نمازکے آثارو فوائد

نمازپڑھنے ،روزہ رکھنے ،حج کرنے ،زکات دینے ،صدقہ دینے ، اوردیگرواجبات ومستحبات الٰہی کوانجام دینے سے خداکوکوئی فائدہ نہیں پہنچتاہے اورواجبات ومستحبات کوترک کرنے سے خداکاکوئی نقصان پہنچتاہے بلکہ انجام دینے سے ہم ہی لوگوں کوفائدہ پہنچتاہے اورترک کرنے پرہماراہی نقصان ہوتاہے ہم اس کی عبادت کریں وہ تب بھی خداہے اور نہ کریں وہ تب بھی خداہے ،ہماری نمازوعبادت کے ذریعہ اس کی خدائی میں کسی چیزکااضافہ نہیں ہوتاہے اورنمازوعبادت کے ترک کردینے سے اس کی خدائی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی ہے بلکہ اس کی عبادت کرنے سے ہم ہی لوگوں کو فائدہ پہنچتاہے ،جب ہم اس کی عبادت کریں گے توہمیں اس کااجروثواب ضرورملے گا ،خداوندعالم کاوعدہ ہے وہ کسی کے نیک کام پراس کے اجروثواب ضائع نہیں کرتاہے ۔ 

) >وَالّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتَابِ وَاَقَاْمُوْاالصَّلٰوةَ اِنّالَانُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ>( ١ اورجولوگ کتاب سے تمسک کرتے ہیں اورانھوں نے نمازقائم کی ہے توہم صالح اورنیک کردارلوگوں کے اجرکوضایع نہیں کرتے ہیں۔ 
>اِنَّّ الَّذِیْنَ آمَنُوْاوَعَمِلُوْالصّٰلِحٰتِ وَاَقَاْمُوْاالصَّلٰوةَ وَآتُواالزَّکٰوةَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَرَبِّہِمْ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ ) وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَ>( ٢
جولوگ ایمان لائے اورانھوں نے نیک عمل کئے ،نمازقائم کی ،زکات اداکی ان کے لئے پروردگارکے یہاں اجرہے اوران کے لئے کسی طرح کاخوف وحزن نہیں ہے۔ 
——–

اس مضمون میں شامل موضوعات

. ٢)سورہ بٔقرہ/آیت ٢٧٧ ) . ١(سورہ أعراف /آیت ١٧٠ (

دنیامیں نمازکے فوائد

دنیامیں نام زندہ رہتاہے جب کوئی بندہ کسی نیک کام کوانجام دیتاہے توخداوندعالم اسے اس نیکی کااجروثواب دنیامیں بھی عطاکرتاہے اورآخرت میں بھی عطاکرے گادنیامیں نمازایک فائدہ یہ ہے نمازی کانام دنیامیں زندہ رہتاہے ، تقوی وپرہیزگاری کی وجہ سے اکثرلوگ اسے ایک اچھے انسان کے نام سے یادکرتے ہیں ،کیونکہ خداوندعالم کاوعدہ کہ جومجھے یادکرے گامیں بھی اسے یادکروں گااوراس کانام روشن رکھوں گاجیساکہ قرآن کریم میں ارشادرب العزت ہے: 

>فَاذْکُرُونِی وَاذْکُرْکُمْ> ( ١)تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا۔ ——–

. ١ (سورئہ بقرہ /آیت ١۵٢ (

گناہوں سے دورزہتاہے

نمازکے لئے شرط ہے کہ نمازی کالباس ، بدن اورمحل سجدہ پاک ہوناچاہئے ،نمازی کے لئے باوضوہوناشرط ہے اور وضومیں شرط یہ ہے کہ وضوکا پانی اوراس کابرت ن پاک ہوناچاہئے اورنمازکی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وضوکے پانی کابرت ن اورنمازی کالباس اورنمازپڑھنے کی جگہ مباح ہونی چاہئے ان سب شرائط اورواجبات کی رعایت کرنے کایہ نتیجہ حاصل ہوگاکہ انسان مال حلال وپاک کوذہن میں رکھے گا،رزق حلال حاصل کرے گا،حلال چیزوں کامالک رہے گا،حلال کپڑاپہنے گااورگناہوں سے دوررہے گا۔

حقیقی نمازانسان کی رفتار،گفتار،کرداراوراس کے اعمال افعال پرمو ثٔرہوتی ہے لہٰذاجن کی نمازان کے اعمال وافعال،رفتاروگفتاراورکردارپرمو ثٔرہوتی ہے وہ بارگاہ میں الٰہی قبول ہوتی ہے اورجن کی نماز گناہ ومنکرات سے نہیں روکتی ہے ہرگزقبول نہیں ہوتی ہیں لہٰذاہم یہاں پران آیات وروایات کو ذکرکررہے ہیں جواس چیزکوبیان کرتی ہیں کہ نمازانسان کوگناہ وبرائیوں سے روکنے کی ایک بہترین درسگاہ ہے:
>اَقِمِ الصَّلاةَ ، اِنَّ الصَّلٰوةَ ت نٰھی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرْ وَلَذِکْرُاللهِ اَکْبَرُ، وَاللهُ یَعْلَمُ ) مَاتَصْنَعُونَ>( ١
نمازقائم کروکیونکہ نمازہربرائی اوربدکاری سے روکنے والی ہے اورالله کاذکربڑی شے ہے اورالله تمھارے کاروبارسے خوب واقف ہے۔
اوراحادیث میں بھی آیاہے کہ نمازانسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے
عَنِ النّبِی صلّی اللهُ عَلَیہِ وَآلِہِ اَنّہُ قَالَ:مَن لَم ت نہہ صَلاتَہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِلَم یَزِدْمِن ) اللهِ اِلّابُعداً۔( ٢
جس شخص کی نمازاسے گناہ و منکرات سے دورنہیں رکھتی ہے ا سے اللھسے دوری کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے ۔
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:من احبّ ان یعلم اقبلت صلاتہ ام لم تقبل فلینظرہل ) صنعتہ صلاتہ من الفحشاء والمنکرمامنعتہ قبلت منہ۔( ٣
امام صادقفرماتے ہیں:جوشخص یہ دیکھناچاہتاہے کہ اس کی نمازبارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی ہے یانہیں تووہ یہ دیکھے کہ اس کی نمازنے اسے گناہ ومنکرات سے دورکیاہے یانہیں،اب جس مقدارمیں نمازنے اسے گناہ ومنکرات سے دوررکھاہے اسی مقدارمیں اس کی نمازقبول ہوتی ہے ۔
——–

. ٢)تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶٢ ) . ١(سورہ عٔنکبوت/آیت ۴۵ ( . ٣)بحارالانوار/ج ١۶ /ص ٢٠۴ )

عن النبی صلی الله وآلہ انہ قال:لاصلوة لمن لم یطع الصلوة وطاعة الصلوة ان ینتہی عن ) الفحشاء والمنکر۔( ١
رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) فرماتے ہیں : جو شخص مطیع نماز نہ ہو اس کی وہ نماز قبول نہیں ہوتی ہے اور اطاعت نمازیہ ہے کہ انسان اس کے ذریعہ اپنے آپ کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتاہے (یعنی نمازانسان کوگناہ ومنکرات سے دوررکھتی ہے)۔
——–

. ١(تفسیرنورالثقلین /ج ۴/ص ١۶١ (

جابرابن عبدالله انصاری سے مروی ہے کہ:رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے شکایت کی گئی فلاں شخص دن بھرنمازیں پڑھتاہے اوررات میں چوری کرتاہے ،آنحضرت نے یہ بات سن کرفرمایا:
انّ صلاتہ لتردعہ
یقینااس کی نمازاسے اس کام سے بازرکھے گی (اور پھروہ کبھی چوری نہیں کرےگا) ) ۔( ١ 

گذشتہ گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں

خداوندعالم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے:
>اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّہٰارِ،وَزُلْفًامِنَ الَّیْلِ ،اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السِّیِّئاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی ) لِلذَّاْکِرِیْنَ>( ٢
)اے پیغمبر)آپ دن کے دونوں حصوں میں اوررات گئے نمازقائم کروکیونکہ نیکیاں برائیوں کوختم اورنابودکردیتی ہیں اوریہ ذکرخداکرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے ۔ روایت میں ایاہے کہ ایک دن نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنے اصحاب سے پوچھا:اگرتم میں سے کسی شخص کے گھرکے سامنے سے پاک وصاف پانی کی کوئی نہرگزررہی ہواوروہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ اپنے جسم کودھوئے کیاپھربھی اس کے جسم پرگندگی رہے گی؟سب نے کہا:ہرگزنہیں!اسکے بعد آنحضرت نے فرمایا:
نمازکی مثال اسی جاری نہرکے مانندہے ،جب انسان نمازپڑھتاہے تودونمازوں کے درمیان ) اس سے جت نے گناسرزدہوئے ہیں وہ سب معاف ہوجاتے ہیں۔( ٣
——–

. ٢)سورہ ۂود/آیت ١١۴ ) . ١(تفسیرمجمع البیان/جج ٨/ص ٢٩ ( . ٣(تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ٢٣٧ (

قال رسول الله صلی الله عیہ وآلہ :اذاقام العبدالی الصلاة فکان ہواہ وقلبہ الی الله تعالی ) انصرف کیوم ولدتہ امہ۔( ١
پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جب کوئی بندہ نمازکے لئے قیام کرتاہے اوراس کادل وہواخداکی طرف ہو تووہ نمازکے بعدایساہوجاتاہے جیساکہ اس نے ابھی جنم لیاہے۔ ابوعثمان سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں اور سلمان فارسی ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہو تھے جس کے پتّے خشک ہوچکے تھے، سلمان نے درخت کی شاخ کوپکڑکرہلاےااس کے خشک پتّے زمین پر گرنے لگے توسلمان نے کہا : اے ابن عباس !کیا تم درخت کوہلانے کی وجہ نہیں پوچھوگے ؟ میں نے کہا: ضروراس کی وجہ بیان کیجئے ،سلمان نے کہا: میں ایک روز نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ اسی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، آنحضرت نے بھی یہی کام کیا تھا جب میں نے آنح__________ضرت سے کہا یا رسول الله ! اس کی وجہ بیان فرمائےے ؟توآپنے فرمایا:اِنّ العبد المسلم اذاقام الی الصلاة عنہ خطایاہ کماتحات ورق من الشجرة جب کو ئی مسلما ن بندہ نمازکے لئے قیام کرتاہے تواس کے تمام گناہ اسی طرح ) گرجاتے ہیں جس طرح اس درخت سے پتے گرے۔( ٢
——–

. ٢)امالی شیخ صدوق/ص ١۶٧ ) . ١(بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٣۶ (

قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:مامن صلاة یحضروقتہاالانادیٰ ملک بین یدی الناس : ) ایہاالناس!قومواالی نیرانکم التی اوقدتموہاعلی ظہورکم فاطفئوہابصلاتکم۔( ١ نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جےسے ہی نمازکاوقت شروع ہوتاہے ایک فرشتہ لوگوں کے درمیان آوازبلندکرتاہے :اے لوگو!اٹھواوروہ آگ جوتم نے اپنے پیچھے لگارکھی ہے اسے اپنی نمازکے ذریعہ خاموش کردو ۔
حضرت علی فرماتے ہیں :ہم پیغمبر اسلام (صلی الله علیھ و آلھ)کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور نماز کے وقت کا انتظار کر ہے تھے کہ ایک مردنے کھڑے ہوکرکہا:یارسول الله! میں ایک گنا ہ کا مرتکب ہوگیا ہوں اس کے جبران کے لئے مجھے کیا کام کرنا چاہئے ؟ آنحضرت نے اس سے روگردانی کی اوراس کی بات پر کوئی توجہ نہ کی ،ےہاں تک کہ نمازکاوقت پہنچ گیااورسب نماز میں مشغول ہوگئے ، نماز ختم ہونے کے بعد پھراس شخص نے اپنے گناہ کے جبران کے بارے میں پوچھا تورسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے فرمایا: کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی کےاتم نے مکمل طورسے وضونہیں کےا؟اس نے عرض کیا : ہاں ! یا رسول الله ،آنحضرت نے فرمایا : تیری یہی نماز تیرے گناہ کا کفّارہ ہے۔
——–

. ٢)تفسیرمجمع البیان/ج ۵/ص ٣۴۵ ) . ١(من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٠٨ (

حضرت علینہج البلاغہ میں ارشادفرماتے ہیں:
وانہالتحت الذنوب حت الورق وتطلقہااطلاق الربق وشبہہارسول الله بالحمة تکون علی ) باب الرجل فہویغتسل منہاالیوم واللیل خمسمرات فماعسی ان یبقی علیہ من الدرن۔( ١ نماز گنا ہوں کو اسی طرح پاک کردیتی ہے جیسے درخت سے پتّے صاف ہوجاتے ہیں اور انسا ن کو گناہوں سے اسی طرح آزاد کر دیتی ہے جیسے کسی کورسّی کے پھندوں سے آزادکردیاجائے اور رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے پنچگانہ نمازوں کواس گرم پانی کی نہریاچشمہ سے مثال دی ہے کہ جو کسی انسان کے گھر کے سامنے ہو ا ور وہ اس میں روزا نہ پانچ بار __________نہا تا ہوتو اسکے بد ن پر ذرہ برابر کثافت وگندگی باقی نہیں رہے گی ۔ 
——–

. ١(نہج البلاغہ/خطبہ ١٩٩ /ص ١٧٨ (

چہرے پرنوربرستاہے

ا بان ابن تغلب سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے پوچھا :اے فرزندرسول خدا حضرت فاطمہ کو زہرا یعنی درخشاں کیوں کہا جاتاہے ؟امام (علیھ السلام) نے فرما یا : کیونکہ جناب فاطمہ کے چہرہ مبارک سے روزانہ تےن مرتبہ اےک نورساطع ہوتا تھا:

پہلی مرتبہ اس وقت جب آپ نماز صبح کے لئے محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو آپ کے وجود مبارک سے ایک سفیدنور سا طع ہوتاتھاجس کی سفیدی سے مدینہ کا ہر گھرنورانی ہو جاتاتھا،اہل مدینہ اپنے گھروں کونورانی دیکھ کر نہاےت تعجب کے ساتھ رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں حاضرہوتے اور اپنے گھر وں کے منّور ہوجانے کی وجہ دریا فت کر تے تھے،آنحضرت انھیں جواب دیتے تھے:تم میری لخت جگر کے دروازہ ے پر جا ؤاوران سے اس کی وجہ دریافت کرو، جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تومعلوم ہوتاتھاکہ بانو ئے دوعالم محراب عبادت میں نمازوعبادت ا لٰہی میں مشغول ہیں اور چہرے سے ایک نور سا طع ہے جسکی روشنی سے مدینہ کے گھر چمک رہے ہیں۔
دو سری مرتبہ اس وقت جب آپ نمازظہرین اداکر نے کے لئے محراب عبادت میں قیا م کرتی تھیں توچہرہ اقدس سے پیلے رنگ کانورظاہر ہو تاتھااوراس نورکی زردی سے اہل مدینہ کے تمام گھرنورانی ہوجاتے تھے یہاں تک کہ ان کے چہرے اورلباس کارنگ بھی زردہوجاتاتھالہٰذالوگ دوڑے ہوئے آنحضرت کے پاس آتے تھے اوراس وجہ معلوم کرتے تھے
توآنحضرتانھیں اپنی کے گھرکی طربھیج دیاکرتے تھے،جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تودیکھتے تھے کہ بانو ئے دوعالم محراب عبادت میں نمازوعبادت ا لٰہی میں مشغول ہیں اور چہرے سے ایک زردرنگ کانور سا طع ہے اورسمجھ جاتے تھے ہمارے گھرجناب سیدہ کے نورسے چمک رہے ہیں۔
تیسری مرتبہ اس وقت کہ جب سورج غروب ہوجاتاتھااورآپ نماز مغربین میں مشغول عبادت ہوتی تھیں توچہرہ اقدس سے سرخ رنگ کانورساطع ہوتاتھااوریہ آپ کے بارگاہ رب العزت میں خوشی اورشکرگزاری کی علامت تھا،جناب سیدہ کے اس سرخ رنگ کے نورسے اہل مدینہ کے تمام گھرنورانی ہوجاتے تھے اوران کے گھروں کی دیواریں بھی سرخ ہوجاتی تھی ،پسلوگ آنحضرت کے پاس آتے تھے اوراس کی وجہ دریافت کرتے تھے توآپانھیں اپنی لخت جگر کے گھرطرف بھیج دیاکرتے تھے،جیسے ہی لوگ ان کے دروازہ پر پہنچتے تھے تودیکھتے تھے کہ سیدةنساء العا لمین محراب عبادت میں تسبیح وتمجیدالٰہی میں مشغول ہیں اورسمجھ جاتے تھے ان کے نورسے ہمارے گھرنورانی ہوجاتے ہیں۔
حضرت امام صادق – فرماتے ہیں :یہ نورہرروزتین مرتبہ اسی طرح سے ان کی پیشانیٔ مبارک سے چمکتارہتاتھا اورجب امام حسین- متولدہوئے تووہ نور امام حسین- کی جبین اقدس میں منتقل ہوگیا اور پھربطور سلسلہ ایک امام سے دوسرے امام کی پیشا نی میں منتقل ہورہا ہے اور جب بھی ایک امام (علیھ السلام)نے دنیاسے رخصت ہواتوان کے بعدوالے امام (علیھ السلام)کی پیشانی ہوتاگیایہاں تک کہ جب امام زمانہ ظہور کریں گے تو ان کی پیشانی سے وہی نورساطع ) ہوگا۔( ١
——–

. ١(علل الشرائع /ج ١/ص ١٨٠ (

بے حساب رزق ملتاہے

روایت میں آیاہے کہ حبیب خداحضرت محمدمصطفیٰ (صلی الله علیھ و آلھ)کی لخت جگرکے گھرمیں دودن سے میں کھانے پینے کے لئے کوئی سامان موجودنہیں تھا،جوانان جنت کے سردار حسنین رات میں کھانا کھائے بغیرہی سوجایاکرتے کرتھے ، جب تیسرادن ہوااورامام علی سے کچھ کھانے پینے کاانتظام کرسکے لہٰذاتاکہ بچوں کے سامنے شرمند نہ ہوناپڑے توشام کے وقت مسجدپہنچے اوراپنے رب سے رازونیازکرتے رہے یہاں تک کہ مغرب کی نمازکاوقت ہوگیا،نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی اقتدامیں جماعت سے نمازاداکی ،نمازختم ہونے کے بعدنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ) نے حضرت علیسے عرض کیا :یا علی ! میں آج کی رات آپ کے گھرمہمان ہوں جبکہ امام (علیھ السلام) کے گھر کھا نے کا کچھ بھی انتظام نہیں تھا اور فاقے کی زندگی گزار رہے تھے لیکن پھربھی امام (علیھ السلام) نے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)سے عرض کیا : یا رسول الله !آپ کا ہمارے گھرتشریف لانا ہمارے لئے ارجمند و بز رگواری کاباعث ہو گا .

نبی اورامام دونوں مسجدسے خارج ہوئے لیکن راستہ میں امام (علیھ السلام)کی حالت یہ تھی کہ جسم سے عرق کی بوندیں ٹپک رہی تھی اور سوچ رہے تھے کہ آج حبیب خداکے سامنے شرمندگی کاسامناکرناپڑے گا،لہٰذاجیسے ہی گھرپہنچے توحضرت فاطمہ زہرا سے کہا :
اے رسول خداکی لخت جگر ! آج تمھارے باباجان ہمارے گھرمہما ن ہیں اورمگر اس وقت گھرمیں کھانے کے لئے کچھ بھی موجودنہیں ہے ، جناب سیدہ نے باباکا دیدارکیااوراس کے بعدایک حجرے میں تشریف لے گئیں اورمصلے پرکھڑے ہوکردو رکعت نماز پڑھی،اور سلام نماز پڑھنے کے بعد اپنے چہرہ مٔبارک کو زمین پر رکھ کر بارگاہ رب العزت میں عرض کیا : پروردگا را! آج تیرے حبیب ہمارے گھر مہمان ہیں،اورتیرے حبیب کے نواسے بھی بھوکے ہیں پس میں تجھے تیرے حبیب اوران کی آل کاواسطہ دیتی ہوں کہ توہمارے لئے کوئی طعام وغذانازل کردے ،جسے ہم ت ناول کرسکیں اور تیرا شکر اداکریں۔
حبیب خدا کی لخت جگر نے جیسے ہی سجدہ سے سربلند کیاتوایک لذیذ کھانے کی خوشبوآپ کے مشام مبارک تک پہنچی ،اپنے اطراف میں نگاہ ڈالی تودیکھا کہ نزدیک میں ایک بڑاساکھانے کا طباق حاضر ہے جس میں روٹیاں اور بریاں گوشت بھراہوا ہے،یہ وہ کھاناتھاجو خدا ئے مہربان نے بہشت سے بھیجا تھا اور فاطمہ زہرا نے پہلے ایسا کھانا نہیں دیکھا تھا ،آ پ نے اس کھانے کواٹھاکردسترخوان پررکھااور پنجت ن پاک نے دستر خوان کے اطراف میں بیٹھ کر اس بہشتی کھانا کو ت ناول فرمایا ۔
روایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنی پارہ جگرسے پوچھا:اے میرے بیٹی ! یہ لذےذاورخوشبودار کھانا آپ کے لئے کہا ں سے آیا ہے ؟ بیٹی نے فرمایا: اے باباجان! ) >ھُوَمِنْ عِنْدِالله اِنَّ الله یَرْزَقُ مَنْ یَشاَ ءُ بِغَیْرِحِسَا بٍ.>( ١
یہ کھانا الله کی طرف سے آیا ہے خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔
پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے اپنی لخت جگرسے مخاطب ہوکر فرمایا:تمھارایہ ماجرابالکل مریم اورذکریاجیساماجراہے اوروہ یہ ہے:
>کُلَّمَادَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّاالْمَحْرَابَ وَجَدَعِنْدَھَارِزْقاً قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ھٰذا قَالَتْ ھُوَمِنْ عِنْدِاللهِ ) اِنَّ اللھَیَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِحِسَاْبٍ.>( ٢
——–

. ٢)سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧ ) . ١(سورہ آٔل عمران/آیت ٣٧ (

جب بھی حضزت زکریا (علیھ السلام)حضرت مریم (س )کی محراب عبادت میں داخل ہوتے تھے تو مریم کے پاس طعام وغذا دیکھا کر تے تھے اور پو چھتے تھے : اے مریم ! یہ کھانا کہاں سے آیاہے ؟ مریم(س)بھی یہی جواب دیتی تھیں: یہ سب خداکی طرف سے ہے بے شک خدا جسکو چاہے بے حساب رزق عطا کرتاہے ۔
جنت سے کھانانازل ہونے میں دونوں عورتوں کی حکایت ایک جیسی ہے جس طرح نماز وعبادت کے وسیلہ سے حضرت مریم (س)کے لئے بہشت سے لذیذکھاناآتاتھااسی طرح جناب سیدہ کے لئے بھی جنت سے لذیذ اورخوشبودار غذائیں نازل ہوتی تھیں لیکن اس کوئی شک ) نہیں ہے کہ جناب سیدہ کا مقام تواسسے کہیں درجہ زیادہ بلندو با لا ہے( ١
حضرت مریم(س)صرف اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن جناب سیّدہ دونوں جہاں کی عورتوں کی سردار ہیں ،جبرئیل آپ کے بچوں کوجھولاجھلاتے ہیں،گھرمیں چکیاں پیستے ہیں،درزی بن جاتے ہیں اسی لئے آپ کوسیدة نساء العالمین کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔
وہ خاتون جودوجہاں کی عورتوں کی سردارہو،وہ بچے جوانان جنت کے سردارہوں،وہ گھرکہ جسمیں میں فرشے چکیاں پیستے ہوں،جن بچوں کوجبرئیل جھولاجھلاتے ہیں،…خدااس گھرمیں کس طرح فاقہ گذارنے دے سکتاہے ،ہم تویہ کہتے ہیں کہ خداوندعالم انھیں کسی صورت میں فاقہ میں نہیں دیکھ سکتاہے بلکہ یہ فاقہ فقط اس لئے تھے خداوندعالم اس کے مقام ومنزلت کوبتاناچاہتاتھاورنہ مال ودولت توان ہی کی وجہ سے وجودمیں آیاہے ،یہ تووہ شخصیت ہیں کہ اگرزمین پرٹھوکرماریں تووہ سوناچاندی اگلنے لگے ۔ 

رزق میں برکت ہوتی ہے

عن ضمرة بن حبیب قال:سئل النبی صلی الله علیہ وآلہ عن الصلاة فقال:الصلاة من ) شرایع دین …وبرکة فی الرزق…۔( ۴

نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے نمازکی فضلیت کے بارے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا:نمازشریعت دین اسلام میں سے ہے…اورکے ذریعہ نمازی کے رزق میں برکت ہوتی ہے 
——–

. ۴(الخصال شیخ صدوق/ص ۵٢٢ (

دعائیں مستجاب ہوتی ہیں

قال رسول الله صلی علیہ وآلہ:من ادی الفریضة فلہ عنداللھدعوة مستجابة۔

رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:جوشخص فریضہ الٰہی (نماز)کوانجام دیتاہے
(اوراس کے بعدالله تبارک تعالیٰ سے کوئی چیزطلب کرتاہے تو)اس کی دعابارگاہ خداوندی میں ) ضرورمستجاب ہوتی ہیں۔( ١ 
——–

. ١(بحارالانوار/ج ٧٩ /ص ٢٠٧ (

رحمت خدانازل ہوتی ہے

خدا وندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: >وَالْمُومِنُوْنَ وَالْمُومِنَاتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیآءُ بَعْضٍ یَا مُٔرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِوَیُقِیْمُوْنَ ) الصَّلٰوةَ وَیُوتُونَ الزَّکٰوةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَہُ اُولٓئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللهُ اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌحَکِیْمٌ>( ٢

__________مومن مرداورمومنہ عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی ومددگارہیں کیونکہ یہ سب ایک دوسرے کونیکیوں کاحکم دیتے ہیں اوربرائیوں سے روکتے ہیں ،نمازقائم کرتے ہیں ،زکات اداکرتے ہیں اورالله ورسول کی اطاعت کرتے ہیں ،یہی سب وہ لوگ ہیں جن پر خدارحمت نازل کرے گا۔
——–

. ٢)سورہ تٔوبہ /آیت ٧١ ) . ١(ہزاریک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٢٢۴ (

) >اَقِیْمُوْاالصَّلٰوةَ وَآتُوالزَّکٰوةَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ >( ١
نمازقائم کرو ،زکات اداکرواوررسول کی اطاعت کروکہ شایداسی طرح تمھارے حال پررحم کیاجائے۔
) قال علی علیہ السلام:الصّلٰوة ینزل الرحمة۔( ٢
حضرت علیفرماتے ہیں:نمازرحمت خداکے نازل ہونے کا سبب واقع ہوتی ہے۔ ——–

. ٢)میزان الحکمة /ج ۵/ص ٣۶٧ ) . ١(سورہ نٔور/آیت ۵۶ (

قال الصادق علیہ السلام:اذاقام المصلی الی الصلاة نزلت علیہ الرحمة من اعیان السماء ) الی الارض وحفت بہ الملائکة ونادی ملکٌ:لویعلم المصلی مالہ فی الصلاة ماانْفتل۔( ۴
حضرت امام صادق فرماتے ہیں:جب نمازگزارنماز کے لئے کھڑہوتاہے آسمان سے لے
کرزمین تک اس پررحمت نازل ہوتی رہتی ہے اورفرشتے اسے اپنے احاطہ میں لے لیتے ہیں اورایک فرشتہ آوازبلندکرتاہے :اگراس نمازگزارکریہ معلوم ہوجائے کہ نمازمیں کیاکیاچیزیں ہیں توہزگزنمازسے نہیں رک سکتاہے ۔
——–

. ۴(آثارالصادقین /ج ١١ /ص ٩٩ (

دل کوسکون ملتاہے اوررنج وغم دورہوتے ہیں

نمازایسی واجب الٰہی ہے کہ جس کے ذریعہ نمازی دل کوسکون ملتاہے کلیجہ کوٹھنڈک محسوس ہوتی ہے ،رنج وغم دورہوتاہے کیونکہ خداوندعالم قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے: ) >اَلابِذِکْرِالله تَطْمَئِنَ الْقُلُوب>( ١
آگاہ ہوجاؤ! الله کے ذکرسے دلوں کوسکون ملتاہے۔
امام صادق فرماتے ہیں: جب بھی تمھیں دنیامیں کوئی مشکل پیش آئے تووضوکرکے مسجدجاؤاور دورکعت نمازپڑھواورنمازمیں دعاکروکیونکہ خداوندعالم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے:
) >وَاسْتَعِیْنُوابِالصَّبْرِوَالصَّلاةِ>( ٢ ) نمازاورصبرکے ذریعہ اللھسے مددطلب کرو۔( ٣ 
——–

. ٣)مجمع البیان /ج ١/ص ١٩۴ ) . ٢)سورہ بقرہ /آیت ۴۵ ) . ١(سورہ رعد/آیت ٢٨ (

عورت کی عزت آبروقائم رہتی ہے

عورت پرواجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنے پورے جسم کوچھپائے یہاں تک کہ بالوں کوبھی خواہ اسے کوئی نہ دیکھ رہاہو،صرف چہرہ اورگٹوں تک ہاتھ وپاؤں کاکھلارہناجائزہے ،نمازکایک فائدہ یہ بھی ہے کہ عورت نمازکے ذریعہ پردہ کی عادی بن جاتی ہے ،نمازی وپرہیزگارعورت گھرسے باہر(گلی ،کوچہ ،محفل اورمجلس میں)بھی اپنے پردے کاخیال ضروررکھتی ہے۔

بے حجاب عورت کی مثال پھلدار درخت کی اس شاخ کے مانند ہے جو کسی باغ یاگھرکی چہاردیواری سے باہرنکلی ہوئی رہتی ہے کہ جسپاسسے گذرنے ہرشخص اس شاخ کی طرف دست درازکرتاہے اوراس کے پھل کوتوڑکرکھانے کی کوشش کرتا ہے اوربے حجاب عورت کی مثال چمن کھلے ہوئے اس پھول کے مانندہے جس کی رنگت اورخوبصورتی کودیکھ کرہرشخص کے دل میں اس پھول کوچھونے ، مس کر نے اوراس کی خوشبو سونگھے کی رغبت پیداہوتی ہے یہاں تک کہ بعض لوگ اس قدرتجاوزکرجاتے ہیں کہ اس پھول کوشاخ سے توڑکراس کی خوشبوسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
حجاب عورت کے لئے ایک ایسا حصا ر و حافظ ہے جو عورت کو بیگانہ اور اجنبی لوگوں کے خوف وخطرسے محفوظ رکھتا ہے ، حجاب کا درس حاصل کرنے اور اس کی عادت ڈالنے کی بہتر ین درسگاہ نماز ہے کیونکہ ہرمسلمان عورت پر واجب ہے کہ وہ روزانہ پانچ مرتبہ حجاب کا مل کے ساتھ خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں کھڑی ہوکر نماز پڑھے اور اپنے رب کے ساتھ رازونیاز کرے ۔ 

قرآن کریم متروک ہونے سے محفوظ رہتاہے

نمازکے فوائدمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ قرآن کریم اس کے ذریعہ متروک ہونے سے محفوظ رہتاہے اورنمازمیں اسی لئے قرئت کوواجب قراردیاگیاہے تاکہ قران متروک ہونے سے محفوظ رہے کیونکہ ممکن ہے انسان کسی کام میں مشغولیت کی بناپر،یاکسالت اورسستی کی وجہ سے روزانہ قرآن کریم کی تلاوت نہ کرے لیکن خدوندعالم نے اس لئے تاکہ انسان تلاوت کے اجروثواب اوراس کے فوائدسے محروم نہ رہے نمازمیں نمازمیں قرئت کوواجب قراردے دیا،اس بات کومکمل طورسے رازقرائت میں ذکرکریں گے۔ 

قبض روح میں اسانی ہوتی ہے

ایک شخص نے امام صادق سے مومن کی موت کے بارے میں سوال کیاتوامام (علیھ السلام) نے فرمایا:
) لِلْمُومِن کَاَطْیَب رِیح یَشمّہ، فَیَنْعَسُلِطِیبِہِ ،وَیَنْقَطَعِ التّعَبَ وَالْاَلَم کُلّہُ عَنْہُ ۔( ١ مومن کی موت ایک خوشبودارپھول سونگھنے کے مانندہے، موت آتے ہی اس کے تمام رنج وغم ختم ہوجاتے ہیں۔
——–

. ١(معانی الاخبار/ص ٢٨٧ (

برزخ اورقیامت میں نمازکے فوائد

انسان کے مرنے کے بعددنیااورتمام عزیزواقارب سے ہرطرح کاتعلق منقطع ہو جاتے ہیں ،دنیاکی کوئی چیزاس کے ساتھ قبرمیں نہیں جاتی ہے بلکہ ماں باپ،بھائی بہن، مال ودولت ،اولادوہمسر،…سب کادامن ہاتھ سے چھٹ جاتاہے اورجب تمام عزیزواقارب اسے دفن کرکے واپس چلے جاتے ہیں تو میت پراس ت نگ اوراندھیری کوٹھری میں ت نہائی کی وجہ سے ایک ہولناک وخوفناک وحشت طاری ہوتی ہے اورجب کوئی اسے اس وحشت سے نجات دلانے والانہیں ملتاہے تواس کی نمازاسے قبرکی ت نہائی سے نجات دلاتی ہے ،عالم برزخ میں نمازکے مونسہونے کے بارے میں چندحدیث مندرجہ ذیل ذکرہیں:

قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ :ان الصلاة تاتی المیت فی قبرہ بصورة شخص ) انوراللون یونسہ فی قبرہ ویدفع عنہ اہوال البرزخ۔( ١
نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں :عالم برزخ میں نمازایک نورانی اورخوبصورت شخص کی شکل میں قبرمیں داخل ہوتی ہے جوقبرمیں انسان کی مددگارثابت ہوتی ہے اوربرزخ کی وحشت کواس سے دورکرتی ہے ۔
——–

. ١(الخصال شیخ صدوق/ ۵٢٢ (

عن ضمرة بن حبیب، قال: سئل النبی صلی الله علیہ وآلہ عن الصلاة فقال: الصلاة من شرایع دین وشفیع بینہ وبین ملک الموت ،وانس فی قبرہ ،وفراش تحت جنبہ،وجواب ) لمنکرونکیر…۔( ١
نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے نمازکی فضلیت کے بارے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا:نمازشریعت دین اسلام میں سے ہے…نمازوہ ہے کہ جوملک الموت اوراس نمازی کے درمیان شفیع واقع ہوتی ہے ،قبراس کی مددگارثابت ہوتی ہے ،اوراس کے لئے بہترین بچھوناہوتی ہے ،منکرونکیرکے سوالوں کاجوابگوہوتی ہے …۔
لیکن یہ بات یادرہے کہ ہرنمازانسان کوبرزخ میں قبرکی وحشت سے نجات نہیں دلاسکتی ہے بلکہ صرف وہ نمازکام آئے گی جوپورے آداب وشرائط کے ساتھ انجام دی گئی ہوخصوصاًوہی نمازکام آئے گی جومحمدوآل کی محبت کے ساتھ انجام دی گئی ہو۔ عبدالرحمن ابن سمیرسے مروی ہے :ایک دن ہم چند لوگ رسولخدا (صلی الله علیھ و آلھ) کی خدمت میں جمع تھے ، آنحضرت نے فرمایا : میں نے کل رات ایک عجیب خواب دیکھا ہے ، میں نے عرض کیا : یا رسول الله ! آپ پر ہماری اور ہماری اولاد کی جانیں قربان ہو جائیں آپ ہمیں بتائیں کہ خواب میں کیا دیکھا ہے ؟ پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے خواب بیان کرنا شروع کیا اورفرمایا: میں نے ایک مرد کو ایسی حالت میں دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں نے اس کا محاصرہ ) کررکھا ہے اسی وقت اس شخص کی نماز آئی اور اسے عذاب کے فرشتوں سے آزاد کر ایا ۔( ٢
——–

. ٢)مستدرک الوسائل /ج ١/ص ١٨٣ ) . ١(الخصال شیخ صدوق/ ۵٢٢ (

ایک دن جب نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)سے نمازکی فضلیت کے بارے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا: نمازشریعت دین اسلام میں سے ہے…اورروزمحشرنمازی کے سرکاتاج ہوگی ،نمازی کے چہرے پرنوربرستاہوگا،نمازاس کے بدن کالباس ہوگی اورجنت وجہنم کے درمیان ایک حجاب وسپر واقع ہوگی ،نمازی اورخدائے عزوجل کے درمیان حجت ہوگی ،اس کے جسم کونارجہنم سے نجات دلائے گی اورپل صراط سے آسانی سے گزرنے کاسبب واقع ہوگی ،نمازجنت کی ) کنجی ہے اورنمازگزارنمازکے وسیلے سے بلندمقام تک پہنچے گا ۔( ١ 
——–

. ١ (الخصال شیخ صدوق/ ۵٢٢ (

حضرت امام صادق فرماتے ہیں : روزقیامت ایک بوڑھے شخص کو حاضر کیا جائے گا اور اس کا نامہ أعمال اس کے ہاتھوں میں دیا جائے گا اورسب اس کو دیکھتے ہو نگے ،اسے اپنے نامہ أعمال میں گناہوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آئے گا، جب حساب لیتے ہو ئے بہت دیر ہو جائے گی تو وہ بوڑھا شخص کہے گا : بارالہا ! مجھ کو ایسالگتا ہے کہ تو مجھے دوزخ میں ڈالنے کا حکم دینے والاہے ؟ خطاب ہو گا : اے بوڑھے انسان مجھے تجھ پر عذاب نازل کرتے ہوئے حیا آتی ہے ، کیونکہ تو نے دنیا میں نمازیں پڑھی ہیں اس کے بعد پرور دگار اپنے فرشتہ ) سے کہے گا : میر ے اس بند ے کو بہشت میں لے جاؤ۔( ٢
——–

. ٢(وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ٢٧ (

تبصرے
Loading...