ولایت فقیہ اور نیو اسلامک سویلائزیشن کی طرف بڑھتے ہوئے قدم.حصہ سوئم 

حوزہ نیوز ایجنسی :

معروف  ماہر لسانیات  نوم چومسکی (Noam Chomsky)کے بقول:  ”  زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں ، بلکہ یہ ایک تمدن ہے؛ ایسی تمدن جو معاشروں  کو آپس میں جوڑتی ہے، ایک ایسی تاریخ  جو ایک کمیونٹی کو تشکیل دیتی ہے۔یہ تمام چیزیں زبان کے اندر مجسم نظر آتی ہیں۔” زبان باہمی روابط کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔یہ علم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے اور قوموں کی ترقی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔ 
یہ زبان  ہی ہے جو کسی بھی قوم اور ملت کی تاریخ ، تہذیب و تمدن، روایات اور یاد داشتوں کو محفوظ کرتی ہے اور انہیں نئی نسلوں تک منتقل کرتی ہے۔  آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی جہاں انسان بہت ساری چیزوں سے بے نیاز ہوچکا ہے وہاں بدستور اب بھی زبان کا محتاج ہے ۔ دور حاضر کی تمام انکشافات، جدید نظریات اور تحقیقی مواد زبان کے ذریعے ہی دنیا میں منتشر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ قوموں  کی ثقافت، ہنر، عادات  و  رسوم  اور  دیگر صلاحیتیں زبان کے ذریعے لوگوں تک منتقل ہوتی ہیں۔ بلاشبہ زبان کسی بھی قوم، ملت اور ملک کی شناخت کا اہم ترین جزو ہےاور دنیا بھر میں پائی جانے والی تہذیبوں اور ثقافتوں کے بارے میں موجود حقائق اور ظرافتوں کو بہترین  طریقہ سے بیان کرتی ہے۔ 
زبان کی اسی اہمیت کے پیش نظرخالق کائنات نے بنی نوع انسان کے نام اپنے آخری پیغام کو فصیح عربی میں نازل کیا اور اللہ کا اخری نبیﷺبھی عرب معاشرے میں مبعوث ہوئے۔ یوں عربی زبان کی اہمیت و افادیت دگنی ہوگئی۔ مسلمان چاہے جہاں کا رہنے والا ہو اسے دن میں پانچ مرتبہ اپنے خالق  و  مالک کے ساتھ عربی زبان میں ہی راز ونیاز کرنے کا حکم ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے مسلمان چاہے جس قوم، نسل ، رنگ اور زبان کا ہو وہ نماز کی حد تک ہی کیوں نہ ہو عربی زبان سےضرور آگاہ ہے۔ عربی زبان کے ذریعے ہی مسلمانوں نے ترقی کے  اعلی منازل طے کئے  اور اسلام کے آفاقی پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ۔تمام جدید علوم عربی زبان میں ترجمہ ہوئے اور بہت ہی کم عرصہ میں جدید  نظریات ، انکشافات اور تحقیقی مواد  عربی سے دنیا کی دیگر زبانوں میں منتقل ہوئے۔ آج بھی اگر دنیا کا کوئی شخص اسلام کی دقیق فہم حاصل کرنا چاہتا ہے  تواسے پہلے عربی زبان سیکھنا ہوگا۔ 
فارسی مسلمانوں کی دوسری بڑی زبان ہے ۔ عربی کے بعد اسلام کے بارے میں دقیق اور تفصیلی مواد فارسی زبان میں ہی میسر ہیں۔ مسلمانوں کے ہاتھوں ایرانیوں کی شکست اور بلافاصلہ اسلام کی تبلیغ  کے مرہون منت  یہاں بڑے بڑے علمی اور تحقیقی مراکز قائم ہوئےاور وہاں  سے  بڑے بڑے نامور دانشور ، محدث، مفسر  اور متکلم پیدا ہوئے جنہوں نےعربی اور فارسی دنوں زبانوں  میں شاہکار آثار چھوڑے ۔ 
انقلاب اسلامی کی اہم ترین کامیابیوں میں سے ایک  یہ ہے کہ انقلاب نے یہاں کے ہنر، ادبیات، زبان، کلچر اور رسوم و عادات کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ انہیں غیر معمولی اہمیت دی۔ اس انقلاب نے فلم ، ڈرامہ ،شعر اور قومی رسومات پر پابندی عائد کرنے کی جگہ ، جیساکہ تاریخ میں اسلام کے نام پر بننے والی بعض حکومتوں نے کیا، انہیں دینی اور اسلامی شکل دی اور انہیں اسلام اور انسانی اعلی اقدار کی تبلیغ کے لئے استعمال کیا۔ یہ چیز سبب بنی کہ ایک طرف سے یہاں کی ثقافت ، زبان اور ادبیات زندہ ہوں اور دوسری طرف لوگوں کا انقلاب پر اعتماد بڑھے۔انقلاب کی وجہ سے جہاں بہت سارے شعبوں میں بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی وہاں فارسی  بدستور یہاں کی سرکاری، تعلیمی اور قومی زبان رہی ۔ اس حقیقت کو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انسان کو اپنی مادری زبان میں ہی پھلنے پھولنے کا موقع ملتاہے۔ آپ امریکہ ، برطانیہ ، چائنہ اور روس جیسے ترقی یافتہ ممالک کی مثال لیجئے ؛ ان ممالک میں ترقی کا اہم ترین راز یہ ہے کہ یہاں کے تمام اداروں میں ان کی اپنی زبان رائج ہے۔ مذکورہ ممالک میں نئی نسلیں اپنی مادری زبان میں ہی تعلیم حاصل کرتیں ہیں اور آگے جا کر ان کے انکشافات، جدید نظریات اور تحقیقی مواد اپنی زبان میں ہی سامنے لاتے ہیں۔ یہی وہ  چیزیں ہیں جو عالمی سطح پر ایک زبان کی قیمت مشخص کرتی ہیں۔ نظام ولایت فقیہ میں بھی اس اہم نکتہ کو ملحوظ خاطر رکھا گیا اور کسی بیرونی  یا اندرونی دباو میں آئے بغیر قومی زبان کو ہی ہر شعبہ میں زندہ رکھاگیا۔ یہی وجہ ہے فارسی  کا شمار دنیا کی اہم ترین علمی اور تحقیقی زبانو  ں میں ہوتا ہے۔ آپ فارسی زبان کا چھوٹا سا مقایسہ اردو کے ساتھ ہی کر کے دیکھ لیجئے ؛ جوکام فارسی زبان میں ہوا ہے اس کا عشر عشیر بھی اردو زبان میں نہیں ہوا۔ آپ کسی بھی موضوع کو پہلے اردو میں اور پھر فارسی میں گوگل کر کے دیکھ لیں  ، فارسی زبان مختلف علوم میں جدید معلومات ، نظریات اور انکشافات ہمارے حوالے کرے گی لیکن انہی موضوعات پر اردو زبان میں کوئی مواد نہیں ملے گا! اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ برصغیر کے دانشور، سانئسدان ، محققین اور سکالرز اپنی تحقیق کو انگلش زبان میں انجام دیتے ہیں جبکہ ایرانی دانشور، محقق اور سانئس دان اپنی مادری زبان میں ہی اپنی تحقیقات کو  پیش کرتاہے۔انگلش کے بعد اب دنیا  میں چائینز سب سے زیادہ سیکھی جانے والی زبان ہے اس لئے کہ وہاں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اور مختلف علوم میں جو نئے نظریات اور تحقیق ہوئی ہے سب چائنیز زبا ن میں ہیں۔دنیا کی ہر وہ زبان جو مذکورہ خوبیوں سے عاری ہو اس کی عالمی سطح پر کوئی ضرورت باقی نہیں رہی اور خوبخود مٹ جاتی ہے۔ 
 ٖنیو اسلامک سویلائزیشن کو وجود بخشنے  میں زبان کے کردار سے چشم پوشی ہرگز ممکن نہیں۔
 آیت اللہ العظمی خامنہ ای فرماتے ہیں:
 ((فرہنگ اور ادب کسی بھی  تمدن کے پھلنے پھولنے کا اصلی ترین وسیلہ ہے۔ علم، سیاست،  فوجی اور عوامی طاقت کے ساتھ ساتھ فرہنگ اور ادب میں بھی بہتری آنی چاہیے ، اگر ایسا ہوا تو قومی تہذیب و تمدن نہ صرف زندہ ہوگی بلکہ دنیا کی دیگر ثقافتوں پر بھی اثر انداز ہوگی))۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم کی زبان زوال کا شکار ہو تو اس قوم کی تہذیب و تمدن کا زوال یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی قومیں یہ کوشش کرتی ہیں کہ ان کی زبان دنیا میں پھیل جائے  تاکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیب و تمدن بھی دیگر قوموں میں منتقل ہو۔ آیت اللہ خامنہ ای اس اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (( آج کل مختلف سطوح میں انگلش زبان کی تدریس و ترویج بڑی شد ومد کے ساتھ جاری ہے، یہ کام حقیقت میں امریکی کلچر کو تعلیم کی شکل میں پھیلانے کی ایک کوشش ہے۔ کتابیں ، سائین بورڈیہاں تک معلومات منتقل کرنے کی روش کچھ اس طرح مرتب کئے  جاتے ہیں کہ اس سے امریکی کلچر کی ترویج ہو۔۔۔۔۔انگلش زبان سے نابلد لوگوں کو حقیر سمجھنا ، انہیں ان پڑھ اور غیر متمدن قرار دینا، بڑی تعداد میں انگلش کی کلاسوں میں شرکت کرنا اور حتی پرائمری سکول کے بچوں کو انگریزی سیکھانا، انہیں علم سیکھانےسے زیادہ انگریزی کلچر کے بارے میں بتانا وغیرہ فارسی زبان کے لئے  سنگین خطرہ ایجاد کر رہے ہیں اور فارسی زبان کے پھلنے پھولنے کے مواقع کو محدود کرنے کا باعث بن رہے ہیں))۔ آپ مزید فرماتے ہیں :

 ((میں فارسی زبان کے حوالے سے بہت زیادہ پریشان ہوں؛ ہم فارسی زبان کو فراموشی کے سپرد کر رہے ہیں؛اس کو محکم بنانے، اس کو پھیلانے ، اسے عمق بخشنے اور اسے خارجی مداخلتوں سے بچانے کے لئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا رہے ہیں))۔ 

آیت اللہ العظمی خامنہ ای تعلیمی اداروں کو ترقی اور تمدن کی بنیاد سمجھتے ہیں اور تاکید کرتے  ہیں کہ یہاں کے سسٹم میں چھوٹی سی غفلت بھی تمدن سازی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی۔ آپ مزید فرماتے ہیں : کہ تعلیمی اداروں کا رخ ہر قیمت پر انقلاب اسلامی کی آرزوؤں کی طرف ہی ہونا چاہیے۔ اس آرزو تک پہنچنے کےلئے ضروری ہے کہ ملک کے تعلیمی سسٹم میں قومی زبان کو فوقیت دی جائے:

((تمام حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کی حمایت  کریں ؛ ہرگز اس خیال میں نہ رہے کہ یہاں کے اخراجات زیادہ ہیں ، نہ اس میدان میں جتنا خرچ کروگے اتنا ہی اچھا نتیجہ ملے گا، یہی وہ جگہ ہےجہاں ایسے افراد تیار ہوتے ہیں جو مستقبل میں ملک کےلئے دولت، حیثیت ، تمدن، علم اور ٹیکنالوجی عطاکرتے ہیں۔تعلیمی اداروں سے بڑ ا کوئی دوسرا  ادارہ  ملک  میں نہیں ہے ؛ ملک میں جو ترقی، انکشافات اور علم کے آثار دیکھنے کو مل رہے ہیں ان کی جڑ  یہی ادارے   ہیں ؛ اگر  ان کو ٹھیک کیاجائے تو سب کچھ ٹھیک ہوگا))۔

 انقلاب اسلامی اور یہاں پر حاکم نظام تمام مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ہے؛ سیاست ہو یا  تعلیم و تربیت، زبان و ادب ہو یا زندگی کے دیگر شعبوں میں آگے بڑھنے کا عمل، ہمیں اس نظام سے سیکھنا چاہیے تاکہ جدید اسلامی تمدن سازی کا یہ سفر ایک ملک تک محدود نہ رہے:

(جمہوریہ اسلامی ایران ایک نمونہ ہے، گویا یہاں اسلامی تمدن سازی  کا تجربہ جاری ہے۔ یہ ملک اسلام کی  حاکمیت سے پہلے پسماندہ ، علمی دنیا میں پیچھے ، سیاسی حوالے سے غلام اور دینی تمدن سازی میں صفر تھا لیکن آج دشمن بھی جمہوریہ اسلامی ایران میں ہونے والی ترقی کا معترف ہے، آج تقریبا 35 سال گزرنے کے بعد علم، انکشافات اور تحقیق کے میدانوں میں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں  کی صف میں ہے؛ کسی میدان میں ہم چوتھے نمبر پر ، کہیں چھٹے نمبر پر تو کہیں پانچویں اور ساتویں مرتبے پر فائز ہیں ۔ یہ اسلام کی برکت سے ہی ہے کہ ایرانی قوم بین الاقوامی سطح پر ابھری  ہے؛ اور اس میں مزید آگے بڑھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن شرط یہ ہے کہ استعماری طاقتوں کامنحوس سایہ ہمارےسروں پر  نہ ہو ).
جاری ہے… 

تحریر ذاکر حسین میر حوزہ علمیہ مشہد مقدس 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...