نوجوان نسل كی رهنمائی

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّكَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِه وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ۔ (سورهٴ نحل۔ آیت ۱۲۵)

جس مسئله كا میں آج “نوجوان نسل كی رهنمائی”كے عنوان سے تذكره كرنا چاهتا هوں وه مسلمانوں كی ایك عام ذمه داری هے لیكن یه ذمه داری اس طبقه پر خاص طور پر عائد هوتی هے جس كا فرض معاشره كی دینی رهنمائی هے۔ یه اصول تو هم سب كو معلوم هے كه مذهب اسلام میں ذمه داری مشترك هے یعنی سب افراد ایك دوسرے كے متعلق ذمه داری میں شریك هیں۔

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُوْلُ عَنْ رَعِیَّتِه۔

تم میں سے هر شخص ایك دوسرے كا محافظ اور نگهبان هے اور هر ایك پر اس كے ماتحت افراد كی ذمه داری هے۔

هر نسل ذمه دار هے كه جو دین اس تك پهنچا هے اور جو هدایت اُسے ملی هے اس كی حفاظت كرے اور بعد میں آنے والی نسلوں تك اسے پهنچائے اور بعد میں آنے والوں كو اس پر آماده كرے كه وه اسے قبول كریں اور اس سے مستفید هوں۔ اس لئے نوجوان نسل كی رهنمائی ایك ایسا فرض اور ایك ایسی ذمه داری هے جو سب پر عاید هوتی هے۔

جس بات نے اس بحث كو ایك ایسا مسئله بنادیا هے كه جس پر غوروفكر كرنے اور اس كا حل تلاش كرنے كی ضرورت هے وه یه هے كه كسی فرد یا كسی نسل كی رهنمائی كا هر حال میں ایك هی طریقه نهیں بلكه یه طریقے بدلتے رهتے هیں اور اس مقصد كے لیے جو وسائل كام میں لائے جاتے هیں وه بھی بدلتے رهتے هیں۔كوئی ایسا نسخه نهیں جو هر نسل اور هر زمانے میں ایك هی طرح تجویز كردیا جائے اس لیے هر زمانے میں اور مختلف حالات میں غوركرنا پڑتا هے كه كیا صورت اختیار كرنی چاهیے اور كونسا نسخه استعمال كرنا چاهیے۔

دو قسم كی ذمه داری

میں نے امربالمعروف اور نهی عن المنكر كے موضوع پر یهاں جو لكچر دیا تھا اس میں بھی اشارتاً كها تھااور اب پھر كهتا هوں كه دینی ذمه داری كی دوقسمیں هیں۔ ایك توكسی مخصوص كام كے مخصوص شكل میں كرنے كی اس طرح كی ذمه داری هے كه اس كام كی تمام خصوصیات اور شرائط وغیره سب اسلام نے متعین كردی هوں اور كهه دیا هو كه تم اس كو اس طریقے سے اور اس صورت میں انجام دو۔ ایسے كام اگر چه كسی خاص مقصد سے هی فرض هوئے هیں لیكن هم ان كے نتیجے اور اس مقصد كے ذمه دار نهیں۔ اس قسم كے كاموں كو تعبّدیات كهتے هیں۔ یوں سمجھیے كه هماری ذمه داری صرف اس قدر هے كه ان كاموں كی جو صورت تجویز كی گئی هے اس كے مطابق ان كو پورا كردیں۔ مثلاً نماز هے۔ نماز ادا كرنے سے پهلے كچھ مقدمات بھی ضروری هیں۔ نماز كی خاص شرائط هیں۔ اس كے كچھ اجزاٴ هیں۔ كچھ ایسی باتیں هیں كه ان كی وجه سے نماز نهیں هوسكتی۔ كچھ ایسی باتیں هیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی هے۔ همیں حكم هے كه جو طریقه بتلایا گیا هے اس كے مطابق نما ز ادا كریں۔ یه تعبّدی حكم هے۔ نماز كا كچھ فائده اورنتیجه بھی ضرور هے لیكن اس نتیجه كا تعلق صرف الله تعالےٰ سے هے۔

اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ۔

نماز فحش باتوں اور برائیوں سے روكتی هے۔

هم فقط مقرره طریقے كے مطابق نماز ادا كرنے كے ذمه دار هیں۔ نتیجه هماری ذمه داری نهیں۔ هاں یه ضرور هے كه اگر هم اس عمل كو بالكل صحیح طریقے سے جیسا كه حكم دیا گیا هے، انجام دیں گے تو نتیجه خود بخود مرتب هوگا۔

ذمه داری كی ایك اور قسم وه هے جس كو هم نتیجه كی ذمه داری كهه سكتے هیں۔ اس صورت میں انسان كو نتیجه حاصل كرنے كا ذمه دار ٹھهرایا گیا هے۔ اب یه اس كا كام هے كه اس عمل كو بهترین طریقے سے انجام دے۔ بالفاظ دیگر اس كی كوئی شرائط اور كوئی صورت معین نهیں۔ موقع اور وقت كے لحاظ سے ا س كا طریقه بدل سكتا هے۔

ایك مثال عرض كرتا هوں۔ فرض كیجیے آپ كو ایك مشكل در پیش هے۔ مثلاًآپ كا كوئی خاص آدمی جیل میں هے اور اس سلسله میں آپ كسی شخص سے كوئی خاص كام لینا چاهتے هیں۔ مثلاً آپ اسے كوئی چٹھی دیتے هیں اور كهتے هیں كه یه چٹھی فلاں شخص كو فلاں وقت پهنچادو۔

ظاهر هے كه یه چٹھی كسی خاص مقصد كے لیے لكھی گئی هوگی لیكن پیغام رساں كی ذمه داری صرف چٹھی پهنچاناهے، مقصد سے اسے كوئی مطلب نهیں۔ دوسری صورت یه هے كه آپ اس سے براه راست نتیجه كے خواهاں هیں۔ طریقه كار سے آپ كو مطلب نهیں۔ آپ كهتے هیں كه میں یه چاهتا هوں كه یه قیدی چھوٹ جائے۔ اس صورت میں آپ طریقهٴ كاركا تعیّن نهیں كرتے۔ یه اس كا كام هے كه اس مقصد كو حاصل كرنے كے لیے وه اقدام كرے جو بهتر هو۔

عام طور پر اس كام كی ذمه داری ان معاملات سے متعلق هوتی هے جن كا طریقهٴ كار معین نهیں هوتا۔ كبھی ایك طریقه استعمال هوتا هے كبھی دوسرا۔ زمان و مكان كے لحاظ سے طریقه بدلتا رهتا هے۔ ایسے موقعوں پر سوچنا هوتا هے كه كون سا طریقه مناسب رهے گا۔

اسلام میں دونوں قسم كی ذمه داریاں موجود هیں۔ نماز ، روزه اور دوسرے تعبّدی امور میں ذمه داری پهلی قسم كی هے، جهاد میں دوسری قسم كی۔ جهاد میں مسلمان اس كے پابند هیں كه اسلامی علاقے كا دفاع كریں اور مسلمانوں كی آزادی كا تحفظ كریں۔ مگر كس طرح؟ تلوار سے، بندوق سے یا كسی اور هتھیار سے اس كا تعین نهیں كیا گیا اور اس كا تعین بھی نهیں هوسكتا۔ مسلمان اس كے پابند هیں كه هر زمانے میں بهترین وسائل كو بروئے كار لائیں۔

وَاَعِدُّوْ الَھُمْ مَّااسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ۔ (سوره ٴانفال آیت ۶۳)

یه كام مسلمانوں كا هے كه وه یه دیكھیں كه كس زمانے میں كون سے هتھیار استعمال كرنا بهتر هے۔

هدایت اور رهبری كا مسئله بھی دوسری قسم میں داخل هے۔ مسلمانوں كی ذمه داری هے كه وه ایك دوسرے كی رهنمائی كریں۔ هر نسل آئنده آنے والی نسل كی هدایت كی ذمه دار هے۔ یه ذمه داری خاص طور پر ان لوگوں پر عائد هوتی هے جن كے هاتھ میں قیادت هے۔ بهر حال هدایت تو ضروری هے لیكن اس كا طریقهٴ كار هر جگه اور همیشه كے لیے معین نهیں اور نه اس كا تعین هوسكتا هے۔

الله تعالےٰ فرماتا هے:

قُوْآ اَنْفُسَكمْ وَاَھْلِیْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَاالنَّاسُ وَالْحِجَارَةُ۔ (سورهٴ تحریم۔ آیت ۶)

یعنی اپنے آپ كو اور اپنے خاندان كو اس آگ سے بچاؤ جس كا ایندھن آدمی اور پتھر هیں۔

اس آیت میں صرف نتیجه یعنی آگ سے بچانے كا ذكر هے، طریقے اور ذریعے كا تذكره نهیں۔

اسلام میں هدایت اور رهبری كی كوئی ایك بالكل معین شكل بیان نهیں كی گئی اور نه اس كے طریقهٴ كار اور اس كی شرائط كی مكمل تفصیل دی گئی هے۔ بنیادی طور پر ایسی تفصیل دی بھی نهیں جاسكتی تھی كیونكه حالات كے لحاظ سے اس میں فرق هوتا رهتا هے۔ هدایت و رهبری نماز كی طرح تعبدی نهیں كه اس كی كوئی ایك هی شكل مقرر هو۔ یه كوئی وظیفه یا منتر بھی نهیں كه هر سانپ كے ڈسے یا بچھو كے كاٹے پر پڑھ كر پھونك دیا جائے۔

طریقے اور ذریعے اضافی اور وقتی هوتے هیں

ایك جگه رهنمائی كا ایك طریقه استعمال كیا جاتا هے لیكن هوسكتا هے كه وهی طریقه كسی دوسری جگه گمراهی كا سبب بن جائے۔ جن دلائل سے ایك بڑھیاكو مومن بنایا جاسكتا هے وهی دلائل اگر ایك تعلیم یافته آدمی كے سامنے پیش كیے جائیں تو اس كو گمراه كردیں گے۔ ایك كتاب جو كسی زمانے میں اس زمانے كے لوگوں كے مذاق اور ان كی ذهنی سطح كے مطابق هو، دوسرے زمانے میں گمراهی كا سبب بن سكتی هے۔ همارے پاس بهت سی كتابیں هیں جنهوں نے زمانهٴ قدیم میں خوب كام دیا اور سینكڑوں، هزاروں كو راه هدایت دكھائی لیكن ان كتابوں سے همارے زمانے میں كسی كو هدایت نهیں مل سكتی بلكه ممكن هے كه گمراهی، شك اور تذبذب كا سبب بن جائیں۔ اب ان كا شمار ان كتابوں میں كرنا چاهیے جو لوگوں كو گمراه كرتی هیں حتیٰ كه ان كی خرید و فروخت اور طباعت و اشاعت بھی خالی از اشكال نهیں۔

كتنی عجیب بات هے كه وهی كتاب جس نے پهلے هزار ها لوگوں كو راه هدایت دكھلائی تھی اب وه گمراه كن هوگئی۔ اصل یه هے كه سوائے آسمانی كتاب اور كلامِ معصومین علیهم السلام كے هم جس كتاب كوبھی لیں،وه ایك محدود مدّت كے لیے مفید هوتی هے اور وه مدّت گزرجانے كے بعد اس كا فائده اور مقصد ختم هوجاتاهے۔

یه نكته جو میں نے بیان كیا، ایك اهم معاشرتی مسئله هے اور ایك ایسا معما هے جس كے حل كی ضرورت هے۔ ابھی تك اس پر كوئی غور و خوض نهیں هوا۔ یه تو توقع نهیں كی جاسكتی كه اس جلسه میں بات بالكل واضح هوجائے گی۔ دراصل اس بات كو باربار دهرانے كی ضرورت هے تاكه یه همارے ذهن نشین هوجائے كه هر زمانے كے ذرائع هدایت اسی زمانے سے مخصوص هوتے هیں۔ ضروری هے كه اس كے كچھ شواهد اسلام كی بنیادی كتابوں سے پیش كیے جائیں تاكه معلوم هو جائے كه اسلام نے خود اس نكته كی طرف توجه دی هے۔

میں نے تقریر كے آغاز میں یه آیت پڑھی تھی:

اُدْعُ اِلیٰ سَبیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔ (سورهٴ نحل۔ آیت ۱۲۵)

مفسرین كا اس بات پر اتفاق هے كه اس آیت میں رهنمائی كے تین طریقے تجویز كیے گئے هیں اور ان میں سے هر طریقه ایك خاص موقع سے مخصوص هے۔ فرمایا گیا هے كه لوگوں كو اپنے رب كے راسته كی طرف بلاؤ۔ یاد ركھیے كه جهاں بھی رب كا لفظ استعمال هوا هے اس كے مفهوم میں ایك خاص پهلو شامل هے جس سے مراد هے تربیت – چونكه یهاں بھی دعوت اور تربیت كا ذكر هے اس لیے رب كا لفظ استعمال كیا گیا هے۔

فرمایا گیاهے كه لوگوں كو اپنے رب كے راستے كی طرف بلاؤ یعنی اس راه كی طرف جس سے لوگوں كی پرورش اور تربیت هو، كس طرح بلاؤ؟ حكمت سے یعنی ایسے پخته دلائل پیش كرو كه جن میں شك كی گنجائش نه هو۔ بقول منطقیوں كے ایسی بات كهو جس كے مقدمات سو فیصد یقینی هوں۔ خلاصه یه هے كه اپنے پروردگار كے راسته كی طرف لوگوں كو خالص علمی و عقلی دلائل و براهین كے ذریعے سے بلاؤ۔

مفسرین كهتے هیں كه علمی و عقلی دلائل سے صرف ان لوگوں كو دعوت دی جانی چاهیے جو اس كی استعداد اور صلاحیت ركھتے هوں۔

وَالْمَوْعِظۃِ الْحَسَنَۃِ یعنی لوگوں كو اپنے پروردگار كی راه كی طرف بلاؤ دل خوش كن وعظ و نصیحت كے ذریعے سے كچھ لوگ علمی و عقلی دلائل سمجھنے كی اهلیت نهیں ركھتے۔ ان كی رهنمائی كا طریقه وعظ و نصیحت هے۔ ان كی هدایت كے لیے مثالوں، قصّوں، كهانیوں اور هر اس چیز سے كام لینا چاهیے جس سے وه متاثر هوسكیں۔ وعظ و نصیحت كا تعلق دل سے هے۔ اكثریت ایسے هی لوگوں كی هے جن كے دل زیاده آسانی سے متاثر هوسكتے هیں بمقابله دماغ كے۔

وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔

یعنی اگر آپ كا كسی ایسے شخص سے واسطه پڑے جس كا مقصد حقیقت معلوم كرنا اور اس بات كو سمجھنا نهیں بلكه صرف بحث كرنا هو اور جو اس انتظار میں رهتا هو كه مخالف كی كوئی ایك بات پكڑكر اس پر جھگڑنا شروع كردے تو آپ ایسے شخص سے بحث كیجیے لیكن عمدگی اور شائستگی سے – لیكن بحث میں حق و صداقت كو نظر انداز مت كیجیے، انصاف سے كناره كشی اختیار نه كیجیے، غلط بات مت كهیے، جھوٹ اور فریب سے كام مت لیجیے وغیره وغیره۔

اس آیت میں رهنمائی كے تین مختلف طریقے بتلائے گئے هیں۔ هر طریقه ایك خاص موقع كے لیے هے۔ اس سے معلوم هوا كه اس مقصد كے لیے هر موقع پر یكساں اور ایك هی طریقه اختیار نهیں كیا جاسكتا۔

انبیاء كے معجزات میں اختلاف كا سبب

اس مضمون كی تائید ایك نسبتاً مشهور روایت سے بھی هوتی هے،اگر چه وه روایت پیغمبروں كے معجزات كے بارے میں هے جو هر دور میں ایك هی طرح كے نهیں تھے لیكن بهر حال اس روایت سے همارے قول كی تائید ضرور هوتی هے۔ یه روایت ایك سوال كا جواب هے اور اسے ابن سكیت نے اما م محمد تقی علیه السلام سے روایت كیا هے۔

ابنِ سكیت ایك مشهورادیب گزرا هے جس كا ذكر ادبی كتابوں میں بكثرت هے۔ یه امام هادی علیه السلام كا هم عصر تھا یعنی متوكّل كے عهدِ خلافت میں زنده تھا اور اسی كے هاتھ سے مارا گیا، مذهباً شیعه تھا۔ كهتے هیں كه اس كے قتل كا سبب یه هوا كه یه متوكل كے دوبیٹوں المعتز اور الموٴیّد كا استاد تھا۔ متوكل كو معلوم تھا كه ابنِ سكیت علویوں كا هوا خواه هے۔ ایك دن جب یه دربار میں موجود تھا متوكل كے بیٹے بھی وهاں آگئے۔ متوكل جس كے لیے مشهور تھا كه اس كی تلوار سے خون ٹپكتا تھانے ابنِ سكیت كو مخاطب كركے پوچھا كه میرے بیٹے بهتر هیں یا علی علیه السلام كے بیٹے حسن علیه السلام اور حسین علیه السلام ابن سكیت جو بڑا عالم تھا متوكل كی ا س گستاخی پر بهت برهم هوا اور كها میری نظر میں علی كا غلام قنبر بھی ان دونوں لڑكوں اور ان كے باپ سے بهتر هے۔ متوكل نے ترك غلاموں كو حكم دیا كه ابنِ سكیت كی زبان گُدّی سے كھینچ كر نكال دیں۔ اس طرح ابنِ سكیت كا قتل كیا گیا۔

بهر حال اس شخص نے امام هادی علیه السلام سے پوچھا: فرزندِ رسول صلی الله علیه وآله وسلم ! جب حضرت موسیٰ علیه السلام مبعوث هوئے تو انهوں نے لوگوں كی تبلیغ و هدایت كے لیے جن معجزات سے كام لیا وه تو اس نوعیت كے تھے جیسے عصاكا اژدھا بن جانا یدبیضا وغیره اور جب حضرت عیسیٰ علیه السلام مبعوث هوئے تو ان كے معجزات كی نوعیت مختلف تھی جیسے مادر زاد اندھوں اور مبروصوں كا علاجانهوں نے مردوں كو زنده كیا اور اسی طرح كے دوسرے كام كیے مگرجب همارے پیغمبر مبعوث هوئے تو انهوں نے ایسا كوئی معجزه نهیں دكھلایا۔ ان كا معجزه فصاحت و بلاغتِ كلام اور قرآن هے۔ اس كی كیا وجه هے؟

امام علیه السلام نے فرمایا كه اس كی وجه زمانے كا اختلاف هے۔ حضرت موسیٰ علیه السلام كے زمانے میں جادوگری اور اسی نوع كی چیزیں لوگو ں كے دل و دماغ پر چھائی هوئی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیه السلام كے معجزات بھی ان هی چیزوں كے مشابه تھے جب كه وه لوگ صرف جادو اور نظربندی سے كام لیتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیه السلام كا زمانه وه تھا جب متعدد اطبّاٴحیرت انگیز علاج كرتے تھے۔ لوگوں كی گردنیں ان هی كمالات كے سامنے جھكتی تھیں۔ الله تعالےٰ نے حضرت عیسیٰ علیه السلام كو بھی اسی نوع كا معجزه عطاكیا مگر خاتم الانبیا كا زمانه قادر الكلامی كا زمانه تھا۔ بلند پایه كلام كی قدر تھی اس لیے اسلام كے معارف عالیه بلند پایه اور فصیح و بلیغ عبارت میں ادا كیے گئے(مزید تفصیلات كے لیے دیكھیے: جامعه تعلیمات اسلامی كی كتاب “فلسفهٴ معجزه” مئولفه آیت اللّٰه العظمیٰ الخوئی رح)

ابنِ سكیت كو امام كا جواب بهت پسند آیا۔ كهنے لگا اب میں اس بات كا راز سمجھ گیا۔ پھر عرض كیا: فرزندِ رسول! اس زمانے میں خدا كے وجود اور وحدانیت كو كیسے ثابت كیا جاسكتا هے: فرمایا عقل سے۔ ابن سكیت نے كها: ھٰذَا وَ اللّٰه ھُوَالْجَوَابُ۔

معلوم هوا كه پیغمبروں كے معجزات كے اختلاف كی علّت یه هے كه هرزمانه میں لوگوں كی هدایت كا ذریعه مختلف هے ورنه ممكن تھا كه آدم سے خاتم تك ایك هی قسم كا معجزه هوتا بشرطیكه یه مان لیا جائے كه آدم علیه السلام بھی پیغمبر تھے اور ان كا بھی كوئی معجزه تھا، كیونكه بعض كا خیال هے كه آدم علیه السلام پیغمبر نهیں تھے۔ بهر حال هر پیغمبر نے اسی معجزه سے كام لیا جو ان كے دور اور زمانے كے مناسبِ حال تھا۔

انبیاء كا طریقه

كافی میں ایك مشهور حدیثِ نبوی هے اور حال هی میں بعض دوستوں نے جن كے پاس اهلِ تسنّن كی حدیث كی كتابیں موجود هیں تحقیق كركے بتلایاهے كه یه حدیث اهل تسنّن كی كتابوں میں بھی موجود هے۔ اس كے مطابق حضرت رسولِ اكرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا هے:

اِنَّا مَعَاشِرَالْاَنْبِیَآءِ اُمِرْنَااَنْ نُّكَلِّمَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ۔

هم پیغمبر مامور هیں كه لوگوں سے ان كی عقل كے مطابق گفتگوكریں۔ هم جس سے بات كرتے هیں اس كی ذهنی اور فكری سطح كا خیال ركھتے هیں اور اس كی عقل اور سوچ كے مطابق بات كرتے هیں۔ جس كی فكری سطح بلند هوتی هے اس سے اس كی سطح كے مطابق اور جس كی فكری سطح پست هوتی هے اس سے اس كی سطح كے مناسب گفتگو كرتے هیں۔ ایك عام آدمی سے ایسی اونچی بات نهیں كهتے جس سے اس كا سرهی چكرا جائے اور نه كسی هوشیار آدمی كو وه جواب دیتے هیں جو ایك بڑھیا كو دیتے هیں۔ اپنی مثنوی میں مولانا رومی نے اسی حدیث كے مضمون كی طرف اشاره كیا هے۔ وه كهتے هیں:

پست میگویم باندازهٴ عقول

عیب نبود، ایں، بوكارِ رسول

نبیوں كی روش اور فلسفیوں كی روش میں ایك فرق یه بھی هے كه فلسفی همیشه ایك مقرره سطح كے دلائل سے كام لیتے هیں۔ان كے اسٹور میں ایك سے زیاده قسم كا مال هی نهیں هوتا لهٰذا جو گاهك ان كے پاس آتے هیں وه بھی ایك هی طبقه كے هوتے هیں۔ فلسفی مخصوص اصطلاحات استعمال كیے بغیر اپنا مطلب بیان نهیں كرسكتے، اس لیے صرف وهی لوگ ان كی بات سمجھتے هیں جو ان كی زبان جانتے هیں۔

كهتے هیں كه افلاطون كے مشهور مدرسه كے دروازه پر جو ایتھنز كے باهر ایك باغ میں واقع تھا اور جس كا نام اكاڈیمیا تھا اور اسی كی مناسبت سے اب علم اور فن كی بڑی درسگاه كو اكیڈمی كهتے هیں، ایك شعر لكھا هوا تھا جس كا مفهوم یه تھا كه جو شخص جیومیٹری نه جانتاهو وه اس مدرسه میں نه آئے۔

لیكن انبیاء كی روش یه هے كه ان كی درسگاه سے هر قسم كے شاگرد استفاده كرسكتے هیں، یهاں هر قسم كا مال هے، اتنا اونچا بھی كه افلاطون كو چاهیے كه آكر شاگردی كرے اور اتنا معمولی بھی كه جس سے ایك بڑھیا كا بھی كام چل جائے۔ كسی پیغمبركے دروازے پر یه لكھا هوا نهیں تھا كه جو یهاں استفاده كرنا چاهے اس كی تعلیم اتنی هونی چاهیے۔ هاں یه ضرور تھا كه جس كی جتنی زیاده استعداد تھی وه اتنا هی زیاده استفاده كرسكتا تھا لیكن جس كی استعداد كم تھی وه بھی اپنی لیاقت كے مطابق فائده اٹھا سكتا تھا كیونكه اِنَّامَعَاشِرَالْاَنْبِیَآءِ اُمِرْنَآ اَنْ نُّكَلِّمَ النَّاسَ عَلیٰ قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ۔

بهترین شاگرد

یهاں سے ایك بات اور بھی مستفاد هوتی هے اور وه یه كه فلاسفه كے بهترین شاگرد وه هیں جنهوں نے ان سے براه راست تعلیم حاصل كی لیكن انبیاء اور اولیاء كی یه بات نهیں ۔ افلاطوں، ارسطو یا بوعلی سینا كے بهترین شاگرد وهی هیں جنهوں نے بلاواسطه ان سے كسبِ فیض كیا۔ هم كهه سكتے هیں كه بوعلی سینا كے كلام كو بهترین طور پر سمجھنے والے بهمنیا ریا ابوعُبید جو زجانی تھے لیكن رسولِ اكرم صلی الله علیه وآله وسلم یا امیر المومنین علیه السلام یا امام صادق علیه السلام كے شاگرد كون تھے؟ كیا ان كے بھی بهترین شاگرد وهی تھے جو ان كے زمانے میں موجود تھے؟ نهیں یه بات نهیں۔

اس نكته كی طرف رسولِ اكرم صلی الله علیه وآله وسلم نے اپنے كلام میں ارشاد فرمایا هے۔ شاید یه بات ان لوگوں نے جو اس وقت موجود تھے، پورے طور پر نه سمجھی هو۔ معدودے چند ایسے افراد كی بات چھوڑیے جیسے سلمان، ابوذر اور مقدار۔ باقی لوگ نهیں سمجھتے تھے۔

آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا : نَصَرَ اللّٰه عَبْدًاسَمِعَ مَقَالَتِیْ فَوَعَاھَا وَبَلَّغَھَا مَنْ لَّمْ یَبْلُغْه الله مدد كرے ان كی جنهوں نے میری بات سنی، یاد ركھی اور ان تك پهنچائی جن تك نهیں پهنچی تھی۔ ایك دوسری روایت كے الفاظ هیں:نَضَّرَ اللّٰه عَبْدًاسَمِعَ مَقَالَتِیْ الله كرے وه پھلیں اور پھولیں جنهوں نے میری بات سنی…اس كے بعد آپ نے فرمایا: رُبَّ حَامِلِ فِقْه غَیْرِ فَقِیْه وَرُبَّ حَامِلِ فِقْه اِلیٰ مَنْ ھُوَ اَفْقَه مِنْه۔ كیونكه بهت سے لوگ جن كو ‘فقه’كی كوئی بات معلوم هوتی هے خود’فقیه’نهیں هوتے اور بهت سے لوگ جن كو ‘فقه’كی كوئی بات معلوم هوتی هے، اس بات كو ایسے لوگوں تك پهنچادیتے هیں جو ان سے زیاده ‘فقیه’ هوتے هیں۔

ابتدائی دور میں فقه كی اصطلاح ایسی دینی حقیقت كے لیے استعمال كی جاتی تھی جو غور و فكر كی محتاج هو۔ یهاں مقصود وه حقائق و معارف اور كلمات هیں جو لوگ خود آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم كی زبان سے سنتے تھے اور یاد ركھتے تھے۔ وه خود ان كو نهیں سمجھتے تھے اور نه ان كا تجزیه و تحلیل كرسكتے تھے لیكن ان میں سے بهت سے ان كلمات اور حقائق كو ایسے دوسرے لوگوں تك پهنچادیتے تھے جو ان سے بهتر سمجھتے اور حقائق كا ادراك كرسكتے تھے۔

مثلاً كسی شخص نے رسولِ اكرم صلی الله علیه وآله وسلم سے سُنا لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ لیكن وه شخص ا س جمله كے معانی كی وسعت كا احاطه نهیں كرسكا لیكن اس نے یه جمله اگلی نسل تك پهنچادیا جو اس كے معنی كچھ سمجھتی تھی۔ اس كے بعد یه جمله ایك نسل سے دوسری نسل تك منتقل هوتارها۔ ممكن هے كه بیسویں نسل اس كو پهلی، دوسری اور تیسری نسل سے زیاد ه بهتر طورپرسمجھنے كی قابلیت ركھتی هو۔

قرآن كے ساتھ بھی یهی صورت هے۔ یه نهیں كها جاسكتا كه اگلے وقتوں كے لوگ قرآن كو بهتر طور پر سمجھتے تھے۔ یه قرآن كا اعجاز هے كه اسكی جتنی تفاسیر لكھی گئی هیں اس كے معانی و مطالب ان سب سے بلندترهیں یعنی هرزمانه میں قرآن كی تفسیر كی گئی هے لیكن جب بھی بعد كے زمانے میں جب علم و فهم میں ترقی هوگئی تھی قرآن كو اس كی تفسیر سے جانچا گیا تو یهی معلوم هوا كه قرآن اس سے بهت برتراور بلند تر هے۔

همیں كهیں دور جانے كی ضرورت نهیں۔ اسی ‘علم فقه’كو لیجیے۔ اصحابِ رسول صلی الله علیه وآله وسلم، اصحابِ امیر المومنین(علیه السلام) اور اصحاب صادق(علیه السلام) یهاں تك كه زراره اور هشام بن الحكم جیسے حضرات بھی فقهی قواعد كو جو رسولِ اكرم صلی الله علیه وآله وسلم یا ائمه سے ان تك پهنچے تھے اس طرح نهیں سمجھ سكتے تھے اور نه ان كا اس طرح تجزیه كرسكتے تھے جیسے مثلاً محقّق حلّی، علامه حِلّی اور شیخ مرتضیٰ انصاری ان كو سمجھتے تھے اور ان كا تجزیه كرتے تھے۔

پس معلوم هوا كه فلسفیانه طریقے میں استاد كے كلام كا مفهوم سب سے بهتر وه سمجھتا هے جو سب سے قدیم هو لیكن انبیاء اور اولیاء كے مكتب میں ان كے كلام كے معنی و مفهوم كو سب سے بهتر وه سمجھتا هے جو آتا تو هے بعد میں لیكن علم و فهم میں اس كا درجه اگلوں كی نسبت بلند هوتا هے۔ یه بجائے خود نبوّت كا ایك معجزه هے۔

بابِ توحید كی بعض روایات میں آیا هے كه چونكه الله تعالےٰ كے علم میں تھا كه آخری زمانے میں ایسے لوگ هوں گے جن كی سوچ گهری هوگی اور جن كو غور وفكر كی عادت هوگی اس لیے الله نے سورهٴ توحید اور سورهٴ حدید كی ابتدائی آیتیں نازل فرمائیں جو توحید كے عالی ترین اور دقیق ترین مسائل پر مشتمل هیں۔ اس سے معلوم هوا كه اس زمانے كے لوگوں میں ان آیات كو پورے طور پر سمجھنے كی لیاقت نهیں تھی، اس لیے آئنده ایسے لوگ آنے ضروری هوئے جو ان آیات كو كما حقه سمجھ سكیں۔ یه آیات ان هی آنے والوں كی روحانی غذا هیں۔ البتّه یه ضرور هے كه چونكه ان آیات میں آخری حد بیان كردی گئی هے اس لیے اگر كوئی اس حد سے تجاوز كرے گا تو هلاك هوجائے گا۔ یه هے معجزه نبوت كا اور یه هے معجزه اس قرآن كا جس كے متعلق كها گیا هے كه لَاتَنْقَضِیْ عَجَآئِبُه وَلَاتَفْنٰی غَرَآئِبُه ۔

میں نے یه سب كچھ اس لیے كها كه جب میں نوجوان نسل كی رهنمائی كی بات كروں تو كوئی یه نه كهنے لگے: كیوں جناب كیا نئی نسل كی رهنمائی اور پرانی نسل كی رهنمائی میں كچھ فرق هے۔ كیاان كی اور ان كی نماز الگ الگ هے جو دونوں كو تبلیغ كے طریقے مختلف هوں۔ جیسا پهلے سے هوتا چلا آیا هے اب بھی اسی طرح هونا چاهیے۔ همارے دادا دادی تو كسی طرح ایك مجلس میں شریك هوگئے تھے اور وهیں خداشناس هوگئے اور انهوں نے هدایت پالی۔ كم بخت نئی نسل كو بھی چاهیے كه وهیں جاكر بیٹھے اور كچھ سیكھے۔

جوان نسل یا جوان فكر

میں یه بھی واضح كردینا چاهتا هوں كه جب هم نوجوان نسل كی بات كرتے هیں تو همارا مقصدنوجوان افراد نهیں بلكه وه لوگ هوتے هیں جو اپنی تعلیم اور جدید تمدّن سے واقفیت كی بنا پر ایك مخصوص طرزِ فكر كے مالك هیں، وه چاهے بڈھے هوں یا جوان ۔ اس طبقه كی اكثریت ضرور جوانوں پر مشتمل هے اسی لیے هم اسے نوجوان نسل كهتے هیں ورنه بهت سے بڈھوں كا طرزِ فكر بھی جدیدهے۔ ایسے هی بهت سے نوجوان هیں جن كی سوچ پرانی اور بڈھوں كی سی هے۔ بهر حال هماری مراد اس طبقه سے هے جومخصوص طرزِ فكر ركھتا هے اور جس كی تعداد روبه افزائش هے اور آئنده چل كر بڈھوں اور جوانوں سب كا طرزِ فكر یهی هوجائے گا اور اگر خدا نخواسته اس نسل كی رهنمائی اور هدایت كی فكر نه كی گئی تو یه نسل آگے چل كر مكمل طور پر هاتھ سے نكل جائے گی۔ یه مسئله همارے ملك میں بڑی اهمیت كا حامل هے۔ گویه مسئله دوسرے اسلامی ملكوں میں بھی تھا اور هے لیكن وه هم سے پهلے اس كی فكر میں پڑگئے هیں ،اور انهوں نے سنجیدگی سے اس پر غور شروع كردیا هے لیكن هم نے ابھی تك اس مسئله كو سنجیدگی سے نهیں لیا هے۔ هماری نظر میں نوجوان نسل محض هوا پرست اور شهوت پرست نسل هے۔ همارا خیال هے كه اگر هم بدزبانی سے كام لیں، منبر سے انهیں سخت سست كهیں اور ان كا مذاق اڑاكر سامعین كو هنسائیں تو سب كام ٹھیك هوجائے گا اور جیسے هی هم نے فریاد كی كه اسكول كالج كے لڑكے ایسے هیں اور لڑكیاں ایسی هیں، پورا مسئله حل هوجائے گا۔ دراصل ایسی باتیں تو آپ كو سلانے كے لیے ایك لوری هیں تاكه آپ غفلت میں رهیں، مسئله كے حل كی كوئی تدبیرنه كریں اور صرف اس وقت بیدار هوں جب پانی سر سے گزرچكاهو۔

اپنے زمانے كے حالات اور ضروریات كو سمجھو

امام صادق (علیه السلام)كا ایك قول بهت هی پرعظمت هے۔ كافی كی پهلی جلد میں ایك حدیث آئی هے جس كا ایك فقره هے:

اَلْعَالِمُ بِزَمَانِه لَاتَھْجَمُ عَلَیْه اللَّوَابِسُ

یعنی جو شخص اپنے زمانے كے حالات سے آگاه هے، انهیں سمجھتا هے اور اسے ان كا احساس هے، مشتبه اور غلط فهمی پیدا كرنے والی باتیں اس پر حمله آور هوسكتیں تَھْجُمُعربی میں هجوم كے معنی اچانك حمله كرنے اور بے خبری میں آلینے كے هیں۔ امام فرماتے هیں جو اپنے زمانے كے حالات سے واقف هے وه مشتبه امور كا اس طرح شكار نهیں هوتا كه هوش و حواس كھو بیٹھے اور ان كا حل دریافت نه كرسكے۔ كتنی عظیم بات هے!

اس حدیث میں كچھ اور جملے بھی هیں۔ سب تو مجھے یاد نهیں۔ ایك جملے میں فرماتے هیں: لَایُفْلِحُ مَنْ لَایَعْقِلُ وَلَایَعْقِلُ مَنْ لَایَعْلَمُ جو سمجھتا نهیں اور جس كی سوچ صحیح نهیں وه كبھی كامیاب وكامران نهیں هوسكتا اور جو جانتا نهیں وه كبھی صحیح سمجھ نهیں سكتا۔ یعنی علم ، عقل كو صیقل كرتا هے۔ عقل سے مراد هے مختلف امور كا صحیح تجزیه كرنے اور مقدمات كو ترتیب دے كر ان سے صحیح نتیجه اخذكرنے كی قوّت۔ عقل كا دارومدار علم پر هے۔ عقل چراغ هے اور علم اس كا تیل۔ اس كے بعد فرماتے هیں: وَسَوْفَ یَنْجَبُ مَنْ یَفْھَمُ، جو سمجھتا هے آخر كاراسے ضرور كامیابی هوگی۔ اس كی محنت ضرور ٹھكانے لگے گی۔ مطلب یه هے كه علم سے ڈرنا نهیں چاهیے۔ اس سے خطره محسوس نهیں كرنا چاهیے۔

همارا طرزِ عمل اَلْعَالِمُ بِزَمَانِه لَاتَھْجَمُ عَلَیْه اللَّوَابِسُ كی تعلیم كے بالكل اُلٹ هے۔ هم اول تا آخر اور من الباب الی المحراب اپنے زمانه سے بے خبر هیں۔ هم یونهی بیٹھے بے خبری كے عالم میں اونگھتے رهتے هیں۔ جب كوئی مسئله پیش آتا هے مثلاً یه كه كیا زمینوں كو كسانوں میں تقسیم كردیاجائے؟ كیا قانونِ اصلاح اراضی مناسب هے؟ تو یه مسئله بے خبری میں هم پر حمله آورهوجاتا هے۔ چونكه هم اپنے زمانه كے حالات اور ضروریات سے قطعی نابلد هیں، هم نه ان باتوں كی پیش بینی كرتے هیں، نه یه حساب لگاتے هیں كه كیا بات ضروری هے اور كن حالات میں كیا كرناچاهیے۔

چونكه دنیا میں جو كچھ هورها هے اور جو كچھ هونے والا هے هم اس سے بالكل بے خبر هیں، اس لیے جب عورت كے سماجی حقوق كا مسئله اٹھتا هے توهمیں یه موقع هی نهیں ملتا كه هم اس مسئله كے تمام پهلوؤں پر غور كریں، اپنی ذهنی قوتوں كو مجتمع كركے یه سمجھیں كه كیا یه واقعی كوئی سنجیده مسئله هے۔ جو لوگ كهتے هیں كه عورتوں كو سماجی حقوق دیے جائیں۔ كیا واقعی وه اپنی بات میں سنجیده هیں۔ كیا واقعی وه اپنی زیادتیوں كی تلافی كرنا چاهتے هیں۔ ایسا تو نهیں كه ا س سارے قضیے كا مقصد هی كچھ اورهو اور یه اس سے كچھ اور هی فائده اٹھانا چاهتے هوں۔ آئنده بھی ایسے مشتبه مسائل اٹھتے هی رهیں گے لیكن هم هنوز غفلت كی نیند سورهے هیں۔

اب سے ساٹھ سال یا سو سال پهلے بھی اسی طرح كے مسائل تمام اسلامی ممالك میں اٹھے تھے اور نوجوان نسل كی دینی رهنمائی كا سوال پیدا هوا تھا لیكن ان لوگوں نے هم سے پهلے ان مسائل كو حل كرنے كی كوشش كی۔

اب كیا كرنا چاهیے؟

نئی نسل كی رهنمائی كے لیے كوئی پروگرام وضع كرنے سے زیاده اهم مسئله یه هے كه یه خیال همارے ذهنوں میں پوری طرح جاگزیں هوجائے كه مختلف ادوار میں رهنمائی اور هدایت كے لیے مختلف تدابیر اختیار كی جاتی هیں اور ان تدابیر پر عمل كا انداز بھی مختلف هوتا هے۔ یهی نهیں بلكه مختلف مزاج ركھنے والے افراد كے معاملے میں بھی مختلف حكمت عملی اختیار كرنی پڑتی هے۔ یه خیال تو همیں اپنے دماغ سے بالكل نكال دینا چاهیے كه هم جدید نسل كی رهنمائی قدیم اور فرسوده طریقوں سے كرسكتے هیں۔

سب سے پهلے تو همیں یه دیكھنا اور سمجھنا چاهیے كه اس نئی نسل كی امتیازی خصوصیات كیا هیں۔ عام طور پر اس نسل كے بارے میں دو قسم كاطرزفكر پایا جاتا هے۔ اور ان كے بارے میں دو هی قسم كی رائے قائم كی جاتی هے۔

ایك طبقه كی رائے میں تو یه لوگ خام خیالی میں مبتلا هیں، مغرور هیں، هوا هوس میں گرفتار اور شهوت پرست هیں۔ غرض ان میں هزاروں عیب هیں۔ یه طبقه همیشه اس نسل كو برابھلا كهتا اور مطعون كرتا هے۔

مگر خود نوجوان نسل كی رائے اس كے بالكل برعكس هے۔ انهیں اپنے آپ میں كوئی عیب نظرنهیں آتا۔ وه خود كو مجسمهٴ عقل و هوش، نهایت ذهین اور بلند خیال سمجھتا هے۔ پرانی نسل نئی نسل كو كافر اور فاسق كهتی هے اور نئی نسل پرانی كو جاهل اور احمقیه انهیں كهتے هیں كه تم كافر هو، شهوت پرست هو اور وه انهیں كهتے هیں كه تم نادان هو، سمجھتے نهیں۔

البته اصولی طور پر یه كها جاسكتا هے كه هر اگلی نسل پچھلی نسل سے بهتر هوسكتی هے اور برتر بھی۔

تقریر كے آغازسے پهلے سورهٴ احقاف كی جو آیات میں نے تلاوت كی تھیں، وه میری رائے میں دونوں نسلوں كا نقشه پیش كرتی هیں۔ ایك نسل اچھی هے دوسری بگڑی هوئی لیكن یه نهیں كها جاسكتا كه بعد میں آنے والی هرنسل پهلی نسل سے خراب هی هوتی هے اور دنیا روز بروز بگاڑ كی طرف جارهی هے اور یه بھی نهیں كها جاسكتا كه هر بعد میں آنے والی نسل پهلی نسل سے بهتر هوتی هے اور اسكے انحطاط كا كوئی سوال هی نهیں۔

آیات یه هیں:

وَوَصَّیْنَاالْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْه اِحْسَانًا حَمَلَتْه اُمُّه كُرْھًاوَّ وَضَعَتْه كُرْھًا وَحَمْلُه وَفِصَالُه ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا حَتّی اِذَابَلَغَ اُشُدَّه وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاه وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔(سورهٴ احقاف۔ آیت ۱۵)

هم نے انسان كو اس كے ماں باپ سے بھلائی كی تلقین كی۔ اس كی ماں نے تكلیف اٹھا كر اسے پیٹ میں ركھا اور تكلیف اٹھاكر اسے جَنا۔ اس كے حمل سے دودھ چھڑائی تك كی مدّت تیس مهینے هے۔ جب وه پخته عمر كو پهنچ گیا اور چالیس سال كا هوگیا تو كهنے لگا، اے میرے پروردگار! مجھے توفیق عطاكر كه میں اس احسان كا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر كیا هے، شكر ادا كروں اور ایسے نیك كام كروں جس سے تو راضی هو، پروردگار! تو مجھے نیك اولاد دے۔میں تیری طرف رجوع كرتا هوں اور تیرے امر كو تسلیم كرتا هوں۔

اس آیت میں نسلِ صالح كے طرز فكر كا بیان هے۔ كهتے هیں كه یه آیت سیدالشهداء (علیه السلام) كے بارے میں نازل هوئی هے۔یه تو صحیح هے كه آپ اس آیت كا مصداقِ كامل هیں تاهم آیت عام هے۔ اس آیت میں صالح نسل كی پانچ چھ خصوصیات بیان كی گئی هیں۔

پهلی تو هے الله كی نعمتوں اور اس كے احسانات كی قدر شناسی اور ان پر شكر گزاری رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ خدا كا نیك بنده ان نعمتوں اور ان احسانات كے پیشِ نظرجو الله نے اس پر اور اس كی گزشته نسل پر كیے هیں كهتا هے: خدایا مجھے طاقت دے كه میں تیرے احسانات كی قدر كروں اور تیری نعمتوں سے تیری مرضی كے مطابق استفاده كروں۔ هر نعمت كا اصل شكر یهی هے كه اس سے وه فائده اٹھایا جائے جس كی وه مستحق هے۔

صالح نسل كی دوسری خصوصیات یه هے كه وه الله تعالےٰ سے عمل كی توفیق مانگتی هے اور ایسے عمل كی كوشش كرتی هے جو مفید هو اور جس سے خدا كی خوشنودی اور رضا حاصل هو۔ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًاتَرْضَاه۔

تیسری خصوصیت یه هے كه وه آنے والی نسل كی صلاح وفلاح اور اصلاح كی طرف بھی توجه دیتی هے۔وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ۔

چوتھی خصوصیت یه هے كه وه اپنی گزشته كوتاهیوں سے توبه كرتی اور خدا كی طرف رجوع كرتی هے۔ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ۔

پانچویں بات یه هے كه وه الله تعالےٰ كے تكوینی اور تشریعی تمام احكام كے سامنے سرِ تسلیم خم كرتی هے كیونكه ان احكام سے سرتابی هلاكت اور بربادی كا باعث هوتی هے۔ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔

اس نسل كے بارے میں الله تعالےٰ فرماتا هے:

اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْھُمْ اَحْسَنَ مَاعَمِلُوْاوَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّئَاتِھِمْ فِیْٓ اِصْحَابِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ۔ (سورهٴ احقاف۔ آیت ۱۶)

یهاں پر جمع كا صیغه استعمال هوا هے جس سے معلوم هوتا هے كه كوئی ایك مخصوص فردمراد نهیں۔ الله تعالےٰ فرماتا هے كه یه نسل اور یه افراد ایسے هیں كه هم ان كے نیك اعمال قبول كرتے هیں اور ان كی خطاؤں سے درگزر كرتے هیں۔ وه جنّتی هیں جن سے سچاوعده كیا گیا هے۔

اس كے بعد كی آیت بگڑی هوئی نسل كے بارے میں هے۔ الله تعالےٰ فرماتا هے:

وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْه اُفٍّ لَّكُمَآ اَتَعِدَانِنِیْٓ اَنْ اُخْرَجَ وَقَدْخَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِیْ وَھُمَایَسْتَغِیْثَانِ اللّٰه وَیْلَكَ اٰمِنْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰه حَقُّ فَیَقُوْلُ مَاھٰذَٓ ااِلَّااَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ۔ (سورهٴ احقاف۔ آیت ۱۷)

یه نسل مغرور هے، اس كے خیالات ناپخته و خام هیں۔ دولفظ كیا اسكے كان پر پڑگئے۔ اب وه كسی بات كی پابندی نهیں رهی۔ خدا كی بندگی اسے قبول نهیں۔ ماں باپ كو وه ڈانٹتی اور ان كی تحقیر كرتی هے۔ ان كے خیالات اور ان كے عقائد پر هنستی هے۔ نئی نسل كا بگڑاهوا جوان اپنے والدین سے كهتا هے:

اَتَعِدَانِنِیْٓ اَنْ اُخْرَجَكیا تم مجھے اس خرافات سے ڈراتے هو كه قیامت آئے گی اور ایك دوسری دنیا اور ایك دوسری زندگی هوگی حالانكه ماضی میں كتنی هی نسلیں اس دنیا میں آئیں، اپنی زندگی كے دن پورے كركے چلی گئیں اور رفت گزشت هوگئیں۔ دیندار والدین اپنے عقیدے اور دین و ایمان كے خلاف كچھ سننے كو تیار نهیں۔اپنے عزیز بیٹے كی ایسی باتیں سن كر وه پریشان هوجاتے هیں اور كهتے هیں وَیْلَكَ اٰمِنْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰه حَقُّ “كم بخت ایمان لے آ۔خدا كا وعده سچّا هے۔”یه ایك بڑا درد ناك منظر هے كه دیندار والدین اپنی آنكھوں سے یه دیكھیں كه ان كا چهیتا بیٹا بے دین اور كافر هوگیا۔ وه خدا سے فریاد كرتے هیں وَھُمَایَسْتَغِیْثَانِ اللّٰه مگر بیٹا كهتا هے مَاھٰذَٓ ااِلَّااَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنیه سب قصے كهانیاں هیں جو اگلے وقتوں كے لوگوں نے گھڑی تھیں۔

یه آیات دو مختلف نسلوں كی عكاسی كرتی هیں۔ ایك صالح نسل كا نقشه پیش كرتی هے جبكه دوسری بگڑی هوئی نسل كا اب هم یه دیكھتے هیں كه هماری اپنی نوجوان نسل كا كیا حال هے؟

آج كی نوجوان نسل

هماری نوجوان نسل میں خوبیاں بھی هیں اور خرابیاں بھی۔ چونكه یه نسل ایسے احساسات ركھتی هے جن كا قدیم زمانے میں وجود نهیں تھا، اس لیے اس كا ایك خاص حق هے لیكن چونكه یه فكری اور اخلاقی كجروی میں بھی مبتلا هے اس لیے اس كجروی كا علاج بھی هونا چاهے لیكن یه علاج اس نسل كی خوبیوں كو پیشِ نظر ركھے بغیر اور اس كے احساسات اور خواهشات كا احترام كیے بغیرممكن نهیں۔ پرانی نسل كے خیالات اتنے وسیع اور اس كے احساسات اور اس كی آرزوئیں اتنی بلند نهیں تھیں اس لیے نئی نسل كی آرزوؤں كا احترام ضروری هے۔ خود اسلام نے ان چیزوں كا احترام رواركھا هے۔ اگر هم نے ان امور كی طرف توجه نه دی تو پھر آنے والی نسل كے فكری و اخلاقی بگاڑ كا سدِّباب محال هے۔ فی الحال هم نے اس نسل كے بارے میں جو روش اختیار كرركھی هے وه صرف عیب جوئی، مذمت اور تنقیص كی روش هے۔ هم همیشه نالاںرهتے هیں كه سینما ایسا هے اور تھیٹر ویسا هے۔ بڑے هوٹلوں میں یه خرابیاں هیں، ناچ میں وه خرابی هے اور سوئمنگ پول میں یه برائی۔ یه جو هم هر وقت واویلا مچاتے رهتے هیں یه صحیح نهیں هے۔ اس بگاڑ كو دور كرنے كے لیے بنیادی غوروفكر كی ضرورت هے۔

اس نسل كی شكایات كا احساس كرنا چاهیے

بنیادی غور و فكر كے سلسلے میں پهلی چیز تو یه هے كه هم اس نسل كو سمجھیں۔ اس كی ذهنی اور فكری شكایتوں پر جو درحقیقت بیداری كا نشان هیں، غور كریں یعنی ان شكایتوں كو سمجھیں جن كو یه محسوس كرتی هے اور پچھلی نسل محسوس نهیں كرتی تھی۔

پرانے زمانے میں لوگوں كو كچھ معلوم هی نهیں تھا كه كیا هورها هے۔ سب دروازے بند تھے اور دروازے كیا كھڑكیاں تك بند تھیں۔ كسی كو باهر كی خبر نهیں تھی۔ ایك شهر كے لوگوں كو دوسرے شهر والوں كی نسبت كچھ معلوم نهیں تھا۔ ایك ملك كودوسرے ملك كے بارے میں خبر نهیں تھی۔ آج یه سب دروازے اور كھڑكیاں كھل گئی هیں۔ لوگ دیكھتے هیں كه دنیا ترقی كررهی هے۔ وه دیكھتے هیں كه علوم پھیل رهے هیں۔ وه دنیاكی اقتصادی، سیاسی اور فوجی طاقتوں كو دیكھتے هیں۔ وه دنیا میں طاقتوں كے مركزوں كو دیكھتے هیں۔ وه دنیا میں مساوات دیكھتے هیں انهیں دنیا كی مختلف تحریكوں، بغاوتوں اور انقلابوں سے واقفیت هے۔ جوانوں كو ان باتوں كا شدید احساس هے اور هونا بھی چاهیے۔ آج كا نوجوان پوچھتا هے: هم كیوں سب سے پسمانده هیں؟

بقولِ شاعر:

سخن درست بگویم، نمی توانم دید

كه مے خورند حریفاں و من نظاره كنم

وه دنیا كیوں اس طرح گھوڑے پر سوار سیاسی، معاشی اور سماجی آزادی اور شوكت و عظمت كی طرف دوڑرهی هے؟ هم یا تو بدستور سورهے هیں یا زیاده سے زیاده دور سے تماشا دیكھ رهے اور انگڑائیاں لے رهے هیں۔

پرانی نسل ان باتوں كو نهیں سمجھتی تھی اور نه اسے ان كا احساس تھا۔ نئی نسل كو حق هے كه وه پوچھے كه بت پرست جاپان اور مسلمان ایران نے ایك هی سال اور ایك هی وقت میں كوشش شروع كی تھی كه نئے تمدّن اورجدید صنعت كی بركت سے مالا مال هوں۔ جاپان تو وهاں پهنچ گیا جهاں وه خود یورپ پر چشك زن هے اور ایران كی جو حالت هے وه هم دیكھ رهے هیں۔

ما و لیلیٰ هم سفر بودیم اندر راه عشق

اُو به مطلب ها رسید و ماهنوز آواره ایم

آپ كے خیال میں نئی نسل كو حق هے یا نهیں كه وه یه سوال كرے؟

پرانی نسل اجنبی تسلّط كی سنگینی كو محسوس نهیں كرتی۔ نئی نسل اسے محسوس كرتی هے تو كیا یه كوئی گناه هے؟ اگر یه احساس نه هو تا تو یه معلوم هوتا كه عذاب و بدبختی هی همارامقدر هے مگر جب یه احساس پیدا هوگیا تو معلوم هوا كه خداوند تبارك و تعالیٰ اس بدبختی سے همیں نجات دینا چاهتا هے۔

پرانے زمانے میں لوگوں كی سوچ كی سطح پست تھی۔ وه بهت كم شك اور تردّد میں مبتلا هوتے تھے اور بهت كم كسی بات كے متعلق سوال پوچھتے تھے۔ اب اكثر ایسا هوتا هے۔ قدرتی بات هے كه جب ذهنی سطح بلند هوجاتی هے تو وه سوالات ذهن میں آنے لگتے هیں جو پهلے نهیں آتے تھے۔ همیں ان كا شك دور كرنا چاهیے اور ان كے سوالوں كا ایسا جواب دینا چاهیے جو ان كی ذهنی و فكری سطح سے هم آهنگ هو۔ هم ان سے یه نهیں كهه سكتے كه تم بھی عوام كی سطح پر آجاؤ بلكه یه تو لوگوں كو حقائق اور معارفِ اسلامی سے آگاه كرنے كا نهایت هی مناسب موقع هے۔ كسی اَن پڑھ جاهل سے حقیقت بیان نهیں كی جاسكتی ۔ چونكه پرانی نسل كی ذهنی سطح پست تھی۔ اس لیے اس كو سمجھانے اور تبلیغ كرنے كے لیے ایك خاص طرزِ بیان اور خاص قسم كی كتابوں كی ضرورت تھی لیكن اب وه طرزِ بیان اور وه كتابیں بیكار هیں۔ اس سلسلے میں بڑی اصلاح دركار هے۔ آج كے طرزِ استدلال، آج كی زبان اور موجوده خیالات سے آگاهی حاصل كیے بغیر اس نسل كی هدایت و رهبری كا فریضه انجام نهیں دیا جاسكتا۔

پرانی نسل كی ذهنی سطح اس قدر پست تھی كه اگر كوئی شخص ایك هی مجلس میں متضاد باتیں كرتا تو كسی كو احساس بھی نهیں هوتا تھا اور كوئی اعتراض نهیں كرتا تھا لیكن آج جیسے هی كوئی واعظ منبر پر پهنچتا هے، دس باره جماعت پڑھے هوئے بچے كے ذهن میں بھی دس اعتراضات آجاتے هیں۔ اس كے خیالات كو نظر انداز نهیں كرنا چاهیے اس سے یه نهیں كها جاسكتا كه چپ رهو۔ فضول باتیں مت كرو۔

پرانے زمانے میں یه بات نهیں تھی۔ كوئی بھی شخص ایك هی مجلس میں نظم یا نثر میں هزار متضاد باتیں كهه جاتا تھا اور كوئی نهیں سمجھتا تھا كه یه باتیں ایك دوسری كی ضد اور نقیض هیں۔

كهتے هیں كه جب تاج نیشاپوری تهران آئے تھے، چونكه بهت خوش آواز تھے،جب وه تقریر كرتے تھے، لوگوں كا بڑا مجمع هوتا تھا۔ بڑے بڑے اجتماع هو جاتے تھے۔ ایك دن اس وقت كے صدرِ اعظم نے ان سے كها كه اب اتنے آدمی آ پ كا وعظ سننے كے لیے جمع هوگئے هیں تو آپ دوچار كام كی باتیں ان سے كیوں نهیں كهتے، لوگوں كا وقت كیوں ضائع كرتے هیں؟

تاج نے جواب دیا كه یه لوگ اس قابل نهیں هیں كه ان سے كوئی كام كی بات كهی جائے۔ كام كی بات تو ان سے كهی جاتی هے جن كو كچھ سمجھ هو۔ ان كو بالكل سمجھ نهیں۔

صدرِ اعظم نے كها: خیر ایسا بھی نهیں هے۔

تاج نے جواب دیا: ایسا هی هے۔ میں شرط لگاتا هوں اور كسی دن ثابت كركے دكھادوں گا۔

ایك دن جب صدرِ اعظم موجود تھے تاج نے مجلس شروع كی اور كوفه میں داخلهٴ اهلبیت كا قصه بیان كرنے لگے۔ خوش الحانی سے دردناك اور دل دوز اشعار پڑھے۔ خوب گریه وبُكا هوا۔ یكایك تاج نے كها:

ٹھیرو، ذرا ٹھیرو!لوگ خاموش هوگئے۔ تاج كهنے لگے میں تمهارے سامنے وه منظر پیش كرنا چاهتا هوںكه ابو عبدالله كے بچوں پر كوفه میں كیا گزری۔ جب اهل بیت كوفه پهنچے تو سخت لُو چل رهی تھی۔ آسمان سے آگ برس رهی تھی۔ پیاس كے مارے بچوں كے حلق میں كانٹے پڑے هوئے تھے۔ انهیں اونٹ كی ننگی پیٹھ پر سوار كیا گیا تھا۔چونكه زمین پر برف پڑی هوئی تھی، اونٹ پھسل پھسل كر گررهے تھے۔ بچے اونٹوں پر سے زمین پر گرتے تھے اور پكار تے تھے هائے پیاس ! هائے پیاس!

تاج نے اس جمله كو ایك بار پھر دهرایا۔ لوگ ماتم كررهے تھے اور رو رهے تھے۔ آخر جب تاج منبر سے نیچے آئے تو كهنے لگے: میں نهیں كهتا تھا كه ان لوگوںكو كچھ سمجھ نهیں۔ میں ایك طرف تو كهتا هوں كه آسمان سے آگ برس رهی تھی۔ ساتھ هی دوسری طرف سے یه بھی كهتا هوں كه زمین یخ زده تھی۔ یه لوگ یه نهیں سوچتے یه كیسے ممكن هے كه هوا تو اتنی گرم هو اور زمین یخ زده هو۔ (یه قصه میں نے مرحوم آیت الله سید صدر الدین سے سنا تھا)۔

ملحدانه مكاتبِ فكر كی طرف رحجان كے اسباب

دوسرو ں نے جواس نسل كو انحراف پر آماده كیا هے وه بھی اسی طرح كه انهوں نے ان كی ضرورتوں كو سمجھا اور ان سے فائده اٹھایا۔ماده پرست مكاتبِ فكر جو همارے ملك میں وجود میں آئے اور انهوں نے اپنے ملحدانه مقاصد كے لیے فدائی جمع كرلیے تو یه كیسے هوا؟ انهوں نے بھی یهی طریقه اختیار كیا۔ وه جانتے تھے كه اس نسل كو ایك ایسے مكتبِ فكر كی ضرورت هے جو اس كے سوالات كا جواب دے سكے۔لهٰذاایك مكتبِ فكر اسے پیش كردیا گیا۔ وه جانتے تھے كه اس نسل كی بڑی سماجی آرزوئیں هیں اور وه انهیں پورا هوتا هو ا دیكھنا چاهتی هے۔لهٰذا انهوں نے بڑی محنت اور كوشش كی اور اس كے نتیجه میں بالآخر اپنے گرد كافی افراد جمع كرلیے۔ آدمی جب كسی چیز كی ضرورت محسوس كرتا هے تو پھر وه اس كے اچھے بُرے هونے كی فكر نهیں كرتا۔ معدے كو جب غذا كی ضرورت هوتی هے تو پھر اس بات كی اهمیت نهیں رهتی كه غذاكیسی هے۔ جو كچھ مل جائے اس سے پیٹ بھر لیا جاتا هے۔ روح بھی جب یه تشنگی محسوس كرتی هے كه كوئی ایسا مكتب فكر ملے جو اس كے سوالوں كا معین اصولوں كے مطابق جواب دے سكے اور عالمی اور سماجی مسائل یكساں طور پر حل كرسكے توو ه پھر اس بات كو اهمیت نهیں دیتی كه اس مكتبِ فكر كا استدلال قوی هے یا ضعیف۔ آدمی كو استدلال كے قوی یا ضعیف هونے كی اتنی فكر نهیں جتنی اس كی هے كه كوئی ایسا باقاعده نظریه هو جو اس كے هرسوال كا یكساں طور پر جواب دے سكے۔ همارا چونكه فلسفه سے تعلق هے همیں معلوم هے كه ان كی باتیں كس قدر لغو هیں لیكن انهوں نے اپنا فلسفه اس وقت پیش كیا جب نئی ضرورتوں كی وجه سے ایك خلا موجود تھا۔ یه گویا اس بات كی علامت تھی كه اس خلا كی طرف توجه دینے كی ضرورت هے۔

ذهنی نشو و نما كی علامت

بچه شیر خوارگی كے دوران هی جب اس كی دماغی اور ذهنی قوّتیں ایك حد تك نشوونما پالیتی هیں، اپنے اردگرد كی چیزوں كے متعلق سوال شروع كردیتا هے۔ یه ضروری هے كه اس كے سوالوں كے جواب اس كی سمجھ كے مطابق دیے جائیں ۔ یه هرگز نهیں كهنا چاهیے كه فضول بات مت كرو۔ تمهیں اس سے كیا؟ اس كا سوال خود اس كی ذهنی صحت كی علامت اور اس امر كی دلیل هے كه اس كی ذهنی قوّتیں نشوونماپارهی هیں۔ اس كے سوالات نیچر كی طرف سے ایك اعلان هیں كه ایك نئی ضرورت پیدا هوئی هے لهٰذا اس كی طرف دھیان دینا چاهیے۔

یهی حال معاشرے كا هے۔ اگر معاشرے میں ایك نیا احساس پیدا هو تو یه اس كی ترقی اور نشونما كی علامت هے۔ یه بھی نیچر كی طرف سے نئی ضرورت كا اعلان هے۔ ا ن باتوں كو هوا و هوس اور شهوت سے الگ ركھنا چاهیے اور یه غلطی نهیں كرنی چاهیے كه ان باتوں كو بھی هواوهوس سمجھ لیا جائے اور فوراً اس موضوع سے متعلق قرآنی آیات پڑھنی شروع كردی جائیں جیسے:

(اِنْ تَتَّبِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰه) یا (وَلَئِنِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَآئَھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ۔)

قرآن كیسے متروك هوگیا

همیں اس نئی نسل سے شكایت هے كه یه قرآن سے ناآشنا هے۔ اسكولوں میں قرآن كیوں نهیں پڑھتی؟ یونیورسٹی تك پهنچ جاتی هے مگر قرآن پڑھنا نهیں آتا۔ واقعی افسوس كی بات هے كه یه حالت هے لیكن همیںچاهیے كه خود اپنے آپ سے سوال كریں كه هم نے اس سلسلے میں اب تك كیا كیا هے؟آیا جو قرآن اور اسلامیات اسكولوں اور كالجوں میں پڑھائی جاتی هے كیا اس كی بنا پر یه توقع كی جاسكتی هے كه نوجوان نسل قرآن سے پوری واقفیت حاصل كرے گی؟

تعجب تو یه هے كه خود پرانی نسل نے بھی قرآن كو چھوڑدیا هے۔ پھر نئی نسل سے كیا گله كه وه قرآن سے نا آشناهے؟ هم نے خود تو قرآن كو چھوڑدیا هے اور توقع یه ركھتے هیں كه نئی نسل قرآن سے وابسته رهے۔ اب ثابت كرتا هوں كه كس طرح هم نے قرآن كو چھوڑدیا هے۔

اگر كسی كا علم قرآنی علم هے یعنی وه قرآن میں زیاده تدبُّر كرتا هے اور قرآن كی تفسیر سے پوری طرح واقف هے تو ایسے شخص كا همارے معاشرے میں كتنا احترام هوگا؟ كتنا نهیں۔

اس كے برخلاف اگر كسی كو آخوند ملّا كاظم خراسانی كی كتاب “كفایه” پر عبورحاصل هے تو اسے محترم هستی سمجھاجاتا هے۔ معلوم هوا كه هم نے خود قرآن كو چھوڑ دیا هے۔ قرآن سے اسی اعراض كا نتیجه هے كه هم اس بدبختی اور نكبت میں گرفتار هیں۔ هم ان لوگوں میں شامل هیں جن كی رسول اكرم (صلی الله علیه وآله وسلم) خدا سے شكایت كرتے تھے:

یَارَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُ وْاھٰذاالْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا۔

همارے ایك عالم جو كچھ عرصه قبل عتباتِ عالیات كی زیارت سے مشرف هوئے تھے، بیان كرتے تھے كه میں آیت الله العظمیٰ آقائے خوئی (رضوان الله علیه) كی خدمت میں پهنچا تو میں نے كها كه آپ نے تفسیر كا درس جو آپ پهلے دیتے تھے، كیوں ترك كردیا (آپ سات آٹھ سال پهلے نجف میں درس دیتے تھے۔ اس كا كچھ حصّه البیان فی تفسیر القرآن كے نام سے چھپ بھی گیا هے)۔

آپ نے جواب دیا: تفسیر كے درس میں موانع اورمشكلات هیں۔

میں نے ان سے كها: علامه محمد حسین طباطبائی (رضوان الله علیه) تو قم میں در س جاری ركھے هوئے هیں۔ اپنا بیشتر وقت اسی میں صرف كرتے هیں۔

آیت الله خوئی نے كها كه آقائے طباطبائی نے “تضحیه” كیا هے یعنی انهوں نے خود كو قربان كردیا هے۔ اپنی سماجی شخصیت كو مٹادیا هے۔ بات صحیح تھی۔

عجیب تر بات یه هے كه همارے اهم ترین مراكز میں اگر كوئی شخص اپنی عمر قرآن كے درس و تدریس میں صرف كرتا هے تو اس كو هزاروں مشكلات پیش آتی هیں۔ اسے روزی نهیں ملتی۔ اس كی زندگی مشكل هوجاتی هے۔ اس كی شخصیت فنا هوجاتی هے۔ اس كا احترام ختم هوجاتا هے۔ غرض وه هر چیز سے هاتھ دوبیٹھتا هے لیكن اگر وه اپنی عمر”كفایه”جیسی كتابوں پر صرف كرتا هے تو وه سب كچھ بن جاتا هے۔ یهی وجه هے كه هزاروں ایسے لوگ پیدا هوگئے هیں جن كو هر چهارسمت سے كفایه سے واقفیت هے۔ یعنی كفایه سے بھی واقفیت هے۔ اس كے ردّ سے بھی واقفیت هے۔ اور اس كے ردّكے ردّسے بھی واقفیت هے مگر دو آدمی بھی ایسے نهیں ملتے جو قرآن سے صحیح معنی میں واقف هوں۔ جس كسی سے قرآن كی كسی آیت كے بارے میں كچھ پوچھا جاتا هے، وه یهی كهتا هے كه تفسیر دیكھنی چاهیے۔ زیاده عجیب بات یه هے كه یه نسل جو قرآن سے یه سلوك كررهی هے یه توقع ركھتی هے كه نئی نسل قرآن كو پڑھے، اسے سمجھے اور اس پر عمل كرے۔

اگر پرانی نسل قرآن سے منحرف نه هوگئی هوتی تو نئی نسل هرگز منحرف نه هوتی ۔ رسولِ خدا نے قرآن كے بارے میں فرمایا هے: اِنَّه شَافِعُ مُشَفَّعُ وَمَاحِلُ مُصَدَّقُ یعنی قرآن دربارِ خداوندی میں سفارش كرتا هے اور اس كی سفارش قبول كی جاتی هے اور جن لوگوں نے اس كے ساتھ زیادتی كی هے ان كی شكایت كرتا هے اور اس كی شكایت بھی منظور هوتی هے۔

پرانی نسل اور نئی نسل دونوں نے قرآن پر ظلم كیا هے اور كررهی هیں۔ پهلے پرانی نسل نے ظلم كیا اور اب نئی نسل ظلم كررهی هے۔

نوجوان نسل كی رهنمائی كے لیے سب سے پهلے دوكام انجام دینے كی ضرورت هے ایك تویه كه اس نسل سے آگاهی حاصل كی جائے اور پھر علاج كی فكر كی جائے ۔ اس كی ضرورتوں اور شكایتوں كو سمجھے بغیر جو قدم بھی اٹھایا جائے گا وه غلط هوگا۔ دوسرے یه كه پرانی نسل كو پهلے خود اپنی اصلاح كرنی چاهیے ۔ پرانی نسل كو اپنے سب سے بڑے گناه سے توبه كرنی چاهیے اور قرآن كو سامنے ركھنا چاهیے۔ هم قرآن هی كے زیر سایه ترقی و كمال كی طرف آگے بڑھ سكتے هیں۔

 

تبصرے
Loading...