نماز کی اھمیت

 

۱۔نمازتمام الٰھی ادیان میں

حضرت محمد مصطفیٰ(ص) سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں نماز کا وجود تھا۔ جیسا کہ قرآن نے حضرت عیسیٰ کی زبانی نقل کیا ھے کہ خداوند عالم نے مجھے نماز کی تلقین و وصیت کی ھے : وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ ([1]) اور ان سے قبل حضرت موسی علیہ السلام تھے جن کو خطاب کرکے خداوندعالم فرماتا ھے: وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي “ ([2]) میری یادو ذکر کے لئے نماز قائم کرو۔

 اور حضرت موسی سے قبل ان کی زوجہ محترمہ کے والد بزرکوار حضرت شعیب تھے جو نماز ادا کرتے تھے۔ قرآن کھتا ھے:

يَا شُعَيْبُ أَصَلاَتُكَ تَأْمُرُكَ: ([3])

جناب شیعب کے قوم والوں نے طنز کیا: اے شعیب :کیا تمھاری نماز تم کو یہ امور سکھاتی ھے۔

اور ان سب سے قبل حضرت ابراھیم تھے جو خداوند عالم سے اپنے اور اپنی ذریت واولاد کے کئے اقامہ نماز کی توفیق طلب کرتے ھیں:

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي۔ ([4])

اے پالنے والے مجھے اور میری اولاد میں نماز قائم کرنے والے قراردے۔

اور یہ جناب لقمان ھیں کہ جو اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ھیں :

 يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ “۔ ([5])

بیٹا:نماز قائم کرو اور امر بالمروف دنھی عن المنکر کیا کرو۔

دلچسپ یہ ھے کہ عموما قرآن میں نماز کے ساتھ زکوٰةکے بارے میں سفارش کی جاتی ھے لیکن چونکہ عموما نوجوان طبقہ پیسے سے خالی ھوتا ھے لہٰذا اس آیت میں نماز کے ساتھ زکوٰة ومالیات کے بجائے امر بالمعروف ونھی عن المنکر کا حکم دیا گیا ھے۔

۲۔ نماز کی اتنی کسی بھی عبادت کی تبلیغ نھیں ھوئی

ھم روزانہ پانچ نمازیںپڑھا کرتے ھیں اور ھر ایک نماز میں اذان اقتامت کا حکم دیا گیا ھے مجموعی طور پر ھم ان دونوں ندائے آسمانی میں روزانہ :

بیس مرتبہ                         حی علی الصلاة

بیس مرتبہ                         حی علی الفلاح بیس مرتبہ                        حی علی خیر العمل اور

دس مرتبہ                          قدقامت الصلاة کھتے ھیں۔

یادر ھے کہ اذان میں” فلاح“اور “خیر العمل” سے مراد یھی نماز ھے پس ھر شخص روزانہ ستر مرتبہ خود کو بھی اور دوسروں لفظ حیً کے ذریعہ نماز کی طرف بلاتا اور تلفین کرتاھے اور وہ بھی کو بھی نھایت ھی سرور ونشاط اور لگن کے ساتھ یہ کام کرتا ھے جبکہ کسی بھی عبادت کے لئے اس طرح کا شورواعلان اور تشویق وارد نھیں ھے۔خصوصا اسلام میں سفارش کی گئی ھے کہ اذان بلند آواز میں اچھی لحن کے ساتھ جائے اور اذان کے لئے بھت زیادہ ثواب کا بھی ذکر ھے۔

حج کی اذان اور دعوت جناب ابراھیم کا کام تھا اور نماز کی اذان وتبلیغ ھم سب کا فریضہ ھے۔ اذان جمود توڑنے اور ایک مرتبہ پھر خالص اسلامی عقائد ونظریات دھرانے کا نام ھے۔ اذان ایک مختصر اور مطالب سے بھر پور مذھبی نغمہ ھے۔ اذان غافلوں کے لئے تنبیہ اور بیداری کا الارم نیز مذھبی فضا باز ھونے کی علامت ھے۔ اور اذان معنوی حیات کی پہچان ھے۔

۳۔ نماز تمام عبادات میں سرفھرست ھے۔

خاص خاص ایام میں مثلاً شب قدر، عیدو بقرعید، روز بعثت و غدیر جمعہ اور ھروہ شب وروز کہ جن کی فضیلت و اھمیت اسلام میں ھے، ان تمام ایام میں دعائیں اور دوسرے مخصوص مراسم کی تاکید کی گئی ھے۔مثلاً شب مبعث شب میلاد، شب جمعہ وغیرہ میں عموما مخصوص نمازیں بھی ذکر ھوئی ھیں۔ شاید کوئی ایک ایسا مقدس دن نہ پیش کیا جاسکے جس میں مخصوص نماز کا حکم نہ ھو۔

۴۔ نماز سب سے زیادہ رنگارنگ عبادت ھے

 اگرچہ جھاد اور حج کی کئی قسمیں ھیں اسی طرح وضو اور غسل کی بھی کئی قسمیں ھیں لیکن نماز کی سیکڑوں قسمیں ھے۔ علامہ محدث شیخ عباس قمی کی مشھور کتاب مفاتیح الجنان کے حاشیوں پر اگر ایک سرسری نظر دوڑائی جائے تو معلوم ھوگا کہ انھوں نے نماز کی اتنی قسمیں ذکر کی ھیں کہ ان پر تحقیق اور جمع کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ھے۔ ھر امام کی ایک خاص نماز زیارت ھے جو دوسرے امام کی نماز (زیارت) سے بالکل جدا ھے، دمثلاً امام زمانہ علیہ السلام کی نماز حضرت علی علیہ السلام کی نماز سے مختلف ھے۔

۵۔ نماز وھجرت

جناب ابراھیم فرماتے ھیں: خدایا: میں نے اپنی ذریت کو بے آب وگیاہ، خشک بیابان میں چھوڑدیا ھے، پروردگار: (میں نے یہ کام) اقامہ نماز کے لئے کیا ھے۔

” رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ الصَّلاَةَ “۔([6])

پالنے والے میں نے اپنی اولاد کو مکہ کے ایک بے آب وگیاہ بیابان میں لاکر بسایا ھے تاکہ یہ لوگ یھاں نماز پڑھا کریں۔

جی ھاں نمازیوں کا ایک وظیفہ یہ بھی ھے کہ وہ خراب آب وھوا کے حامل خشک و ویران علاقوں کی طرف بھی ھجرت وسفر کیا کریں تاکہ عالم گیر پیمانے پر نماز کا شھرہ اور ڈنکا بج سکے۔

۶۔ نماز کے لئے اھم ترین تاریخی جلسے روک دئیے گئے

ان مذاھب و ادیان میں سے ایک کہ جن کا ذکر قرآن میں آیا ھے”صائبین“ کا مذھب بھی ھے، یہ لوگ حضرت یحیی کی طرف ایک خاص میلان رکھتے ھیں۔ضمنا ستاروں کے اثرات کے بھی قائل ھیں۔ ان کے یھاں نماز و مراسم کے بھی مخصوص انداز ھیں ان کی ایک جماعت خوزستان کے علاقہ میں پائی جاتی ھے۔

ان لوگوں کا ایک نھایت ھی باصلاحیت لیکن مغرور و متکبر قسم کا رھبر تھا جس نے امام رضا علیہ السلام سے بارھا گفتگو کی لیکن کبھی کسی بات پر مطمئن نھیں ھوتا تھا۔ ان ھی جلسوں کے دوران ایک دن امام رضا علیہ السلام کے ایک استدلال کے سامنے جبکہ وہ سپراندختہ ھوکر کہہ چکا تھا: الان لان قلبی“۔

“اب میرا دل نرم ھوگیا، چاھتا ھوں کہ آپ کا دین قبول کرلوں” عین اسی وقت اذان کی آواز بلند ھوئی امام رضا علیہ السلام جلسہ سے اٹھ گئے لوگوں نے کھا : مولا: یہ بڑا حساس موقع ھے ایسا وقت پھرکبھی نھیں آئے گا( بات پوری ھو جانے دیجئے) لیکن امام نے فرمایا: پہلے نماز! اس( صائبین کے رھبر) نے خدا کے تئیں جب امام کا عھد اور کردار دیکھا تو اور زیادہ متاثر ھوا۔ امام نے نماز کے بعد اپنی گفتگو کوپایہٴ تکمیل تک پھونچایا اور وہ ایمان لے آیا۔

۷۔ جنگ میں بھی اول وقت نماز

ابن عباس دیکھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام جنگ کے دوران کبھی کبھی آسمان کی طرف نگاہ کرتے ھیں اور پھر جنگ میں مصروف ھو جاتے ھیں کچھ دیر بعد پھر آسمان کی طرف نظر کرتے ھیں، ابن عباس قریب آئے اور پوچھا: یا علی! آپ بار بار کیوں آسمان کی طرف دیکھ رھے ھیں؟فرمایا: اس لئے کہ نماز کا اول وقت نہ نکل جائے، ابن عباس نے کھا: آپ اس وقت حالت جنگ میں ھیں۔ فرمایا: نماز کے اول وقت سے غفلت نھیں برتنا چاہئے۔

۸۔جماعت کے لئے سوجانا مناجات سے بھتر ھے۔

ایک روز رسول اکرم (ص) نے صبح کی نماز پڑھائی تو دیکھا آپ کے ایک خاص صحابی مسجد میں نظر نہ آئے، حضرت ان کی تلاش میں ان کے گھر کی طرف گئے، دق الباب کیا اور پوچھا: آج جماعت میں کیوں نھیں آئے؟: بیوں نے جوابدیا: تمام رات صبح تک مناجات کرتے رھے، لہٰذا تھکان کا احساس ھوا اور انھوں نے اپنی نماز گھرھی پرپڑھ لی ھے۔آنحضرت نے فرمایا: تم ان سے کھدینا کہ رات کو طویل مناجات کے بجائے کچھ دیر سو جایا کریں، صبح کی نماز جماعت سے پڑھنا ترک نہ کریں، شب کا وہ آرام جو نمازجماعت کے لئے مقدمہ ھو اس مناجات سے کھیں زیادہ بھتر ھے جو نماز جماعت کے ترک کا سبب بن جائے۔

۹۔ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے نماز

ھم جانتے ھیں کہ امام حسین علسہ السلام دوسری محرم کو کربلا میں وارد ھوئے اور دسویں محرم کو شھید ھوگئے۔

آپ کربلا میں اپنے آٹھ روزہ قیام کے دوران حتیٌ عاشور کے دن بھی جماعت سے علی الاعلان نماز کے فرائض ادا کرتے ھیں، ظاھر ھے روز عاشورجنگ چھڑنے کے بعد دشمنوں کی جانب سے مسلسل تیروں کی بارش تھی، ایسے خطر ناک حالات میں بھی اگرچہ امام حسین علیہ السلام روز عاشورا کئی بار خیمہ میں جاتے اور آتے ھیں، آپ اپنی نماز خیمہ میں پڑھ سکتے تھے مگر میدان جنگ میں نماز پڑھتے ھیں۔ چنانچہ وقت ظھر دوجانثار حضرت کے آگے کھڑے ھوگئے اور تیس تیراپنے بدن پر کھاکر بارگاہ حق میں جان سپرد کردی لیکن نماز آشکار پڑھی گئی نہ کہ خیمے میں۔

جی ھاں! نماز اعلان کے ساتھ میدان عام میں پڑھنے کی بڑی اھمیت ھے لھذا ھوٹلوں، کیفوں، کارخانوں، پارکوں، اسٹیشنوں اور ھوائی اڈوں وغیرہ پر نماز خانے کسی گوشے میں ھونے کے بجائے مرکز میں ھوں اور بھترین جگھوں پر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے نماز قائم کی جائے کیونکہ جس قدر دین کی جلوہ نمائی میں کمی ھوگی اتناھی جلوہٴ فساد میں اضافہ ھوتا جائے گا۔

اگر دوکاندار اور تاجر حضرات اپنی دوکانوں کے سامنے اذان دینے لگیں توبے پردہ خریدار اپنے آپ کو خود ھی سمیٹنا شروع کریں گے۔

۱۰۔مسجد کی بنیاد رکھنے اور بنانے والے معمار و مزدورو انجنییرسب نمازی ھوں۔

سورہٴ توبہ کی ۱۸ ویں آیت میں ملتا ھے: فقط وہ لوگ مسجد تعمیر اور آباد کرسکتے ھیں کہ جوایمان وشجاعت سے ھم کنار ھونے اور زکوٰة ادا کرنے کے علاوہ نماز گذار بھی ھوں۔

”ا إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ “۔

پس نااھل حضرات مسجد تعمیر کرنے کا حق نھیں رکھتے ھیں مسجد تعمیر کرنا ایک مقدس عمل و عنوان ھے، جو لوگ اس کے لائق نھیں ھیں ان کے سپرد یہ کام نھیں کرنا چاہئے۔

قرآن کھتا ھے کہ مشرکین مسجدیں تعمیر کرنے کا حق نھیں رکھتے، اسی طرح حدیث میں ھے کہ اگر کوئی ظالم مسجد تعمیر کرتا ھے تو آپ اس کی مدد نہ کریں۔

۱۱۔ نماز سے دوری کا ایک سبب شراب و قمار ھے

شراب وقمار میں اگرچہ بھت سی جسمانی، روحانی اور اجتماعی خرابیاں پائی جاتی ھیں لیکن قرآن نے دو باتیں خاص طور پر ذکر کی ھیں کہ ھم نے شراب اور جو ئے کو حرام قرار دیا ھے کیونکہ تمھارے درمیان ان کی وجہ سے کینہ وفساد پھیلتا ھے یہ تم کو نماز اور خدا کی یاد سے دور کردیتا ھے:

 وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ “۔([7])

اس آیہ میں شراب کے بھت سے ضرر و نقصانات میں سے صرف اجتماعی و۔ معنوی ضرر، پرتکیہ کیا گیا ھے اجتماعی ضرر کینہ و فساد کا پیدا ھونا ھے اور معنوی ضرر، نماز اور یاد خدا سے غافل ھوجاناھے۔

 ۱۲۔ اقامہٴنماز کی توقیق ابراھیم کی دعاؤں سے ھے

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي([8])

“پروردگار! مجھے اور میری ذریت کو نماز قائم کرنے والوں میں قرار دے۔”

دلچسپ یہ ھے کہ حضرت ابراھیم نے صرف دعا پر اکتفانھیں کی بلکہ اپنی اس آرزو کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے، ھجر ت فرمائی دربدری اور سفر کی مشکلیں گلے سے لگائیں تاکہ نماز قائم ھو

۱۳۔ اقامہٴ نماز، الٰھی نمازگروھوں کا پہلا فریضہ ھے۔

”الذین ان مکنا ھم فی الارض اقاموالصلاة“([9])؟؟

مسلمانوں کو جیسے ھی قدرت حاصل ھوگی وہ سب سے پہلے نماز قائم کریں گے خدانہ کرے کہ ھمارے کارخانوں کے مالکین صرف اس کی منفعت بڑھانے، یونیورسٹیاں صرف ماھرین پیدا کرنے اور ھم سب صرف پیداوار بڑھانے اور سپلائی کرنے کی فکر میں غرق ھوجائیں کیونکہ مسلمان کا اولین فریضہ اقامہٴ نماز ھے خود اپنی شرکت کے ذریعے بھی اور عوام نیز ذمہ دار افراد کی حمایت و تشویق کے ذریعے بھی ھم کو یہ کام کرنا چاہئے۔

۱۴۔ نماز کے لئے کوئی قیدو شرط نھیں ھے

 وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيّاً ([10])

اسلام کے سبھی احکام وقوانین ممکن ھے کسی شخص سے کسی خاص وجہ کے تحت اٹھالئے جائیں۔ مثلاًنابینا اور لنگڑے انسان کے لئے جھاد پر جانا واجب نھیں ھے مریض پر روزہ واجب نھیں ھے، زکوٰة اور حج نادارو مفلس حضرات پر واجب نھیں ھے۔

لیکن تنھا نمازایک ایسی عبادت ھے جس میں تعطیل کی کوئی گنجائش نھیں ھے حتی موت کی آخری ہچکی تک ایک دن کے لئے بھی ترک نھیں کی جاسکتی (ھاں، عورتوں کے لئے ھر ماہ ایک خاص زمانے میں معاف ھے)

۱۵۔نماز مردم دوستی کے ساتھ ھونا چاہئے

َقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْناً وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ([11])

 نمازی کو چاھئے کہ لوگوں کے ساتھ اچھے انداز سے گفتگو کرے۔ ھم اچھی زبان کے ذریعہ عملاً نماز کی تبلیغ کرسکتے ھیں، چنانچہ جو لوگ پیغمبر اسلام(ص) کے اخلاق اور سیرت کے ذریعہ مسلمان ھوئے ھیں ان کی تعداد ان لوگوں سے کہ جو عقلی استدلال کے ذریعہ مسلمان ھوئے ھیں، کھیں زیادہ ھے۔

یھاں تک کہ ان کفار سے کہ جن سے انسان مباحثہ و مناظرہ کرتا ھے جدل احسن یعنی اچھی زبان میں بحث و استدلال کا حکم ھے، مطلب یہ ھے پہلے ان کی اچھائیوں کو قبول کرے اور پھر اپنے نظریات کو بیان کرے۔

۱۶۔ توحید ومعاد پر ایمان کے بعد سب سے پہلا واجب نماز ھے

 الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاةَ “۔([12])

قرآن اور سورہٴ بقرہ کے شروع میں ھی غیب پر ایمان کے بعد کہ جس میں خدا وند متعال، قیامت اور فرشتوں پر ایمان شامل ھے، پہلا بنیادی عمل جس کی توصیف وستائش کی گئی ھے، اقامہ نماز کا مسئلہ ھے۔

۱۷۔تمام امور پر نماز کو مقدّم قرار دینے والا ممدوح ھے

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ “۔([13])

قرآن میں خداوند عالم نے ان کی مدح سرائی کی ھے کہ جو اذان کے وقت اپنی تجارت اور لین دین کے کاموں کو چھوڑدیا کرتے ھیں۔

ایران کے سابق صدز جمھور یہ شھید رجائی مرحوم کھا کرتے تھے: نمازسے نہ کہئے کہ مجھے کام ھے بلکہ کام سے کہئے کہ اب نماز کا وقت ھے خاص طور پر جمعہ کی نماز کے لئے حکم دیا گیا ھے کہ اس وقت تمام لین دین چھوڑ دینا چاہئے: “وذروالبیع“۔

لیکن جب نماز جمعہ تمام ھوجائے تو اس کے لئے ارشاد ھے:

فانتشروافی الارض وابتغو امن فضل اللہ([14])؟؟

اب اپنے علاقوں میں پھیل جاؤ اور اپنے اپنے کاروبار میں لگ جاؤ یعنی کاموں کے چھڑنے کا حکم ایک محدود وقت کے لئے دیا گیا ھے۔

ضمنی طور پر یاد رھے، تلبیغی دینا کی نفسیات کو پیش نظر رکھتے ھوئے لوگوں کی کیفیت کا پورا پورا پاس ولحاظ رکھا گیا ھے۔ کیونکہ ایک طویل مدت کے لئے لوگوں سے نھیں کھا جاسکتا کہ وہ اپنے کاروبار کو ترک کردیں۔

لہٰذا ایک ھی سورہ (جمعہ) میں کچھ دیر کاروبار بند کرنے کے اعلان سے پہلے فرمایا:

“یاایھا الذین آمنوا“۔

“اے ایمان والو!“۔

اور یہ خطاب ایک قسم کا احترام ھے، اس کے بعد فرمایا جاتاھے کہ جس وقت اذان کی آواز سنو کاروبار بند کردو نہ یہ کہ اول صبح جمعہ سے ھی “اذانودی” اور لفظ صلوة ًکے بجائے” ذکر اللہ“ کھا گیا کہ نماز خدا کو یاد کرنے کا نام ھے اور وہ بھی جمعہ کے دن کھا گیا ھے نہ کہ ھر روز۔ اور پھر کاروبار بند کرنے کے حکم کے فوراً بعد فرمایا:

“ذلکم خیر لکم اس میں تمھارے لئے بھتری ھے” آخر میں یہ بھی اعلان کردیا کہ نماز جمعہ تمام ھونے کے بعد اپنے کاروبار میں پھر سے لگ سکتے ھو “فانتشروا“۔

۱۸۔ نماز ترک کرنے، روکنے، بے توجھی برتنے پر خدا کی مزمت

بعض لوگوں کے پاس نہ ایمان ھے نہ ھی نماز پڑھتے ھیں

 “فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى“۔ ([15])

نہ گواھي دی (یعنی نہ ایمان لائے) نہ ھی نماز پڑھی۔

 یھاں قرآن نے حسرت وآہ کی ایک دنیا لئے ھوئے جان دینے کی نقشہ کشی کی ھے بعض لوگ دوسروں کی نماز میں رکاوٹ ڈالتے ھیں :

“أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىعَبْداً إِذَا صَلَّى” ([16])

“کیا تم نے اس کو دیکھا جو میرے بندے کی نماز میں رکاوٹ( اور خلل ) پیدا کرتا ھے”۔

ابو جہل نے فیصلہ کیا کہ جیسے ھی حضرت رسول اکرم(ص) سجدہ میں جائیں تو ٹھوکر مار کرآپ کی گردن توڑدے۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ پیغمبر اسلام کے قریب تو گیا لیکن ارادے سے منصرف ھوگیا۔ انھوں نے پوچھا کیا ھوا کیوں جسارت کی ھمت نھیں پڑی۔؟

توجواب دیا: میں نے آگ سے بھری ھوئی ایک ختدق دیکھی جو میرے سامنے شعلہ فشاں تھی۔

(تفسیر نمونہ مجمع البیان سے نقل کرتے ھوئے)

بعض لوگ نماز کی دعوت کا مذاق اڑاتے ھیں

وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ اتَّخَذُوهَا هُزُواً“۔([17])

جس وقت تم نماز کے لئے آوازدیتے ھو مذاق اڑاتے ھیں۔

 بعض لوگ بے دلی کے ساتھ نماز پرھتے ھیں:

وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلاَةِ قَامُواْ كُسَالَى“۔([18])

منافقین جب نماز پڑھتے ھیں تو بے حالی کا پتہ چلتا ھے۔

یراؤن الناس ولایذکرون اللہ الاقلیلا“۔

اور لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ھیں اور کچھ کے سواسب ذکر خدا سے غافل ھیں۔

بعض لوگ کبھی نماز پڑھتے ھیں اور کبھی نھیں پڑھتے ھیں:

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ “۔([19])

وائے ھو ان نمازیوں پر جو نماز میں سستی اور بھول سے کام لیتے ھیں۔ تفسیر میں ھے:

یھاں مراد وہ وسھویا بھول ھے جوتقصیر کے ساتھ ھو یعنی نماز کا بھول جانا نہ کہ نماز میں بھولنا۔ کبھی کبھی بعض لوگ نماز ھی بھول جاتے ھیں اور نھیں پڑھتے ھیں اس کے وقت اور احکام وشرائط کو کوئی اھمیت نھیں دیتے، جان بوجھ کر نماز کو وقت فضیلت سے تاخیر میں ڈال دیتے ھیں، انجام دھی میں ثواب اور ترک کرنے میں عذاب کے قائل اور معتقد نھیں ھیں۔

سچ بتائیے اگر نماز سے سھو اور سستیً ویلً کی مستحق ھے تو اس کو ترک کردینے میں کتنا عذاب اور خطرہ ھوگا۔

بعض لوگ اگر دنیا(کے عیش) سے محروم ھیں تو بڑے نمازی ھیں اور اگر دنیا

ھاتھ آگئی تو نماز سے غافل ھوجاتے ھیں:

“واذاراٴوتجارة اولھواًانفضوالیھا وترکوک قائماً([20])؟؟

جس وقت انھوں نے کھیںتجارت یا لھوولعب کی صورت دیکھی اس کی طرف دوڑپڑتے ھیں اور تم کو خطبہٴ نماز پڑھتے ھوئے کھڑا چھوڑجاتے ھیں۔ (یہ آیت اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ھے کہ جب پیغمبر اسلام نماز جمعہ کے خطبے پڑھنے میں مشغول تھے۔ ایک (تجارتی)گروہ نے اپنی چیزیں فروخت کرنے کے لئے طبل بجانا شروع کردیا لوگ پیغمبر اسلام کے خطبہ کے درمیان سے اٹھ گئے اور خرید وفروش کے لئے بلند آواز کی طرف دوڑ پڑے آنحضرت کو تنھا چھوڑدیا۔ چنانچہ جیسا کہ تاریخ شاھد ھے فقط بارہ افراد آنحضرت کا خطبہ سننے والوں میں باقی رہ گئے تھے!!!!)

۱۹۔ نماز کے لئے درد وتلاش

بعض لوگ اپنے بچوں کو مسجد کی خدمت میں نذر کردیتے ھیں :

“نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّراً “۔([21])

جناب مریم کی ماں نے کھا: خدایا! میں نے نذر کی ھے کہ میں اپنے بچے کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے ھرکام سے معاف وآزاد کردوں تاکہ پوری فرصت کے ساتھ بیت المقدس میں خدمت کرے لیکن جیسے مولود پر نظر پڑی اور دیکھا کہ لڑکی ھے تو عرض کی: خدایا! یہ لڑکی ھے اور لڑکی ایک لڑکے کی طرح آرام کے ساتھ خدمت نھیں کرسکتی۔

بھرحال اپنی نذر پر عمل کیا، بچے کا پالنا وغیرہ اٹھایا اور مسجد میں لے جاکر خدا کے نبی جناب زکریا علیہ السلام کے حوالے کردیا۔

بعض لوگ نماز کی خاطر اپنے بال بچوّں کی آوارہ وطنی، ھجرت اور دوری سب کچھ برداشت کرلیتے ھیں:

” رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ الصَّلاَةَ “۔([22])

جناب ابراھیم نے اپنے اھل وعیال کو مکہ کے ایک بے آب وگیا بیابان میں چھوڑ دیا اورعرض کی: خدایا! میں نے اقامہٴ نماز کی خاطر یہ کام کیا ھے۔

دلچسپ یہ ھے کہ مکہ کی بنا رکھنے والاشھر مکہ میں آیا لیکن نماز کے لئے نہ کہ حج کے لئے، گویا جناب ابراھیم کی نظر میں کعبہ کے گرد نماز پڑھا جانا طواف اور حج سے زیادہ اھم اور جلوہ گرتھا۔

بعض لوگ اقامٴہ نمازکی خاطر افزائش نسل کی دعا کرتے ھیں:

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي“۔([23])

 (پالنے والے مجھے اور میری اولاد کو اقامہٴ نماز کرنے والوں میں قراردے)

انبیاء میںسے کسی بھی نبی نے جناب ابراھیم کے جیسی مختلف اوقات میں اپنی اولادوذریت کے لئے دعا نھیں کی ھے چنانچہ خداوندعالم نے بھی ان کی ذریت واولاد کوحیرت انگیز برکتیں عطا کی ھیں یھاں تک کہ رسول اکرم (ص) اپنا اسلام بھی جناب ابراھیم کی دعاؤں کا نتیجہ کھتے ھیں۔

بعض لوگ نماز کے لئے اپنے اہل و عیال پر دباؤ ڈالتے ھیں:

واٴمراھلک بالصلوٰة واصطبر علیھا

اپنے اھل(خاندان) کو نماز پڑھنے کا حکم دو اور خود بھی اس (نماز و ذکر) پر صابر و ثابت قدم رھو۔

(اپنے بعد) انسان پر سب سے پہلی ذمہ داری اھل خاندان کی ھے لیکن چونکہ کبھی کبھی گھر والے انسان کے لئے مشکلات پیدا کردیتے ھیں تو انسان کو چاھئے کہ وہ صبر اور استقامت سے کام لے۔ ماں باپ کو کلمہ” واصطبر علیھا“ پرتوجہ دینا چاھئے۔ اگر خود عمل کے ذریعہ تبلیغ نھیں کریں گے تو فائدہ حاصل نہ ھوگا۔

بعض لوگ اپنا بھترین وقت نماز میںصرف کرتے ھیں:

واجعل افضل اوقاتک للصلوٰة“۔ ([24])

حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر سے فرماتے ھیں:

“اپنا بھترین وقت نماز کے لئے قراردو”۔

اس کے بعد فرماتے ھیں کہ:

“تمھارے تمام امورتمھاری نمازپر منحصر ھیں“۔

”واعم ان جمیع اعمالک تبع لصلوٰتک“۔؟؟

یادرکھوتمھارے تمام اعمال تمھاری نماز کے تابع ھیں :

بعض لوگ دوسروںکو نماز کی تشویق دلاتے ھیں:

“وتواصوا بالحق“۔؟؟

تشویق زبان سے بھی ھوتی ھے اور عمل کے ذریعہ بھی :

اگر نمایاں چھرے نماز کی پہلی صف میں نظر آئیں،

اگر لوگ مسجد جاتے وقت اچھے لباس اور اچھی خوشبو کا استعمال کریں۔

اگر نمازتکلفات سے عاری سادے اور سریع انداز میںھو، (یعنی پیش نماز صاحب سادگی سے کام لیں)

تو یہ چیزیں خود اقامہ نماز کے لئے عملی تشویق کا سبب بنتی ھیں۔

حضرت ابراھیم واسماعیل جیسے بزرگ نبی خانہٴ کعبہ کی تطھیر پر مامور ھوتے ھیں اور یہ تطھیر نمازیوں کے داخلے کے لئے کی جاتی ھے پس

اگر حضرت ابراھیم واسماعیل جیسے افراد نمازیوں کے لئے مسجد کی تطھیرکرسکتے تو ھم کو یاد رکھنا چاھئے کہ اگر بڑی بڑی شخصیتیں اقامہ نمار کی ذمہ داری قبول کرلیتی ھیں تو لوگوں کو نماز کی طرف دعوت دینے کے سلسلہ میں بھت زیادہ مئوثر ھوں گی۔

بعض لوگ اپنے اموال نماز کے لئے وقف کردیتے ھیں حتی ایران کے بعض شھروں اور علاقوں میں لوگوں نے بادام اور اخروٹ کے درخت وقف کردیئے ھیں کہ وہ نونھاں بچے جو مسجد میں آتے ھیں اس کے پھل کھایا کریں(اور اس طرح بچوں میں بھی مسجد میں آنے کا شوق ورغبت بڑھتا ھے)

بعض لوگ اقامہٴ نماز کے لئے سزائیں برداشت کرتے ھیں جیسا کہ گزشتہ شاہ کس قید میں رھنے والے انقلابی موٴمنین کو نماز پڑھنے پر مارکھانا پڑتی تھی۔

بعض لوگ اقامہ نماز کے لئے تیر کھاتے ھیں مثلاًجناب زھیر و سعید جوروز عاشورا امام حسین علیہ السلام کے آگے کھڑے ھوئے تاکہ امام نماز ادا کرسکیں۔

بعض لوگ اقامہ نماز کی راہ میں شھید ھوجاتے ھیں جیسے ھمارےدور کے شھدائے محراب آیت اللہ اشرفی اصفھانی، آیت اللہ دستغیب، آیت اللہ صددقی، آیت اللہ مدنی اور آیت اللہ طبا طبائی وغیرہ۔

اور بعض حضرات حالت نماز میں شھید ھوجاتے ھیں جیسے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام۔

۲۰۔ ترک نماز اور دوزخ کی مصیبتیں

قیامت میں جنتی اور دوزخی لوگوں کے درمیان بارھا گفتگو ھوگی۔ چنانچہ قرآن نے بھی اس گفتگو کی نقشہ کشی کی ھے۔ سورہٴ مدثر میں اسی طرح کے مناظر میں سے ایک منظر اس طرح بیان ھوا ھے کہ اہل بھشت حضرات مجرموں سے سوال کریں گے :کس چیز نے تم کو دوزخ تک پھنچایا ھے؟

وہ جواب دیں گے: چار چیزوں کی وجہ سے، جن میں سے پہلی چیز:

 لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ “۔

نماز کا پابند نہ ھونا ھے۔

دوسری چیز: وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ “۔

بھوکوں اور مسکینوں کی طرف سے بے توجھی،

تیسری چیز:وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِین

فاسد معاشرے میں ہضم ھوگےٴ اور

چوتھی چیز: وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ “۔

ھم قیامت کے منکر تھے اس کو قبول نھیں کرتے تھے:

ترک نماز کے خراب نتائج کے سلسلہ میں بھت زیادہ روایات وارد ھوئی ھیں کہ اگر ان کو جمع کیا جائے تو ایک مستقل کتاب کی ضرورت پڑے گی

۲۱۔تارک الصلاة کوئی توقع نہ رکھے

توقع اور امید کا معنی دینے والے الفاظ جیسے رجاء، اہل، اُمنیّہ وسفاھت،، وغیرہ کے درمیان معانی میں بھت زیادہ فرق پایا جاتاھے۔

اگرایک کسان کاشتکاری کے تمام قوانین کی رعایت کرے اور پھر فصل کاٹنے کا منتظر ھوتو یہ سالم -رجاء یعنی صحیح امیدو توقع ھے۔

اگر کسان نے کاشتکاری کے اصولوں کی اطاعت میں بعض اوقات کوتاھی سے بھی کام لیا ھے اور پھر بھی اچھی فصل کاٹنے کا امیدوار ھے تو یہ امل اور آرزو ھے۔

اگر کسان نے کاشتکاری کے تمام رموزو مقررات کو بالکل پامال کردیا ھے اور پھر بھی محصول کی امید رکھتا ھے تو یہ اُمنیہ اور خام خیالی ھے۔ اگر کسان جو بوئے اور کندم کاٹنے کی امید کرتا ھوتو یہ حماقت اور اگر انسان جو بوئے اور گندم کاٹنے کی امید میں رھے یہ سفاھت وحماقت ھے۔([25])

پہلی حتی دوسری قسم قابل قبول ھے چنانچہ ھم دعا میں پڑھا کرتے ھیں: ان لنافیک املاطویلا کثیرا خدایا: ھماری طویل آرزوئیں تیری حد سے سوا بڑھی ھوئی معافی کے سبب میں۔

ُُان لنا فیک رجاء عظیما“۔ خدایا! ھم تجھ سے بڑی بڑی امیدیں رکھتے ھیں

لیکن تیسری قسم کے سلسلے میں قرآن نے مذمت کی ھے۔اہل کتاب (یھودی ویا عیسائی) کھا کرتے تھے کہ کوئی بھی جنت میں نھیں جائے گا مگریہ کہ یھودی یا عیسائی ھو، قرآن کھتا ھے: ان کا یہ عقیدہ خام خیالی اور بے جاآرزوؤں پر مبنی ھے۔

چوتھی قسم بھی حماقت ھے کیونکہ ایسا شخص امیدو آرزوکرتا ھے کہ خدانظام کائنات کو درھم وبرھم کرڈالے (ظاھر ھے جو بوئے گا وھی کاٹے گا)        خوش نصیبی وسعاد تمندی ان لوگوں کے لئے ھے جونماز اور خدا سے انس رکھتے ھیں اور اس کی پرستش کرتے ھیں۔ بے نمازیوں کو تونجات اور کامیابی کی امید نھیں رکھنا چاہئے۔

۲۲۔نماز تمام عبادتوں کی قبولیت کی کنجی ھے

نماز کی اھمیت کے سلسلہ میں بس یھی کافی ھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے مصر میں اپنے نمائندے(محمد ابن ابی بکر) کے لئے لکھے جانے والے فرمان میں لکھا ھے:

نمازاول وقت لوگوں کے ساتھ پڑھنا، کیونکہ تمھارے دوسرے تمام امور تمھاری نمازکے تابع ھیں۔

روایات میں یہ بھی ھے کہ: اگر نماز قبول ھوگئی تو دوسری عبادتیں بھی قبول ھوجائیں گی لیکن اگرنمازرد کردی گئی تو دوسری عبادتیں بھی ردکردی جائیں گی دوسری عبادتوں کی قبولیت کا نماز کے قبول ھونے کے ساتھ وابستہ ھونا نماز کے کلیدی کردار کی نشان دھی کرتا ھے۔

گویا اگرپولیس آپ سے ڈرائیونگ کی سند طلب کرے تو آپ چاھے کوئی بھی سند اور کتناھی مقبر تعارفی کارڈ پیش کریں پولیس قبول نھیں کریں گی، ڈرائیونگ کے لئے اس کا مخصوص کارڈھونا ضروری ھے، اس کے بغیر تمام دستاویز اور سندیں بے کار رہ جائیں گے نماز کی بھی کچھ ایسی ھی حیثیت ھے۔

۲۳۔نماز پہلی اور آخری خواھش

بعض روایات میں ملتا ھے کہ نماز انبیاء کی پہلی خواھش بھی تھی اور اولیاء کی آخری وصیت و سفارش بھی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں ملتا ھے کہ آپ نے اپنی مبارک زندگی کے آخری لمحات میں ایک بار آنکھیں کھولیں اورفرمایا: تمام عزیزو اقارب کو بلاؤ۔ اس کے بعد ان سے فرمایا: ھماری شفاعت ان لوگوں کے شامل حال نہ ھوگی جو نماز کو سبک اور حقیر تصور کرتے ھیں۔

۲۴۔ نماز اپنی آزمائیش کا وسیلہ ھے۔

حدیث میں ھے کہ جو شخص خداوند عالم کے نزدیک اپنا مقام جاننا چاھتا ھے تو دیکھے کہ خدا کا مقام خود اس کے نزدیک کیا ھے۔ ([26])

اگر تمھارے نزدیک نماز کی اذان عظیم ومحترم ھوئی توتمھارا بھی خدا کے نزدیک مقام ھے اور اگر تم نے اس کے حکم کی تعمیل کے سلسلہ میں لاپروار ھے ھو تو اس کے نزدیک تم کوئی مقام ومنزل نھیں رکھتے ایسے ھی اگر نماز نے تم کو برائیوں اور گناھوں سے روکا ھے تو یہ بھی نماز کی قبولیت وتاثیر کی علامت ھے۔

۲۵۔قیامت میں پہلا سوال نماز کے بارہ میں

 حدیث میں آیا ھے کہ قیامت کے دن جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے سوال اور حساب کتاب ھوگا وہ نماز ھے۔ ([27])

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] مریم ۳۱

[2] طہ ۲۴

[3] سورہ ھود۸۷

[4] ابراھیم/۴۰

[5] لقمان ۱۷

[6] ابراھیم ۳۷

[7] سورہ/ مائدہ ۹۱

[8] سورہ/ ابراھیم ۴۰

[9] حجر۴۱

[10] مریم/۳۱

[11] بقرہ/۸۳

[12] بقرہ /۳

[13] نور/۳۷

[14] سورہٴ جمعہ

[15] قیامت/۳۱

[16] علق/ ۸۔۹

[17] مائدہ/ ۵۸

[18] نساء/۱۴۲

[19] ماعون /۴و۵

[20] سورہ جمعہ

[21] آل عمران /۳۵

[22] ابراھیم/۳۷

[23] ابراھیم/۴۰

[24] نج البلاغہ/ نامہ ۵۳

[25] اسرار صلوٴة ملکی صفحہ۹

[26] بحارالانوار ج۷۵ مطبوعہ بیروت ص۱۹۹

[27] بحارالانوارج ۷ ص۲۶۷ بیروت چاپ

 

تبصرے
Loading...