نبوت عامہ (دوسری فصل

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال

انبیاء کی بعثت کا مقصد ،خو اہشات کا اعتدال اور فطرت کی جانب ہدایت کرنا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں کہ انسان خو اہشات اور فطرت کے روبرو ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے۔

خواہشات، انسان کے اندر مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہو تے ہیں اور فطرت انسان کو حیوانیت سے نکال کر کمال واقعی تک پہنچاتی ہے اگر فطرت کی ہدایت کی جا ئے تو انسان کمال کی بلندیو ں تک پہنچ جائے گا ،ورنہ خو اہشات سے متاثر ہو کر ذلّت کی پاتال میں غرق ہو جا ئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ خواہشات معتدل رہیں اور فطرت کی ہدایت ہو اور بغیر کسی شک وتردید کے اس اہم عہدہ کا ذمہ دار وہی ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر کے اسرار ورموز سے مکمل باخبر ہو ۔

خو اہشات کے اعتدال کی راہ ،نیز فطرت کی راہنمائی سے مکمل آگاہوباخبر ہو یہ بات ہم عرض کر چکے ہیں کہ دانشمند وں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان اسرار ورموز کا معمہ ہے ۔

نتیجة ً انسان کاپیدا کرنے والا جو کا ئنا ت کابھی مالک ہے صرف وہی تمام خصوصیات سے با خبر ہے اس کے لطف وکرم کا تقاضا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل او ر انسان کو کمال کی بلندیو ں تک پہنچنے کے لئے ایسے انبیا ء کو مبعوث کرے جوبراہ راست اس سے وحی کے ذریعہ منسلک ہیں تاکہ انسان کی ہدا یت ہوسکے ۔

بعثت انبیاء کا مقصد

انبیاء کے عنوان سے قرآن نے چند اصول بیان کئے ہیں ۔

١۔( ھُوَ الّذیِ بَعَثَ فیِ الأمِیینَ رَسُولا مِنھُم یَتلُوا عَلَیھِم آیاتِہ وَیُزکیّھِم وَیُعلّمُھُمُ الکِتَابَ والحِکمةَ و اِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبینٍ)(١)اس نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیا ت کی تلا وت کرے ان کے نفسوں کوپاکیزہ بنائے اور انہیںکتاب وحکمت کی تعلیم دے ،اگر چہ یہ لو گ بڑی کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا تھے اس میں کو ئی شک نہیں کہ سب سے پہلا زینہ جو انسان کے مادی ومعنوی کمال تک رسائی کا سبب ہے وہ علم ہے او رعلم کے بغیر کمال تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

مذکو رہ آیت میں علم سے مراد مادی علوم نہیں ہیں کیونکہ مادی علوم دنیا میں آرام وآسائش کی ضمانت لیتے ہیں اور انبیاء انسان کی سعادت کے لئے دنیوی واخروی دونو ں زندگیو ں کی ضما نت لیتے ہیں۔

(١)سورہ جمعہ آیة: ٢

خداکی عبادت او رطاغو ت سے اجتناب ومقابلہ(وَلَقَد بَعَثنا فیِ کُلِّ أُمةٍ رَسَوُلاً أَن اعبُدُوا اللّہ واَجتَنبُوا الطَّاغُوتَ…)(١) ”او ریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو او رطاغوت سے اجتناب کرو” ۔

٢۔عدالت وآزادی دلا نا ۔(لَقَدْ أَرسَلَنا رُسُلَنَا بِالبَیّنَاتِ وأَنزَلَنا مَعَھُمُ الکِتابَ وَالمِیزَانَ لَیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ)(٢)

بیشک ہم نے اپنے رسولو ں کو واضح دلا ئل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ اصل مقصد وہ تمام اصول جنہیں پیغمبروں کے مبعوث ہو نے کا سبب بتایا گیا ہے تمام کے تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہیں۔

یعنی انبیاء کے آنے کا اصل مقصد بندوں کو خدا پرست بنانا ہے اور یہ اللہ کی بامعرفت عبادت کے ذریعہ ہی میّسرہے اور انسان کی خلقت کا اصل مقصدبھی یہی ہے (ومَا خَلَقتُ الجِنّ وَالانسَ اِلّا لِیَعبُدونَ)(٣) ” ہم نے جنا ت وانسان کو نہیں خلق کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں”۔

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ

لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیا ء کا مبعوث ہونا اس بحث کے بعد اب یہ بات

…………..

(١) سورہ نحل آیة :٣٦

(٢) سورہ حدید آیة:٢٥

(٣) سورہ ذاریا ت،٥٦

سامنے آتی ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ نبوت کا دعوی کرنے والااپنے دعوی میں سچا ہے۔؟

اگر کو ئی کسی منصب یاعہدے کا دعوی کرے جیسے ،سفیر ،مجسٹریٹ ، یا ڈی ایم، یا اس جیسا کو ئی اورہو جب تک وہ اپنے دعوی پر زندہ تحریر پیش نہ کرے کوئی بھی اس کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ۔

مقام رسالت او رسفیر ان الٰہی کا دعوی کرنے والوں کی تو بات ہی دیگر ہے نبوت و رسالت سے بلند مرتبہ اور کیاشی ٔ ہو سکتی ہے ؟ ایک انسان دعوی کرے کہ اللہ کا سفیر ہوں اور خدا نے مجھے زمین پر اپنا نمایندہ بناکر بھیجاہے لہٰذاسبھی کو چاہئے کہ میری اتباع کریں ۔

فطرت کسی بھی شخص کو بغیر کسی دلیل کے دعوی کوقبول کرنے کی اجا زت نہیں دیتی ،تاریخ گواہ ہے کہ کتنے جاہ طلب افراد نے سادہ دل انسانوں کو دھو کا دے کر نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے ،اسی لئے علماء علم کلا م نے پیغمبروں کوپہچاننے کے لئے راستے او رطریقے معین کئے ہیں ،ان میں سے ہر ایک پیغمبروں کو پہچاننے او ران کی حقانیت کے لئے زندہ دلیل ہے ۔

پہلی پہچان :معجزہ ہے علماء کلا م او ردیگر مذاہب کا کہنا ہے کہ معجزہ ایسے حیرت انگیز اور خلا ف طبیعت کام کو کہتے ہیں کہ جسے نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیتا ہے او ر تمام لوگو ں کواس کے مقابلہ کے لئے چیلنج کرتا ہے اور ہر شخص اس جیسا فعل انجام دینے سے قاصر ہے لہٰذا معجزہ کے تین رخ ہیں ۔

١۔ایسا کام جو انسانو ں کی طاقت سے حتیٰ نوابغ دہر کی بس سے باہر ہو ۔

٢۔ معجزہ نبو ت ورسالت کے دعوی کے ساتھ ہو او ر اس کا عمل اس کے دعوی کے مطابق ہو۔

٣۔دنیا والو ںکے لئے اس کا مقابلہ کرنا ”اس کے مثل لانا”ممکن نہ ہو سبھی اس سے عاجز ہو ں ۔

اگر ان تینو ں میں سے کو ئی ایک چیز نہیں پائی جا تی تو وہ معجزہ نہیںہے ابوبصیر کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادق ںسے پوچھا کہ ،اللہ نے انبیاء و مرسلین اور آپ ”ائمہ ” کو معجزہ کیو ں عطاکیا ؟آپ نے جواب میںفرمایا : تاکہ منصب کے لئے دلیل قرار پائے او رمعجزہ ایسی نشانی ہے جسے خدا اپنے انبیاء ،مرسلین اور اماموں کو عطا کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جھوٹے او رسچے کی پہچان ہو سکے ۔(١)

…………..

(١) بحار الانوار جلد ١١ ،ص ٧١

 

 

تبصرے
Loading...