وداع ماہ مبارک رمضان اور دعائے امام سجاد علیہ السلام

سلام ہو تجھ پر اے اوقات میں سے بہترین ساتھی اور ایام و ساعات میں سے بہترین مہینے ۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ ماہ مبارک جس میں آرزوئیں قریب تر ہوگئیں اور اعمال کے صحیفہ منتشر ہوگئے۔ سلا م ہو تجھ پر اے وہ ہمنشین جو رہا تو اس کی منزلت عظیم رہی اور چلا گیا تو اس کے فراق نے رنجیدہ بنا دیا۔

 اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ہم سب آہستہ آہستہ ماہ مبارک رمضان کے اختتام کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں اور ماہ مبارک کے اس تیسرے عشرہ میں ہم ماہ مبارک کے وداع کی دہلیز پر کھڑے ہی ہمارے پاس مشکل ۴۸ گھنٹے  بچے ہیں ماہ مبارک رمضان کو رخصت کرنے کے لئے ،وہ ماہ مبارک ہم سے جدا ہوا چاہتا ہے جس میں اللہ نے اپنے سفرہ رحمت پر ہمیں بلایا  تھا ۔ہم اس مہینہ کو وداع کر رہے ہیں  جس نے ہمارے گناہوں کو جلا کر اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب بار گناہ ہمارے دوش پر نہیں اور اسی لئے ہمیں عید کی آمادگی کرنا ہے تاکہ  بندگی کا انعام حاصل کر سکیں ۔
ہم مہینہ اس کو وداع کر رہے ہیں جسے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے “شہرالاسلام” یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے اور شہر طہارت قرار دیا ۔امام سجاد ر علیہ السلام اس مہینہ کو وداع کرتے ہوئے آ گے فرماتے ہیں :
اس مہینہ نے ہمارے درمیان قابل ستائش دن گزارے اور ہمارے ساتھ حق رفاقت ادا کیا ہمیں عالمین کے بہترین فوائد سے نوازا اور جب اس کا وقت تمام ہوگیا اور اس کی مدت ختم ہوگئی اور اس کا عدد پورا ہوگیا تو ہم سے رخصت ہونے لگا تو اب ہم اسے اس طرح رخصت کررہے ہیں جس طرح اسے رخصت کیا جاتا ہے  کہ ہم پر اس  کا فراق سخت ہے اور اس کی جدائی غم میں مبتلا کر دینے والی  وحشت  آفریں ہے او ر جو محفوظ حقوق ، قابل لحاظ حرمت اور قابل ادا حق کو لازم قرار دیدے تو اب ہم یہ آواز دے رہے ہیں کہ اے اللہ کے بزرگ ترین مہینے اور اے اولیائے خدا کے لئے زمانہ عید تجھ پر ہمارا سلام۔
سلام ہو تجھ پر اے اوقات میں سے بہترین ساتھی اور ایام و ساعات میں سے بہترین مہینے ۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ ماہ مبارک جس میں آرزوئیں قریب تر ہوگئیں اور اعمال کے صحیفہ منتشر ہوگئے۔ سلا م ہو تجھ پر اے وہ ہمنشین جو رہا تو اس کی منزلت عظیم رہی اور چلا گیا تو اس کے فراق نے رنجیدہ بنا دیا اور اس کا وجود ایسا پر امید تھا جس کی جدائی دردناک ثابت ہوئی۔سلام ہو تجھ پر اے وہ محبوب جو آیا تو سامان انس لے کر آیا اور خوش کرگیا اور گیا تو وحشت زدہ اور رنجیدہ بنا کر گیا۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ ہمسایہ جس کے زیر سایہ دل نرم ہوگئے اور گناہ کم ہوگئے۔
خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اس  چاند کے تمام ہوتے ہوتے ہمارے گناہوں کو بھی محو کردے اور اس کے ایام کے گذرتے گذرتے ہمیں تمام صعوبتوں سے باہر نکال لے تاکہ یہ مہینہ اس عالم میں تمام ہو کہ تو ہمیں خطائوں سے اور گناہوں سے آزاد کر چکا ہو۔
 امام سجاد علیہ السلام کے وداع ماہ مبارک رمضان کے سلسلہ سے چند نکات قابل غور ہیں :
۱۔ امام علیہ السلام  جس انداز سے اس مہینہ کو وداع کر رہے ہیں اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ  اس مہینہ کو اس طرح وداع کرنا چاہیے جیسے ایک حبیب اپنے محبوب کو وداع کرتا ہے  اس طرح وداع کرنا چاہیے جیسے کوئی ایسی چیز ہاتھ سے نکل رہی ہو جو انسیت و دل کے سکون کا سبب ہو اس لئے کہ  جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے اور جب اس کی رخصت کی باری آتی ہے تو ہر ایک کے وداع کرنے کا انداز  الگ الگ ہوتا ہے کوئی بہت زیادہ غم گین ہو کر گریہ کر تا ہے تو کوئی آنکھوں میں آئے آنسووں کو روکنے کی ناکام کوشش تو کوئی سپاٹ کھڑا رہتا ہے یہ  طرز عمل کا اختلاف مہمان سے اس کے تعلق کو بیان کرتا ہے جسکا تعلق جتنا  گہرا ہوتا ہے اس کی جدائی بھی اتنی ہی شاق گزرتی ہے  اور شایہ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک وداع کے لئے باہر بھی نہیں نکلتا وداع کے لئے وہی آتا جس کو مہمان سے محبت و رغبت ہوتی ہے  اور شاید یہی وجہ ہے کہ علماء بیان کرتے ہیں :
وداع تو  اسی شخص کے لئے ہے جو ماہ مبارک رمضان سے مانوس رہا ہو اور یہ مہینہ اس کا دوست رہا ہو ورنہ جو شخص اس مہینہ کے ساتھ نہیں تھا اس کا اس مہینہ سے وداع اور حداحافظی کا کوئی معنی نہیں ہے، آدمی اپنے دوست سے یا جس سے کچھ عرصہ مانوس رہا ہو اس سے خداحافظی کرتا ہے، لیکن جسے بالکل یہ معلوم ہی نہیں کہ ماہ مبارک رمضان کب آیا اور کب گزر گیا، کیوں آیا اور کیوں گزر گیا، اس کا ماہ رمضان کو وداع کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔
۲۔اس دعا میں بارہا اس مہینہ کو سلام کرنا اس مہینہ کی معنوی حیات کی دلیل ہے شاید یہی وجہ ہے  حضرت امام سیدالساجدین ماہ رمضان کو کئی بار سلام یعنی خداحافظ اور الوداع کہتے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ماہ رمضان میں کوئی باطن، و راز نہ ہوتا  پائی جاتی تو زین العابدین ع جیسی شخصیت  اسے سلام نہ کرتی۔
۳۔ اس مہینہ کو شھر الاسلام و ماہ  طہور اور اس کی خدا سے نسبت کے ذریعہ امام علیہ السلام نے اسکی اہمیت کو واضح کرنا چاہا ہے بالکل اسی طرح جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی عظمت کو اس مہینہ کی آمد سے پہلے بیان کیا تھا  : “
۴۔ اس مہینہ کو امام علیہ السلام خدا  کا سب سے بڑا مہینہ قرار دیتے ہوئے اس اولیاء خدا کی عید قرار دیا ہے   اب یہاں پر دو باتیں قابل غور ہیں ایک  تو یہ کہ ہم اس مہینہ کو الوداع کہہ رہے ہیں جو خدا کے نزدیک سب سے بڑا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس کے لئے کہا گیا ہے کہ اسکا  نام یوں ہی مت لو بلکہ اس کی عظمت کے پیش نظر اس کے نام کے ساتھ کچھ جوڑ دو وہ مہینہ کہ    جسکی دیگر مہینوں پر فضیلت آشکار و اضح ہے  اور بعض روایتوں کے مطابق تو یہ فضیلت ایسے ہی ہے جیسے اہلبیت اطہار علیھم السلام کی دیگر  لوگوں پر فضیلت ہے  ہم اس عظیم مہینہ کو وداع کر رہے ہیں جس کا اتنا احترام ہے کہ روایتوں میں اس کا نام تک لینے کے لئے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کے نام کے ساتھ کچھ نہ کچھ جوڑ دو تاکہ اس کا احترام رہے ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اس مہینہ کو وداع کرتے ہوئے ہم ، عالم اسلام کے لئے رب کی بارگاہ میں دعاء کریں ، ان مجاہدین اسلام کے درجات کی بلندی کے لئے دعاء کریں جنہوں نے اپنی جانے دی دیں لیکن حرم بی بی زینب سلام اللہ علیہا پر آنچ نہ آنے دی اور اس وقت بھی ہم اگر مصلے پر اس مہینہ کو وداع کر رہے ہیں تو ان میں سے بہت سے مصلائے کارزار پر نماز شہادت پڑھتے ہوئے خود اس دنیا سے وداع ہو رہے ہیں ، تو آئیے مل کر دعاءکریں کہ پروردگار دشمنان اسلام خاص کر صہیونیت ،و وہابیت کے شاطرانہ منصوبوں کے شر  کو اس مہینہ کی برکت سے انہیں پر پلٹا دے ۔

تبصرے
Loading...