نیکی کی دعوت،برائی سے توبہ

کلمہ ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔اسی پر دین کی عمارت استوار ہوتی ہے۔اس کلمے پر ایمان جتنا پختہ ہوگا اتنی ہی اس کی بنیاد مضبوط ہوگی اور انسان کے لیے دنیاوی و اخروی کامیابیوں کے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔اگر ہم اس بنیاد سے غافل ہوئے تو دنیا و آخرت دونوں میں نقصان ہے۔وہ کیسے؟ آج ہم برائی اور گناہ کی دلدل میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ ہمیں اسلام کے احکامات یاد بھی نہیں رہے! آج ہم اسلام کے دائرہ کار سے ہٹ کر مغربی تہذیب کو فالو(Follow)کرتے ہوئے اپنا روشن ماضی پس پشت ڈال کر اپنی زندگی کو تاریکی کی طرف لے جا رہے ہیں۔آج جگہ جگہ بے حیائی کے اڈے قائم ہیں ہر طرف برائی عام ہے لیکن ہم ہیں کہ اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے اور اس کی طرف دوڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔اب وقت ہے کچھ کرنے کا۔اپنے گناہوں سے معافی مانگنے کا۔کیونکہ یہ دنیا عبرت کی جگہ ہے تماشہ نہیں ہے لیکن ہم نے اس عارضی دنیا کو ایک تماشہ بنا دیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج برائی کو روکتے ہوئے ہم چند الفاظ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ وقت ایسا آگیا ہے ہم اسے روک نہیں سکتے۔حد افسوس کہ چند معمولی الفاظ سے ہم اس پہلو کو اس ٹاپک کو بدل لیتے ہیں لیکن معاشرہ یا وقت ایسا نہیں بلکہ ہم خود تبدیل ہوگئے ہیں۔ شادی کے ہی موقع کو لیجئے بے حیائی اور برائی کے ایسے ایسے کام کیئے جارہے ہیں کہ ہمیں کچھ خبر بھی نہیں۔ شادی کے موقع پر بے ہودہ اور فضول رسموں سے ہم بے حیائی کو پھیلانے اور اس میں بے شمار خرچ کرکے دوسروں کو برائی کی دعوت دیتے ہیں۔وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ شادی میں ایک اہم پہلو رسم نکاح ہے جو میں کہہ سکتا ہوں صرف اسلام کے احکامات کے مطابق قائم ہے لیکن اس سے بھی ہم شادی کی فضول تقریبات کو متاثر نہ ہونے کے لیے رخصتی سے تین چار دن پہلے ہی علامہ صاحب کو بلوا کر پڑھا لیتے ہیں تاکہ باقی شادی کے دنوں میں کوئی خلل نہ پڑے اور رسم نکاح سے فارغ ہوتے ہی رخصتی تک خوب برائی میں مگن ہوجاتے ہیں یعنی شادی کے دنوں میں چند منٹ مولوی یا علامہ کا آنا بھی گنوارا نہیں کہ یہ جتنا پہلے ہوجائے۔اسی طرح رسم حنا میں جو بے حیائی دیکھنے کو ملتی ہے اللہ اس سے بچائے۔جوان مرد اور عورتیں بے پردہ ہوکر شریعت کے دائرے سے باہر ہوکر ناچتے گاتے رہتے ہیں اور ان کے والدین انہیں منع نہیں کرتے کیا وجہ ہے؟ پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ دوچار دن ہی تو ہیں خوشیاں منانے کے بچوں کو منانے دو! حد افسوس کہ ہمیں پتہ ہی نہیں اور گناہ کی طرف مائل ہوتے ہی جارہے ہیں۔ ناچ گانے کے حوالے سے ہی قارئین کو بطور عبرت ایک واقعہ سنتا ہوں کہ ایک شادی میں لڑکیاں ناچ رہی تھیں اور ایک بوڑھا شخص ایک ناچنے والی پر پانچ سو کا نوٹ ٹکڑے کرکے اس کے اوپر پھینک رہا تھا کسی نے پوچھا جناب یہ کیوں کر رہے ہو تو وہ جواب دیتا ہے کہ ناچنے والی میری بیٹی ہے اور نوٹ کے ٹکڑے کرکے اس لیے پھینک رہا ہوں کہ کہیں نظر نہ لگ جائے کتنا اچھا ڈانس کر رہی ہے!!قارئین آپ کیا سمجھتے ہیں اس شخص کی غیرت اتنی مردہ ہوچکی ہے؟ کیا اسلام اور شریعت کو اتنا پس پست ڈال دیا گیا ہے کہ ہمیں کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ شادیوں میں اکثر لڑکے ، لڑکی کے والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کی شادی پر ان کے ناراض ماما،مامی، چچا تایا وغیرہ کو منا لیا جائے ان کی شرکت سے شادی میں چار چاند لگ جائیں گے اور ہم انہیں منانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس وقت کسی کو یہ یاد نہیں کہ ہم نے اپنے اللہ کو بھی منانا ہے کہ نہیں۔قارئین لمحہ فکریہ ہے ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیں دعوت فکر دینا چاہتا ہوں کہ جس کام کے لیے ہمیں بھیجا گیا ہم اسے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے اسے ناراض کرنے کے راستے اختیار کر رہے ہیں۔

ابھی وقت ہے اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھال لیں اور اپنی دنیا و آخرت کو سنوار لیں۔ میں اپنی بہنوں اور بھائیوں کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ جو اسلام سے دور ہیں خدارا ایک لمحے کے لیے اپنے آپ کو دیکھیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں آئیں آج ہم سب عہد کریں کہ نیکی کی دعوت کو عام کریں گے اور معاشرے سے فضول اور بے ہودہ غیر اسلامی رسموں رواج کو جڑ سے ختم کریں گے(انشاء اللہ)۔ آج ہم پر جو مصیبتیں اور پریشانیاں ہیں وہ ہمارے برے اعمال کا ہی نتیجہ ہے۔

 

تبصرے
Loading...