وضو کے بارے میں ایک تحقیقی جائزہ

حوزہ نیوز ایجنسی|وضو بذات خودایک مستحب عبادت ہے لیکن بعض عبادتوں کےلئے مقدمہ  بننے کی وجہ سے بعض اوقات واجب ہوتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتےہیں :(لا صلوة الا بطهور)۱نماز طہارت کے بغیر صحیح نہیں ہے ۔  پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ہیں :(افتتاح الصلوة الوضوء و تحریمها التکبیروتحلیلها التسلیم)۲نماز کی ابتداءوضوسے ہوتی ہے اور تکبیرۃ الاحرام  کے ذریعے چیزیں حرام اور سلام  کے ذریعے چیزیں حلال ہو جاتی ہیں ۔یہ حدیث امام علیعلیہ السلام سےبھی نقل ہوئی ہے ۳۔ شیعہ مذہب کے مطابق اعضائے وضو کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے جبکہ اہل سنت کے نزدیک یہ شرط لازم نہیں ہے ۔اسی طرح شیعوں کے  نزدیک چہرے اور ہاتھوں  کے دھونےکے بعد سر اور پاوٴں کا مسح کرنا چاہیے اور ان دونوں کو دھوناصحیح نہیں ہے لیکن اہل سنت سر اور پاوٴں کے دھونے کو واجب سمجھتے ہیں اور ان پر مسح کرنے کو کافی نہیں سمجھتے  ۔
وسائل الشیعہ اوردیگر کتب میں 565 کے قریب احادیث وضو کے متعلق بیان ہوئی ہیں ۔اتنی بڑی تعداد میں احادیث کا ذکر ہونا اسلام میں وضو کی اہمیت کو بیان کرتا ہے ان روایات میں وضو کے کچھ فوائد  بھی ذکر ہوئے ہیں جیسے:
۱۔طول عمر:(قال رسول اللہ:اَکثِر مِن الطَّهورِ یزِدِ اللّہ فی عُمُرِکَ) کثرت سے وضو کیا کرو اللہ تمہاری عمر طولانی کرے گا ۔
۲۔خشم و ناراضگی کو ختم کرنا:( إنّ الغضب من الشّیطان و إنّ الشّیطان خلق من النّار و إنّما تطفا النّار بالماء فإذا غضب أحدکم فلیتوضّأ)۴غضب شیطان سے ہے اور شیطان آگ سے خلق ہوا ۔آگ کو صرف پانی بجھا سکتا ہے پس جب بھی تم میں سے کوئی غصہ میں ہو تو اسے چاہئے کہ وہ وضو کرے ۔
۳۔غم و اندوہ سے نجات :(ما یمنع أحدکم إذا دخل علیه غم من غموم الدنیا- أن یتوضأ ثم یدخل مسجده و یرکع رکعتین- فیدعو الله فیهما أ ما سمعت الله یقول:وَ اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ) ۵کونسی چیز تمہیں اس بات سے روکتی ہے کہ جب تمہیں دنیاوی غم و اندوہ پہنچے تو وہ وضو کرے اور مسجد میں جائے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کرے ؟کیا تم نے قول خدا نہیں سنا کہ صبر او نماز کے ذریعے مدد طلب کرو۔
۴۔نورایت میں اضافہ :(الْوُضُوءُ عَلَی الْوُضُوءِ نُورٌ عَلَی نُور)۶تجدید وضو کرنا گویا نور علی نور ہے ۔
۵۔کفارۂ گناہ:(و کان الوضوء إلی الوضوء کفّارة لما بینهما من الذّنوب) ۷تجدید وضو کرنا  دو وضوؤں کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے۔
۶۔فقر اور وسواس کا خاتمہ:(مَنْ تَطَهَّرَ ثُمَّ أَوَی إِلَی فِرَاشِهِ بَاتَ وَ فِرَاشُهُ کَمَسْجِدِهِ وَ إِنْ ذَکَرَ أَنَّهُ لَیسَ عَلَی وُضُوءٍ فَتَیمَّمَ مِنْ دِثَارِهِ کَائِناً مَا کَانَ لَمْ یزَلْ فِی صَلَاةٍ مَا ذَکَرَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ )۸جو شخص رات با وضو ہو کر بستر پر لیٹتا ہے تو اس کا بستر مسجد کی مانند ہے ۔اگر اسے یاد آجائے تو اپنے لحاف پر ہی تیمم کرے تو ایسا شخص گویا ساری رات ذکر خدا کے ساتھ نماز میں مشغول رہا ہے۔
آیہ وضو:(يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلىَ الصَّلَوةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلىَ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلىَ الْكَعْبَين)۹اے ایمان والو !جب تم نماز کےلئے اٹھو تو اپنےچہروں اور اپنے ہاتھوں کو  کہنیوںسمیت دھولیا کرو نیز اپنےسروں کا اور ٹخنوں تک پاوٴں کا مسح کرو ۔ 
آیہ کریمہ سےمعلوم ہوتا ہےکہ وضو دو چیزوں سےتشکیل پاتاہے:ایک دھونےاور دوسرا مسح کرنے کے ذریعے۔شیعہ واہل سنت کے درمیان جن چیزوں میں اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ اعضائےوضو کو کس طرح دھونا چاہیے ؟ وضو کے اعضاء کو اوپر سے نیچےکی طرف دھونا چاہیے یا جس طرح سےبھی دھوئے کافی ہے اسی طرح پاوٴں کو دھونا ضروری ہےیا صرف مسح کرنا چاہیے ؟
شیعہ فقہاءکےنزدیک مشہورنظریہ یہ ہے کہ چہرہ اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے ۔۱۰یہ مطلب  اگرچہ آیہ وضو میں بیان نہیں ہواہے لیکن ائمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ ہاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک دھونا چاہیے ۔معمولا ہاتھوں اور دوسرے اعضاء کو دھوتےوقت اوپر سے نیچے کی طرف دھوتےہیں ۔لہذااگر کسی جگہ لفظ بطورمطلق ذکر ہو تو وہ رائج فرد کی طرف انصراف پیدا کرتاہے ۔علاوہ ازیں متقدمین میں سے سوائے سید مرتضی  کے کسی اور نے اس مطلب کی مخالفت نہیں کی ہے جیساکہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کےاصحاب سے بھی اس کی مخالفت میں کوئی چیزنقل نہیں ہوئی ہے ۔لہذا ان دلائل و شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کا مسلمہ نظریہ یہ ہے کہ وضو میں ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے ۔۱۱
یہاں یہ بات قابل توجہ ہےکہ آیہ کریمہ (وایدیکم الی المرافق)میں لفظ (الی)ہاتھوں  کےدھونے کی حد کو بیان کرتی ہے نہ ہاتھوں کے دھونےکی کیفیت کو،جیساکہ بعض لوگوں کا گمان ہے  کیونکہ عربی زبان میں کلمہ(ید)مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے  ۔کبھی صرف انگلیوں کو، کبھی انگلیوں سے کلائی تک کو اورکبھی انگلیوں سےکندھے تک کو (ید)کہا گیا ہے۔لہذا اس کی حد معین کرنے  کے لئےقرینے کی ضرورت ہے جس کی بنا پر قرآن نے(الی المرافق) کہہ کر دھونے کی حد کو بیان کیا ہے ۔جب کسی انسان سےکہا جاتا ہے کہ اپنے ہاتھوں کو دھو لے توممکن ہے کہ وہ شخص صرف کلائیوں تک ہاتھوں کو دھو لے  کیونکہ اکثر اوقات ہاتھوں کو یہیں تک دھویا جاتا ہے اس لئے اس غلطی کو دور کرنےکے لئے{ الی المرافق} کہاگیا ہے ۔
آیہ کریمہ میں ہاتھوں  کے دھونے کی کیفیت بیان نہیں ہوئی ہے کہ ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے یا نیچے سےاوپر کی طرف ،یہاں لفظ بطورمطلق ذکر ہوا ہے اس لئے اس کا انصراف عام اور متعارف طریقے کی طرف ہے ۔ عرف عام میں بدن کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جاتا ہے مثلا  اگر کوئی ڈاکٹر حکم دے کہ بیمارکے پاوٴں کوگھٹنوں تک دھویا جائےتو معمولا پاوٴں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں نہ برعکس۔ ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی روایتوں میں اسی طریقے سے وضوکرنےکو لازم قرار دیا ہے ۔بنابریں وضو کرتے وقت چہرےاورہاتھوں کو اوپر سے نیچےکی طرف دھونا چاہیے ۔
طبرسی کے نقل کےمطابق وضومیں چہرے اورہاتھوں کواوپر سے نیچےکی طرف دھونے اور اس کے صحیح ہونے میں اختلاف نہیں ہے بلکہ ان اعضاءکو نیچےسےاوپرکی طرف دھونے اور اس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے  ۔۱۲
یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وضو میں چہرے اورہاتھوں کواوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاہیے اور اس بات پر خود آیہ کریمہ دلالت کرتی ہے اور یہ مطلب اس وقت واضح ہوجاتاہے جب لفظ (الی)(ایدی) کےلئے قید ہو نہ کلمہ (غسل)  کے لئے کیونکہ کلمہ (غسل)کےلئے قید ہونےکی صورت میں  آیہ کریمہ دھونے کی کیفیت کو بیان کرے گی  یعنی ہاتھوں کو انگلیوں سے کہنیوں تک دھویا جائے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونے میں کسی کا  اتفاق نہ ہو۔۱۳{جب کہ شیعہ علماء اس بات پر متفق ہے کہ وضو میں ہاتھوں کو اوپر سےنیچےکی طرف دھونا چاہیے}
شیعہ اس بات پرمتفق ہےکہ وضومیں پاوٴں کا مسح کرناچاہیےلہذا گر کوئی مسح کرنےکے بجائے اسے دھولے تو وضو باطل ہوجاتا ہے ۔یہ مطلب ائمہ اہل بیتعلیہم السلام کی احادیث  کےعلاوہ خود آیہ کریمہ سےبھی واضح ہوجاتا ہے  کیونکہ قرآن کریم پہلےدوعضوکے دھونے کا حکم دیتاہے اور اس کے بعد دوسرے دو عضو پر مسح کرنے کا حکم دیتا ہےچنانچہ ارشاد ہوتاہے:
1۔(فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلىَ الْمَرَافِقِ)اپنےچہروں اور اپنے ہاتھوں کو  کہنیوںسمیت دھولیا کرو ۔
2۔(وَ امْسَحُواْ بِرُءُوسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلىَ الْكَعْبَين(اور اپنےسروں کا اور ٹخنوں تک پاوٴں کا مسح کرو ۔
آیہ کریمہ کے اس  حصے(وأرجلکم)کو مجرور یا منصوب پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دونوں قرائتوں کی صورت میں(أرجلکم)کلمہ (رؤوسکم)پرعطف ہے ۔اگر(أرجلِکم)کو مجرور پڑھیں تو یہ کلمہ(رؤوسکم) کے ظاہر پر عطف ہوتا ہے لیکن اگر (أرجلَکم)کو منصوب پڑھیں تو یہ کلمہ(رؤوسکم) کے محل پر عطف ہوگا۔ اصحاب اور تابعین کی ایک جماعت بھی اسی نظریے  پر قائم تھی جیسے ابن عباس ،انس بن مالک ،ابو العالیہ ،شعبی اور عکرمہ  اسی طرح زیدیہ  کےبزرگوں میں سے حن بصری اور ناصر الحق بھی پاوٴں کےدھونے اور مسح کرنے میں تخییر کےقائل تھے ۔۱۴
اہل سنت  کےبزرگان  وضو میں  پاوٴں کے دھونے کو واجب قرار دیتے ہوئے ان پر مسح کرنےکو کافی نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ اپنی روایت کی کتابوں میں موجودبعض احادیث پر استناد کرتے ہیں جبکہ یہ احادیث آیہ وضو کی تفسیر بیان نہیں کرتیں ۔ ان احادیث کی دو قسمیں ہے  بعض احادیث مسح کےوجوب کو بیان کرتی ہیں  جبکہ بعض احادیث دھونے کے وجوب کو بیان کرتی ہیں  ۔اہل سنت کا نظریہ آیہ وضو  کے ظاہری معنی کےساتھ سازگار نہیں ہے اس لئےانہوں نے اس کی مختلف طریقوں سے توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے:
1۔کلمہ (أرجلِکم)مجرور ہے اور یہ (رؤوسکم) کے ظاہرپرعطف ہوا ہے لیکن یہاں مسح سےمراد دھونا ہے ۔
جواب:یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ کلمہ (غسل و مسح) شرع اور لغت دونوں میں مختلف معنوں میں استعمال ہوئےہیں  ۔ اگر کبھی مجازی طور پر ایک دوسرے  کےمعنی میں استعمال ہو تو جہاں قرینہ موجود نہ ہو وہاں اس فرض کو قبول نہیں کر سکتے ۔ البتہ اہل سنت کی جن حدیثوں میں دھونے کو واجب قرار دیا گیا ہے وہ مسح  کے وجوب کو بیان کرنے والی حدیثوں کے ساتھ ٹکراتی ہیں ۔علاوہ ازیں یہ حدیثیں علم و یقین کا بھی  فائدہ نہیں دیتیں اس لئے ان کے ذریعے قرآن کریم  کے ظاہر سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔ بعبارت دیگریہ احادیث آیہ کریمہ کے ظاہری معنی کےساتھ تعارض رکھتی ہیں۔ ادبی قواعد کےمطابق معطوف اور معطوف علیہ کاحکم ایک ہونا چاہیے لہذا جب(أرجلِکم)کو(رؤوسکم) پر عطف کریں تو معطوف علیہ  کا حکم معطوف  کے لئے بھی ہونا چا ہیے جس کا لازمہ پاوٴں کا مسح کرنا ہے ۔  
2۔ کلمہ (أرجلِکم)(رؤوسکم) کے ظاہرپرعطف ہوا ہے اور یہ مجرورہے لیکن اس کاحکم مسح کرنا نہیں ہے بلکہ دھونا ہے اور (أرجلِکم)کامجرور ہونا از باب قرب و جوارہے جیسے (جُحر ضبٍّ خرب) لفظ (خرب)(جحر)کی صفت ہے اگرچہ ظاہرا کلمہ (ضب) کی صفت واقع ہوئی ہے اور یہ مجرور ہے ۔
جواب:یہ توجیہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ زجاج لکھتا ہے :قرآن کریم میں عطف بالجوار جائز نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ کہ جو لوگ اسے جائز سمجھتے ہیں وہ ان مورادمیں ہے جہاں معطوف اور معطوف علیہ کےدرمیان حرف عطف موجود نہ ہو حالانکہ آیہ کریمہ  میں حرف عطف موجود ہے  لہذا عطف بالجوار جائز نہیں ہے۔علاوہ ازیں عطف بالجوار وہاں جائز ہے  جہاں غلطی کا  احتمال موجود نہ ہو  جیسے مذکورہ مثال میں  صفت (خرب)( حجر) کےساتھ مربوط ہے نہ (ضب) کےساتھ، جبکہ آیہ کریمہ میں ایسا نہیں ہےکیونکہ پاوٴں کا مسح کرنا سر کےمسح کی طرح ممکن ہے  ۔نحو کےعلماء و محققین  نے عطف بالجوار سے بالکل انکار کیا ہے  اور اس طرح کے مثالوں(جُحر ضب خرب )کے بارےمیں کہتےہیں :حقیقت میں یہ عبارت اس طرح تھی (خرب جحره)مضاف الیہ حذف ہوا ہےاور ضمیر مجرور اس  کے جگہ پرآیا ہےاورایک ضمیر {خرب} میں بھی  مستتر ہے  ۔
3۔کلمہ (أرجلکم)(رؤوسکم)کے ظاہر پر عطف ہوا ہے اور یہ شاعر کےاس قول کی طرح ہے جیسے(علفتها تبنا و ماءً باردا)جبکہ حقیقت میں یہ عبارت اس طرح سے تھی (علفتها تبنا وسقیتها ماءً باردا) یہ  قول اخفش سے نقل ہوا ہے ۔اس قول کا لازمہ یہ ہےکہ آیہ کریمہ میں کلمہ (اغسلوا)تقدیر میں ہویعنی اصل میں آیہ کریمہ اس طرح ہو:(وامسحوا برؤوسکم واغسلواأرجلکم إلی الکعبین)یعنی اپنےسر کا مسح کرو اورٹخنےتک اپنے پاوٴں کو دھووٴ۔
جواب:یہ توجیہ سابقہ توجیہات سے بھی زیادہ ضعیف ہے کیونکہ کسی چیز کو تقدیر میں اس وقت رکھی جاتی ہے  جب کلام کو اس کےظاہر پر حمل کرنا ممکن  نہ ہو جیسے مذکورہ شعر میں، کیونکہ گھاس دینا پانی دینے کے علاوہ ایک الگ فعل ہے  جبکہ آیہ کریمہ میں اس قسم کی کوئی مشکل نہیں ہے ۔
4۔کلمہ (أرجلَکم)منصوب اور (ایدیکم) پر عطف ہے  جس کےنتیجے میں معطوف اور معطوف علیہ کاحکم ایک ہوگا یعنی ہاتھوں اور پیروں کو دھونا چاہیے ۔
جواب:اس توجیہ کا لازمہ یہ ہے کہ معطوف(أرجلَکم)اور معطوف علیہ(ایدیکم)کے درمیان جملہ معترضہ(وامسحوا برؤوسکم)قرار پائے گا جو عربی زبان کے قواعد کےمطابق صحیح نہیں ہےجبکہ اس طریقے سے گفتگو کرنا انسانوں  کے درمیان میں بھی رائج نہیں ہے  چہ جائیکہ کلام الہی میں ایسا ہو جو کہ فصاحت و بلاغت کاشاہکار ہے ۔۱۵
اہل سنت کے بعض علماء نےشیعوں کے نظریے پر جو کلام الہی  کے ساتھ سازگار ہے اعتراض کیا ہے ۔یہاں ہم ان اعتراضات کا  مختصراجواب دینے کی کوشش کرتے ہیں :
1۔آیہ کریمہ میں لفظ (کعبین)(أرجلکم) کی غایت کے عنوان  سے ذکر ہوا ہے  جیسے(وأرجلکم إلی الکعبین)کعبین سے مراد پاوٴں کے ٹخنے  کے اطراف میں موجود دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں جبکہ غایت مغیا  کے حکم میں شامل ہے   اور یہ کام مسح کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا ہے  بلکہ پیروں کو دھونے سے حاصل ہو جاتاہے ۔۱۶
جواب:اگر ہم کعبین سے مذکورہ ہڈیاں مراد بھی لیں تب بھی ان دونوں پر مسح ممکن ہے یعنی دونوں پیروں  کا اس طرح مسح کریں کہ مذکورہ حصہ بھی اس میں شامل ہوجائے ۔
2۔شیعوں نے(کعب) کی تفسیر  پاوٴں کے ابھرےہوئے حصے سے کی ہے  جبکہ ہر پاوٴں میں صرف ایک کعب ہوتاہے  حالانکہ آیہ کریمہ میں (کعبین)تثنیہ آیا ہے  ۔شیعوں کے نظریے کےمطابق یہاں جمع کا صیغہ آنا چاہیے مثلا (کعاب)جیسےہاتھوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے :(الی المرافق)۱۷
جواب: جس طرح جمع  کا صیغہ مناسب ہے اسی طرح تثنیہ کا صیغہ بھی مناسب ہے ۔ ہاتھوں اورپیروں کے بارے میں (المرافق)(کعبین) استعمال کرنےکی وجہ ہمارےلئے واضح نہیں ہے ۔یقینا لفظ(مرافق)مرفقین سے اور لفظ (کعبین)کعاب سے زیادہ واضح ہے ۔ علاوہ ازیں اگر کعب سے مراد پیروں کے اطراف میں موجود برآمدگی لے لیں{ جیسا کہ بعض شیعہ علماءکا نظریہ ہے}تب بھی آیہ کریمہ پاوٴں  کے دھونے کے وجوب کو بیان نہیں کرتی بلکہ  فقط مسح کا واجب مقدار  بیان کرتی ہے  ۔
4۔وضو کی حکمت اور عقلی نقطہ نظر سے بھی  ہمیں اس بات کا قائل ہونا چاہیے کہ آیہ کریمہ سےمراد پاوٴں کا دھونا ہے نہ   مسح کرنا ،کیونکہ اگرپاوٴں کےاوپر کوئی گردد وغبار ہو تواس کے اوپر مسح کرنے سے نہ صرف طہارت وپاکیزگی حاصل نہیں ہوگی بلکہ یہ عمل اس کے مزید آلودہ ہونےکا سبب بنتا ہے ۔۱۸
جواب:اگرچہ احکام شرعی مصالح و مفاسد پر مبتنی ہیں لیکن ان حکمتوں کی مکمل شناخت انسان  کےاختیار میں نہیں ہے مخصوصا عبادتوں کی حکمتوں کا علم انسان کےپاس نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں فقہ شیعہ میں اعضائے وضو کی طہارت کے بارے میں کافی تاکید ہوئی ہے ۔اسی لئے وضو سےپہلے وضو کےاعضاء کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک کرنا ضروری ہے ۔بزرگان شیعہ کی سنت بھی یہی رہی ہے کہ وہ وضو کرنے سےپہلے اعضائے وضو کو ہر قسم کی آلودگیوں سےپاک کرتے تھے ۔ شاید یہ بات جو اہل سنت کی روایتوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتےوقت پاوٴں کو دھوتے تھے اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ  ؐ نظافت کی خاطر  پاوٴں کو دھوتے تھے نہ وضو کے قصد سے  ۔۱۹
حوالہ جات:
۱۔وسائل الشیعۃ ،ج1 باب وضو ،حدیث 1،ص256۔
۲۔ایضاً ،حدیث 4۔
۳۔ایضاً ،حدیث  7۔
۴۔امالی ،شیخ مفید ص6 ح5
۵۔نہج الفصاحہ ص۲۸۶، ح ۶۶۰
۶۔تفسیر عیاشی ج ۱، ص۴۳، ح ۳۹
۷۔وسائل الشیعہ ج۱ ص۳۷۷
۸۔من لا یحضره الفقیہ، ج ۱، ص۵۰
۹۔تہذیب الاحکام ج2 ص116
۱۰۔مائدۃ،6۔
۱۱۔ التنقیح ،ج 5 ، ص61۔
۱۲۔ جمع البیان ج2، ص164۔
۱۳۔المیزان، ج5،ص221۔
۱۴۔مجمع البیان ،ج2،ص164۔تفسیر طبری ،ج6،ص83۔
۱۵۔مجمع البیان،ج2،ص 167۔
۱۶۔تفسیر المنار ،ج6،ص 234۔
۱۷۔ایضا ،ص233۔
۱۸۔تفسیر المنار،ص234۔
۱۹۔سید شرف الدین عاملی ،سبع مسائل فقہیۃ ،ص82۔آیۃ اللہ جعفر سبحانی ،الاعتصام بالکتاب و السنۃ،ص19۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...