وسیلہ

وسیلہ کونسی شے ہوتی ہے؟

 

جو کسی کی طرف پہنچنے کا ذریعہ ہو۔ اس کام کا وسیلہ یہ ہے یعنی یہ کام اس ذریعہ سے ہوسکتا ہے۔ اس شہر کا وسیلہ وہ سواری ہے جو اس شہر تک پہنچاسکے۔ کوئی پوچھے کہ وہاں پہنچنے کا کیا وسیلہ ہے؟ تو آپ بتائیے گا کہ وہاں تک یہ سواری جاسکتی ہے۔ یہ پہنچا دے گی۔ تو جو شے جس قسم کی ہو،اُس کا وسیلہ اسی قسم کا ہوسکتا ہے۔ پھر وہ سیلہ کس کا ہوگا؟ یہ اُس شے سے جو چیز متعلق ہو اس کے حصول کا وسیلہ ہوگا۔ مثلاً اگر کوئی منزل ہے تو چونکہ وہ ایک ظرفِ مکان ہے، ایک جگہ ہے تو وسیلہ اس کا کوئی جسمانی ہوگا جو اپنی جنبش اور حرکت کے ساتھ آپ کو اس جگہ تک پہنچا دے۔ کسی غذا کو پوچھئے کہ اس غذا کا وسیلہ کیا ہے تو غذا سے متعلق کھانا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ کھانے کیلئے یہ کیونکر مل سکتی ہے۔ کوئی کام انجام پانا ہے، یہاں کیا ہے خدا کی طرف وسیلہ۔ توخدانہ ظرفِ مکان میں مقید ہے، نہ ظرفِ زمان میں مقید ہے۔ تو وسیلہ اس کا اب کوئی مرکب نہیں ہوسکتا۔ سواری جو اس تک پہنچا سکے۔وہ تو اس وقت ہو جب وہ کسی محل میں ، کسی مکان میں ہو تو پھر مسافت طے کرنے کیلئے سواری درکار ہوگی کہ وہ اس تک پہنچا سکے۔ کعبہ تک پہنچنے کا ذریعہ تو سواریاں ہوں گی مگر خدا تک پہنچنے کا ذریعہ سواریاں نہیں ہوں گی۔ ہزار دفعہ ممکن ہے کہ کعبے پہنچ جائے۔مگر خدا تک ایک دفعہ بھی نہ پہنچ سکے۔

بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
“وَابْتَغُوْااِلَیْه الْوَسِیْلَة”۔ ارشادِ حضرتِ احدیت ہے کہ اپنے پروردگار کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ “اِلَیْہِ”ضمیر ہے”اس کی طرف”۔وہ کون ہے؟ اللہ۔ اس کی جانب وسیلہ تلاش کرو۔ طلبگار ہو۔ وسیلہ کون شے ہوتی ہے؟ جو کسی کی طرف پہنچنے کا ذریعہ ہو۔ اس کام کا وسیلہ یہ ہے یعنی یہ کام اس ذریعہ سے ہوسکتا ہے۔ اس شہر کا وسیلہ وہ سواری ہے جو اس شہر تک پہنچاسکے۔ کوئی پوچھے کہ وہاں پہنچنے کا کیا وسیلہ ہے؟ تو آپ بتائیے گا کہ وہاں تک یہ سواری جاسکتی ہے۔ یہ پہنچا دے گی۔ تو جو شے جس قسم کی ہو،اُس کا وسیلہ اسی قسم کا ہوسکتا ہے۔ پھر وہ سیلہ کس کا ہوگا؟ یہ اُس شے سے جو چیز متعلق ہو اس کے حصول کا وسیلہ ہوگا۔ مثلاً اگر کوئی منزل ہے تو چونکہ وہ ایک ظرفِ مکان ہے، ایک جگہ ہے تو وسیلہ اس کا کوئی جسمانی ہوگا جو اپنی جنبش اور حرکت کے ساتھ آپ کو اس جگہ تک پہنچا دے۔ کسی غذا کو پوچھئے کہ اس غذا کا وسیلہ کیا ہے تو غذا سے متعلق کھانا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ کھانے کیلئے یہ کیونکر مل سکتی ہے۔ کوئی کام انجام پانا ہے، یہاں کیا ہے خدا کی طرف وسیلہ۔ توخدانہ ظرفِ مکان میں مقید ہے، نہ ظرفِ زمان میں مقید ہے۔ تو وسیلہ اس کا اب کوئی مرکب نہیں ہوسکتا۔ سواری جو اس تک پہنچا سکے۔
وہ تو اس وقت ہو جب وہ کسی محل میں ، کسی مکان میں ہو تو پھر مسافت طے کرنے کیلئے سواری درکار ہوگی کہ وہ اس تک پہنچا سکے۔ کعبہ تک پہنچنے کا ذریعہ تو سواریاں ہوں گی مگر خدا تک پہنچنے کا ذریعہ سواریاں نہیں ہوں گی۔ ہزار دفعہ ممکن ہے کہ کعبے پہنچ جائے۔مگر خدا تک ایک دفعہ بھی نہ پہنچ سکے۔
اسی طرح سے فرض کیجئے غذا کا وسیلہ جوہوگا، اس کا مقصد کھانا ہوگا۔ تو اس کی طر ف پہنچنے کیلئے نہ کوئی سواری ہوسکتی ہے جو لے جائے، پھر اللہ تک پہنچ کر ہمارا کام اس کی ذات سے کوئی متعلق ہوسکتا ہے۔نہ وہ اوڑھنے کی چیز ہے، نہ بچھانے کی چیز ہے۔ کوئی ہمارا مقصد اس سے وابستہ نہیں ہے کہ وہ مقصد ہمارا اس طرح سے حاصل ہو۔ تو اب اللہ کی طرف وسیلہ، یعنی اللہ سے متعلق کوئی چیز ماننا پڑے گی جس کا یہ وسیلہ ہو۔ مثلاً رضائے الٰہی کا وسیلہ ،خود اس کی ذات کی طرف کیونکر رسائی ہوگی؟تو اس کی طرف وسیلہ کا مطلب ہوا اُس کی رضا کا وسیلہ۔ اس کے راضی رکھنے اور اپنے سے خوشنود بنانے کا وسیلہ کیا ہے؟ اگر ہم کہیں کہ اس کے قرب کا وسیلہ تو وہ جب کسی مسافت پر نہیں ہے تواس کا قرب کیسا؟ وہاں ہمیں قربۃ الی اللہ کی تشریح کرنا پڑے گی کہ قربۃ الی اللہ کے کیا معنی ہوتے ہیں؟اللہ کی طرف نزدیک ہونے۔ یعنی کیا ایک نماز سے پہلے ہم دس میل دور تھے اور نماز کے بعد ایک میل اُدھر چلے جائیں گے۔ یا وہ اپنے محل سے (معاذاللہ) ایک میل اِدھر آجائے گا؟
تو قربۃ الی اللہ کیا چیز ہے؟ اس کی تشریح کی ضرورت ہوگی۔ اب قربِ الٰہی کے وسیلہ کا کیا مطلب؟ وہ بھی نتیجہ کے طور پر وہی کہ رضائے الٰہی کا ذریعہ۔ اسی کو کہیں گے اس کی طرف کا وسیلہ۔ معلوم ہوا کہ بغیر وسیلہ کے اس کی رضا نہیں ملے گی۔ اگر اس کی تعبیر قرب سے کی جائے تو بغیر ا س کے وسیلہ کے قرب نہیں ملے گا۔قرآن کہہ رہا ہے کہ اس کی طرف وسیلہ اختیار کرو۔ تو جب ہم غور کرتے ہیں تو اصل وسیلہ تو وہ ہے جس کو اُس نے اپنی طرف سے اپنی رضا کا ذریعہ بنایا ہے اور وہ ایمان و عمل ہے۔
ایمان و عملِ صالح کے بارے میں اُس نے کہا کہ جو ایسا کرتے ہیں، میں اُن سے راضی ہوتا ہوں۔ میں انہیں اجروثواب دیتا ہوں۔ جب ہم قرآن مجید پر نظر ڈالتے ہیں تو کہیں ہمیں تنہا ایمان پر جنت کا وعدہ نہیں ملتا۔ ہر جگہ ایمان اور عملِ صالح ۔ کبھی حرفِ عطف کے طور پر کہ:
“اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ”۔ “جو ایمان لائے اور انہوں نے عملِ صالح کیا”۔
اس عملِ صالح کی تعبیریں مختلف ہیں۔ کہیں”اٰمَنُوْاوَاتَّقُوْا”، ایمان لائیں اور پرہیزگار رہیں، کہیں”اٰمَنُوْاوَاَحْسَنُوْا”، ایمان لائیں۔ اس “اَحْسَنُوْا”پر ہمارے اُردو دان طبقے کو بڑی دشواری ہوتی ہے اور وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض الفاظ اُردو میں معنی بدل کر آگئے ہیں۔ عربی میں اس کے کچھ اور معنی ہیں۔ لیکن اُردو میں لفظ وہی ہے اور اس کے معنی کچھ اور ہوگئے ہیں۔ مثلاً یہ احسان کا لفظ ایسا ہے کہ ہم جب لفظِ احسان کہتے ہیں تو اس سے وہ مفہوم نہیں نکلتا جو عربی میں لفظِ احسان کا ہے۔اس لئے جب ہم عربی میں لفظِ احسان دیکھتے ہیں تو ہم اُسے اپنے مفہوم پر ڈھالتے ہیں۔ ہمارے ہاں احسان ایک بارِ منت کا ثبوت دیتا ہے۔ یعنی کسی کے ساتھ بلا استحقاق کوئی سلوک کیا جائے، تو اُسے ہم کہیں گے احسان۔ مثلاً کسی صاحب پر آپ کا قرضہ ہو اور وہ قرضہ جو آپ کا مطالبہ تھا، وہ لاکر آپ کو دے دیں۔ آپ کہیں گے کہ آجکل مجھ کو بڑی ضرورت تھی، آپ نے بڑا احسان کیا۔وہ کہیں گے کہ احسان کیسا، وہ تو آپ کا مطالبہ تھا میرے ذمہ۔
تو انہوں نے یہ کیوں کہا کہ احسان کیسا؟ اس کے معنی یہ ہیں کہ احسان وہ ہے جو بلاحق ہو۔جو فرض کا اداکرنا ہو، وہ احسان نہیں ہوتا۔ لیکن اب ہم ذاکرین سے ایک حدیث سنا کرتے ہیں ، اس کا ترجمہ بھی وہ لفظِ احسان سے کردیتے ہیں، تو ہم غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں:
“مَنْ بَکٰی عَلَی الْحُسَیْنِ اَحْسَنَ بِالنَّبِیِّ وَفَاطِمَة”۔ میں تو اس ترجمے کو (معاذاللہ) کے ساتھ کہتا ہوں کہ جس نے گریہ کیا، اُس نے (معاذاللہ) رسول اور فاطمہ پر احسان کیا۔
کیا میرے کہنے کے بعد آپ کا ضمیر گوارہ کرتا ہے کہ احسان کریں گے؟ ہم گریہ کریں عمر بھر اور اس سے بڑھ کر خون کے آنسو روئیں تو ان کا حق ہم سے ادا نہیں ہوسکتا۔ چہ جائیکہ ہم یہ تصور کریں کہ ہم احسان کریں گے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے:
“قَضٰی رَبُّکَ اَ لَا تَعْبُدُوْااِلَّا اِیَّاه وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا”۔ تمہارے پروردگار کا یہ فیصلہ ہے کہ عبادت تو اس کے سواکسی اور کی نہ کرو مگر ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔
اب احسان کے لفظ سے وہی معنی پیدا ہوگئے کہ ان ماں باپ کے ساتھ جو کریں گے، وہ ہمارا احسان ہوگا۔ حقیقت میں یہ ہماری اُردو زبان کے لفظ کی کوتاہی ہے۔ عربی زبان کے معنی میں احسان کے معنی ہیں حسن عمل۔یعنی جو فرض ہے، وہ ادا کرنا احسان ہے۔
اس لئے جو لفظ “عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ” کے معنی ہیں، وہی لفظ”اَحْسَنُوْا”کے معنی ہیں۔
“اِنَّ اللّٰه لَا یُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْنَ”۔ اللہ نہیں ضائع کرتا اجر حسن عمل رکھنے والوں کا۔
لوگ ایسے جملے وہاں صرف کرتے ہیں جیسے چندہ کہیں مانگا جارہا ہو تو وہاں صرف کرتے ہیں۔
“اِنَّ اللّٰه لَا یُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْنَ”۔”اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ” درحقیقت ان کے ذہن میں وہی اُردو والا احسان ہوتا ہے۔ تو عربی میں احسان کے معنی ہیں حسن عمل سے کام لینا۔ تو کہیں پر”اٰمَنُوْاوَاتَّقُوْا”، کہیں پر”اٰمَنُوْاوَاَحْسَنُوْا”، کہیں پر بطور قید کہ:
“اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰت” ۔”جو ایمان لائے اور حسن عمل کیا”۔
کہیں پر عملِ صالح کے ساتھ ایمان کی قید ، کہیں پر ایمان کے ساتھ عمل صالح کی قید۔مثلاً ارشاد ہوتا ہے کہ جو بھی:
“مِنْ ذَکَرٍاَوْاُنْثٰی”۔مرد یا عورت ایمان لائے گا۔
“وَهوَمُحْسِنٌ” ۔درآں حالیکہ حسن عمل کرے گا۔
“مَنْ عَمَلَ صَالِحًامِنْ ذِکْرٍ اَوْاُنثٰی”۔
جو عمل صالح کرے مرد یا عورت، درآح حالیکہ وہ موٴمن ہو۔
تو یہاں اصل سرنامہ اجر عملِ صالح اور ایمان بطور قید اور کہیں پر یوں کہ:
“بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْهه لِلّٰه وَهوَمُحْسِنٌ”۔ جو مسلمان ہو سر جھکائے ہوئے اللہ کے سامنے۔
اپنے کو سپردِ خدا کئے ہوئے ہو، دین اسلام اختیار کئے ہوئے ہو”وَھُوَمُحْسِنٌ”، درآں حالیکہ وہ حسن عمل رکھتا ہو۔ تو معلوم ہوا کہ ایمان کے ساتھ ساتھ حسن عمل۔ لیکن اب تلاش کر ڈالئے”کَفَرُوْا”کے ساتھ “عَمِلُواالسَّےِّئَات”نہیں ہے۔ اُدھر یہ نہیں کہا گیا کہ جو کفر کرے اور بداعمال ہو، پھر وہ دوزخ میں جائے گا۔ جہاں وعید ہے وہاں کفر کے ساتھ اعمال کا ذکر نہیں ہے۔ جہاں وعدہ ہے یعنی اجر کا اعلان ہے، وہاں ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ کفر کے ساتھ تو اعمال پر نظر ہی نہیں ہوتی۔ جب ایمان ہو تو عمل کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ عمل صالح ہے یا نہیں۔
اب ایک اور حقیقت ِقرآنی ہے جسے آپ قرآن مجید کا شروع سے آخر تک مطالعہ کرکے اور قرآن مجید کی آیات دیکھ کر معلوم کرسکتے ہیں۔ ایک رسالہ میرا ہے، اس میں سو آیتیں تقریباً اس سلسلہ کی درج ہیں۔ قرآن کا مطالعہ کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ آخرت میں جو اجر کا اعلان ہوا ہے، وہ ہمیشہ عمل پر ہوا ہے، ایمان پر نہیں۔ جو ہم اعمال کریں گے، اس کا اجر ملے گا۔ یہ نہیں ہے کہ ایمان کا اجر ملے گا۔ جو اعمال کئے ہیں، اُس کا اجر ہوگا۔ ایمان شرط ہے، حصول اجر ہے، اصل اجر ہے اعمال کا۔
اگر ہم نے شرط پوری کی اور اعمال نہ کئے تو ایسا ہے جیسے وضو کرلیا اور نماز نہیں پڑھی۔ یہ جو اصطلاح ہے اصولِ دین اور فروعِ دین کی، یہ در حقیقت اسی واقعیت کا اظہار ہے۔ لوگ اس فروعِ دین کے لفظ سے بھی غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ارے نماز وغیرہ تو فروعی چیزیں ہیں۔ گویا فروعی کرکے اس کی اہمیت کو کم کرتے ہیں حالانکہ پیغمبر خدا کے پاس جو کوئی مسلمان ہونے کیلئے آتا تھا تو آپ اسے یہ دو الفاظ میں بتاتے بھی نہیں تھے کہ یہ اصولِ دین ہیں، یہ فروعِ دین ہیں۔یہ ہم بچوں کو سکھاتے ہیں کہ یہ اصولِ دین ہیں، یہ فروعِ دین ہیں۔ پیغمبر خدا کسی مسلمان کو یہ نہیں بتاتے تھے کہ دیکھو! اصولِ دین یہ ہیں ، انہیں یاد کرو اور فروعِ دین یہ ہیں، انہیں یاد کرو بلکہ آپ فرماتے تھے کہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لاؤ اور نماز پڑھو یعنی ایک دم پیغامِ توحید اور پیغامِ صلوٰة۔
اس وقت اس کو یہ فرق سمجھایا ہی نہیں جاتا تھا۔ یہ حقیقت میں علماء کی قائم کی ہوئی اصطلاح ہے اصولِ دین اور فروعِ دین۔ نہ قرآن میں یہ امتیاز ہے، نہ احادیث میں۔ یہ ایک حقیقت کے اظہار کیلئے ہے جس کو نظر انداز کرکے لوگ اہم اور غیر اہم کے فرق میں اس کا استعمال کرتے ہیں کہ وہ اہم ہیں اصولِ دین اور یہ بیچارے فروعِ دین ہیں۔ یہ بیچارے پن کیلئے فروعِ دین کی اصطلاح نہیں تھی۔ یہ حقیقت کے اظہار کیلئے تھی۔ وہ اس لئے تھی کہ اصولِ دین کے معنی دین کی جڑیں اور فروعِ دین کے معنی دین کی شاخیں۔یہ ایک حقیقت کا اظہار ہے کہ اصول یعنی جڑیں نظروں کو دکھائی نہیں دیتیں ،وہ اندر اندر پھیلتی ہیں ۔جو نظر آتی ہیں، وہ شاخیں ہوتی ہیں اور وہ وابستہ ہوتی ہیں ان جڑوں سے اور ان جڑوں کے ذریعہ سے ان تک خونِ حیات پہنچتا ہے۔وہ سبب ہوتی ہیں اور شاخیں اثر ہوتی ہیں اور وہ سبب جو ہے، وہ اندر اندر ہوتا ہے اور وہ شاخیں باہر ہوتی ہیں۔ اسی طرح عقائد ِحق جو معیارِ ایمان ہیں،وہ دل و دماغ کی تہوں کے اندر پھیلتے ہیں اور ان کے آثار ہیں جو اعمال کی صورت میں اعضاو جوارح سے نمودار ہوتے ہیں۔
تو جڑیں اگر مضبوط ہیں اور زندہ ہیں تو پھر ممکن ہی نہیں ہے کہ شاخیں نہ ہوں ۔ وہ ان کا لازمی نتیجہ ہیں اور اگر شاخیں پژمردہ ہیں اور خشک ہیں یا موجود ہی نہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ جڑ مردہ ہے۔ جڑ میں زندگی نہیں ہے۔ اب اس کا علاج کیا ہے؟ شاخوں کو پانی میں ڈبونے سے کام نہیں چلے گا، جڑوں میں پانی دینے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح سے اگر اعمالِ صالح مفقود ہیں یاان کی طرف نظر تغافل ہے یا وہ کمزور نظر آتے ہیں تو سمجھنا پڑے گا کہ اصول مستحکم نہیں ہیں۔ دل و دماغ کے اندر وہ تصورات گویا سنے سنائے بس زبان پر ہیں۔ذہن کے اندر وہ تصوراتِ حقیقی واضح نہیں ہیں۔ اگر واضح اور راسخ ہوتے تو ممکن ہی نہیں تھا کہ شاخیں برآمد نہ ہوں۔ شاخیں نظر نہ آئیں۔
اب جنابِ والا!اگر جڑ مردہ ہے اوراس میں زندگی نہیں ہے تو شاخیں پژمردہ ہوں گی،ا فسردہ ہوں گی تو پھر ثمر کیا ملے گا؟ ثمر تو شاخوں ہی کے ذریعے سے ملتا ہے اور ان شاخوں کے ذریعہ سے ملتا ہے جو اصل سے وابستہ ہوں اگر اصل خشک ہے تو شاخوں سے ثمرنہیں ملتا۔فائدہ وقتی نمائشی شاخوں سے بھی حاصل ہوجائے گا۔ رونق چمن ہوگی، دیدہ زیبی ہوگی۔ ممکن ہے کہ اگر گھنی شاخیں ہوں تو سایہ بھی
ہوجائے، کچھ چھاؤں آرام کا باعث بن جائے مگر ثمر نہیں ملے گا۔ثمر انہی شاخوں سے ملے گا جو زندہ اصل سے متصل ہوں اور ایک اور خاصہ ہوگا نمائشی شاخوں کا کہ کسی تیز ہوا کے جھکڑ کو برداشت نہیں کرسکیں گی۔ بس جب تک حالات پرسکون ہیں، تب تک شاخیں نظر آرہی ہیں اور ادھر کوئی وقت کے خطرہ کا تیز جھکڑ چلا تو بس تمام شیرازہ بکھر جائے گا۔ کوئی شاخ کہیں ہوگی، کوئی کہیں ہوگی۔
اگر جڑ ہے ، کسی حالت میں ،خواہ مردہ ہو، خواہ خشک ہو مگر شاخیں نہیں ہیں تو ثمر پھر بھی نہیں ملے گا۔ مگر اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس جڑ میں زندگی پیدا ہوجائے تو پھر شاخیں نکل آئیں ۔اس لئے مایوسی انہی کو ہوگی جن کی جڑیں نہ ہوں۔ یہی قرآن نے کہا ہے:
“لَا ےَئِیْسُ مِنْ رَحْمَة اللّٰه اِلَّاالْکَافِرُوْنَ”۔ اللہ کی رحمت سے انہی کو مایوس ہونا چاہئے جو مانتے ہی نہیں ہیں، کافرین ہیں جو حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔جن کی اصل ہے ہی نہیں۔ اصل مایوس انہی کو ہونا چاہئے اور جہاں جڑہے، چاہے کچھ بھی ہو، مردہ ہو ، بے جان ہو،انہیں بالکل بے آس نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں اُمید ہونی چاہئے کہ کسی صورت سے ممکن ہے کہ اس کی تلافی ہوجائے اور اللہ کریم ہے۔اس نے اسی اُمید کو طاقت دینے کیلئے توبہ کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔ یہاں تک کہ معصوم نے ارشاد فرمایا، بعض باتیں ایسی ہیں کہ پوری اصل بات ایک دم سے کہہ دی جائے تو اس کی طرف نظر تغافل ہوجاتی ہے، اس لئے حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ حقیقت کو جرعہ جرعہ ، ایک ایک گھونٹ کرکے پہنچایا جائے۔ تو شروع میں اگر ذہن اُچاٹ بھی ہوجائے سننے والے کا تو دوسرے جملے میں شاید ذہن متوجہ ہوجائے۔ تیسرے جملے میں اور متوجہ ہوجائے۔ اس طرح اصل حقیقت بالکل رائیگاں نہ ہو۔ اس لئے اب معصوم کا کلام ہے، فرماتے ہیں:
“مَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِه بِسَنَةٍ قُبِلَتْ تَوْبَتَه”۔ جو اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرے، اس کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ ایک سال سے شروع کیا۔ اب فرماتے ہیں:
“مَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِه بِشَهرٍ قُبِلَتْ تَوْبَتُه”۔ ارے سال بہت ہوتا ہے، جو اپنی موت سے ایک مہینہ پہلے توبہ کرے، اُس کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
“اَ لَااِنَّ الشَّهرَ کَثِیْرٌمَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِه بِاُسْبُوْعٍ قُبِلَتْ تَوْبَتُه”۔ ارے ایک مہینہ بھی زیادہ ہے، جو اپنی موت سے ایک ہفتہ پہلے توبہ کرے، اس کی توبہ بھی قبول ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا:
“اَ لَا اِنَّ اُسْبُوْعٍ کَثِیْرٌ”۔ ارے ہفتہ بھی بہت ہوتا ہے،
“مَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِه بِیَوْمٍ قُبِلَتْ تَوْبَتُه” ۔جو اپنی موت سے ایک دن پہلے توبہ کرے۔
دیکھئے پہنچ گئی دن تک یہ بات۔ اب فرماتے ہیں:
“اَ لَا اِنَّ الْیَوْمَ کَثِیْرٌ” ۔ارے ایک دن بھی بہت ہے۔
“مَنْ تَابَ قَبْلَ مَوْتِه بِسَاعَة قُبِلَتْ تَوْبَتُه”۔ جو اپنی موت سے ایک ساعت پہلے توبہ کرے، اس کی توبہ بھی قبول ہوجاتی ہے۔
اب ہمارے سامنے تو انتہا ہوگئی کیونکہ صاحبانِ علم جانتے ہیں کہ ساعت گھنٹے کے معنی میں نہیں ہے، تھوڑی سی مدت ہے۔ قلیل مدتِ زمانی کو ساعت کہتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں کہ وہ ساعت بھی بہت ہے۔ بس جب موت بالکل قریب ہو، اس سے پہلے توبہ کرلے تو توبہ قبول ہے۔ اتنی وسعت اس کریم نے توبہ کے بارے میں دی ہے۔ مگر پھر بھی سرمایہٴ اطمینان نہیں مل سکا۔ اس لئے کہ وہ آخری وقت نہیں بتایا کہ کب آئے گا۔ یہی حکمت تھی موت کے وقت کو پردے میں رکھنے کی اور اس کا کوئی معیار نہ ہونے کی کہ بوڑھے کو موت آئے گی یا جوان کو یا بچے کو۔ اگر کوئی معیار ہوتا تو جوانی اطمینان سے گزارتے کہ بڑھاپا دور ہے۔ لہٰذا کھل کر جتنی چاہیں، بداعمالیاں کرلیں کیونکہ وہ تو اصول ہے کہ بوڑھے کو موت آئے گی۔ جو بچے ہوتے ، وہ کہتے کہ ابھی ہمیں بہت منزلیں طے کرنا ہیں، ابھی اوّلِ بلوغ ہے اور اوّل بلوغ میں بھی بچہ ہی کہلاتا ہے۔
چاہے پیش خدا بچہ نہ رہے لیکن وہ بھی خود کو بچہ سمجھتا ہے اور دوسرے بھی اُسے بچہ ہی سمجھتے ہیں۔ وہ بیچارہ روزہ رکھنا چاہتا ہے، تو بزرگ منع کرتے ہیں کہ ابھی تم بچے ہو، روزہ رکھ کر کیا کرو گے؟یعنی اس کو اپنے ہاتھوں جنت سے محروم کرتے ہیں۔ درحقیقت جب معیار مقرر نہیں ہے، تو یہی کیفیت ہوگی۔ اگر میعار مقرر ہوتا تو پروانہٴ سکون ہوتا ان کیلئے جن کی منزل دور ہے۔ لہٰذا نہ وقت مقرر ، نہ عمر مقرر۔اس لئے کہ ہر وقت اُمید بھی رہے، نا اُمیدی بھی ۔ سکون و رجا دونوں رہیں تاکہ قوتِ عمل زندہ رہے اور اصلاحِ عمل کا جذبہ قائم رہے۔ اس بناء پر جبکہ آخری وقت مقرر نہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ نفس آخری نہیں ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کی وہ سانس آخری نہیں ہے۔ خصوصاً اب اس زمانہ میں واقعات اس طرح کے بہت ہونے لگے ۔ پہلے تو کبھی کبھی اچانک موت کی خبر سننے میں آتی تھی اور اب تو میں کہتا ہوں کہ رائج الوقت طریقہ موت یہی ہے ۔
ایک صاحب ہمارے ہاں سے ایک شادی میں جارہے تھے۔ متعلقین کو انہوں نے گاڑی میں سوار کیا اور خود اس طرح کھڑے ہوئے کہ ایک پیر پائیدان کے اوپر ہے اور ایک نیچے کہ گاڑی چلنے لگے تو سوار ہوجائیں۔ لوگ انہیں رخصت کررہے تھے اور باتیں کررہے تھے کہ ایک دم سے پیغام پہنچ گیا۔ ٹکٹ کہاں کا لیا تھا اور کہاں پہنچ گئے۔ ساتھ والے جو تھے، وہ بھی اُتر پڑے اور ان کی لاش لے کر گھر گئے۔
یہ میں نے ایک مثال عرض کی جو مرنے کی وجہ سے رونے کی ہے اور ندرت کی وجہ سے ہنسی آتی ہے کہ واقعی ٹکٹ کہاں کا لیا اور چلے کہاں گئے!
ایک دوسرا واقعہ، ہمارے ہاں ایک کمشنر تھے۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے مگر نام لینے کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ غیبت کا کوئی پہلو ہو، لہٰذا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ امرتسر کے بارڈر پر سامان دکھایا، وہ پاس ہوگیا اور وہ بجائے اس سرحد کے دوسری سرحد کو پار کرگئے۔ ان کے ہمراہ ان کی بیوی تھیں، وہ لاش لے کر واپس گئیں۔تو جب یہ مثالیں آنکھوں کے سامنے ہوں تو کون کہہ سکتا ہے کہ جو سانس آرہا ہے، وہ آخری سانس نہیں ہے۔ تو باوجود انتہائی وسعت کے توبہ کے وقت میں پھر بھی کمی ہے۔ لاعلمی کی وجہ سے۔
تو اگر اصل نہیں ہے تو ثمرکی اُمید نہیں ہوسکتی اور اگر اصل موجود ہے تو ایمان ہے کہ کسی وقت پر اس کا اثر نمودار ہوجائے اور اس کے لئے وسعت پیدا کردیجائے اور پھر وہی اُمید کو تازہ رکھنے کیلئے اس نے اپنی جانب سے اعلانات کئے۔ نا اُمید نہ ہونے کیلئے کیونکہ نا اُمیدی قوتِ عمل کو سلب کرتی ہے۔ جب طے ہے کہ دوزخ میں جانا ہے تو کیوں نہ نفسانی خواہشات پوری کرلیں۔ یہ بھی اصلاحِ عمل کیلئے خطرہ ہے۔ اس لئے شفاعت کے اعلانات ہیں۔ اس لئے اپنے فضل و کرم کے اعلانات ہیں۔ اس لئے یہ اعلانات ہیں کہ سوائے کفر و شرک کے ہر چیز ایسی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ بخش دے۔
“اِنَّ اللّٰه لَا یَغْفِرُاَنْ یُشْرِکَ بِه وَیَغْفِرُمَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ”۔ اس سے کمتر کو بخش دیتا ہے۔ اُمیدمیں وسعت پیدا کی اور “لَمَنْ یَّشَاءُ” کہہ کر جس کو چاہتا ہے ، خوف کا دھڑکا لگایااور کیا اس کا چاہنا بلاوجہ ہوگا؟ نہیں، ہم جانتے ہیں حَکِیْمٌ عَلَی الْاِطْلاقِ ہے۔لہٰذا وہ بھی گویا حسن عمل میں حالات دیکھتا ہے۔عمل کا ماحول اور پس منظر دیکھتا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ عمل قلیل ہو اور اس کا اجر عظیم ہو۔ اسی طرح سے بداعمالی میں بھی۔ اس کے حالات دیکھنے ہیں، اس کی کیفیات دیکھنی ہیں، اس کے نتائج دیکھنے ہیں۔ اس سب کو دیکھ کر اس نے اجروثواب کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ سزا کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کاغذ پر نہیں آسکتی تھی۔ کاغذ پر قانونی طور پر نیکیوں کے نام لکھے جاسکتے تھے اور برائیوں کے نام لکھے جاسکتے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ فرشتے بھی نامہٴ اعمال میں صرف کاموں کے نام لکھ سکتے ہیں ،کاموں کے وزن کو نہیں لکھ سکتے۔ اس کے اظہار کا ذریعہ ہے جس کی تعبیر میزان سے کی گئی ہے کہ قیامت میں اعمال کا وزن ہوگا۔ ارے قانونی طور پر جرائم کے وزن کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے پس منظر ، آثار و نتائج کو دیکھنے سے متعلق یہ وزن ہے۔
ہم تو الفاظ سنتے ہیں۔ ان الفاظ سے بے دیکھے حقائق سمجھ میں نہیں آتے۔ آخرت کی چیزیں جو ہیں، وہ بس سچے کہنے والوں کی وجہ سے ہم نے ان کے الفاظ یاد کرلئے ہیں کہ صراط ہوگا، میزان ہوگی۔ لیکن ان کی حقیقت کیا کسی کی سمجھ میں آئی ہے؟ میزان کے معنی ترازو، تو ہم ترازو جو دیکھتے ہیں، اس میں دو پلڑے ہوتے ہیں۔ اس سے ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ قیامت میں بھی ایسی ہی ڈنڈیاں ہوں گی اور ایسی ہی ترازو ہو گی اور وہ پلڑے میں رکھے جائیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ترازو کی حقیقت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ہر شے کی ترازو ا س کے اعتبار سے ہوتی ہے۔
حضور! اجسام کی ترازوئیں سب یکساں نہیں، ذرا لکڑی کی ٹال پر جاکر ترازو کو دیکھئے، اس کا قدوقامت ملاحظہ فرمائیے اور کسی عطار کی دوکان پر جاکر، جس پر وہ بہت قیمتی دواؤں کو تولتا ہے، اس ترازو کو دیکھئے اور جوہری کی دوکان پر جاکر دیکھئے۔ وہاں بھی ایک میزان ہے۔ مگر اس موتی کو لے جا کر ٹال کی ترازو پر رکھ دیجئے تو وزن معلوم بھی نہیں ہوگا اور اگر موتی تولنے والے کانٹے پر لکڑیوں کا ڈھیر رکھ دیجئے تو بیچارہ دب کر رہ جائے گا، ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔وہ بھی وزن نہیں بتا سکے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اجسام میں بھی سب یکساں نہیں۔ جو جسم کثیف ہے، اس کی ترازو اور ہے اور جو جسم لطیف ہے، اس کی ترازو اور ہے۔ یہ محاورہ تو ہر شاعر کو معلوم ہوگا کہ مصرع موزوں نہیں ہے یا یہ شعر موزوں
ہے۔ موزوں کے معنی تول میں صحیح کے ہیں۔ جو صحیح ہے، وہ موزوں ، جو صحیح نہیں ہے، وہ نا موزوں۔تولنے کو کہتے ہیں وزن۔ وزن کے معنی تولنا۔ کیا ہوتا ہے؟ کوئی ان کے پاس ترازو رکھی ہوتی ہے کہ کاغذ پر شعر کو لکھ کر اس پر رکھ دیتے ہوں۔اس سے معلوم ہوتا ہو کہ وزن اس کا ہے یا نہیں ہے۔
کیوں؟ میزان کے معنی تو ہیں ترازو۔ یہ اپنے پاس ترازو کیوں نہیں رکھتے اور پھر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ موزوں ہے اور یہ ناموزوں ہے۔ بات یہ ہے کہ شعراز قبیل اجسام نہیں ہے۔ شعراز قلیل الفاظ ہے اور چونکہ وہ الفاظ کی جنس کی چیز ہے، لہٰذا کچھ الفاظ مقرر کئے ہیں۔ شعر ان الفاظ کی ترازو پر تولا جاتا ہے۔جتنی بحریں ہیں عربی کی، مجھے پندرہ معلوم ہیں، فارسی والوں نے اور بڑھائی ہیں اور اُردو والوں نے فارسی والوں کا تتبع کیا ہے۔ اُردو والوں نے اس میں کوئی ایجاد نہیں کی ہے۔بالکل فارسی والوں کی بحروں کو لے لیا ہے ۔
تو جناب!مجھے عربی کی بحریں یاد ہیں۔ ایک وقت میں پندرہ تھیں اور ایک نے اس میں اضافہ کیا تو سولہ ہوگئیں۔ طویل بسیط و افر کامل۔ اب میں اپنے حفظ کا امتحان نہیں دے رہا ہوں۔ بحر میں کتنے وزن ہوتے ہیں؟ یہ سب ایک مستقل فن ہے علم عروض۔ اس کی ایک بحر ہے جس کا وزن ان الفاظ سے ظاہر کرتے ہیں:
“مَفَاعِیْلٌ مَفَاعِیْلٌ مَفَاعِیْلٌ مَفَاعِیْلٌ”۔ لطیفہ گوئی میرا شعار نہیں ہے مگر کبھی کبھی یاد آجاتا ہے کوئی لطیفہ۔ ہمارے ہاں لکھنوٴ میں کسی نے مصرعہ طرح یہی کہہ دیا:
“مَفَاعِیْلٌ مَفَاعِیْلٌ مَفَاعِیْلٌ مَفَاعِیْلٌ”۔ ایک صاحب نے اس پر مصرعہ لگایا کہ کسی صاحب کا طوطا اڑگیا ہے، پڑھتا پھرتا ہے”مفاعیلٌ مفاعیلٌ مفاعیلٌ مفاعیلٌ”۔ اسی طرح ایک بحر ہے:
“فَاعِلاتٌ فَاعِلاتٌ فَاعِلاتٌ”۔ چونکہ شعر از جنس الفاظ ہے، لہٰذا اس کی ترازو نہ لوہے کی ہوتی ہے، نہ پیتل کی ہوتی ہے بلکہ از قبیل الفاظ ہوتی ہے۔ اس پر تول کر دیکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی حرف گھٹتا ہے یابڑھتا ہے تو وہ شعر ناموزوں۔ وزن سے خارج اور اگر بالکل مطابق ہے، جہاں متحرک حرف ہونا چاہئے، وہاں متحرک ہے، جہاں ساکن ہونا چاہئے، وہاں ساکن ہے تو وہ شعر موزوں ہے۔ منطق کو بھی علم میزان کہتے ہیں۔ ارسطو نے جو منطق ایجاد کی ہے، اس کا دوسرا نام ہے علم المیزان یعنی ترازو کا علم۔ کونسی ترازو ہے یہاں؟ یہاں الفاظ نہیں ہیں بلکہ حقائق کو تولنا ہے کہ کون صحیح ہے ، کون غلط۔یہاں معنی ہیں جن کو تولنا ہے کہ یہ صحیح ہے، یہ غلط تو اس کی ترازو از قبیل الفاظ نہیں ہوسکتی بلکہ اس کی ترازو از قبیل مطالب و معنی ہوگی۔ اس کیلئے ارسطو نے قیاسات کی ترازو ایجاد کی۔ اشکالِ اربعہ وغیرہ کی ترازو۔ صغریٰ و کبریٰ مرتب کرکے اس سے نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ یہ ہوتا ہے یا نہیں۔
ارسطو کی منطق کی چار شکلیں ہیں۔ شکل اوّل ، شکل دوم ، شکل سوم اور شکل چہارم۔ سب سے زیادہ حقیقت سے قریب شکل اوّل ہے اور باقی جتنی شکلیں ہیں،پیچیدہ ہیں۔تو آپ نے دیکھا کہ اجسام کی ترازو ان کی قسم سے ، وہ بھی جیسا جسم ہو، اس کے تناسب سے ترازو اور الفاظ کی ترازو شعر میں از قبیل الفاظ او رمعنی کی ترازو از قبیل معنی۔ تو اصول یہ ثابت ہوا کہ جیسی جنس ہو، ویسی اس کی ترازو۔ ایسی ہی ایک چیز کی طرف آپ کے ذہن کو منتقل کردوں کہ نبوت کا وزن کون محسوس کرے گا؟ نبی کا جسم وزن نہیں ہے، نبوت کا وزن ہے تو نبوت کا وزن کون محسوس کرسکتا ہے؟ یوں جس کا دل چاہے، رسول کواٹھالے۔ یہ اٹھانا خود دلیل ہے کہ وہ وزن محسوس نہیں کررہا۔ نبوت کا وزن وہی محسوس کرے گا جو ہم جنس نبوت کوئی وزن رکھتا ہو۔
کعبہ گواہ ہے کہ نبوت کا وزن کس نے محسوس کیا؟ آپ کے ذہن کو بہت دور منتقل کرنا چاہتا ہوں۔میں کہتا ہوں کہ انہوں نے ان کی رسالت کا وزن محسوس کیا۔ اس وزن کا احساس اتنا تھا کہ اُسے برداشت نہ کرسکے اور قدم تھرتھرانے لگے۔بظاہر یہ قدم کا تھرتھرانا عاجزی ہے مگر کمالِ معرفت کی دلیل ہے۔ شعور کی دلیل ہے ۔ا نہوں نے ان کی رسات کا وزن محسوس کیا اور انہوں نے ان کی ایک ضرب کا وزن ایسا محسوس کیا کہ تول کر بتادیا۔
تو جناب! قیامت میں جو میزان نصب ہوگی، اس میزان پر کیا چیز تولی جائے گی؟ سب کو معلوم ہے کہ اعمال تولے جائیں گے اور میں نے کہا کہ ہر شے کی میزان ہم جنس شے ہوتی ہے۔ جسم کی میزان از قبیل اجسام، الفاظ کی میزان از قبیل الفاظ، معنی کی میزان از قبیل معنی۔ تو جب اعمال تولے جارہے ہیں تو اعمال تولنے کیلئے نہ وہ ٹال کی ترازو کام دے گی، نہ عطار کے ہاں کا کانٹا کام دے گا، نہ وہ شعرائے کرام کے بحروں کے ناپنے کے اوزان کام دیں گے، نہ ارسطو کی صغریٰ کبریٰ کام دے گی۔ یہاں کچھ انسانِ کامل چاہئیں جن کا عمل ترازو بن سکے۔
یہ حقیقت ہے جسے ہمیں زیارت کے ایک جملے میں سکھایا گیا ہے:
“اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَامَوَازِیْنَ الْاَعْمَالِ”۔” اے اعمال کی میزانو! آپ پر ہمارا سلام ہو”۔
یہ اعمال جو تولے جارہے ہیں ، دراصل یہ دیکھا جارہا ہے کہ ان مثالی اعمال سے کون کتنا قریب ہے؟ جتنا ان کے قریب ہے، وہ میزان میں گراں ہے اور جتنا ان سے دور ہے، اتنا میزان میں سبک ہے۔وہ میزان میں ناقص ہے۔ عمل تولے جارہے ہیں تو اگر ہم بداعمال ہوئے تو ترازو میں کیا چیز آئے گی؟ اعمال ہی نہیں تو کیا دیکھا جائے گا؟ شروع سے لے کر آخر تک اگ سب کچھ مخالف ہی ہے ، سچے کی اُمت میں ہیں اور جھوٹ پر فخر ہے۔ امین کی اُمت میں ہیں اور بے ایمانی کو عقلمندی سمجھتے ہیں۔ ایمانداروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں ۔
تو بتائیے کہ اگر امین اور صادق کو (معاذاللہ) آپ نے کم عقل سمجھ لیا تو اپنے قول میں ان مشرکین کے ہم نوا ہوئے جو انہیں عقل سے محروم سمجھتے تھے یا موٴمنین کی صف میں داخل ہوئے؟
اگر ہم ان کے گروہ میں شامل ہیں جن کی شیعیت کو ہم سرمایہٴ نجات سمجھتے ہیں تو شیعہ کے معنی ہیں کسی کی ٹولی، کسی کا گروہ۔ تو پھر وہی بات کہ سچوں کا گروہ جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ نمازیوں کے گروہ میں بے نمازی نہیں ہوسکتے۔ یہ تھوڑی دیر کاامام جو جماعت کا ہے، اس کی بھی جب نیت ِ اقتداء کی تو متابعت واجب۔ رکوع اپنی جگہ عبادت لیکن امام سے پہلے جو گیا تو نماز باطل۔ سجدہ اپنی جگہ عبادت لیکن امام سے پہلے ہوگیا تو نماز باطل۔ یہ نہیں کہ جماعت کا ثواب اس میں سے منہا کرلیا جائے، جی نہیں۔ اصل عمل گیا، اصل عمل برباد ہوا۔ اس وقتی امام کی اطاعت اور اتباع تو صحت ِعمل کیلئے فرض ہے اور جو دین و دنیاکے امام ہوں، جو امامِ مطلق ہوں، ان کے نام کو حفظ کرکے او رکسی کو سنا کر ہم یہ سمجھیں کہ کام ہوگیا ، متابعت کی ضرورت ہی نہ وہ، پیرو ی کی ضرورت ہی نہ ہو۔ پھر تو حقیقت میں”وَابْتَغُوْااِلَیْه الْوَسِیْلَة” کااصل مفہوم اگر دیکھا جائے تو وسیلہ سے مراد لینا اپنا ایمان اور اپنا عمل ہے۔
نا اُمید نہ ہونے کیلئے ذرائع کا اعلان کیا گیا ہے۔ مغفرتِ الٰہی ہے”یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآء”، جس کو چاہے گا، بخش دے گا۔ جس کو چاہے گا۔ یہ چاہنا بلاوجہ نہیں ہے۔ خود میں وہ صلاحیت رکھیں کہ وہ چاہے۔
اسی طرح وہ شفاعت کا اعلان کردیا گیا ہے کہ شفاعت ہے اور شفیع بھی ایک نہیں ہے، جتنے افراد ہیں، کوئی مانے نہ مانے۔ میں تو مانتا ہوں کہ وہ سب شفاعت کرنے والے ہیں۔ان کا کیا ذکر، ہر موٴمن کو بقدرِ ایمان حقِ شفاعت حاصل ہے۔ ہر وہ موٴمن جو اس لائق ہے کہ شفاعت کرسکے، وہ شفاعت کرے گا۔ یہ شفاعت اس لئے ہے کہ نا اُمید نہ ہوں۔ اس میں بھی مراتب ِعمل ہیں۔ کوئی غلطی ایسی ہوتی ہے کہ ممتحن کہتا ہے کہ چلو نمبر دے دو۔ اس کی نظر میں قابل اعتراض ہے مگر نمبر نہیں کاٹتا۔ باوجودیکہ کمی کا احسا س اُسے ہے۔یہ تو ہے”یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآء”، جس کو چاہتا ہے، معاف کردیتا ہے۔پھر دوسرا درجہ ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ نمبر تو ہم ضرور کاٹیں گے لیکن اگر کوشش ہوگی تو بڑھا دیں گے۔
میں کہتا ہوں کہ یہ بھی مراتب ِکمزوریٴ عمل ہیں کہ کسی کوبغیر شفاعت خود ہی معاف کردیا، کسی کو گویا ذرا الجھا وے میں ڈال کر شفاعت کروادی اور شفاعت کرنے والے بھی شفاعت چشم و ابرودیکھ کرکرتے ہیں۔ وہ مرضی دیکھ کر شفاعت کرنے والے ہیں۔ بغیر اس کی شفاعت کے اذن کے شفاعت بھی نہیں کرتے۔ حکمت یہ ہے کہ میں خود تو نہ معاف کروں، ان کے کہنے سے معاف کردوں۔اس طرح جس کو معاف کیا جارہا ہے، اس کی بداعمالی کا ایک یہ درجہ ہے۔ بس اپنے اعمال کم از کم اتنے ہونے چاہئیں کہ شفاعت کرنے والوں سے کہتے ہوئے شرم نہ آئے اور شفاعت کرنے والوں سے التجا کی گنجائش ہواور شفاعت کرنے والے بھی مناسب محسوس کریں کہ ہاں، اس کی شفاعت کردی جائے اور اللہ کی رضا بھی ان کو شفاعت کرنے کیلئے حاصل ہو۔
لہٰذا نا اُمید کبھی نہیں ہونا چاہئے۔ جتنے وقت پر بھی اصلاحِ عمل کرسکے، کرے۔

تبصرے
Loading...