نقل حدیث پر پابندی کے نتائج

نقل حدیث پر پابندی کے نتائج
غلام محمدکراروی

جب پیغمبراسلام انسانوں کی ہدایت اوراسلامی معاشرے کی تشکیل میں تئیس سال کی زحمت برداشت کرکے وفات پاگئے توغصب خلافت وفدک، رسول کی بیٹی فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا کی بی حرمتی جیسے بہت ساری انحرافات وجود میں آئے۔
اسی طرح پیغمبر اکرم ص کی احادیث کو تحریر کرنے سے منع کیا گیا نہ صرف یہی بلکہ خیالی اور بے بنیاد دلائل کی بنا پر احادیث نبوی کو جلایا گیا کہ جس کی وجہ سے اسلامی بلکہ انسانی معاشرےکو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، چونکہ ۲۳ سالوں میں بیان کی گئیں رسول اکرم (ص)کی احادیث جو رہنمائی، ہدایت اورحکمتوں پرمشتمل خزانہ تھا، معدوم ہوگئیں۔
البتہ معصوم اماموں کے وجود کی برکت سے شیعہ معاشرہ رسول اکرم کی احادیث سے محروم نہ رہا، لیکن مسلمانوں کی کثیر تعداد احادیث نبوی سے محروم رہی۔
ذیل میں حدیث کی کتابت پر پابندی کے اسلامی معاشرے پر برےنتائج اورمنفی اثرات کومختصراً پیش کیا جارہا ہے۔
کتابت حدیث پر پابندی کا بہانہ(بے بنیاد دلیل)
حدیث پر پابندی لگانے والوں کا بنیادی نعرہ
’’حسبنا کتاب الله ‘‘
تھا کہ نہایت ہی ہوشیاری سے یہ نعرہ بلند کیا گیا۔ جس کے چند نمونے پیش کیے جارہا ہیں۔
۱ـ ابن وہب کہتا ہے:میں نے مالک سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے: کہ عمر بن خطاب نے حدیث لکھنے کا ارادہ کیا اور شاید اس نے لکھا!۔ پھر کہا :
 لا کِتابَ مَعَ کِتابِ الله؛
کتاب خدا وندی کے ساتھ کوئی دوسری تحریر نہیں ہونی چاہیے یہ وہی
حسبنا کتاب الله
کا نعرہ ہے جس کو عمر نے ہی بلند کیاتھا۔(1)
اس حدیث کی روایت کرنے والے تمام راوی یہ کہنا چاہتےہیں کہ نقل حدیث پر پابندی کا پہلے سے منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا بلکہ یہ خیال اچانک عمرکے ذہن میں آیا ۔لیکن ان لوگوں نے اس نکتہ کی طرف توجہ نہیں کی کہ ان کا یہی نقل پیغمبر کے زمانے میں حدیث کی تدوین پر پابندی نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
2۔ یحیی بن جعدہ کہتاہے: عمر بن خطاب نے حدیث لکھنے کا ارادہ کیا اوراس نے لکھا۔ اس کے بعد اس کی رای تبدیل ہوئی اور اس وقت تمام شہروں میں پیغام بھیجا کہ جس کسی کے پاس پیغمبر سے منسوب کوئی حدیث ہو تو اسے ختم کردے۔(2)
3۔ محمد بن سعد بیان کرتے ہیں: عمر بن خطاب نے حدیث تحریر کرنے کا فیصلہ کیا اس سلسلے میں ایک مہینے تک خدا سے اچھائی کی دعا کی اور اس کے بعد حدیث کی تحریر پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے اور کہا: ایسے لوگ یاد آرہے ہیں جنہوں نے کچھ لکھا تھا پھر اسی کی طرف توجہ دیئے تھے اور کتاب خدا کوچھوڑدیا”(3)
حدیث نقل کرنےمیں سختی سےمنع
اگر عمر حقیقت میں اس نتیجے تک پہنچے کہ سنت نہ لکھوں یہ اس کے اپنے لیے معتبر ہے اگر واقعا اس کے پیچھے خطرناک سازش نہ ہوتی تو حدیث نقل کرنے میں اتنے سختی نہ کرتے اس حوالے سے مندرجہ چند ذیل نمونے ملاحظہ ہوں۔
1۔ اصحاب کی گرفتاری
سعید بن ابراہیم اپنے باپ سے نقل کرتا ہے : عمر نے ابن مسعود ؛ ابو درداء اور ابوذر سے کہا کہ پیغمبر سے حدیث کیوں نقل کرتے ہو ؟راوی کہتاہے میرا یہی خیال ہے کہ مرتے دم تک مدینے میں ان کو محبوس کیا گیا۔(4)
 2۔ حدیث نقل نہ کرنےکی تاکید
صالح بن ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف اپنے باپ سے نقل کرتا ہے: خدا کی قسم عمر نے مرنے سے پہلے پیغمبر کے اصحاب جیسے عبداللہ بن حذافہ، ابودرداء، ابوذر و عقبة بن عامر کو مدینے میں جمع کیا اور کہا پیغمبر کی احادیث کو کیوں مختلف شہروں میں پھلاتےہو؟
اصحاب نے کہا آیا ہمیں اس چیز سے منع کرتے ہو ؟کہانہیں!اس کے بعد عمرنےقسم کہاکرکہا جب تک میں زندہ ہوں میری پاس ٹھرئے لہذا ان اصحاب کو مدینے میں روکا یہاں تک وہ خود مرگیا۔(5)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر واقعاعمر ان کو حدیث نقل کرنے سے منع نہیں کررہے تھے تو انہیں مدینے میں روکا کیوں؟
قرظة بن کعب کہتاہے: عمر نے ہمیں کوفے کی جانب روانہ کیا اور احراز نامی جگہ تک ہمارے ساتھ ہمراہی کی اور کہا تمھیں پتہ ہے کہ میں یہاں تک کیوں آیا؟
ہم نے کہا رسول اور انصار رسول کی خاطر۔
اس (عمر) نے کہا میں ایک مطلب کو بتانے کی خاطر آیا ہوں وہ یہ کہ تم لوگ ایسی جماعت کے پاس جارہے ہو جو قرآن سے بہت زیادہ انس رکھتی ہے جب انہیں پتہ چل جائے گاکہ تم اصحاب پیغمبر ہو تو وہ لوگ پیغمبر کی حدیث سننا چاہینگے لہذا جتنا ہوسکے حدیث پیغمبر کم نقل کرنا میں تمھارا شریک اور ھمراہ رہوں گا۔(6)
قرظہ کہتاہے :جب میں عراق گیا تو لوگوں نے کہا کہ ہمیں حدیث بتائیں میں نے کہا عمر نے حدیث نقل کرنے سے منع کیا ہے
ابوبکر بن عیاش کہتاہے: کہ میں نے ابو حصین سے یہ کہتے ہوے سنا کہ عمر جب بھی کسی ملازم کو کسی شہر میں بھیجتے وقت ہمراہی کرتے تو یہ گوشزد کرتے کہ لوگوں کے سامنے صرف قرآن بیان کریں اور پیغمبر کی حدیث نقل کرنے سے پرہیز کریں۔(7)
3۔ تفسیرقرآن سے ممانعت
ابوجعفرطبری نےاپنی تاریخ کی کتاب میں نقل کیاہے:عمرکہاکرتاتھاکہ قرآن کواپنی حالت پرچھوڑدواوراسکی تفسیرنہ کرورسول خدا(ص)سےاحادیث کوبھی کم نقل کیاکرومیں بھی اس کام میں تمہارےساتھ ہوں۔(8)
4۔ حدیث بیان کرنے والوں کی سرزنش
عمر نے حدیث بیان کرنے سے منع کیا اور ناقلان حدیث کو زندانی کرنے پر اکتفا نہیں کیا کرتا تھا بلکہ کبھی کبھی ناقلان حدیث کی سرزنش کرنے کے ساتھ ان کو سزائیں بھی دیا کرتا تھا۔ ذاذان نے بیان کیا ہے: کہ عمر مسجد سے باہر نکلا تو دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے اطراف میں جمع ہیں عمر نے پوچھا وہ کون ہےتو انہوں نے کہا ابی بن کعب ہے جو مسجد میں لوگوں کیلئے پیغمبر کی احادیث بیان کررہا تھا اورلوگ مسجد سے باہر آئے تاکہ اس سے سوال کریں ۔عمر ابی بن کعب کے سر میں تازیانہ مارنے لگا۔ ابی نے کہا : اے امیر المؤمنین کیا کررہے ہو؟ عمر نے کہا میں جان بوجھ کرماررہا ہوں تم نہیں جانتے ہو کہ تمھارا یہ کام تمہیں فتنے میں ڈالے گا اور ان لوگوں کو ذلیل و خوار کردیگا۔(9)
عمرنہ فقط نقل حدیث سے منع کرتا تھا بلکہ احکام الہی کی علت اورحکمت کے بارے میں سؤال کرنے سے بھی منع کیا کرتا تھا،یہاں تک کہ کوئی بھی صاحبان حدیث سے سوال کرنے کی جرئت نہیں کرتا تھا اور اگرکوئی سؤال کربھی لیتا تو صحابہ کرام فلسفہ احکام بیان کرنے کی جرئت نہ کرتے اس طرح ایک جابرانہ ماحول تھا کہ اگر کوئی احکام کی حکمت اور علت کے بارے میں پوچھتا تو اس کو خارجی کے لقب دیتا تھا۔جس طرح عمرنے صبیع نامی شخص کوسؤال کرنے کی بنا پر جلاوطن اور اس کےساتھ ہمنیشینی سےمنع کیا(10)
اس مسئلے میں خلیفہ کے ہم خیالوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
 بیہقی کہتاہے: ایک عورت بی بی عائشہ کے پاس آئی اور کہا حیض والی عورت کیونکر روزے کی قضاء بجا لائے اور نماز کی قضاء بجا نہ لائے؟ عائشہ نے کہا تم حروری (خارجی) ہو! اس عورت نے کہا میں خوارج میں سے نہیں ہوں مگر سؤال کرونگی۔
عائشہ نے کہا : یہ پیغمبر کے زمانے میں ہی تھا کہ ہمیں روزے کی قضاءکا حکم ہوا تھا جبکہ نماز کی قضاء کا حکم نہیں ہوا تھا۔(11)
 لیکن اہلبیت علیہم السلام کے وجود کی برکت سے شیعوں کے درمیان سؤال و جواب آزاد تھا اور احکام الہی کی حکمتیں بیان ہوتی تھیں اسی حوالے سے انہی عظیم ہستیوں سے نقل ہوا ہے کہ چونکہ روزہ سال میں صرف ایک مہینہ واجب ہے لہذا اسکا قضا بجالانا چاہئے جبکہ نماز ہر روز ادا کرنی ہوتی ہے اسلئے اسکی قضا نہیں ہے۔ (12)
دو بنیادی سوالات
نقل حدیث پر پابندی لگنےکےبرے اثرات کو بیان کرنےسے پہلے درج ذیل میں دو سؤال مطرح کرینگے:
1۔پیغمبر ص کے بعد اسلامی حکمرانوں نےکس دلیل کی بنیاد پر حدیث نقل کرنے سے روکا؟ جبکہ یہ کام خود رسول اللہ ص کے دور میں مرسوم تھا اورمنابع عامہ میں ایسی روایات ملتی ہیں جو اس بات کی تائید کرتی ہیں یہاں پر بطور نمونہ دو روایتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
الف:عبداللہ بن عمرابن عاص کہتاہے کہ “مجھے قریش والوں نےکہا کہ: تم رسول اللہ ص کی احادیث لکھ لیتے ہو جبکہ آپ ص بھی دوسرے افراد کی طرح بشر ہیں اور دوسروں کی طرح غضبناک ہوتے ہیں۔رسول اللہ نے اپنے دونوں لبوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
 وَالَّذي نفسي بِيده ما يخرُجُ مِمّا بَينهما اِلاّ حَقٌّ فَاکْتُبْ؛
خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میرے دو لبوں سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتاہے لذا (حدیثوں کو)لکھو”(13)

ب۔ صحیح سند کے ساتھ عمر بن شعیب سے اور اس نے اپنے باپ اور دادا سے نقل کرکے کہا ہے: کہ میں نے رسول اللہ ص سے کہا:
 اَکْتُبُ کُلَّ ما اسمعُ مِنْکَ؟ قال رَسوُل الله (ص) : نَعَم۔ قال : في الرِّضا وَ الغَضَبِ؟ قالَ : نَعَمْ فَإِنّي لا أَقولُ إلاّ الْحَقّ؛
 (مجھے اجاذت دینگے کہ) جو کچھ آپ سے سنتا ہوں ؛ لکھوں؟ رسول اللہ نے فرمایا: جی۔ میں نے کہا رضا اور غضب کی حالت میں بھی؟ فرمایا: جی؛ کیونکہ میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتاہوں”(14)
ج۔ عبداللہ ابن عمرکہتاہے: میں نے رسول اللہ سے جو کچھ سنا اس کے لکھنے کی اجازت مانگی تو آپ ص نے مجھے اجازت دی۔(15)
 جب عمرکا بیٹا اس حدیث کو نقل کرتا ہے تو حاکم وقت نے کس بنا پر نقل اور تدوین حدیث پر پابندی لگائی اورحدیث نہ لکھنے کو احتیاط اورتقوی کی نشانی تصور کیا
البتہ تاریخ میں خلیفہ دوم کا نص کے مقابلے یہ پہلا اورآخری اجتہاد نہیں ہے بلکہ تاریخ کے صفحات میں اس طرح دسیوں موارد دیکھنے کو ملتےہیں (16)
2۔ نقل اور تدوین حدیث پر پابندی سے عامہ کی تاریخ میں سنت نبوی کا ایک اہم حصہ نابود ہوگیا اور جو احادیث ان تک پہنچی ہیں یا تو نامکمل یا متضاد ہیں ؛ باوجود اینکہ خود کو اہل سنت سے تعبیر کرتے ہیں !! کونسی سنت؟! وہ سنت رسول جو دو خلیفوں نے تباہ کردی ؟
لیکن شیعہ خود کو اہل سنت کہہ سکتے ہیں چونکہ رسول اللہ ص کی صحیح سنت اہل بیت اطہار کے توسط سے شیعوں تک منتقل ہوئی ہے۔
روایت پر پابندی کے نتائج
ایک۔ حدیثوں کو جلانا
ممنوعیت نقل اور تالیف حدیث پر پابندی کا پہلا نقصان رسول اللہ کی جمع شدہ حدیثوں کو جلانا اور ان حدیثوں کے جمع کرنے والوں کو ہراسان کرنا تھا۔
حدیث سوزی کو بیان کرنے والے کچھ روایات کی طرف توجہ کریں:
1۔عایشہ کہتی ہے: میرے والد نے رسول اللہ کی پانچ سو احادیث جمع کی تھیں ۔ ایک رات میں نے ان کو بہت پریشان دیکھ کر غمگین ہوئی اور عرض کیا آپ بیمار ہیں یا کسی فکر کی وجہ سے نہیں سو پارہے ہیں ؟ دوسرے دن صبح مجھ سے کہا کہ میری بیٹی جو احادیث تمہارے پاس ہیں ان کو لے آو جب میں لے آئی تو ان کو جلا ڈالا ۔میں نے پوچھا کہ آپ نے انہیں کیوں جلا ڈالا ؟ کہا کہ مجھے اس چیز سے خوف لاحق ہوا کہ کہیں میں مر نہ جاوں اور یہ احادیث میرے پاس پڑی ہوں (17) جب کہ جس طرح میں نے نقل کیا ہے حقیقت میں ایسا نہ ہو(18)
( یعنی ممکن ہے کہ میں نے اشتباہ نقل کیا ہو)
ابو بکر کے اس کام کو حضرت فاطمہ س کی حفظ حدیث کے لئے انجام دینے والے اقدام کے ساتھ مقایسہ کریں تو ان کے درمیان زمیں اور آسمان کا فرق نظر آتا ہے .
مدینہ کے مومنین میں سے کسی شخص نے حضرت زہرا س سے ایک روایت طلب کی تو آپ س نے فضہ سے فرمایا اس روایت کوجو کہ ایک کاغذ پرلکھی ہوئی ہے لے آو. بہت تلاش کےبعدبھی وہ حدیث نہیں ملی تو حضرت زہرا س رنجیدہ خاطر ہوئی ں اور فرمایا افسوس ہوتم پر ڈھونڈو اور پیدا کرو چونکہ اس حدیث کی اہمیت میرے نزدیک حسن اورحسین عیھمالسلام کی اہمیت کے برابر ہے.(19)
2۔ عبداللہ بن العلاء کہتا ہے: میں نے قاسم سے چاہا کہ کچھ احادیث میرے لے لکھوادے تو انہوں نے کہا کہ عمر کے دور میں احادیث کی تعداد بڑھ گئی تو عمرنے لوگوں سے احادیث جمع کروانے کو کہا اور جب لوگ احادیث لے آئے تو انہیں جلا دینے کا حکم دیا۔(20)
3۔ عمرنےتمام شہروں کولکھا:جس کسی کے پاس بھی حدیث ہووہ حتما ان احادیث کونابود کریں۔(21)
4۔ محمدبن ابوبکرنے نقل کیا ہے: عمرکے زمانے میں احادیث کی تعداد زیادہ ہوئی اورجب ان احادیث کو آپ کے پاس لایا گیا تو حکم دیا کہ سب کو جلا ڈالیں ۔(22)
اس قدر یہ معاملہ شدت اختیار کرگیا کہ راوی حضرات خود ہی حدیث نقل کرنے کی جرائت نہیں کرتے تھے یہاں پر دو نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔
شعبی کہتاہے: ایک پورا سال عمر کے بیٹے (عبداللہ) کے ساتھ زندگی گزاری اور اس دوران یہاں تک کہ رسول اللہ کا ایک فرمان بھی نہیں سنا ۔(23)
سائب ابن یزید کہتاہے: میں نے مدینے سے مکہ تک سعد ابن مالک کے ساتھ سفر کیا لیکن اس پورے سفر کے دوران رسول اللہ کی ایک حدیث بھی نقل نہیں کی۔(24)
درحقیقت دیکھا جائے تو خلفا اپنے اس خطرناک اورنقصان دہ برتاو سے کیا نتیجہ لینا چاہتےتھے؟ اور کس لئے یہ بڑا حادثہ برپا کیا؟
کوئی بھی عقل مندجوکسی حد تک رحلت پیغمبر(ص)کےبعدکےحالات اورغصب خلافت کے واقعے سے آشنائی رکھتا ہے اچھی طرح سمجھ سکتا ہے یہ ساری کارستانیاں اس لئے تھیں کہ امامت اور ولایت کے بارے میں موجود احادیث اور اسی طرح ان آیات کی تفسیر جو امامت ولایت کے بارے میں ہیں پوری طرح نابود کردی جائے اور ہمیشہ کےلئے معاشرے سے مٹا دی جائے، اور اسطرح ہمیشہ کے لیے آسودہ خاطرہوجائیں۔
ایک محقق کہتاہے :”شواہد بتاتے ہیں کہ اس حکم (منع حدیث) کا صادر کرنا سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے تھا اور ہدف یہ تھا کہ اس حکم کے ذریعے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو جو خاص مقام ومرتبت اسوقت حاصل تھی اسکو مٹانا چاہتے  تھے چونکہ آپ علیہ السلام نے رسول اللہ ص کی زندگی میں ہی کئی کتابیں لکھ ڈالی تھیں کہ جن میں پیغمبر ص کی احادیث کو جمع فرمایا تھا” (25)
دوم۔ حدیث بیان کرنے والوں کو قید کرنا
ممنوعیت حدیث فقط رسول اللہ کے بعد کے زمانے تک محدود نہ رہی، بلکہ لمبے عرصے تک یہ بری عادت جاری رہی اور راویان احادیث کو زندانی و قید کرنے کا ایک بہانہ بنایا گیا۔ اس ناروا سلوک کا سلسلہ درج ذیل نمونوں میں مشاہدہ کرسکتے ہیں:
1۔ عثمان کا دور حکومت:
ابن کعب کہتاہے کہ: “عبد الملک ابن مروان سے سنا کہ وہ مدینہ والوں کو کہہ رہا تھا : تم لوگ پہلے والے حکم کے پابند ہونے کے لیے مناسب ترین لوگ ہو ، ہمیں مشرق کی طرف سے کچھ احادیث ملتی ہیں کہ ہم انہیں نہیں جانتے اور فقط جس طرح تمہارے مصحف میں آیا ہے اسی طرح قرآن ک تلاوت کیا کرو کیونکہ ہم اسی کو پسند کرتے ہیں، اور تمہارے امام عثمان نے کچھ فرائض کو زیدابن ثابت کے مشورے سے جمع کیا ہے ۔ پس جوکچھ ان دونوں نے کہا ہے اسکو محکم کرو اور جو ان دونوں کے واسطے سے نہیں پہنچا ہے اس کو ختم کرو” (26)
2۔ معاویہ کا دور حکومت
معاویہ جوکہ علی الاعلان امامت اور تشیع کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھا، اپنے ناپاک عزائم کو عملی کرنے کے لیے بہترین بہانہ حاصل کرچکا تھا جسکی بنیاد اس سے پہلے کے خلفاء رکھ چکے تھے۔
رجاء ابن مسلم کہتاہے: ” معاویہ نے کہا : احادیث کے ساتھ اسی طرح برتاو کرو جسطرح عمر کے دور میں کیا جاتاتھا، واقعا اس نے لوگوں کو رسول اللہ کی احادیث بیان کرنے سے ڈرا دیا تھا۔(27)
3۔ خلفائے بنی امیہ اور بنی عباس کا زمانہ
بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم خلفا کے دور میں نہ صرف یہ کہ صحیح سنت اور اہلبیت ع کی روایات کے نقل کرنے پر پابندی لگی بلکہ صحیح احادیث نقل کرنے والوں کا شدت کے ساتھ پیچھا کیا گیا اور انہیں قید و بند کی مشکلات دیکھنا پڑیں، یہاں ایک نمونے کا ذکر کیا جاتا ہے:
محمد ابن ابی عمیر جو کہ ایک شیعہ راوی تھے ہارون الرشید کے دور خلافت میں گرفتار ہوا، اسکا شدید جسمانی ریمانڈ کیا گیا تاکہ وہ راویوں اور شیعوں کی مخفی گاہوں اور احادیث کو چھپانے کی جگہوں کو فاش کرے لیکن اس نے ثابت قدمی دکھائی تو دشمنوں کی طرف سے سختیوں میں ا س حد تک اضافہ ہوا کہ آخر کار جب وہ زبان کھولنے پر مجبور ہوا اور بتانے لگا تو اچانک اسکے ہم زندانی محمد ابن یونس ابن عبد الرحمن کی آواز اسکو آپے میں لے آئی جو کہہ رہا تھا کہ اے محمد! اللہ سے ڈرو اور صبر اختیار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی رہائی حاصل ہو!۔ اسطرح وہ مقاومت کرتے رہے اور چار سال بعدرہائی ملی تو دیکھا کہ دفن کی ہوئے ساری احادیث خراب ہوچکی ہیں ، ابن عمیر نے تمام احادیث کو دوبارہ زبانی لکھا۔(28)
سوم۔ جعل حدیث
خلفا بالخصوص خلیفہ دوم کے ذریعے نشر احادیث پر پابندی سبب بنی کہ کچھ لوگ ڈرکی وجہ سے اور کچھ لوگ ان کے اطاعت کرتے ہوئی حدیث نقل کرنے سے احتراز کریں کہ جس کے نتیجے میں کچھ احادیث اورروایات محو ہوگئیں اورآہستہ آہستہ راوی حضرات بھی دنیا سے چلے گئے۔
اس بات کی طرف اشارہ ہوا کہ بنو امیہ کے بادشاہان اور بنی عباس کے کچھ لوگوں نے بھی حدیث کے انتشار پر پابندی عائد کی اور دوسری طرف سے جن لوگوں نے امام علی ع کی شہادت کے بعد قدرت حاصل کی اپنے منصب کی تائید اور تصدیق کے محتاج تھے۔ لہذا وہ کچھ لوگوں کو رشوت دیکر اپنی حکومت کی تائید اوراہل بیت ع کی تضعیف کی خاطر احادیث بنانے کے لئے تیار کیا کرتے تھے۔
رسول اللہ نےبھی اس بات کی پیشن گوئی فرمائی تھی جیسا کہ آپ سے نقل ہے:
آخری زمانے میں امت کا ایک طبقہ ایسی احادیث تمہارے لئی نقل کریگا کہ جسے تم اور تمہارے آبا و اجداد نے نہیں سنا ہوگا تو اس وقت تمہیں چاہئے کہ ایسے لوگوں سے دوری اختیار کرو۔(29)
سہل بن سعد رسول اللہ سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا:
 إِنّي فَرَطَکُم عَلَي الحوْضِ ۔۔۔ لَيرُدَّنَّ عَلي أقوامٌ أعْرِفهم وَ يعْرِفونَني، ثُمَّ يحالُ بَيني و بَينهمْ ۔۔۔ فَأقُولُ سُحْقاً سُحقَ لِمَن غَير بَعْدي؛
میں تم لوگوں سے پہلے حوض کوثر پر حاضر ہونگا۔۔۔ بتحقیق ایک جماعت میرےی پاس وارد ہوگی کہ میں انہیں پہچان لونگا اور وہ مجھے پہچان لینگے پھر اس کے بعد میرے اور ان کے درمیان جدائی ہوگی (اور وہ حوض کوثر سے دور ہوجاینگے) ۔۔۔۔ اس وقت میں کہونگا دور ہوجاو دور ہوجاو جنہوں نے میرے بعد (حالات کو) تبدیل کیا تھا۔(30)
البتہ اس نکتے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہے کہ جعل حدیث کا آغاز خلیفہ اول اور دوم کے زمانے سے ہی ہوچکا تھا جھوٹی احادیث مثلا:
 “نَحْنُ مَعاشِرُ الانبياءِ لا نُورَّث؛
 ہم انبیا کسی چیز کو وراثت میں نہیں چھوڑتے ہیں؛
” وَ لا تجْتَمع اُمَّتي عَلَي الخطاء “
میری امت غلطی پر جمع نہیں ہوگی
” و يا “اَصْحابي کالنّجوُم بِايهم اِقْتَدَيتُم، اِهتَدَيتُمْ؛
 اور میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ھدایت پاوگے”؛ سیاسی اور اقتصادی مقاصد کے حصول کی خاطر بنائی گئی تھیں؛ لیکن بعد میں ان احادیث کو اچھی خاصی شہرت مل گئی کہ یہاں پر اسی طرح کی کچھ احادیث کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
1۔ابو جعفر اسکافی کہتاہے: معاویہ نے بعض اصحاب اور تابعین کوعلی ع سے بیزاری اور آپ کی مخالفت میں احادیث جعل کرنے پر وادار کیا اور اس کام کے لئے بہت بڑی اجرت تعیین کی اور ابوہریرہ، عمرو بن عاص، عروة بن زبیر ۔۔۔ جیسے لوگوں کو اجیر کیا ہوا تھا۔(31)
2۔صحیحین (مسلم اوربخاری) میں ابو ہریرہ سے 5374روایتیں نقل ہوئی ہیں اور 446 حدیث صرف بخاری نے ان سے نقل کی ہیں ؛ جب کہ ابو ہریرہ نے صرف تین سال رسول اللہ کو درک کیا ہے اور اپنے دورمیں ان پرجھوٹے ہونے کا الزام تھا اور بیت المال میں خیانت کی وجہ سے عمر کے ہاتھوں تازیانے کھائے تھے(32)
اوراس نے خود بھی حدیث جعل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
صحیح بخاری میں ایک حدیث ابو ہریرہ کے واسطے رسول اللہ سے نقل ہوئی ہے اوراس کے آخر میں یہ اضافہ کرتا ہے:
“فقالُوا ۔۔۔ يا أبا هريره سَمِعْتَ هذا مِنْ رَسُول الله؟ قال : لا هذا مِن کيسِ اَبي هريرة؛
جب اس نے حدیث سنائی تو لوگوں نے کہا: اے ابو ہریرہ کیا تم نے اس مطلب کو رسول اللہ سے سنا ہے؟ تو کہا: نہیں؛یہ ابو ہریرہ کی تھیلی ہے۔(33)
خود ابو ہریرہ سے نقل ہوا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:۔۔۔ میرے اصحاب میں سے ایک گروہ قیامت کے دن میرے پاس واردہوگا پھر وہ حوض کوثر سے دورہوجاینگے میں عرض کرونگا اے پالنے والے! یہ میرے اصحاب ہیں؟ تو خدا کہے گا: تو نہیں جانتا کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا بدعتیں ایجاد کیں یہ لوگ (حق کی ہدایت سے) پھر گئے تھے۔(34)
یہ بات قابل غور ہے کہ بخاری نے جو کہ امام صادق علیہ السلام سےسو سال بعد اس دنیا سے چل بسا ہے ایک حدیث بھی امام صادق ع سے نقل نہیں کی ہے اور یہاں تک کہ حدیث ثقلین جیسی حدیث متواتر کوبھی نقل کرنے سے احتراز کیا ہے۔ امام حسن علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام کو یہاں تک کہ راوی کےعنوان سے قبول نہیں کیا ہے اورحضرت فاطمہ(س)سےجوکہ معصومہ سلام اللہ علیہا ہےسے صرف ایک حدیث نقل کی ہے جبکہ عائشہ سے 242 اور ابو ہریرہ سے 446 روایتیں لے آیا ہے۔(35)
اس طرح کی رفتار کا نتیجہ یہی ہے کہ ابن حجر اتنے تعصبت کے باوجود کہتاہے: “حفاظ؛ نے صحیح بخاری کی 110 احادیث کو کہ جن میں سے 32 کو مسلم نے نقل کیا ہے مورد تردید قرار دیا ہے”۔ پھر اضافہ کرتا ہے کہ بخاری کی اکثر حدیثیں رجالی اعتبار سے ضعیف ہیں”۔(36)
جب صحیحین کی حالت یہ ہو تو غیرصحیحین کی کیسی حالت ہوگی؟ مطالعہ کرنے والا خود ہی اچھی طرح اندازہ لگا سکتا ہے۔
3۔انس بن مالک کہتاہے: رسول اللہ نے فرمایا: “میں اپنے اصحاب میں سے فقط معاویہ بن سفیان کو 80 یا 70 سال نہیں دیکھ پاونگا اور پھر اسکے بعد اسکو دیکھ پاونگا جبکہ اسکو رحمت الہی نے گھیرا ہوا ہوگا، اس کو کہونگا: اے معاویہ! وہ کہے گا
لَبَّيکَ يا
محمد! میں ان سے کہونگا کہ یہ اسی سال کہاں تھے؟ کہے گا: اپنے پروردگار کے عرش تلے ایک باغ میں، وہ مجھ سے مناجات کرتا تھا میں ان سے اور وہ مجھ پر درود بھیجتا تھا اور میں ان پر اور مجھ سے کہا کہ یہ ان گالیوں کے بدلے ہیں جو دنیا میں تم کو دی گئی” (37)
ہاں جب اصلی سنت جلادی گئیں اور نقل و تدوین احادیث ممنوع قرار پائے، تو معاویہ جیسے عرش نشین ہو جائینگے!خطیب بغدادی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتاہے: “یہ حدیث متن اور سند دونوں کے اعتبار سے غلط ہے اور حدیث بنانے والے نے اسے سریج ابن یونس سے نقل کیا ہے”(38)
4۔خطیب نے ابن عمرسے نقل کیا ہے: “جب ابو بکر پیدا ہوئے تو اللہ نے بہشت عدن سے مخاطب ہو کر کہا:میری عزت و جلال کی قسم، جو اس مولود سےمحبت نہیں کرےگاتجھ میں داخل نہیں ہو سکے گا”۔بعد میں کہتاہے: کہ یہ حدیث غلط ہے اور اس کی سند میں دو شخص مجہول الحال ہیں”۔(39)
کبھی تو ایسی احادیث بھی جعل ہوئی ہیں کہ مسلمانون کے درمیان مسلمہ تاریخ سے بھی سازگاری نہیں رکھتیں مسلم اپنے صحیح میں!! ابن عباس سے نقل کرتےہوئےاصحاب کی فضیلت میں کہتاہے: “مسلمان ابوسفیان کو دیکھنا گوارہ نہیں کرتے تھے اوراسکو اپنے بڑےکے عنوان سے قبول نہیں کرتے تھے۔رسول اللہ ص نے فرمایا:اے ابو سفیان! تین چیزیں مجھےدے دو، ابوسفیان نےکہا: عرب کی بہترین لڑکی جوکہ ام حبیبہ ہےسےازدواج کرو! پیغمبر(ص)نےقبول فرمایا، ابوسفیان نےکہامعاویہ کو اپنا کاتب قراردو، آپ نے قبول کیا! کہا کہ مجھےحکم دو کہ میں کفار کے ساتھ جنگ کروں، پیغمبر نے قبول فرمایا”۔(40)
یہ حدیث اسلام کی مسلمہ تاریخ سے مخالفت رکھتی ہے، چونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ام حبیبہ مکہ میں عبداللہ جحش کے عقد میں آئی اور ان میاں بیوی کے حبشہ ہجرت کرنے اور پھر عبداللہ کے نصرانی ہوجانے کے بعد یہ خاتون عبداللہ سے جدا ہوئی اور پیغمبر ص کے عقد میں آئی تھی۔ دوسری بات یہ کہ ابوسفیان فتح مکہ کےبعد مسلمان ہوا نہ کہ فتح مکہ سے پہلے اور معاویہ بھی پیغمبر کے کاتب نہیں تھے۔(41)
روایات کوجعل کرنےوالے اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ رسول اللہ ص کی شان کو بھی مورد حملا قرار دیا۔ بخاری ابو ہریرہ سے نقل کرتا ہے:
ایک دفعہ عید کے دن کچھ سوڈانی سیاح نےمسجد نبوی میں جمع ہوکر لہو و لعب کے سامان کے ذریعے لوگوں کومشغول کر رکھا تھا رسول اللہ ص نے عایشہ سے فرمایا: دیکھنا چاہتی ہوکیا؟بولی:ہاں؛ یا رسول اللہ ص آنحضرت نےاس کوکاندھےپرایسے اٹھایا کہ انکا سرآپ ص کےشانوں پراورچہرہ چہرہ مبارک کےساتھ لگا ہوا تھا؛آنحضرت ص نے ان کودستوردیاکہ اچھی طرح کرتب دکھائیں تاکہ عایشہ لطف آندوزہویہاں تک کہ عایشہ تھک گئی اوراس وقت آپ نے اس کو  نیچے اتارا”۔(42)
اس جیسی سینکڑوں بناوٹی احادیث کےنمونے اہل سنت کےمنابع میں جا بجا ملتے ہیں کہ جنہیں جوٹھے راویوں نے جعل کیا ہے۔ لیکن معصوم اماموں کےوجود کی برکت سےشیعہ احادیث کےمجموعے اس طرح کی بناوٹوں سےمحفوظ رہے ہیں، اگرچہ شیعہ روایات کے درمیان بھی ضعیف اورجعلی احادیث ملتی ہیں لیکن خوش قسمتی سےاماموں کی طرف سےپیش شدہ معیارات کےذریعےآسانی سےتشخیص دی جا سکتی ہیں۔
شیعہ اماموں نےرسول اللہ کی صحیح سنت کوبیان کرنےکےعلاوہ جب بھی موقع ملاہےمنابع عامہ میں موجودجعلی روایات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہےنمونےکےطورپرامام جواد(ع)کا یحیی بن اکثم کےساتھ کئےجانےوالےمناظرہ کی طرف توجہ کریں:
یحیی نے امام علیہ السلام سے کہا :اے فرزند رسول ص اس روایت کےمتعلق آپ کا کیا نظریہ ہے جو(اہلسنت سے) نقل ہوئی ہے :کہ اللہ نےجبریئل علیہ السلام کو پیغمبر اکرم ص کی خدمت میں بھیجا تاکہ رسول اللہ سے یہ دریافت کریں کہ ابوبکرسے پوچھئے: کیا وہ خداوند سے راضی ہے یا نہیں؛ جبکہ اللہ کی ذات اس سے راضی ہے؟
امام ع نےتقیہ کےاصول کوبرقراررکھتے ہوے روایت کومستردکرکے فرمایا : میں ابوبکرکی فضیلت کامنکر نہیں ہوں ، لیکن جس نےیہ خبرنقل کی ہے اس کو رسول اللہ کےدستور کےمطابق عمل کرنا چاہیے جورسول اللہ نےحجہ الوداع میں بیان کیاتھا،رسول اللہ نےفرمایا:میرےبعدحدیث جعل کرنےوالےبہت ہونگےاس اعتبار سے ضروری ہے احادیث کو کتاب خدا اورمیری سنت کےسامنے پیش کرو،جوبھی کتاب خدااورمیری سنت کےمطابق ہو اس کولےلواورجوکچھ کتاب خدا اورمیری سنت کےخلاف ہواس کوچھوڑ دو ۔ امام محمدتقی(علیہ السلام)نے مزید فرمایا: (ابوبکرکےمتعلق)یہ روایت خداکی کتاب سےموافقت نہیں رکھتی کیونکہ خداوند عالم نےفرمایا ہے:ہم نے انسان کوخلق کیا ہے اورہم ہی جانتے ہیں کہ اسکے دل میں کیا ہے اورہم اپنے بندہ سے اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں۔
کیا ابوبکرکی خشنودی یا ناراضگی خداکے اوپر پوشیدہ تھی تاکہ وہ اس کوپیغمبر اکرم (ص)سے پوچھے؟یہ بات عقلی طور پرمحال ہے۔
یحیی نےکہا:روایت ہوئی ہے:ابوبکراورعمرزمین پرآسمان میں جبرئیل کی طرح ہیں ؟
آپ نے فرمایا :اس حدیث کےمتعلق بھی غوروفکرسے کام لوکیونکہ جبرئیل ومیکائیل خداوندعالم کی بارگاہ میں مقرب دوفرشتہ ہیں اورایک لمحہ کےلیےبھی خداکی اطاعت کےدایرہ سےخارج نہیں ہوےہیں اوران دونوں سےکبھی بھی کوئی گناہ سرزدنہیں ہواہے، جبکہ ابوبکراورعمرمشرک تھےاگرچہ ظہوراسلام کے بعد مسلمان ہوگئےتھے،اورانکی اکثروبیشترعمرشرک اوربت پرستی میں گزری ہے۔پھر کیسےممکن ہےکہ خداوندعالم ان دونوں کوجبرئیل اورمیکائیل سےتشبیہ دے؟
یحیی نے کہا:اسی طرح روایت ہوئی ہے کہ وہ دونوں (ابوبکراورعمر) اہل بہشت میں بوڑھے لوگوں کے سردار ہیں۔ اس حدیث کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس روایت کا صحیح ہونا بھی محال ہے کیونکہ تمام اہل بہشت جوان ہیں اوران کے درمیان کوئی ایک بھی بوڑھا نہیں ہوگا۔ اس روایت کو بنی امیہ نے رسول اللہ ص کی اس حدیث کے مقابلہ میں جعل کیا ہے جو امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام ) کے متعلق بیان ہوئی ہے ،نقل ہوا ہے کہ حسن و حسین ،جوانان جنت کے سردار ہیں ۔
یحیی نے کہا : روایت ہوئی ہے کہ عمر بن خطاب اہل بہشت کے چراغ ہیں ۔
آپ نے فرمایا : یہ بھی محال ہے کیونکہ بہشت میں خدا کے مقرب فرشتے، انبیاء ، آدم، محمد موجود ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ بہشت ان کے نور سے روشن نہ ہو لیکن عمر کے نور سے روشن ہوجائے ؟!
یحیی نے کہا : روایت ہوئی ہے کہ رسول اللہ ص نے فرمایا : اگر میں نبوت کے لیے مبعوث نہ ہوتا تو یقینا عمرمبعوث ہوتا ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : یقینا قرآن کریم اس حدیث سے زیادہ سچا اور صحیح ہے، خداوند عالم نےاپنی کتاب میں فرمایا ہے: اوراس وقت کو یادکیجیے جب ہم نےتمام انبیا(علیہم السّلام)سے اوربالخصوص آپ سے اورنوح(علیہ السلام)،ابراہیم(علیہ السّلام)، موسیٰ (علیہ السّلام)اورعیسٰی بن مریم(علیہما السلام)سے عہدلیا اورسب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا ۔(43)
پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان کو بدل دیتا ؟ انبیاء میں سے کسی ایک نبی نے ذرا سی دیر کے لیے بھی شرک اختیار نہیں کیا ، لہذا کس طرح ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے شخص کو نبوت کے لیے مبعوث کرے جس کی عمر کا اکثر و بیشتر حصہ خدا کے شرک میں گزرا ہو ؟!
یحیی نے کہا : روایت میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : اگر عذاب نازل ہوتا تو عمر کے علاوہ کسی اور کو نجات نہ ملتی ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ بھی محال ہے کیونکہ خداوند عالم نے عذاب نازل ہونے کیلئے دو رکاوٹیں ذکر کی ہیں :
 1۔ لوگوں کے درمیان رسول اللہ کا موجود ہونا؛
2۔ توبہ اور اسغفار ؛ 44 اور کچھ نہیں۔(45)
یہ صرف ایک نمونہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح مختلف موضوعات میں روایتوں کو جعل کیا گیا ہے۔
چار: سنت میں تبدیلی
حدیث کی جمع آوری پر پابندی اور اس کے بلا واسطہ یا بلواسطہ اثرات دوسری بدعتوں کے ساتھ مل کر سبب بنے کہ معاشرے کے اندرسنت نبوی میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوں اور سنت پیغمبر دگرگون ہو جائے۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسکا اہل سنت مورخین اور محدثین نے بھی اعتراف کیا ہے، یہاں پر ہم چند نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
امام شافعی وہب بن کیسان سے نقل کرتا ہے کہ:
 کُلُّ سُنَنِ رسول الله قَدْ غُيرَتْ حَتَّي الصلوة؛
رسول اللہ کی تمام سنتیں تبدیل ہوئیں حتی نماز بھی”۔(46)
2۔ زھری کہتاہے:
“دَخَلْتُ عَلي أنَسِ بن مالک بِدَمَشْقٍ وَ هو وَحْده يبْکي فَقُلْتُ ما يبْکيکَ قال لا أعرفُ شَيئاً مِمّا أدْرکْتُ اِلاّ هذِه الصَّلاةِ وَ قَد ضُيعَتْ؛(47)
 دمشق میں انس ابن مالک کےہاں حاضر ہوا جبکہ وہ اکیلے بیٹھے رورہےتھے، میں نے عرض کیا کہ کس چیز نے آپ کو رلادیا ہے؟ تو فرمایا کہ میں نے جن چیزوں کو درک کیا ان میں سے اس نماز کے علاوہ کسی چیز کو بھی نہیں جانتا لیکن نماز بھی (رسول اللہ کی وفات کے بعد) ضائع ہوگئی”۔
3۔ مالک نے جدنی سے نقل کیا ہے:
 “ما أعْرِفُ شَيئاً مِمّا أدْرَکْتُ الناسَ إِلاالنِّداءَ بِالصّلوةِ وَ قَد ضُيعَتْ(48)
 لوگوں سے نماز کے لیے پکارنے آذان کے علاوہ کسی بھی چیز کو نہیں سیکھا اور وہ بھی ضائع ہوگئی۔”
4 ۔مسلم نے مطرف ابن عبداللہ سےنقل کیا ہے:
 صَلّيتُ أناَ وَ عُمْرانَ بْنَ حَصين خَلْفَ علي بنِ أَبي طالِبٍ فکان إذا سَجَدَ کَبَّرَ وَ إذا نہضَ مِنَ الرکْعَتَين کَبَّرَ فَلَمّا انصَرَفَ مِنَ الصَّلاة قالَ أخَذَ عمران بِيدي ثُمَّ قالَ لَقَدْ صَلّي بِنا هذا صَلاة محمد (ص) أو قالَ قَدْ ذَکَّرني ہذا صلاةَ مُحمّد (ص)
 میں نے عمران بن حصین کے ساتھ علی ابن ابی طالب ع کے اقتداء میں نماز پڑہی انھوں نے ایسا کیا کہ جب بھی سجدہ کیا تو تکبیر کہا اور جب دو رکعت کے بعد قیام کرتے تو تکبیر کہتے۔ جب آپ ع نے نماز پڑھ لی تو – مطرف کہتاہے –”عمران ابن حصین نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا کہ اس (علی) نے محمد ص والی نماز پڑھائی یا کہا کہ اس (علی) نے محمد ص کی نماز یاد دلادی”(49)
 اس سے پتہ چلتا ہے کہ نماز بھی تبدیل ہوچکی تھی۔
5۔ بخاری عمران سے نقل کرتا ہے: ہم نے بصرہ میں علی ع کے اقتداء میں نماز ادا کی پس ان کا نماز پڑہنے نے ہمیں رسول اللہ ص کی نماز یاد دلادی”۔(50)
بخاری نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ یہ سب خلفاء کے دور میں سنت میں تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں۔
چھ: اختلاف کا وجود میں آنا:
 جعل حدیث کا دروازہ کھلنے اورمختلف کلامی اور فقہی فرقوں کی وجود میں آنے کی بعد؛ معاشرے میں اختلافات بھی بڑھ گئے اور روز بروز ہر کوئی شخص یا گروہ جو کسی دوسرے شخص یا گروہ کو نا پسند کرتا اور اس کے ساتھ اختلاف سلیقہ پیدا کرتا تو جعل حدیث کے ذریعے ان سے جدا ہوجاتا اور اپنا ایک نیا گروپ تشکیل دیتا تھا۔ اگر مختلف گروہوں کی پیدائش اور اختلافات کی بنیادوں میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بدعتوں کی بنیاد ہمیشہ سنت ناب پیغمبر ص اور اہل بیت ع سے روگردانی میں پائی جاتی ہے۔
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے اپنی تقریروں اور بیانات کے ذریعے انحرافات سے بچانے کی بہت زیادہ کوشش فرمائی۔ یہاں تک کہ انھوں اس راہ میں صعوبتیں برداشت کیں اور اپنے لخت جگر کو قربان کیا اور آخر کار اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی تاکہ پیغمبر ص کے فرامین اور سنت زندہ رہیں اور مسلمانون کے درمیان انحرافات اور اختلافات پیدا نہ ہو۔آپ نے اپنی کسی گفتگو میں فرمایا:
“اَما وَالله لَوْ تَرَکُوا الْحَقَّ عَلي اهله وَ اتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبِيه لَما اخْتَلَفَ في الله اِثْنانِ وَ لَوَرِثها سَلَفٌ عَنْ سَلَفٍ و خَلَفٌ بَعْدَ خَلَفٍ حتّي يقُومَ قائِمُنا التّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَين۔۔۔؛
آگاہ ہوجاو؛ خدا کی قسم اگر حق کو حقدار کےلئے چھوڑ دیتے اور رسول اللہ کی عترت کی اتباع کرتے تو دو نفر بھی ایک دوسرےکےساتھ حکم خدا کےبارے میں اختلاف نہ کرتے اور امامت کو پہلے والا کسی پہلےوالے سے اورایک جانشین دوسرے جانشین کے بعد ارث میں لیتا یہاں تک کہ ہمارا قائم قیام کرتا جو امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے نواں فرزند ہوگا۔۔ (51)
ایک جملےمیں کہا جاسکتا ہےکہ احادیث پیغمبر(ص)کی نابودی اورانکی روایت کرنےپر پابندی نےجعل حدیث اورانحرافات کا بازارگرم کیا اوراس کے نتیجے میں مختلف فرقے اور مذاہب وجود میں آئے اورہمیشہ کیلئےاسلامی معاشرےکواختلاف سے دوچارکیا اورعلوم اہل بیت ع سےمحروم کیا یہ حالت ہجرت کی پہلی صدی کے آواخر یعنی عمرابن عبدالعزیز کی خلافت کے زمانے (99ـ101ق۔) تک جاری رہے ۔ عمرابن عبدالعزیز نے ایک جرأتمندانہ اقدام کے تحت اس بری بدعت کو ختم کیا اور محدثین اور راویوں کی ترغیب کی خاطر با قاعدہ ایک حکم نامہ لکھا:
“اُنْظُروا حَديثَ رَسُولِ الله فَاکْتُبُوه فَإنِّي خِفْتُ دُروْسَ العِلْمِ وَ ذِهابَ اهله؛؎
رسول اللہ کی احادیث میں دقت کرو پھر ان کو لکھو کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں علم بے اہمیت نہ ہوجائے (اورعلم کی روشنی بجھ جائے) اور صاحبان علم دنیا سے کوچ کرجائیں “(52)
خلاصہ
خلفاء کی طرف سے نقل حدیث پر پابندی کی وجہ سے اسلامی معاشرہ کو نا قابل جبران نقصان اٹھانا پڑا؛ احادیث نبوی کی نابودی؛ ابتدائی صدیوں میں حدیث کی کتابوں کا تدوین نہ ہوسکنا؛ جعلی احادیث کو فروغ ملنا؛ مختلف فرقوں کا وجود میں آنا اورمسلمان معاشرے کا شدید اختلافات کا شکار ہونا و۔۔۔اس کام کی منفی اثرات میں سے تھے ۔
اگر اہل بیت علیہم السلام کا وجود اورشیعہ راویوں کی فداکاریاں نہ ہوتی تو آج بہت سارے اسلامی قوانین کا نام و نشان نہ ہوتا۔

حوالہ جات:

[1] . تدوین القرآن، کورانی، دارالقرآن الکریم، قم، ص368.
[2] . کنزالعمّال، متقی ہندی، ج15، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، ص291.
[3] . الطبقات الکبری، محمد بن سعد، بیروت، دارصادر، ج3، ص287.
[4] . مستدرک حاکم، ج1، بیروت، ص115.
[5] . سابقہ حوالا.
[6] . تدوین القرآن، ص385.
[7] . سابقہ حوالا.
[8] . تاریخ طبری، ج4، دارالمعارف، مصر، ص204.
[9] . تاریخ المدینة المنورہ، ج2، ابن مشبة، دارالفکر، قم، ص691.
[10] . قصہ مدینہ، نظری منفرد، انتشارات سرور، ص334.
[11] . تاریخ المدینہ المنورہ، ج2، ص691.
[12] . ر.ک : قصہ مدینہ، ص334.
[13] . مستدرک حاکم، ج1، ص104.
[14] . سابقہ کتاب ، ج3، ص528.
[15] . طبقات ابن سعد، ج4، ص26 و 262.
[16] . ر.ک. اجتہاد در مقابل نص، مرحوم شرف الدین عاملی؛ مانند تحریم متعہ و عقد موقت ، منع جمع بین دو نماز، نہی از گریستن و … .
[17] . راستی این می‌توانست دلیلی برای سوزاندن آن ہمہ احادیث باشد؟ خردمندان داوری کنند.
[18] . کنز العمال، ج15، ص285.
[19] . بحارالانوار، ج2، ص3؛ لئالی الاخبار، ج2، ص254.
[20] . طبقات ابن سعد، ج5، ص187 و 237.
[21] . کنزالعمال، ج5، ص237.
[22] . طبقات ابن سعد، ج5، ص187.
[23] . سنن ابن ماجہ، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ص11.
[24] . ہمان، ص12.
[25] . سیرہ پیشوایان، ص329.
[26] . قصہ مدینہ، ص329.
[27] . تدوین القرآن، ص385.
[28] . رجال النجاشی، جامعہ مدرسین، قم، چاپ چہارم، 1413 ق. شمارہ 887، ص326.
[29] . المستدرک، ج1، ص103.
[30] . صحیح بخاری، دار ابن کثیر، بیروت، 1414ق، باب 53، حدیث6212.
[31] . شرح نہج البلاغہ، ابن ابی‌الحدید، ج4، ص143.
[32] . ر.ک : صحیح محمد بن اسماعیل بخاری، مکتبة الحمید احمد حنفی، مصر، کتاب البیوع و کتاب المزارعہ.
[33] . صحیح بخاری، ج7، باب 1، بخش نفقات.
[34] . ہمان، باب53، حدیث6213، کتاب الرقاق.
[35] . احادیث بخاری و کلینی، ہاشم معروف حسنی، ترجمہ عزیز فیضی، مشہد، آستان قدس رضوی، ج1، ص132، 1373ش.
[36] . مقدمہ فتح الباری، علی بن حجر عسقلانی، قاہرہ، داراحیاء التراث، ج1، ص407؛ ج2، ص81.
[37] . تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج9، بیروت، ص449.
[38] . ھمان.
[39] . ھمان، ج3، ص309.
[40] . صحیح مسلم، ج7، ص171.
[41] . ر.ک : الحدیث النبوی، جعفر سبحانی، مؤسسہ امام صادق (ع)، ص40؛ سیرہ ابن ہشام، ج2، ص396.
[42] . صحیح بخاری، ج2، ص120؛ ج1، باب “الرخصہ فی اللعب”؛ شبہای پیشاور، سلطان الواعظین، ص223.
[43] . احزاب/7.
[44] . انفال/33.
[45] . احتجاج، طبرسی، ج2، انتشارت اسوہ، قم، اول، ص481، 1413ق.
[46] . شافعی، اَلاُمّ، ج1، ص258.
[47] . صحیح ترمذی، ج3، ص352.
[48] . الموطأ ، ج1، ص93.
[49] . صحیح مسلم، ج2، ص8؛ باب اثبات التکبیر من کتاب الصلاة، ج1، ص169.
[50] . صحیح بخاری، ج1، ص200.
[51] . بحارالانوار، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ج36، ص353؛ ر.ک : احقاق الحق، ج21، ص26.
[52] . السنة قبل التدوین، عجاج خطیب، دارالفکر، قاہرہ، ص329.

تبصرے
Loading...