واقعہ غدیر خم پر ایک نظر

ہجرت کا دسواں سال تھا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستور دیا کہ مدینہ اور اسکے اطراف قبائل میں اعلان کروایا جائے کہ اس سال نبی خدا صلی۰۰۰

ہجرت کا دسواں سال تھا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستور دیا کہ مدینہ اور اسکے اطراف قبائل میں اعلان کروایا جائے کہ اس سال نبی خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی حج ادا کرنے مکہ جائیں گے۔ اس اعلان نے مسلمانوں کے دلوں کو شوق اور جذبے سے لبریز کر دیا اور ہزاروں افراد مدینہ کے اطراف خیمے لگا کر حج کی خاطر پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سفر کیلئے نکلنے کا انتظار کرنے لگے تاکہ انکے ساتھ اس عظیم اجتماعی اور سیاسی عبادت میں شرکت کر سکیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 26 ذی القعدہ کو 60 قربانیوں کے ہمراہ مدینہ کو ترک کیا۔ ذو الحلیفہ پہنچنے پر مسجد شجرہ میں احرام باندھا اور 4 ذی الحجہ کو مکہ میں داخل ہوئے۔ اس دوران امیرالمومنین علی علیہ السلام یمن میں تھے۔ وہ بھی اس خبر سے آگاہ ہو گئے کہ اس سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شخصا حج میں شرکت فرما رہے ہیں۔ لہذا وہ بھی حج کی نیت سے مکہ کی طرف عازم ہو گئے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام بھی اپنے ہمراہ 34 قربانیاں لئے ہوئے تھے۔ مکہ پہنچنے پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انکا استقبال کیا اور پوچھا کہ “یا علی، آپ نے حج کی نیت کس طرح سے کی ہے”۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں نے آپ کی نیت کے مطابق نیت کی ہے اور کہا ہے “اللھم اھلالا کاھلال نبیک”۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا کہ پس آپ بھی جب تک قربانی انجام نہیں دیتے اپنے احرام پر باقی رہیں۔ سب مسلمانوں نے عمرہ انجام دیا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستور دیا کہ مکہ سے باہر ان کیلئے ایک خیمہ لگایا جائے۔ 8 ذی الحج کا دن تھا۔ تمام مسلمان عرفات کی جانب گامزن تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس دن جو “یوم ترویہ” کہلاتا ہے، منی کے ذریعے عرفات کی طرف چل پڑے۔ آپ 9 ذی الحج کی صبح تک منی میں تھے۔ وہاں سے عرفات کی طرف چلے اور نمرہ نامی جگہ پر جہاں آپ کیلئے ایک خیمہ نصب کیا گیا تھا قیام کیا۔ 

حجۃ الوداع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تاریخی خطاب: 

9 ذی الحج جو “یوم عرفہ” کے نام سے مشہور ہے عرفات میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان موجود تھے جنہوں نے ظہر اور عصر کی نماز آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امامت میں ادا کی۔ اسکے بعد نبی خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے سب کو یہ افسوسناک خبر دی کہ یہ انکا آخری سال ہے اور وہ دعوت حق کو لبیک کہنے والے ہیں۔ اسی طرح اس خطبے میں آپ نے اسلام کے بنیادی اصول اور تعلیمات کی طرف اشارہ کیا۔ تمام مسلمانوں کو اسلامی برادری اور بھائی چارے، مساوات، عدالت، ایکدوسرے کے ساتھ مہربانی، شیطان کی پیروی سے پرہیز، خواتین کا احترام اور انکے حقوق کی رعایت اور جاہلیت کے زمانے کے عقائد کو ترک کرنے اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یوم عرفہ کے غروب تک عرفات میں قیام پذیر تھے۔ جب سورج نظروں سے اوجھل ہو گیا اور کچھ حد تک تاریکی چھا گئی تو آپ نے وہاں سے کوچ کیا اور رات کا کچھ حصہ مزدلفہ میں گذارا۔ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک کا وقت مشعر میں رہے اور 10 ذی الحجہ کو منی کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پر آپ نے رمی جمرات، قربانی اور تقصیر 

” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ہاتھ تھاما اور اسقدر اوپر کھینچا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو گئی اور فرمایا: “مومنین پر خود ان سے زیادہ حقدار کون ہے؟”۔ سب نے جواب دیا خدا اور اسکا پیغمبر۔ “

انجام دی اور حج کے باقی اعمال انجام دینے کیلئے مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے۔ احادیث اور تاریخ کی بعض روایات میں اس تاریخی سفر کو “حج وداع” یا “حج بلاغ” یا “حج اسلام” کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اکثر مورخین کی رائے میں یہ خطبہ 9 ذی الحجہ کے دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے دیا گیا ہے لیکن بعض مورخین کی نظر میں یہ خطبہ 10 ذی الحجہ کے دن دیا گیا ہے۔ 

دین کی تکمیل: 

شیعہ علماء کی نظر میں خلافت ایک خدائی عہدہ ہے جو خداوند عالم کی طرف سے قوم کے بافضیلت، لائق اور دانا ترین فرد کو عطا کیا جاتا ہے۔ نبی اور امام کے درمیان واضح ترین فرق یہ ہے کہ نبی شریعت کا بانی، وحی الہی کا مخاطب اور کتاب الہی رکھنے والا ہے جبکہ امام اگرچہ ان میں سے کسی چیز کا حامل نہیں لیکن حکومت اور زمامداری کے علاوہ دستورات خداوندی کے اس حصے کو بیان کرنے کی ذمہ داری رکھتا ہے جسکو پیغمبر مناسب فرصت کے نہ ہونے کی وجہ سے بیان نہیں کر سکا۔ لہذا مکتب تشیع کے نزدیک خلیفہ نہ صرف حاکم وقت اور اسلام کا زمامدار ہے بلکہ قوانین کا اجراء کرنے والا، حقوق کا محافظ اور ملکی سرحدوں کا نگہبان بھی ہے۔ اسکے علاوہ مذہب کے مشکل اور پیچیدہ نکات کو واضح کرنے والا اور ان دستورات اور قوانین کی تکمیل کرنے والا بھی ہے جو کسی بھی وجہ سے مذہب کا بانی بیان نہیں کر پایا۔ لیکن اہل سنت کی نظر میں خلافت ایک معمولی اور عام عہدہ ہے جسکا مقصد مسلمانوں کے دنیوی اور ظاہری مسائل کو حل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس نگاہ کے مطابق خلیفہ وقت عمومی آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی، عدالتی اور اقتصادی امور کو چلانے کیلئے منتخب کیا جاتا ہے اور ایسے اسلامی دستورات جو پیغمبر کے زمانے میں بیان نہیں ہوئے کو بیان کرنے کی ذمہ داری مسلمان علماء اور دانشوروں پر ہے۔ یہ علماء اور دانشور ان مسائل کو اجتہاد کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ خلافت کی حقیقت کے بارے میں ان دو مختلف نگاہوں کی بنیاد پر مسلمانوں میں دو بڑے فرقے وجود میں آئے جنکے درمیان اختلافات آج تک باقی ہیں۔ پہلی نگاہ کے مطابق جو اہل تشیع سے مربوط ہے امام کچھ حیثیتوں میں پیغمبر کے ساتھ شریک ہے۔ لہذا جو شرائط پیغمبری کیلئے ضروری ہیں وہ امامت کیلئے بھی ضروری ہیں۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں: 

۱۔ پیغمبر کا معصوم ہونا ضروری ہے، یعنی اپنی پوری زندگی میں وہ کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو اور اسلامی دستورات کو بیان کرنے اور لوگوں کے مذہبی سوالات کا جواب دینے میں بھی کسی غلطی کا مرتکب نہ ہو، 

۲۔ پیغمبر کو شریعت کے علم کے حوالے سے قوم کا دانا ترین فرد ہونا چاہئے اور دین کا کوئی نکتہ اسکی نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے۔ امام بھی چونکہ دین یا شریعت کے اس حصے کی جو پیغمبر کے زمانے میں بیان نہیں کیا گیا تکمیل اور اسکو بیان کرنے والا ہے لہذا دینی مسائل اور دستورات کی نسبت سب سے زیادہ عالم ہونا چاہئے، 

۳۔ نبوت ایک انتصابی عہدہ ہے نہ انتخابی۔ پیغمبر کو خدا مشخص کرتا ہے اور اسے نبوت کا عہدہ عطا کرتا ہے کیونکہ صرف خدا ہے جو یہ پہچان حاصل کر سکتا ہے کہ کون شخص معصوم ہے اور کون شخص معصوم نہیں ہے۔ صرف خدا اسکو پہچانتا ہے کیونکہ وہ خدا کی غیبی عنایات کی روشنی میں عصمت کے درجے تک پہنچ پایا ہے۔ امامت میں بھی چونکہ عصمت شرط ہے لہذا امام کو بھی صرف خدا ہی مشخص کر سکتا ہے اور اسکو اس عہدے پر نصب کر سکتا ہے۔ پس امامت بھی انتصابی ہے نہ انتخابی۔ 

اہل سنت کی نظر میں ان میں سے کوئی بھی شرط امام میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ نہ عصمت، نہ عدالت، نہ علم، نہ شریعت پر اسکا احاطہ اور نہ عالم غیب سے اسکا رابطہ۔ بلکہ اسکا اس قابل ہونا کافی ہے کہ وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں اور مسلمانوں سے مشورے کی مدد سے اسلام کی عظمت کی حفاظت کر سکے اور قوانین کے اجراء سے خطے کی سلامتی کو قائم رکھ سکے اور جہاد کی طرف دعوت کے ذریعے اسلامی سرزمین کو مزید وسعت 

” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: “خدا میرا مولا اور میں مومنین کا مولا ہوں۔ میں ان پر خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ اے لوگو، من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ، اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ، و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ و ادر الحق معہ حیث دار”۔ “

دے سکے۔ 

جانشینی پیغمبر ص انتصابی ہونی چاہئے یا انتخابی: 

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام ایک عالمی اور آخری دین ہے۔ جب تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زندہ تھے لوگوں کی رہبری اور رہنمائی انکے کندھوں پر تھی۔ آپ کی وفات کے بعد قوم کی رہبری ایسے فرد کو ملنی چاہئے جو سب سے زیادہ امامت اور خلافت کے عہدے کیلئے لیاقت اور شائستگی رکھتا ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کریں تاکہ اس نتیجے پر پہنچ سکیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد آیا امامت یا خلافت ایسے شخص کو ملنی چاہئے تھی جسکو خدا نے اس عہدے پر فائز کیا تھا یا ایسے شخص کو ملنی چاہئے تھی جسکا لوگوں نے اس عہدے کیلئے انتخاب کیا تھا؟۔ اسلام کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو مدنظر رکھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالات کی پیش نظر خدا کا خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انکا جانشین مشخص کرنا ہی بہتر تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف اسلامی معاشرہ روم، ایران اور اندرونی منافقین کی منحوس مثلث کی طرف سے ہمیشہ جنگ، اندرونی اختلافات اور فتنہ گری کے شدید خطرے سے روبرو تھا اور دوسری طرف قومی مصلحت کا تقاضا بھی یہ تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک سیاسی لیڈر کو مشخص کر کے ساری قوم کو بیرونی دشمن کے سامنے ایک صف میں متحد کر دیں اور مسلمانوں کے اندر اختلافات کے ذریعے دشمن کے نفوذ کا راستہ بند کر دیں۔ 

الف)۔ روم کی سلطنت: اس منحوس مثلث کا ایک ضلع روم کی سلطنت تھی۔ یہ بڑی طاقت جزیرۃ العرب کے شمال میں واقع تھی اور ہمیشہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ کا مرکز رہی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری دم تک روم کے حوالے سے پریشانی کا شکار تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ رومیوں کی پہلی جنگ 8 ہجری میں پیش آئی۔ اس جنگ میں اسلام کے تین اعلی کمانڈرز جعفر طیار، زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ شہید ہو گئے۔ سپاہ کفر کے مقابلے میں لشکر اسلامی کی عقب نشینی انکی جرات کا باعث بنی اور ہر لحظہ یہ خطرہ موجود تھا کہ روم اسلامی مرکز یعنی مدینہ منورہ پر حملہ ور ہو جائے۔ اسی بات کے مدنظر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 9 ہجری میں ایک عظیم لشکر لے کر روم کی طرف روانہ ہوئے جس میں مسلمانوں نے سخت مشکلات کا سامنا کیا لیکن اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی وفات سے کچھ روز قبل ہی اسامہ کی کمانڈ میں ایک لشکر ترتیب دیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ شام کی طرف روانہ ہوں۔ 

ب)۔ ایران کی سلطنت: ایران کی سلطنت اس منحوس مثلث کا دوسرا ضلع تھی۔ ایرانی حکمرانوں کی دشمنی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حاکم وقت خسرو پرویز نے غصے کی شدت سے پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نامہ مبارک پھاڑ دیا اور آپ کے بھیجے ہوئے سفیر کو توہین آمیز انداز میں باہر نکال دیا اور یمن کے والی کو خط لکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نعوذ باللہ گرفتار کر کے اسکے سامنے پیش کرے اور مزاحمت کی صورت میں انہیں قتل کر دے۔ 

ج)۔ اندرونی منافقین: اسلام اور اسلامی معاشرے کو درپیش تیسرا خطرہ انکے اندر موجود منافقین کا ٹولہ تھا جو بظاہر تو مسلمان ہونے کا اظہار کرتے تھے لیکن انکے دل اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کینہ و عداوت سے مالا مال تھے۔ انہیں کے بارے میں خدا کی طرف سے ایک مکمل سورہ نازل ہوئی جو “سورہ توبہ” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اسلام ہمیشہ اس ٹولے کی طرف سے خطرے سے روبرو رہا ہے حتی اس ٹولے نے کئی بار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کرنے کی بھی کوشش کی جسکی ایک مثال تبوک سے مدینہ واپس آتے ہوئے نبی اکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قاتلانہ حملہ ہے۔ یہ افراد سمجھتے تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کر کے وہ اسلام کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ 

” کیا یہ عاقلانہ ہے کہ مسلمانوں کی اہم شخصیات جیسے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان صرف اس لئے علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کریں اور انکے ہاتھ پر بیعت کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے محبت کرنے کا کہا ہو؟!!!۔ “

علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ابوسفیان ایک مکارانہ چال چلتے ہوئے امیرالمومنین علی علیہ السلام کے پاس آیا اور انکے ہاتھ پر بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور انکو خلیفہ وقت کے مقابلے میں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ امام علی علیہ السلام نے اسکی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا: “خدا کی قسم تمہارا مقصد فتنہ گری اور فساد کے علاوہ کچھ نہیں۔ تم صرف آج ہی فتنہ گری کی آگ بھڑکانے کے درپے نہیں ہو بلکہ ہمیشہ سے شرارت کرنے کی تاک میں رہے ہو۔ جان لو کہ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں”۔ 

کیا ان تمام دشمنوں کی موجودگی میں صحیح تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک نئے وجود میں آنے والے اسلامی معاشرے کیلئے اپنا دینی اور سیاسی جانشین مقرر نہ کرتے؟۔ عقل کا تقاضا تھا کہ نبی مکرم اسلام اسلامی معاشرے کیلئے ایک رہبر اور زمامدار کو تعیین کر کے ہر قسم کے اختلاف کی روک تھام کرتے اور اسلامی اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے۔ ان دلائل کے علاوہ ایسی بے شمار احادیث موجود ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے جاری ہوئی ہیں اور اہل تشیع اور اہل سنت کے نزدیک صحیح اور یقینی ہیں اور ان میں واضح انداز میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی رسالت کے دوران کئی بار اپنے وصی اور جانشین کو مشخص فرمایا اور امامت کو انتخاب اور عوامی رائے سے مبرا کیا۔ انہوں نے نہ فقط اپنی زندگی کے آخری حصے میں اپنے جانشین کو مشخص فرمایا بلکہ اپنی رسالت کے آغاز پر ہی جب مسلمانوں کی تعداد سو سے بھی کم تھی اپنے وصی اور جانشین کا اعلان فرما دیا۔ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف خدا کی طرف سے دستور آیا کہ اپنی عزیز و اقارب کو اسلام کی دعوت فرمائیں۔ آپ نے بنی ہاشم کے 45 سربراہوں کو اپنے گھر جمع کیا اور فرمایا: “آپ لوگوں میں سے جو بھی میری دعوت کو سب سے پہلے قبول کرے گا میرا بھائی، وصی اور جانشین قرار پائے گا”۔ جو فرد سب سے پہلے اٹھا اور آپ کی آواز پر لبیک کہی وہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت تھی۔ نبی مکرم اسلام نے تمام حاضر افراد سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “یہ جوان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہے”۔ اس حدیث کو مورخین اور محدثین کے نزدیک “حدیث یوم الدار” اور “حدیث بدء الدعوۃ” کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں مختلف مقامات پر، سفر اور حضر میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت اور جانشینی کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ لیکن ان تمام احادیث میں سب سے زیادہ واضح، باعظمت اور دو ٹوک حدیث “حدیث غدیر” ہے۔ 

واقعہ غدیر خم: 

حج کے ایام ختم ہو چکے تھے۔ مسلمان نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حج کے اعمال سیکھ چکے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ واپس جانے کا فیصلہ کر لیا اور روانہ ہو گئے۔ جب آپ کا کاروان جحفہ سے تین میل دور “رابغ” کی سرزمین پر پہنچا تو وہاں پر موجود خطے “غدیر خم” کے مقام پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور خدا کا یہ پیغام پہنچایا: “يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرينَ” (سورہ مائدہ، آیہ 67)۔ 

“اے رسول، وہ پیغام جو تم پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو۔ اور اگر تم نے اسے لوگوں تک نہ پہنچایا تو گویا خدا کی رسالت کو انجام نہیں دیا، اور خدا تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ خدا کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا”۔

اس آیہ شریفہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے انتہائی اہم کام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپرد کیا تھا جو انجام نہ

” اگر انسان بے طرف ہو کر سوچے تو یہ سمجھ سکتا ہے کہ غدیر خم کے روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس اہم مسئلے کو بیان کیا اور جس کے بغیر آپ کی رسالت ادھوری تھی، اور جس کو بیان کرنے کے بعد اسلام کامل ہوا وہ امام علی علیہ السلام کی جانشینی اور خلافت کا مسئلہ تھا۔ “

پانے کی صورت میں آپ کی مکمل رسالت ہی انجام تک نہ پہنچ پاتی اور بے نتیجہ ہو جاتی۔ ایسا اہم کام ایک لاکھ حاجیوں کے سامنے امیرالمومنین علی علیہ السلام کی امامت اور خلافت کے اعلان کے علاوہ کیا ہو سکتا تھا؟۔ لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب کو رک جانے کا حکم دیا۔ جو افراد آپ کے کاروان سے آگے نکل چکے تھے انکو واپس بلایا گیا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا گیا۔ ظہر کا وقت تھا اور شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ لوگوں نے اپنی عبا کے ایک حصے کو سر پر اور دوسرے حصے کو اپنے پاوں کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے درخت پر چادر ڈال کر سایہ فراہم کیا گیا تھا۔ سب افراد نے ظہر کی نماز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امامت میں ادا کی۔ نماز کے بعد تمام افراد دائرے کی شکل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور آپ کیلئے اونٹوں کی پالانوں سے ایک منبر بنایا گیا۔ آپ اس منبر پر تشریف لے گئے اور اونچی آواز میں لوگوں سے خطاب فرمایا۔ 

غدیر خم کے مقام پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ: 

“حمد و ثنا خداوند عالم کے ساتھ مخصوص ہے۔ ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر توکل کرتے ہیں۔ اپنی برائیوں اور برے کاموں سے اسی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ وہ خدا جسکے سوا کوئی ہدایت دینے والا اور راہنما نہیں ہے۔ جسکو وہ ہدایت دے اسکو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ص اسکا بندہ اور رسول ہے۔ اے لوگو، میں جلد ہی دعوت حق کو لبیک کہنے والا ہوں اور آپ کے درمیان سے جانے والا ہوں۔ میں مسئول ہوں اور آپ لوگ بھی مسئول ہیں۔ آپ لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں”۔ اس موقع پر سب کی طرف سے آواز بلند ہوئی کہ “ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کو انجام دیا اور پوری کوشش کی۔ خدا آپ کو اسکا اجر عطا فرمائے”۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: “کیا آپ لوگ گواہی دیتے ہیں کہ دنیا کا معبود ایک ہے اور محمد ص اسکا بندہ اور رسول ہے اور بہشت و دوزخ اور اگلے جہان میں ہمیشہ کی زندگی میں کسی قسم کا شک موجود نہیں ہے؟”۔ سب نے کہا جی ہاں یہ صحیح ہے اور ہم سب گواہی دیتے ہیں۔ اسکے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: “میں آپ لوگوں میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، آپ لوگ انکے ساتھ کیا برتاو کریں گے؟”۔ اسی دوران ایک شخص کھڑا ہوا اور اونچی آواز میں پوچھا کہ وہ دو چیزیں کیا ہیں؟۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: “ایک خدا کی کتاب جسکی ایک طرف خدا کے ہاتھ میں اور دوسری طرف آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اور دوسری چیز میرے اہلبیت اور گھر والے ہیں۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی بھی ایکدوسرے سے جدا نہیں ہونگے۔ اے لوگو، میرے اہلبیت سے آگے نہ بڑھنا اور دونوں پر عمل کرنے میں کوتاہی نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاو گے”۔ اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ہاتھ تھاما اور اسقدر اوپر کھینچا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہو گئی اور فرمایا: “مومنین پر خود ان سے زیادہ حقدار کون ہے؟”۔ سب نے جواب دیا خدا اور اسکا پیغمبر۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: “خدا میرا مولا اور میں مومنین کا مولا ہوں۔ میں ان پر خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ اے لوگو، من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ، اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ، و ابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ، واخذل من خذلہ و ادر الحق معہ حیث دار”۔ 

“جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے (رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جملے کو تین بار دہرایا)، خدایا، جو بھی علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی کر، اور جو بھی علی سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی کر، جو بھی علی سے محبت کرے تو اس سے محبت کر، اور جو بھی علی سے بغض و عداوت رکھے تو 

” البتہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ کام خدا کے حکم پر کیا تھا اور امام علی علیہ السلام کو امامت، خلافت اور رسول خدا کی جانشینی کے عہدے پر فائز کرنے والا خود خداوند عالم ہے۔ “

بھی اس سے بغض و عداوت رکھ، جو اسکی مدد کرے تو بھی اسکی مدد کر، جو علی کو ذلیل کرے تو بھی اسکو ذلیل کر، جہاں بھی علی جائے حق کو اسکے پیچھے پھیر دے”۔ 

اسکے بعد آپ نے فرمایا: “اے لوگو، ابھی جبرئیل امین نازل ہوئے ہیں اور خدا کی طرف سے یہ پیغام میرے لئے لائے ہیں: 

“ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً” (سورہ مائدہ، آیہ 3)۔ 

“آج کے دن میں نے تم لوگوں کا دین کامل کر دیا اور تم لوگوں پر اپنی نعمت کو تمام کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر انتخاب کر لیا”۔ 

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس موقع پر اونچی آواز میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور فرمایا: “خدا کا شکر کہ اس نے اپنے دین کو کامل اور اپنی نعمت کو تمام کر دیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی خلافت اور جانشینی سے راضی ہو گیا”۔ اسکے بعد نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کو فرمایا کہ اپنے خیمے میں بیٹھ جائیں تاکہ مختلف قبیلوں کے سربراہ اور اہم شخصیات آپ کو مبارکباد دیں اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ جن افراد نے سب سے پہلے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خلیفہ اور جانشین بننے پر مبارک پیش کی اور انکے ہاتھ پر بیعت کی وہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان تھے۔ 

واقعہ غدیر کے بارے میں کچھ اہم نکات: 

۱۔ اس تاریخی واقعہ کو تقریبا 110 اصحاب نے نقل کیا ہے۔ لہذا اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ یہ وہ افراد ہیں جنکا ذکر اہلسنت کی کتابوں میں ہوا ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں بڑی تعداد میں کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ تفصیل سے لکھی گئی کتاب “الغدیر” ہے جو علامہ امینی نے لکھی ہے۔ 

۲۔ کچھ اہلسنت علماء نے اس حدیث کا اس طرح سے ترجمہ کیا ہے کہ اس میں لفظ “ولی” کے معنا محبت کے ہیں نہ حکومت اور خلافت کے۔ انسان اگر تھوڑی سی توجہ کرے تو اس توجیہ کا ہلکا پن واضح ہو جاتا ہے۔ کیا یہ عاقلانہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنی شدید گرمی میں ایک لاکھ افراد کے اجتماع میں لمبا چوڑا خطبہ بیان کرنے کے بعد لوگوں سے یہ کہیں کہ میرے بعد علی علیہ السلام سے محبت کرنا؟!!!۔ اور کیا یہ عاقلانہ ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے یہ پیغام نازل ہو کہ اے پیغمبر اگر آپ لوگوں سے یہ نہیں کہیں گے کہ میرے بعد علی علیہ السلام سے محبت کرنا تو تمہاری رسالت کامل نہیں ہے؟!!!۔ اور کیا یہ عاقلانہ ہے کہ مسلمانوں کی اہم شخصیات جیسے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان صرف اس لئے علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کریں اور انکے ہاتھ پر بیعت کریں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے محبت کرنے کا کہا ہو؟!!!۔

 ۳۔ اگر انسان بے طرف ہو کر سوچے تو یہ سمجھ سکتا ہے کہ غدیر خم کے روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس اہم مسئلے کو بیان کیا اور جس کے بغیر آپ کی رسالت ادھوری تھی، اور جس کو بیان کرنے کے بعد اسلام کامل ہوا وہ امام علی علیہ السلام کی جانشینی اور خلافت کا مسئلہ تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو حیران و سرگردان نہیں چھوڑا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد لوگ خلیفہ اور جانشین کی فکر کرنا شروع ہو جائیں۔ بلکہ آپ نے اپنی تمام زندگی میں، اور رسالت کے پہلے دن سے آخری دن تک بیسیوں مقامات پر یہ بیان کر دیا تھا کہ علی علیہ السلام انکے جانشین اور خلیفہ بلا فصل ہیں۔ البتہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ کام خدا کے حکم پر کیا تھا اور امام علی علیہ السلام کو امامت، خلافت اور رسول خدا کی جانشینی کے عہدے پر فائز کرنے والا خود خداوند عالم ہے۔ 

مرجع: 

۱۔ فروغ ابدیت، آیت اللہ جعفر سبحانی۔ 

تبصرے
Loading...