نسائی عنصر کے بارے میں غلط فہمیاں

پاکیزگی اور پرہیزگاری کے راستے کا نقطۂ آغاز انسان کا اپنے نفس پر قابو پانے اور اُس پر حاوی رہنے کی دائمی کوشش ہے۔ دوسرے الفاظ میں”نفس” انسان کا ایک پست پہلو ہے جو اُسے مسلسل دنیوی وسوسوں اور خواہشات کی تکمیل پر ابھارتا ہے۔

“نفس” کو نسوانی عامل کی حیثیت سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، جو اپنے مکر و حیلے سے پاک اور مطہّر روح کو غفلت میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے پست درجے اور دنیاوی وسوسوں کے دام میں پھنسا دے۔ عربی کے الفاظ اور اسما یا تو مذکّر ہیں یا مؤنّث، اور یہ حقیقت کہ لفظ “نفس” عربی زبان میں ایک مؤنّث لفظ ہے، اِس لیے اِسے ایک مؤنّث عامل سے تعبیر کیا گیا ہے اور اِس کا موازنہ ایک نسائی عنصر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ * لیکن قرآنِ کریم بنیادی طور پر دونوں، یعنی عورتوں اور مردوں کو اپنے نفس کی تادیب اور اُس پر قابو پانے کی وصیّت کرتا اور حکم دیتا ہے۔

رابعہ(بصری) کے بارے میں، جو ایک پارسا اور عارف خاتون تھیں، جامی کا ایک شعر اِسی مفہوم کا شاہد ہے۔ (عربی زبان میں “شمس” [سورج] مؤنّث لفظ ہے اور “قمر” [چاند] کا لفظ مذکر ہے۔):

[اگر تمام عورتیں اُس ایک (رابعہ) کی مانند ہوتیں

تو ہم کہتے کہ عورتیں مردوں پر فضیلت رکھتی ہیں؛

کیوں کہ جیسے سورج کے لیے مؤنّث ہونا باعثِ شرم نہیں،

اِسی طرح چاند کے لیے بھی مذکّر ہونے میں کوئی افتخارنہیں۔

این میری شمل اپنی کتاب “اسلام کے باطنی پہلو” میں کہتی ہیں: عورتوں کے خلاف تمام غلط تعبیروں اور غلط فہمیوں کی موجودگی کے باوجود مسلمان کبھی عورتوں سے نفرت کی شدّت اور اُن کے خلاف سختیوں میں قرونِ وسطٰی کے عیسائیوں کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔ اسلام حوّا پر بھی حضرت آدم کو بہکانے کا الزام نہیں دیتا اور اُس کی سرزنش اور مذمّت نہیں کرتا اور عیسائیوں کا یہ دعوٰے، کہ اسلام عورتوں کو روحِ الٰہی سے محروم گردانتا ہے، بالکل غلط ہے اور نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث میں اِس قسم کی کوئی بات موجود نہیں، بلکہ اِس کے بالکل برعکس بات درست ہے۔ قرآنِ کریم باربار ہمیں کہتا ہے کہ: خداوند نے مرد اور عورت کو نفسِ واحد سے خلق کیا ہے۔ (سورۂ نساء:۴، آیت۱) اور یہ بھی فرماتا ہے: “لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھاری قومیں اور قبیلے بنائے، تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ بے شک تم میں سے معزّزترین فرد خدا کے نزدیک وہ ہے، جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ اور بے شک خداوند جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔”(سورۂ حجرات:۴۹، آیت۱۳) ہم سب مرد و عورت ایک منبِع اور جوہرِ واحد سے خلق ہوئے ہیں اور یہ نکتہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

يأيها الناس إنا خلقناكم من ذكر و أنثى و جعلناكم شعوبا و قبائل لتعارفوا إن أكرمكم عند الله أتقاكم إن الله عليم خبير.

روحانی دنیا میں ہمارا مؤنّث یا مذکّر ہونا زیرِ بحث نہیں، کیوں کہ روحانی اور معنوی دنیا مادّی پہلوؤں اور خلیاتی ابعاد سے ماورا ہے۔ عورتوں کے لیے حدود کے قائل ہونے اور معاشرے میں ان کے کردار پر بحث کا تعلّق براہِ راست ثقافتی، معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی عوامل، اور ایک بے بنیاد خیال کے تحت اُن پر قابو پانے سے ہے۔

تبصرے
Loading...