نیک کاموں میں تعاون

بعض کا خصوصاً اہم اور بڑے کام اکیلا شخص نہیں کرسکتا البتہ دوسروں کے تعاون اور ہمکارى سے اہم اور بڑے بڑے کام انجام دیے جا سکتے ہیں اگر انسان اکیلا اور تنہا ہى کام کرنا چاہے تو بہت سے اہم اور نہایت مفید کام کرنے سے محروم رہ جائے گا اور وہ کام پڑے رہ جائیں گے ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص تنہا سماجىبھلائی کا کوئی ادارہ بنا سکے مثلاً ہسپتال، شفاخانہ ، سکون ، مسجد ، یتیم خانہ ، لائبریرى اور تربیت گاہ و غیرہ بلکہ بیشتر اوقات اکیلا شخص کسى ایسے ادارے کانظام بھى نہیں چلا سکتا البتہ دوسروں کے تعاون اور مدد سے ایسے اور زبادہ اہم کام انجام دیے جا سکتے ہیں کسى قوم میں امداد باہمى اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ جتنا قوى ہو گا اتنا ہى ان کا اجتماعى امور کانظام بہتر چل سکے گا اس اعتبار سے دین اسلام ایک کامل اجتماعى نظام ہے کہ جو لوگوں کو باہمى طور پر

ایک دوسرے سے تعاون کى دعوت دیتاہے الله تعالى قرآن میں فرماتا ہے”تعانوا على البر و التقوى ولا تعاونوا على الاثم والعدوان ””ایک دوسرے سے بھلائی اور پرہیزگارى کے کاموں میں تعاون کریں اور گناہ اور( سرکشى کے کاموں میں تعاون نہ کریں” ( 1

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:

( ”حق کے قیام کے لیے تعاون کرنا امانت اور دیانت ہے ” ( 2

تعاون اور ہمکارى کا جذبہ بچپن سے ہى پیدا ہونا چاہیے خوش قسمتى سے انسان فطرى طور پر معاشرتى مزاج رکھتا ہے لیکن اس سے صحیح طریقے سے استفادہ کرنا چاہیے جو ماں باپ اپنے بچوں کى تربیت کے خواہشمند ہیں وہ مختلف طریقوں سے بچوں کے اندر سے یہاں تک کہ مناسب کھیلوں سے تعاون اور ہمکارى کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں اور ان کى توجہ امور خیر کى طرف جذب کرسکتے ہیں اور اسخداداد فطرت کو پروان چڑھا سکتے ہیں مثلاً بچوں کے لیے مناسب کھلونے خرید کر ان کو باہم مل جل کر ایسا ہسپال یا سکول یا پل بنانے کى دعوت دیں بچوں کے لیے وہ ایک مشترک گلّا بنا سکتے ہیں اور ان سے کہہ سکتےہیں کہ اپنےجیب خرچ میں سے کچھ پیسے گلّے میں ڈالیں کچھ عرصہ بعد نکالیں اور ماں باپ کى نگرانى میں امور خیر میں صرف کریں یہ بھى ہوسکتا ہے وہ پیسوں سے پھل یا مٹھائی خریدیں اور ماں باپ سے مل کر یا تنہا بیماروں کى عیادت کے لیے جائیں وہ غریب لوگوں کى مدد بھى کر سکتے ہیں ماں باپ انہیں کچھ پیسے دے سکتے ہیں تا کہ وہ طے شدہ طریقے سے یا کبھى کبھى کسى امور خیر کے ادارے کو دیں یا کسىعمومى کتاب خانے کے لیے کتاب خریدیں ، بچوں کو یہ تجویز بھى دى جا سکتى ہے کہ وہ خود سے ایک کمیٹى بنائیں اور اس کى میٹینک کریں اور کسى اچھے کام کے لیے کوشش کریں اور اس سلسلے میں ان کى مدد کى جا سکتى ہے اگر ماں باپ سماجى خدمت کے کسى ادارے میں شرکت کرتے ہوں تو اپنے بچوں کو بھى ان میں شریک کرسکتے ہیں اور کچھ رقم ان کے حوالے کرسکتے ہیں کہ وہ خود سے اس ادارے کو دیں اور اس کے با قاعدہممبر بن جائیں 

________________

1سورہ مائدہ ، آیہ 4 

2غرر الحکم ص 48

انسان دوستى اور بچّے   ◄

 

تبصرے
Loading...