تمام روایات و احادیث کے بعد اپنی بحث کا خاتمہ اس بات پر کرتا ہوں کہ علماء و فقہاء کی اطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ علماے و فقہاء کی حیثیت جامعہ اسلامی میں ایسی ہے جیسی ایک لشکر میں سردار لشکر کی !اگر یہ نہ ہو تو لشکر کا ایک قدم بھی اپنی مرضی کے مطابق بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے اور اگر بڑھا بھی لے تو علاوہ ہلاکت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ٹھیک اسی طرح امت اسلامیہ میں علماء و فقہاء کی مثال ہے کہ انکے بغیر احکام اسلام کا سفینہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا اور امت اسلامیہ کامیابی اور کامرانی کے ساحل تک بغیر انکے حکم نہیں پہونچ سکتی یہی وجہ ہے کہ معصومین نے یہ سلسلہ تا قیامت بنص خداوند جاری و ساری کر دیا تاکہ لوگوں کی سعادت میں کو ئی دنیاوی شئی مزاحم نہ بننے پائے اور یہ قرآن و سنت اجماع و عقل کی روشنی میں صادر ہو ئے فتوے کے وسیلے سے اس راہ کمال و سعادت کو بخوبی طے کرا پائیں ۔

اور اسی حکم و دستور پر عمل پیرا ہو نے کا نام تقلید ہے اور اسے ہی تقلید کہتے ہیں۔ لہذا ہر انسان مکلف جس کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ درجہ ٔ اجتہاد کے مراحلوں کو طے کرسکے ! تو اس صورت ایسے شخص پر واجب عینی ہے کہ وہ مجتہد جامع الشرائط کی تقلید کی نیت کر لے اور اسکے ہر صادر شدہ فتوے کا پابند ہو کر اس پر عمل کرے ، اور اس پر اس کے بعد یہ لازم ہو جا تا ہے کہ اگر اس مسئلہ سے کو ئی واقف نہ ہو تو اسے حتی الامکان کو شش کرکے اس کے لئے اس مسئلہ کو واضح کرے اور اعتراض کرنے والے کا دفاع کرے چونکہ آج کے زمانے میں ایک ایسا بے دین گروہ پیدا ہو گیا ہے جو علماء و فقہاء ،اسلامی نظام اور احکام اسلامی کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے تاکہ لوگوں کو دین سے منحرف کر کے انھیں بے دین بنا کر اسلام کے خلاف سوء استفادہ کیا جا سکے اور ایسے لوگ نہ ہی مسلمان اور نہ ہی شیعہ اثنا عشری بلکہ یہ یہود و نصاری کے پیرو اور رفقاء کار ہیں جو قلم فروش بھی ہیں اور زبان فروش بھی درہم و دینار اور ڈالر کی لالچ میں کسی کے بھی خلاف لکھ دیا کرتے ہیں اور کسی کے بھی خلاف بو ل دیتے ہیں جیسے اس بات کی زندہ مثال سلمان رشدی ملعون اور تسلیمہ نسرین لعنة اللہ علیھا کی ہے جنھوں نے اسلام کو ایک بازیچہ بناکر یوروپین ممالک میں پیش کیا اور اسلام و احکام اسلام کا بر سر عام مذاق اڑایا !اور اسی فکرکے آج بھی کچھ لوگ اپنے معاشرے میں پرورش پا رہے ہیں۔ جنکا کام ہی احکام دین ،علماء اور فقہاء کے خلاف لوگوں کو مختلف صورتوں سے منحرف کرنا ہے لیکن یہ بھول بیٹھے ہیں کہ! جس دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا  نے اپنے ذمہ لی ہے تو وہ اپنی تمام کاوشوں کے باوجود کبھی اور کسی وقت بھی اپنے اہداف میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے یہاں تک کہ انھیں موت، جہنم کی دہکتی  ہو ئی آگ میں ڈھکیل دے گی ! چونکہ جس نے بھی خدا کے دین اور اسکے آئین پر حملہ کیا وہ چاہے فرعون ،شداد نمرود یا …خدا وند عالم نے اسے ذلیل و خوار کردیا ہے جب یہ اتنی طاقت کے باوجود اللہ کی جلال و عظمت کے سامنے نہ ٹکے تو یہ عصر حاضر کے یوروپین اور امریکی مقلیدین کیا ٹک پائیں گے ! لیکن بہر کیف امت اسلامیہ پر یہ واجب و ضروری ہے کہ وہ بیدار رہیں اور زمانے کے حالات کی وافر مقدار میں معلومات رکھتے ہو ئے اپنے دین و علماء اور مجتہدین و فقہاء کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی آواز کو تا قیامت خاموش کردیں کیوں؟ اس لئے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام مبین کی زمانۂ غیبت میں تحفظ کر رہے ہیں اگر یہ نہ ہو تے تو نہ جانے آج کیا ہو تا جیسا کہ آج پو ری دنیا واقف ہے کہ یہودو نصا ری کی پو ری کو شش یہی ہے کہ دنیا سے شیعیت کو مٹا دیا جا ئے اور انھوں نے اسکا ثبوت کربلا ، نجف ،کاظمین اور سامرہ میں دیا کہ ہمیں اگرکسی سے خطر ہ ہے تو بس مکتب تشیع سے ہے ورنہ انکے علاوہ تو سب ایک حملہ کے ہیں !آج دنیا کے ٢١ اسلامی ملکوں میں امریکہ حاکم ہے اور وہاں کی عوام اور اس ملک کے سر براہ امر یکہ کے دستورات پر عمل پیرا ہیں !! کیا یہ قابل غور بات نہیں ہے کہ اسلامی کانفرنس میں بھی امریکہ جیسے کے حکم و اشارہ پر نشت و برخواست ہواکرتے ہیں ! لہذا ایسے لوگوں کے بر خلاف کاروائی کرنی چاہیئے جو بنیاد اسلام پر حملہ کرنا چاہتا اور دین حقہ سے لوگوں کو منحرف کرنا چاہتا ہو ان تمام باتوں کے بعد اب آپ قرائین کرام خود مختار ہیں فیصلہ کرنے پر کہ حقیقت کیا ہے اور خود نتیجہ نکالیں کہ اس پر آشوب دور میں جہاں دنیا ء شیعت پر ہر طرف سے لوگ حملہ آور ہیں کیا کر نا چاہیئے ! کیسے اور کسطرح منافقین اور دشمنان دین سے مقابلہ کرنا  چا ہیئے ؟ لہذا امید ہے کہ آپ قارئین کرام اس بات پر غورو فکر کر نے کے بعد میدان عمل میں پوری آمدگی کے ساتھ اتر جا ئیں گے چونکہ انسان کو خدا نے عبس و بیکار نہیں پیدا کیا ہے اور یہ خود قرآن کی نص اور نہ ہی صرف کھانے کمانے اور عیش وشرت کے لئے ! لہذا انسان کو اپنی خلقت کا مقصد و مفہوم سمجھنا چا ہیئے کہ وہ کس لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اور اسے کیا کرنا چاہیئے! دین و مذہب کا ایسا مسئلہ ہے کہ اگر اس پر آنچ آجائے تو ہر وقوم ملت اپنی جان تک قربان کر دیتی ہے لیکن عجیب بات ہے نہ جانے ایسے ملعون شخص کی خلقت کس مٹی سے ہو ئی ہے کہ یہ بجائے دین کی تحفظ کے اسے استعمار ی اشاروں پر دولت و ثروت کی لالچ میں ضرب پہنچانے کی سعی و کوشش کررہے ہیں ! یہ شعور رکھتے ہو ئے بھی بے شعور ہیں ذہن و دل و دماغ کے باوجود یہ بہرے گونگے اندھے ہو گئے ہیں انکے دل سیاہ ہو چکے ہیں چونکہ اتنی واضح دلیلوں کے بعد بھی اس مسئلہ کو نہ سمجھیں تو یہ انکی ہٹ دھرمی اور منافقت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے چونکہ عقل سلیم اس بات کو قبول کرتی ہے کہ ہر شئی کے لئے ایک ایسی شئی ہونی چاہیئے جو اس پر نگراں رہے اور اسکی پوری طرح رہنما ئی کرے جیسے نابالغ افراد وہ چاہے بچے ہوں یا بچیاں ضروری یہ ہے کہ ان پر انکے سرپرست کی حاکمیت ہو اور انکی ساری ذمہ داریاں انکے ولی کے ذمہ پر ہو ں،اسی طرح ملک و سلطنت کے کے لئے بھی ضروری ہے کہ ایک ایساحاکم ہو جو ملک و سلطنت ،حکومت اور رعایہ کی پوری پو ری طرح نگہداری کا عہدہ اور اس حکومت و رعایہ کی تنزلی کے بجائے ترقی اور پیش رفت کے لئے غور خوض میں ڈوبا رہے اور یہ مثال بہت ہی واضح ہے کہ جہاں حکومت و سلطنت ہے اور اس حکومت و سلطنت کی رعایہ کی دیکھ بھال کرنے والا کو ئی حاکم موجود نہ ہو اوراگر ہے بھی تو وہ ایسا لاابالی ہے کہ جس سے اپنے مسائل حل نہیں ہو سکتے وہ خود دوسروں کے کیا مسائل حل کرے !یہی وجہ ہے کہ آج جہاں جس جگہ بھی ایسے حاکم بر سر اقتدار ہیں انکی رعایہ پریشان حال ہے اور انکی حکومت و سلطنت کا نظام درہم و برہم ہے۔ لہذا حاکمیت کے لئے ایک ایسے حاکم کا ہو نا ضروری ہے جو اس قابل ہو کہ لوگوں کی تمام ضروریات کو مد نظر رکھتے ہو ئے ان کی سعادت کا خواہاں ہو، تا کہ وہ اپنے ہر شعبۂ حیات میںکامیاب و کامران رہیں اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جو تمام علوم و کمالات اور فضائل کامجسمہ ہو ۔اور یہی دنیاوی دستور ہے کہ ہر وقوم و ملت اپنوں میں سے ایسے کو اپنا ولی ،حاکم اور رہبر قرار دیتی ہے کہ وہ پوری قوم کے لئے نمونہ ٔ عمل ہو تو جب دنیاوی قانون کے مطابق حکومت کے لئے حاکم کا ہو نا ضروری ہے تو وہ دین جس کی بقاء کا ضامن خود پروردگار ہو وہ کیسے اپنے دین کو بے مہار بغیر کسی ہادی کے چھوڑ دے !لہذا یہ ولایت کا سلسلہ امام اول سے امام اخر تک چلا اور جب غیبت کبری واقع ہو گئی تو خود بنفس نفیس امام  نے اپنی نیابت کا سلسلہ یہ  کہہ کر علماء اور فقہاء کی طرف موڑ دیا کہ وہ تم پرمیری طرف سے حجت ہیں اور میں حجت خدا ہوں ۔اور یہی وہ ولایت کی کڑی ہے جس سے آج مکتب تشیع اپنی جگہ پابرجا ہے اور اگر ہمارے مکتب میں فقیہ جامع الشرائط حاکم نہ ہو تے تو آج دوسری قوم و ملت کی طرح اس مکتب میں بھی خلفشار رہتا اور ہر ایک اپنا اپنا الگ پرچم لئے دین اسلام کا حامی ہو تا جیسا کہ آج لوگ عالم اسلام کے بڑے بڑے حامیوں کی حالات کا مشاہدہ کر رہے ہیںجو نہ صرف اپنی قوم کو بلکہ پورے اسلام کو ضربہ پہنچا رہے ہیں !

بحمد اللہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے یہاں ان مسئلوں میں کو ئی اختلاف اور کو ئی پریشانی نہیں ہے سب کے سب فقیہ جامع الشرائط کے پیرو اور انکے ہر حکم پر عمل پیراں ہیں اور اگر کو ئی اختلاف ہے بھی تو یہ استعماری سازش اور منافقت کے علاوہ کچھ بھی نہیں !البتہ یہ بر سر عام امام عصر علیہ السلام کے اقوال کی نافرمانی ہے اور جو امام  کے اقوال کامنکر ہے اس سے ہمارا کو ئی رشتہ نہیں اور وہ نہ ہی ہمارا شیعہ ہے اور اسے کو ئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو شیعہ کہے !دور حاضر میں کچھ گمراہ افراد کہ جنھوں نے مسئلہ تقلید اور ولایت فقیہ یا خمس و زکواة کے رد میں روایات پیش کی ہیں ! وہ ساری کی ساری ضعیف السند ہیں جنکا علم رجال کے مطابق کوئی اعتبار نہیں ہے ۔اور اگر کو ئی صحیح اور حسن احادیث کو اس مسئلہ میں لاکر فیٹ کرے تو یہ سرا سر اس کے کم علم اور جاہل ہو نے کی دلیل ہے اور آج تک جو بھی دین کو ضربہ پہونچایا ایسے ہی کم علم جاہل اور منافق لوگ تھے جنھوں نے اپنی بے بنیاد دلیلوں کے ذریعے اسلامی شخصیتوں کو مجروح کردیا اور اسلام کی بنیاد کمزور کردی جس سے آج دشمنوں کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ قرآن مجید جیسی بابرکت کتاب کو بھی رد و بدل کرنے کی کو شش کرنے میں لگے ہیں ! 

آخر میں پرور دگار عالم سے درخواست اور دعا ہے کہ پرور دگار اگر یہ قابل ہدایت ہیں تو انکی ہدایت فرما اور اگر نہیں تو انھیں نیست و نابود کر دے !اور خداوندا !ہماری قوم و ملت کو وحدت و اتحاد کی ایک لڑی میں پرو دے تا کہ ہم ایک ہو کر اپنے دین و مذہب کا دفاع کر سکیں ۔

پروردگارا ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم رکھ اور شہادت کا درجہ نصیب فرما اور جلد از جلد منجی عالم بشریت کا ظہور کردے اور ہمیں انکے اعوان و انصار میں شمار فرماتاکہ ہم اپنے آقا و مولا  کے ساتھ دشمنان اسلام اور منافقین کا قلعہ قمع کر سکیںاس امید کے ساتھ کہ ہمارے کرم فرما بزرگان ہماری اس مختصری سی کاوش کو بجائے غیض و غضب کے دعائے خیر کے ہمراہ اس کی اصلاح فرمائیں گے۔

تبصرے
Loading...