نہج البلاغہ کی شعاعیں

نہج البلاغہ ایسی کتاب مستطاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ، قرآن مجید کے بعد عالمگیر شہرت رکھنے والی مقدس کتاب یہی ہے ، اس کتاب کی عظمت و نورانیت کے پیش نظر اہل اسلام وایمان اور دیگر ادیان ومکاتب والے لوگ بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

کلام امامت ، کلام حکمت : 

معصوم اور منصوص امام علیہ السلام کا کلام دیگر کلاموں کا امام ہوتا ہے ، خداوند متعال حکیم ذات ہے اور امام خداوند متعال کا بر حق نمائندہ ہوتا ہے لہذا خداوند کی حکمت کا مظہر ہوتا ہے ، امام معصومکے ہر قول اور فعل میں حکمت ہی حکمت ہوتی ہے ، کلام امام علیہ السلام میں تعقل، تدبر اور غوروفکر کرنے اور اس کی گہرائی میں غوطہ ور ہونے سے انتہائی عمدہ ، گراں قیمت اور نایاب حکمت کے در اور گوہر نصیب ہوتے ہیں ۔ حجت خداوند کے قول کے مطابق کہ ،،الحکمۃ ضآلۃ المؤمن،، حکمت ، مومن کی گمشدہ  چیز ہے ، اسے جہاں سے مل سکے ، حاصل کر لیتا ہے اور چونکہ کلام امامت ، کلام حکمت ہوتا ہے لہذا مومن اس امر کا مشتاق ہوتا ہے کہ اسے کلام امامت سننا یا پڑھنا نصیب ہوتا کہ اس کے اندر اپنی گمشدہ چیز،،حکمت،، کو پاسکے۔

انعامی مقابلے کے اس مختصر پمفلٹ میں ہم بارگاہ رافت کے زائرین کے لئے امیر الکلام حضرت علی علیہ السلام کے چند مختصر فرمودات کی تشریح پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ، یہ فرمودات نہج البلاغہ کے کلمات قصار سے لئے گئے ہیں ، نہج البلاغہ وہی نورانی کتاب، جس کی شعاعیں اہل دل کی نورانیت کا باعث بنتی ہیں ۔

قال علی علیہ السلام : اذا اقبلت الدنیا علیٰ احد اعارتہ محاسن غیرہ واذا ادبرت عنہ سلبتہ محاسن نفسہ 

ترجمہ : حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں ،، دنیا جب کسی کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی عارضی طور پر اسے دے دیتی ہے اورجب اس سے منہ موڑتی ہے تو اس کی اپنی خوبیاں بھی چھین کر لے جاتی ہے ۔ 

تشریح: اس فرمان ذیشان میں حکیم امام حضرت علی علیہ السلام دنیا کی دو خصوصیات بیان فرما رہے ہیں ۔

(1)دنیا جب کسی شخص کی طرف آتی ہے تو اس کی خاصیت و عادت یہ ہے کہ عام لوگ اس کی تعریفیں کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کے ہاتھ میں دولت وثروت کی ریل پیل دیکھ کر جہان بھر کی خوبیاں اسی سے منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ عام لوگ چڑھتے  سورج کے پجاری ہوتے ہیں ، جس کسی کے ہاتھ میں مال و اموال دیکھتے ہیں کہ اب سرمایہ داری  اور مال وثروت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ اسی کے سر چمکتا دمکتا رہے گا لہذا اسی کے گن گاتے ہیں ، یہ نہیں سوچتے کہ یہ سورج غروب بھی ہو سکتا ہے اور دولت وثروت ڈھلتے سائے کی مانند ہے کبھی ہے تو کبھی نہیں اور اس طرح سے نہیں کہ گویا کبھی بھی وہاں دولت کا گزر نہیں ہوا تھا ۔

انسانوں میں اکثریت عوام یعنی عام لوگوں کی ہے اور عام لوگوں کی فکر و منطق بھی سطحی ہوتی ہے ، گہری نہیں ہوتی لہذا ان کے زعم وگمان میں یہی ہوتا ہے کہ جس کو دولت دی جاتی ہے وہ ہمیشہ دولت مند ہی رہتا اور ان کی تعریف و چاپلوسی کے ذریعے  ان دولتمندوں کے دلوں میں گھر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اس قدر مرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان کے عیوب ونقائص کو بھی اچھائیوں کا روپ دینے کی کوشش کرتے ہیں گویا یہ تأثیر دیتے ہیں کہ جہان بھر کی خوبیوں کے مالک یہی دولتمندافراد ہیں ۔

(2)حضرت امیر کائنات علی ابن ابیطالب علیہما السلام  دنیا کی دوسری صفت یوں بیان فرماتے ہیں کہ یہی دنیا جب دنیا دار اور دولتمند شخص سے منہ موڑ لیتی ہے او ر اس کی ثروت فقر میں اور امیری غربت میں تبدیل ہو کر ہر جاتی ہے تو عوام یعنی عام لوگ جو کل تک اس شخص کی ثروت وامارت کی وجہ سے اس کے گیت گاتے ہوئے تھکتے نہیں تھے ، آج دنیا نے جب رخ پھیر لیا تو نہ فقط یہ کہ ثروت و دولت کی وجہ سے جو اس کی تعریفیں ہوتی تھیں ، جو چاپلوسیاں ہوتی تھیں ، جو احترام واکرام ہوا کرتے تھے ، وہ سب کچھ نابود ہو کر رہ جاتا ہے بلکہ دولت وثروت سے قطع نظر جو اس کی ذاتی خوبیاں بھی کالعدم ہو کر رہ جاتی ہیں ،کیونکہ دنیا کی ایک صفت یہی ہے کہ جب دولت ودنیا کا سورج غروب ہو جاتا ہے تو ذاتی اجالے بھی تاریکیوں اور تیرگیوں میں بدل کر رہ جاتے ہیں ۔

ثروت وفقر کا راز:

ان گنت اور لاتعداد احادیث معصومین علیھم السلام اس حقیقت کو برملا کرتی ہیں کہ انسان کا خالق انسان کی طرف سے ہر حال میں امتحان مقصود ہوتا ہے کبھی خداوند متعال انسان کو رزق ودولت دے کر آزماتا ہے اور کبھی رزق لے کر آزمائیش کی جاتی ہے ، جو افراد اس حقیقت اور راز سے دانا وآگاہ ہوتے ہیں ان شمار عوام نہیں بلکہ خواص یعنی خاص لوگوں میں ہوتا ہے اور وہ تمام حالات کو من جملہ ثروتمند اور فقیر ہونے کو خداوند متعال کی جانب سے امتحان سمجھتے ہیں لہذا کوشش کرتے ہیں کہ بہترین عمل انتخاب کر کے کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہون اور اس طرح سعادتمند ہو سکیں ۔ قرآن کریم میں اس راز کی طرف یہ آیہ کریمہ دلالت کرتی ہے : 

تلک الایام نداولھا بین الناس

یعنی یہ ایسے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گھماتے رہتے ہیں ۔

تبصرے
Loading...