ناروے کے شاہی دربار کی رسوائی؛ شیعہ سماجی کارکن سے قومی اعزاز واپس لیا گیا

ناروے کے بادشاہ نے شیعہ ڈاکٹر و سماجی کارکن ڈاکٹر علی لینستاد کو ایک عمر انسانی خدمات کے عوض قومی نشان عطا کیا تھا لیکن اسی بادشاہ نے یہ اعزاز اس ڈاکٹر سے تین وجوہات کی بنا پر واپس لیا: 1۔ غاصب اسرائیل کی مخالفت، 2۔ ہمجنس پرستی کی مخالفت 3۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت/ ڈاکٹر علی شیعہ کیوں ہوئے۔

ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی

ناروے کے شاہی دربار کی رسوائی؛ شیعہ سماجی کارکن سے قومی اعزاز واپس لیا گیا

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق ناروے کے عوام نے حال ہی میں نالائق یورپی یونین کو حال ہی میں نوبل انعام دیئے جانے پر سراپا احتجاج ہیں ایک دوسری بڑی رسوائی بھی اس ملک کے دامن گیر ہوگئی ہے اور وہ یہ کہ اس کے ملک کے بادشاہ نے اس ملک کے ایک مقامی شیعہ ڈاکٹر اور سماجی کارکن کو طویل خدمات کے عوض عطا کردہ قومی نشان یا تمغہ صہیونیوں کے دباؤ کے تحت واپس لے لیا۔
ہیرالڈ پنجم نے یہ تمغہ ایک عمر انسانی خدمات کے عوض ڈاکٹر تروند علی لینستاد کو دیا تھا اور اس کو باقاعدہ ڈاکٹر علی کے حوالے کرنے کے لئے جو تقریب منعقد ہونا تھی اس کو ایک دن قبل منسوخ کیا گیا۔
ناروے کا رائل قومی میڈل، اہم قومی تمغہ ہے جو سونے اور چاندی کی صورت میں دیا جاتا ہے اور ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے ایک طویل عرصے تک ناروین معاشرے کی بیش بہاء خدمت کی ہو۔
اس میڈل کا قانون یہ ہے کہ “یہ میڈل انعام کے طور پر ایسے فرد کو دیا جاتا ہے جس نے ایک طویل عرصے کے دوران عمومی یا خصوصی خدمات کے طور پر شائستہ کام انجام دیئے ہوں؛ وہ یوں کہ اس کے یہ کام قابل توجہ حد تک معمولی خدمات سے کہيں زيادہ بالاتر سمجھے جائیں اور ان خدمات کا مالک اس سماجی مشارکت کو معمولی اور روزمرہ کاموں سے کہیں زيادہ وسیع انداز سے انجام دے چکا ہو۔ دوسرا معیار یہ ہے کہ اس فرد نے اپنی زندگی کے دوران ایسی خدمات انجام دی ہوں جو دوسروں کے لئے نمونہ عمل قرار پائے”۔
اس قانون کے تحت بادشاہ ہیرالڈ پنجم نے ان کی خدمات کی بنیاد پر انہيں چاندی کے تمغے کے لئے اہل قرار دیا اور یہ تمغہ انہیں عطا کیا کیونکہ ڈاکٹر علی لینستاد نے فیملی ڈاکٹر کی حیثیت سے بے شمار خاندانوں اور غریب افراد اور مہاجرین کی نسل کی وسیع خدمت کی ہے اور کررہے ہیں۔

1

دربار شاہی نے اپنے بیان میں کہا: “ایک طبیب کی حیثیت سے (اوسلو کے نواح میں کثیر مہاجر آبادی کے علاقے) گرین لینڈ میں مہاجر اقلیتوں کی خدمت کے سلسلے میں ڈاکٹر لینستاد کی برسوں کوششوں نیز “اورتے ہیگن” (Urtehagen) میں ان کی خدمات کے عوض انہیں یہ میڈل عطا کیا جاتا ہے”۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر علی نے “اورتےہیگن اسلامی فاؤنڈیشن” کی بنیاد رکھی ہے اور خود ہی اس کے ڈائریکٹر ہیں اور ان کا یہ ادارہ وسیع انسان دوستانہ خدمات انجام دے رہا ہے جن میں “مہاجر لڑکیوں کو لئے مفت ہائی اسکول” اور ایک چلڈرن مرکز بھی شامل ہیں اس مرکز میں 280 بچوں کو تربیت دی جاتی ہے۔
لیکن یہ تمام خدمات اس بات میں رکاوٹ نہ بن سکیں کہ صہیونی لابیاں اس خدمت گذار شخصیت کو اس تمغے سے محروم نہ کریں۔ چنانچہ ان کو اس انعام کی عطائیگی کے اعلان کے ایک دن بعد درباری شاہی نے اعلان کیا کہ ڈاکٹر علی لینستاد کو انعام عطا کرنے کی تقریب منسوخ کی گئی ہے۔
درباری شاہی کا دوسرا بیان کچھ یوں تھا:
“چونکہ ہم نے ڈاکٹر علی لینستاد کو یہودی مخالف (Anti-Semitic) شخصیت قرار دیا چنانچہ ہم انہیں اس انعام کے لئے ضروری اہلیت سے عاری قرار دیتے ہیں”۔
واضح رہے کہ “Anti-Semitimism” ایسا لیبل ہے جو غاصب صہیونیت کے مخالفین پر لگایا جاتا ہے حالانکہ صہیونیوں کے مخالفین یہودیوں کے مخالف نہيں ہیں اور ڈاکٹر علی لینستاد نے بارہا اس کا اعلان کیا ہے کہ وہ یہودیوں کے نہيں بلکہ صہیونیوں کے خلاف ہیں۔ اور پھر مغربیوں کے بلند بانگ دعؤوں اور نعروں کے ضمن میں یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ “عقیدہ ہر انسان کا ذاتی مسئلہ ہے جس کا اس کے معاشرتی کردار پر اثر نہيں ہونا چاہئے”؛ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ میڈل کے مذکورہ بالا قانون میں ایسی کوئی شرط نہیں پائی جاتی کہ طویل سماجی خدمات انجام دینے والے شخص کا عقیدہ کیا ہونا چاہئے۔
دربار شاہی پر صہیونیوں کا دباؤ اس قدر شدید تھا کہ دربار کے ایک اعلی اہلکار اور میڈل کی عطائیگی کے نگران “مسٹر گروٹل” نے بقول ان کے “اس فاش غلطی” کو ایک “رسوائی” کی حیثیت سے اپنی ذاتی ذمہ داری کے طور پر قبول کیا اور کہا: میڈل کی عطائیگی ایک ذاتی مسئلہ ہے اور اس کا تعلقات زندگی کے دوران افراد کی خدمات سے تعلق رکھتی ہے تا ہم یہ مسئلہ میڈل دینے کے اہداف و مقاصد سے بھی مطابقت رکھتا ہو”۔
گروٹل کے بقول: رائل ججوں نے بھی اس مسئلے کا صحیح اور کافی شافی جائزہ نہيں لیا تھا اور ڈاکٹر لینستاد کے بارے میں زیادہ معلومات اکٹھی نہیں ہوئی تھی کیونکہ انھوں نے اسرائیل کے بارے میں بھی متنازعہ خیالات ظاہر کئے ہیں۔
گروٹل کا کہنا تھا: کونسل نے لینستاد کے بارے میں جو نئی تحقیق کی ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ وہ ہمجنس پرستوں کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں اور یہ مسئلہ میڈل دینے کے اہداف سے مطابقت نہيں رکھتا!۔
ناروے کے بادشاہی دربار نے لینستاد کو انعام نہ دینے کے عجیب اسباب بیان کرتے ہوئے ایک عجیب تر سبب یوں بیان کیا ہے کہ “ڈاکٹر لیستاد اسلامی جمہوریہ ایران کے حامی ہیں” تا ہم دربار کے مخالفین نے اس موقف کو غیرجمہوری قرار دیا ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ 30 برسوں کے دوران تیس سے زائد انتخابات منعقد کئے ہیں جبکہ یورپ بہت سی استبدادی حکومتوں کی حمایت کررہا ہے جن کے ملکوں میں پوری تاریخ میں ایک بار بھی انتخابات نہيں ہوئے ہیں۔
ادھر اوسلو کے میئر “فابیان استانگ نے شاہی دربار کے شدید دباؤ کے تحت اعلان کیا کہ وہ متعینہ تقریب میں ڈاکٹر علی لینستاد کو تمغہ دینے کے لئے تیار نہيں ہیں۔
قصر سلطانی کا یہ اقدام اس قدر شرمناک تھا کہ گروٹل نے تقریب کی منسوخی کے اعلان کے بعد ڈاکٹر علی لینستاد سے معافی مانگی اور کہا: ہمیں بے انتہا افسوس ہے کہ ہم نے ڈاکٹر لینستاد کو اس صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
ادھر ڈاکٹر علی لینستاد نے بھی اپنے رد عمل کے طور پر اعلان کیا: اس موضوع کا وسیع پیمانے پر منظر عام پر آنا اور ناروے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اس پر بحث ہونا میرے لئے بہت زیادہ خوشی کا سبب ہے کیونکہ مجھے اپنے نظریات اور آراء ظاہر کرنے کا موقع میسر آیا ہے اور بہت سے لوگوں نے میری حمایت کی ہے۔
وہ کارٹون جو ڈاکٹر لینستاد کو تمغہ دینے کی تقریب کی منسوخی کے بعد ناروے کے اخبارات میں شائع ہوا:

2

مفہوم یہ ہے کہ: میڈل اس کو دیا جائے گا جو منہ بند رکھے گا اور حقائق سے پردہ نہ اٹھائے گا۔

ڈاکٹر علی لینستاد سے ناروے کا قومی میڈل واپس لیا گیا تو صہیونیوں اور یورپ میں مقیم ایران کے اسلامی انقلاب کے مفرور دشمنوں نے خوشیاں منائیں۔
ڈاکٹر تروند علی لینستاد عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی کی جنرل اسمبلی کے رکن ہیں جن کو اس سے پہلے فلسطینی مہاجر کیمپ میں بیش بہاء خدمات کے عوض فلسطینی ہلال احمر کا تمغہ بھی ملا ہے۔

3

ڈاکٹر علی لینستاد کا تعارف:
“تروند علی لینستاد ـ Trond Ali Linstad” طبیب، دینی و سماجی مبلغ و کارکن، عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی کی جنرل اسمبلی کے ناروین رکن اور اوسلو کی اسلامی برادری کی نمایاں شخصیت ہیں۔
وہ 11 دسمبر 1942 کو ناروے میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباء و اجداد سب ناروے کے باشندے تھے اور ان کے دادا “ایرک راد” اسکیڈینویا کے علاقے کے مشہور جنگجو تھے۔
نوجوان تروند نے مصر، ترکی، شام، ہندوستان، میانمار اور افریقی ممالک کا سفر اختیار کیا۔ مظلومین کی حمایت کے جذبات سے سرشار تھے چنانچہ ابتداء میں (1960 کی دہائی میں) مارکسی افکار کی طرف مائل ہوئے۔
صہیونیوں کی طرف سے ہالوکاسٹ کے افسانے کو بہت زيادہ اچھالا جارہا تھا جس کے تحت یورپی نوجوان ان کے دھوکے میں آیا کرتے تھے اور اب بھی شاید بعض اس پروپیگنڈے سے متاثر ہورہے ہیں۔ صہیونی یورپی نوجوانوں کو اسی تشہیری مہم کے تحت مقبوضہ فلسطین کے اشتراکی فارموں میں کام کی ترغیب دلارہے تھے چنانچہ تروند نے بھی مقبوضہ سرزمین میں پہنچ کر ایک فارم میں کچھ عرصہ قیام کیا جہاں ان ہی فارموں میں مقیم صہیونیوں کے کرتوتوں اور نظریات و افکار کو دیکھ کر ان پر صہیونیوں کی حقیقت منکشف ہوئی اور وہاں سے یورپ واپس لوٹ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ویٹنام میں امریکی جارحیت زوروں پر تھی چنانچہ انھوں نے مظلومین کے ساتھ اپنے جذبہ ہمدری کے تحت امریکہ کے خلاف مظاہروں میں فعالانہ شرکت کی اور چنگ کے خلاف سرگرمی دکھانے کی پاداش میں گرفتار ہوئے اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔
لینستاد نے اس کے بعد فلسطین کے مسئلے کی طرف توجہ دینا شروع کی اور ان کے بقول: “مجھے معلوم ہوا کہ اس ملک (فلسطین) کے عوام وہ نہيں ہیں جو مغربی ممالک کے حکمران کہتے ہیں بلکہ ایسے مظلوم لوگ ہیں جن کو ان کے گھر اور وطن سے نکال باہر کیا گیا ہے اور ان کا مطالبہ منصفانہ اور برحق ہے۔ لیکن مغربی ذرائع ابلاغ فلسطینیوں کے حقاق کو الٹ پلٹ کر پیش کرتے ہیں”۔ لہذا انھوں نے طب کی تعلیم مکمل کی اور ڈاکٹر بن کر اردن چلے گئے فلسطینی کیمپ میں رضاکارانہ طور پر خدمت میں مصروف ہوئے اور یہ خدمات 1971 تک جاری رہیں اور 1971 “سیاہ ستمبر” میں اردن کے شاہ حسین نے صہیونی ریاست کا حق نمک ادا کرکے جاراش کے علاقے میں فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی اور ڈاکٹر لینستاد کو بھی وہاں سے نکال باہر کیا۔
وہ ناروے لوٹے تو فلسطین کاز کو نہيں بھولے اور اس سلسلے میں اپنی خدمات کی وجہ سے انہيں ناروے کی سرکاری “ناروے ـ فلسطین” سوسائٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مختلف کمیونٹیوں میں فلسطین کا مسئلہ اٹھایا۔ وہ ناروے سے فلسطینی کیمپوں میں طبی ٹیمیں روانہ کرتے رہے۔
وہ پہلی بار لبنان کے کیمپوں میں خدمت کرتے ہوئے دین اسلام سے متاثر ہوئے۔
ڈاکٹر لینستاد اس بارے میں کہتے ہیں: “اسرائیلی طیارے ہمارے سروں کے اوپر اڑتے نظر آتے تھے اور پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بمباری کرتے تھے، ہمارے ارد گرد کا علاقہ گولوں اور بموں سے بھرا ہوا تھا چنانچہ ہم نے قریبی مسجد میں پناہ لی۔ میں مسجد میں دیکھ رہا تھا کہ مزاحمت کے مجاہدین کس طرح اپنے ہتھیار ایک طرف رکھتے تھے اور اپنے رب کے ساتھ راز و نیاز میں مصروف ہوجايا کرتے تھے! میں دل ہی دل میں سوچتا تھا کہ یہ کیسا دین ہے جو انسانوں کو اس طرح کامل کردیتا ہے؟”۔

لیکن قبول اسلام کی طرف اصل قدم انھوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) سے روشناس ہونے کے بعد اٹھایا۔ ڈاکٹر لینستاد اس بارے میں کہتے ہیں: “میں ایران کے اسلامی انقلاب اور مذہبی جذبے اور ایمان سے برآمد ہونے والی عظیم طاقت اور عوام اور ان کے رہبر ـ جو کہ ایک دینی دانشمند تھے ـ کے ایمان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کے بعد میں نے ایران کا سفر اختیار کیا۔ میرا قلب شوق سے سرشار ہوچکا تھا۔ اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا: “دین اسلام نہ صرف عوام بلکہ ایک پورے ملک کو اس طرح تبدیل کرسکا ہے؟ امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) کا انقلابی جذبہ ـ انہیں ناانصافی اور ظلم و ستم کے خلاف ان کی جدوجہد کی بنا پر میرا آئیڈیل راہنما بنا رہا تھا اور میں ان کی شاگردی کا فیض حاصل کرنے کی آرزو کررہا تھا۔ چنانچہ میں نے ان کے بارے میں مطالعہ شروع کیا۔ میں ایک ناروین تھا لیکن ان کے تفکرات اور مذہبی نظریات نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ زندگی میں خدا کے وجود اور خداپرستی اور خداجوئی اور خدائی تفکر کے اثرات سے واقف ہوا اور اس یقین تک پہنچا کہ دنیا میں ایک صحیح مقام اور عظیم کامیابیاں حاصل کرنے کی شرط یہ ہے کہ میں خدا کے وجود کو اپنی زندگی میں محسوس کروں اور اس کی معرفت حاصل کروں ورنہ میں ایک قدم بھی آگے نہيں بڑھا سکوں گا”۔
امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) کی شخصیت سے روشناس ہونے، مسلمانوں کے ساتھ گفتگو کرنے اور اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ اسلام کے قریب تر آگئے اور آخر کار یہ قرآن کریم تھا جس نے ان کو خدا تک پہنچاہی دیا۔
ڈاکٹر علی لینستاد کہتے ہیں: “میں نے پہلی بار قرآن کریم کا مطالعہ کیا۔ اس میں منقولہ قصوں سے حیرت میں ڈوب گیا۔ دوسری بار بھی گذشتہ اقوام کی داستانوں نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ لیکن جب قرآن کو تیسری مرتبہ پڑھا تو خدا نے میری آنکھیں کھول دیں اور میں نے انسان کی زندگی اور اس کے وجود کے بارے میں قرآن کے حقائق کا ادراک کیا اور یہاں پہنچ کر میں مسلمان ہوا اور حقیقتاً سمجھ گیا کہ “خدا ہے” کیا عظیم ادراک میرے نصیب ہوا تھا۔ قرآن اللہ کی وحیِ خاص ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے بنی نوع انسان پر نازل ہوا ہے۔ قرآن کے کلمات کی قرا ئت آسان ہے لیکن اس کے حقائق کتنے گہرے ہیں”۔
تروند لینستاد وجود رب پر ایمان لانے کے بعد دین اسلام اور مذہب تشیع میں مشرف ہوئے اور قبول اسلام کے بعد نام “علی” کو اپنے نام سے ملالیا۔
ڈاکٹر علی نے چالیس سالہ خدمات کے دوران ایک قابل فخر ریکارڈ قائم کیا ہے اور ان کی کارکردگی کے بعض نمونے درج ذیل ہیں:
ــ “استوائی ممالک میں طب اور حفظان صحت” کے مضمون میں تعلیم حاصل کی؛
ــ ناروے میں ڈاکٹر اور فیملی ڈاکٹر کی حیثیت سے کردار ادا کیا؛
ــ اوسلو میں پرائیویٹ کلینک میں خدمات انجام دیں:
ــ لبنان اور اردن میں فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں میں خدمات انجام دیں؛
ــ دینی، علمی و تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کو باقاعدگی دینے کی خاطر “اورتے ہیگن اسلامی فاؤنڈیشن The Islamic foundation Urtehagen” کی بنیاد رکھی؛
ــ اوسلو کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر مذہبی پروگرام پروڈیوس کرکے نشر کرتے رہے ہیں اور اوسلو ٹیلی ویژن کا واحد اسلامی پروگرام ڈاکٹر علی نشر کررہے ہیں.

4

ــ اسلام، تشیع، ایران کے اسلامی انقلاب اور امام خمینی (رحمۃاللہ علیہ) کے بارے میں ناروین زبان میں متعدد کتب و مقالات شائع کئے؛
ــ وہ ناروین زبان میں “مسلمز میگزین” کے بانی اور 1991 سے ناروین زبان میں “مسلمز میگزین” کے چیف ایڈیٹر ہیں؛
ــ لبنان اور فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی حمایت میں متعدد مظاہرے اور دیگر پروگرام کئے ہیں اور کررہے ہیں؛

5

ــ ناروین زبان میں قرآنی اور اسلامی ویب سائٹ koranen.no کی بنیاد رکھی؛
ـ ڈاکٹر علی نے اوسلو کے واحد اسکول نرسری اسکول کی بنیاد رکھی ہے اور خود ہی اس کو چلارہے ہیں جن میں 280 بچے زیر تعلیم ہیں اور وہاں بچوں کو قرآن کریم، زبان، کمپیوٹر، سپورٹس کے کورسز نیز ایک روزہ تربیتی کیمپس کا اہتما کیا جتا ہے؛

6

ــ انھوں نے واحد شیعہ اسلامی پرائمری اسکول کی بنیاد رکھی ہے جس میں 500 طالبعلم زیر تعلیم رہتے ہیں۔ اس اسکول کا نصاب ناروے کا سرکاری نصاب ہے لیکن اس میں اسلامی ماحول فراہم کیا جاتا ہے؛ قرآن اور اسلامی دروس کی تعلیم دی جاتی ہے؛
ــ انھوں نے اورتےہیگن ہائی اسکول مہاجر اور محروم و غریب بچیوں کے لئے بنایا ہے جس میں مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے؛

7

ــ چلڈرن فارم کی تاسیس (یہ فارم بچوں کو پرسکون اور شہری ماحول کے نفسیاتی دباؤ سے دور پرامن ماحول فراہم کے لئے قائم کیا گیا ہے)؛

8

ڈاکٹر تروند علی لینستاد بچوں، اور نوجوانوں کے لئے کام کرنے سے اپنے مقاصد کے بارے میں کہتے ہیں: “ہمارا مقصد یہ ہے کہ بچے اور نوجوان ایک سیکولر عیسائی ماحول میں اپنے اسلامی تشخص کا تحفظ کریں؛ لیکن ہمارے اسکول کے دروازے غیرمسلم بچوں کے لئے بھی کھلے ہیں اور وہ بھی یہاں داخلہ لے سکتے ہیں۔ ہم اسلام اور دین خدا کے فروغ کے لئے کام کرتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے۔ میرے دادا نے ناروے کو عیسائی بنانے کی کوشش کی تھی لیکن میں سوچتا ہوں کہ میرا مقصد زیادہ بڑا اور زيادہ خالص ہے کیونکہ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں کام کررہا ہوں۔ ان شاء اللہ خداوند متعال اس اہم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری مدد فرمائے”۔
ان ہی عظیم اور طویل المدت خدمات کے عوض نومبر 2012 میں بادشاہ ہیرالڈ پنجم کی طرف سے اس شیعہ مفکر کو ناروے کا بادشاہی میڈل عطا کیا گیا لیکن چند ہی روز بعد 15 نومبر کو صہیوین لابیوں کے زیر اثر اس انعام کی باقاعدہ سپردگی کی تقریب بادشاہی دربار کی طرف سے منسوخ کی گئی۔
ڈاکٹر لینستاد پر اس سلسلے میں لگایا جانا والا سب سے اہم الزام یہ تھا کہ وہ “یہود مخالف ـ Antisemitic ہیں!۔
یہ وہی الزام ہے جو صہیونی اور صہیونیوں کے زیر اثر تمام مغربی حکومتیں فلسطینی کاز کے حامیوں پر عائد کرتے ہیں حالانکہ صہیونیوں کے مخالفین کی غالب اکثریت غیر صہیونی یہودیوں کے خلاف نہيں ہیں بلکہ صہیونیت اور صہیونیوں کے مظالم اور جارحیتوں کے خلاف ہیں۔

 

تبصرے
Loading...