وحی کی حقیقت اور اہمیت (پیغام الہی)

پیغام الہی: ڈاکٹر حمید اللہ نے اصطلاح میں وحی کا مفہو م یوں ذکر کیا ہے: ” اللہ اپنے کسی برگذیدہ بندے کے پاس اپناپیغام بھیجتا ہے یہ پیغام اس تک مختلف طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے کبھی تو اللہ کی آواز براہ راست اس نبی کے کان تک پہنچتی ہے ‘کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغام ایک فرشتہ لاتا ہے اور انسان تک پہنچاتا ہے فرشتے خدا کا جو پیغام لاتے ہیں اس کو ہم اصطلاحاً ” وحی“ کہتے ہیں“ (1)

پیغام الہی:

ڈاکٹر حمید اللہ نے اصطلاح میں وحی کا مفہو م یوں ذکر کیا ہے:

” اللہ اپنے کسی برگذیدہ بندے کے پاس اپناپیغام بھیجتا ہے یہ پیغام اس تک مختلف طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے کبھی تو اللہ کی آواز براہ راست اس نبی کے کان تک پہنچتی ہے ‘کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغام ایک فرشتہ لاتا ہے اور انسان تک پہنچاتا ہے فرشتے خدا کا جو پیغام لاتے ہیں اس کو ہم اصطلاحاً ” وحی“ کہتے ہیں“ (1)

انہوں نے وحی کے خاص مفہو م کو اور بھی محدود کر دیا ہے اور صرف فرشتوں کے ذریعے پہنچائے جانے والے پیغام کو وحی کہا ہے حالانکہ نبی کو براہ راست القاء بھی وحی بمعنی خاص ہے۔

اسلامی علوم کے ماہرین نے وحی کے اصطلاحی مفہوم کو مختلف الفاظ اور تعبیروں سے واضح کی ہے ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو وحی کا اصطلاحی مفہوم قرار دیاہے۔ (2) یہ وحی کا اسمی معنی ہے۔

بعض مفکرین نے اللہ تعالیٰ کے اپنے انبیاء سے گفتگو کرنے کو اصطلاح میں وحی کہا ہے(3)

یہ وحی کے مصدری معنی کے لحاظ سے ہے۔

انہی میں سے بعض نے علم اور معارف کو وحی کا نام دیا ہے۔ (4)

جبکہ بعض نے خود علم کی تعلیم دینے اور معارف کو سکھانے کے عمل کو وحی کا جامہ پہنایا ہے۔ (5)

اور یہ تفاوت بھی وحی کے اسمی اور مصدری معنی کی وجہ سے ہے اور چونکہ اہل لغت نے وحی کے دونوں معنی بیان کیے ہیں۔ (6)

اس لیے جن علماء کے پیش نظر وحی کا اسمی معنی تھا انہوں نے اس کا اصطلاحی مفہوم ”کلام الہی“ اور”علم و معارف“ بیان کیا اور جن کے سامنے اس کا مصدری معنی تھا انہوں نے اس کا مفہوم ”کلام کرنا“اور ”تعلیم دینا“بتایا ہے پس اصطلاحی مفہوم میں دونوں جہتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

تعبیروں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جنہوں نے کلام یاکلام کرنے کی تعبیر استعمال کی ہے انہوں نے خود قرآن کے الفاظ کو استعمال کیا ہے جو وحی کے لیے سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱میں استعمال ہوئے ہیں۔ (7) جبکہ دوسروں نے واقعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علم،حقائق اور تعلیم کے الفاظ استعمال کیے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے برگذیدہ بندوں سے کلام کرنا انہیں تعلیم دینا ہی ہے انہیں کائنات کی حقیقتوں سے آگاہ کرنا ہے انہیں آداب زندگی سکھانا ہی ہے اس لیے میری رائے میں تعابیر کا اختلاف مفہوم میں کسی جوہری اور اصلی اختلاف کا باعث نہیں بنتا دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتاہےالبتہ علم اور تعلیم دینے کی تعبیر زیادہ موزوں ہے۔

اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اصطلاح میں:
”وحی اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے درمیان وہ مخصوص ،غیر معمولی اور مافوق العادت رابطہ ہے جو بشر کے لیے تمام ذرائع علم(تجربہ،حواس،عقل) سے ماوراء ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو انسانوں کی ہدایت اور ارتقاء کے علوم و معارف اور احکام و قوانین کی تعلیم دینا ہے۔ “

اس مقالے میں وحی کا یہی اصطلاحی مفہوم اور وحی کا مصدری معنی ہی موضوع تحقیق ہے۔

حوالہ جات:

1 ۔ حمید اللہ محمد ڈاکٹر:خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ۱۹۸۸ء،ص۱۹۱

2.  عینی بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد:عمدة القاری شرح صحیح البخاری، ج۱،ص۱۸راغب اصفہانی معجم المفردات لالفاظ القرآن،دارالفکر بیروتص۵۱۵وحی اللہ ص۵۲علوم القرآن ص۲۹القاء الہام اور وحی ص۱۳

3. تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹

4.  تفسیر المنار،ج۱ص۱۲تاریخ القرآن،ص۱۲ ختم نبوت اور تحریک احمدیت،ص۲۴ وحی الہی ص۲۵

5.  رسالة التوحید،ص۱۱۱، مناھل العرفان فی العلوم القرآن،ص۵۶، القرآن والمستشرقون، درآمدی برعلوم قرآنی،ص۲۵۲، تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت ص۱۷،۱۸۔

6.  الصحاح تاج اللغة و صحاح العربیة،تحقیق احمد عبدالغفور عطارج۶،ص۲۵۱۹،داراعلم للملابین،بیروت معجم مقائیس اللغة ج۶۹۳لسان العرب ج۱۵،ص۳۷۹

7.  وَمٰا کٰانَ لِبَشَرٍ ان یُکَلَّمَہُ اللّٰہ اِلّٰا وَحْیاً اَوَمِنْ وَرٰاء حِجٰابٍ اَوْیُرْسِلْ رَسُولًا فَیُوحی بِاِذْنِہِ مٰایَشاٰءُ اَنَّہ عَلیٰ حَکِیمٍ

 

تبصرے
Loading...