نذر کا مفہوم

اس وقت کو یاد کرو جب عمران( علیہ السّلام ) کی زوجہ نے کہا کہ پروردگار میں نے اپنے شکم کے بّچے کو تیرے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا ہے.

سوال : اولیاء کیلئے نذر کے کیا معنی ہیں؟

جواب : نذر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ملزم اور متعہد کرے کہ اگر اس کی حاجت پوری ہوگئی تو وہ ایک کام انجام دے گا ۔ مثلا وہ کہے: اگر میں امتحان میں قبول ہوگیا تو خداوند عالم کے لئے قرآن کریم پڑھوں گا ، یہی شرعی نذر ہے اور نذر خدا کے لئے ہونا چاہئے غیر خدا کیلئے نذر جائز نہیں ہے ۔

کبھی کبھی وہ نذر کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ اس کام کا ثواب اپنی کسی رشتہ دار جیسے ماں ، باپ یا اولیاء اور انبیاء کو ہدیہ کرے گا لہذا وہ کہتا ہے : خدا کیلئے نذر کرتا ہوں کہ پورا قرآن کریم ختم کروں گا اور اس کا ثواب فلاں کو ہدیہ کروں گا ۔ یہ جو یہ کہتا ہے کہ ”خدا کیلئے“ اور یہ جو کہتا ہے کہ ”فلاں شخص کو“ ان میں فرق پایا جاتا ہے ، پہلے میں نذر کو بیان کرنے کا ہدف ہے یعنی خداوند عالم سے نزدیک ہونا اور دوسرے میں نذر سے فائدہ اٹھانا مراد ہے ۔

اس طرح مسلمانوں کے درمیان نذر رائج ہے ۔ کسی کام کو خدا کیلئے نذر کرتے ہیں اوراس کے ثواب کو خداوند عالم کے اولیاء اور صالح بندوں کو ہدیہ کردیتے ہیں ، کبھی کبھی مختصر عبارت میں کہتے ہیں : یہ بھیڑ یا بکری ،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نذر کی ہے اور ان کی مراد نذر سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے ۔

قرآن کریم نذر کے دونوں طریقوں سے بھرا ہوا ہے ۔ خداوند عالم حضرت عمران کی شریک حیات کے قول کو اس طرح نقل کرتا ہے : ” إِذْ قالَتِ امْرَاٴَتُ عِمْرانَ رَبِّ إِنِّی نَذَرْتُ لَکَ ما فی بَطْنی مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّی إِنَّکَ اٴَنْتَ السَّمیعُ الْعَلیمُ“ (۱) ۔ اس وقت کو یاد کرو جب عمران( علیہ السّلام ) کی زوجہ نے کہا کہ پروردگار میں نے اپنے شکم کے بّچے کو تیرے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا ہے اب تو قبول فرمالے کہ تو ہر ایک کی سننے والا اور نیتوں کا جاننے والا ہے ۔

تیرے لئے نذر کرنے کی تعبیر بیان کرنا ایسا ہی جیسے کہا جائے خدا کے لئے نماز پڑھتا ہوں، خدا کے لئے نذر کرتا ہوں ۔

نیز خداوند عالم فرماتا ہے :

” إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراء ِ وَ الْمَساکین“(۲) ۔ صدقات و خیرات بس فقراء اورمساکین کیلئے ہے ۔ فقراء کیلئے یعنی ان کے فائدہ اٹھانے کیلئے ہے ۔ جیسا کہ نذر کے وقت مختصر عبارت میں کہتے ہیں : یہ پیغمبر کیلئے ہے یا امام کیلئے ہے ۔ سعد بن عبادہ نے جس وقت کنواں کھودا تو اس کے پانی کو اپنی والدہ کے لئے نذر کیا اور کہا : یہ سعد کی ماں کیلئے ہے ۔ پس اس تفسیر کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے کہ اولیاء اور صالحین کے لئے نذر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے (۳) ۔

۱۔ سورہ آل عمران، آیت ۳۵۔

۲۔ سورہ توبہ، آیت ۶۰۔

۳۔ سیمائے عقاید شیعہ ، ص ۱۰۵۔

تبصرے
Loading...