واقعۂ کربلا کے اخلاقی اور تربیتی نمونۂ عمل

انسان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے اندرکسی کو اپنا نمونۂ عمل اور آئیڈیل بنانے کی خصلت ودیعت کی گئی ہے۔ اسی لئے کہ ہر شخص اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ہستیاں اور شخصیتیں جو اس کی نظر میں عظیم المرتبت اور کامل ہیں ان کی پیروی کرے اور ان کی تعلیمات اور طریقۂ زندگی کو اپنے لئے سرمشق قرار دے۔ یہ ایک فطری امر ہے جسے دبانا ممکن نہیں ہے بلکہ اس کی صحیح ہدایت اور اسے صحیح راستہ دکھانے کی ضرورت ہے اور نمونۂ عمل بنانے والے کو کامل اور جامع شخصیتوں کی شناخت میں ان کی مدد اور تعاون کرنا چاہئے تاکہ وہ اس پرنشیب و فراز وادی میں ہزاروں جعلی، خیالی اور خود ساختہ نمونوں سے بچ کر حقیقی اور کامیاب نمونۂ عمل کو پہچان سکیں اور ان کی پیروی کر کے دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکیں۔

قرآن کریم نے بھی اس نکتہ کو ملحوظ نظر رکھا اور انسانوں کی صحیح تربیت کے لئے زندگی کے مختلف مراحل کے لئے مختلف نمونۂ عمل اور اسوۂ حسنہ پہچنوائے ہیںاور اس سلسلہ میں ایسے بافضیلت اور باکمال چہروں سے روشناس کرایا ہے جو تربیت و اخلاق کا مرقع اور بہترین و مکمل نمونۂ عمل ہیں۔

واقعۂ کربلا اور قیام حسینی آغاز سے انجام تک فضائل اخلاقی، عبادی،عقیدتی ، معاشرتی اور سیاسی نمونوں کا ایک کامل مجموعہ ہے جو ہر طرح کے طالب فضل و فضیلت کو سیراب کر سکتا ہے اور ہر قسم کے نمونہ عمل کے طالب کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ اس واقعہ میں سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد، بچوں سے لے کر جوانوں اور بوڑھوں تک، نئی نویلی دلہن اور دولہا سے لے کر داغ دیدہ ماں باپ تک، سیاہ فام اور سفید فام انسانوں سے لے کر آزاداور غلاموں تک، فرزندوں اور رشتہ داروں سے لے کر دشمن کی فوج سے جدا ہوکر سپاہ حسینی سے ملحق ہونے والے تک گویا سب کے سب اس انمول مجموعہ میں نظر آتے ہیں اور یہ ایک ایسا مجموعہ ہے کہ اس کے بارے میں امام معصوم امام، امام حسین ں نے ارشاد فرمایا: فانی لا اعلم اصحاباً اوفیٰ و لا خیر من اصحابی و لا اہل بیت ابر و اوصل من اہل بیتی فجزاکم اللّہ حق الجزائ۔﴿بلاغۃ الحسین (ع)،ص۹۶۱﴾ میں اپنے اصحاب سے زیادہ باوفااور بہتر اصحاب اور اپنے اہل بیت سے زیادہ نیک اور حامی اہل بیت نہیں پہچانتا۔ خدا تم سب کو کماحقہ جزائے خیر دے۔

تبصرے
Loading...