مکتب خمینی رہبر کے زبانی

امام خمینی کی اکیسویں برسی پر رهبر انقلاب کے خطبات جمعہ: امام کی ذات کو مکتب امام سے الگ کیا جائے تو امام کا تشخص ختم ہوکر رہ جائے گا.

ترجمہ: ف۔ح۔مہدوی

مکتب خمینی رہبر کے زبانی

روز قدس اور روز عاشور نفرت انگیز اقدامات کرنے والے عناصر کی طرف سے امام کی پیروکاری کا دعوی ناقابل قبول ہے / افراد کا موجودہ حال جانچ پرکھنے کا معیار

باوفا، با استقامت اور با بصیرت ایرانیوں نے خمینی کبیر کے وصال کی اکیسویں برسی کے مراسمات کو امام راحل سے وفاداری کے اظہار کی نمائش میں بدل دیا اور ایک بار پھر اپنے زمانے کے ولی فقیہ سے ـ امام کے نورانی مکتب کے تحفظ کی تجدید عہد کا اعلان کیا۔

امام کی برسی بھی تھی اور روز جمعہ بھی تھا چنانچہ اسی مناسبت سے نماز جمعہ بھی تہران یونیورسٹی کی بجائے امام کے حرم میں منعقد ہوئی؛ اور امام خمینی کے جانشین برحق اور نائب امام زمانہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی الخامنہ ای نے نماز جمعہ کے خطبے دیئے جبکہ بعض ذرائع کے مطابق نمازیوں کی تعداد اتنی تھی کہ نماز جمعہ کا یہ اجتماع تاریخ اسلام کا سب سے بڑا اجتماعِ جمعہ کہلا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے خطبوں کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

خطبہ اول

* امام خمینی انقلاب اسلامی کا سب سے بڑا اور اہم ترین معیار ہیں لیکن امام کی ذات کو مکتب امام سے الگ کیا جائے تو امام کا تشخص ختم ہوکر رہ جائے گا۔

مکتب امام خمینی (خط امام):

* مکتب امام (خط امام) کا تعارف کراتے ہوئے رہبر انقلاب نے فرمایا: خالص محمدی اسلام پر مسلسل سہارا لینا، مکتب اسلامی کے دائرے میں جاذبہ و دافعہ کی قوت کا استعمال، خدا کے وعدوں پر یقین کامل، معنوی محاسبات اور تقوی، انقلاب اسلامی کو کی آفاقیت کو مد نظر رکھنا، عوام کے کردار پر یقین، افراد کے بارے میں فیصلہ کرتے یا کچھ بولتے وقت، ان کا موجودہ حال مد نظر رکھنا، امام خمینی کے مکتب کے اہم معیارات اور موازین ہیں جن کی صحیح انداز سے تشریح ہونی چاہئے اور انہیں دائمی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

* معاشرتی مشن خاص طور پر انقلابات میں اصولی اور بنیادی موقف کا تحفظ کسی مشن یا انقلاب کو انحراف سے بچانے کا سبب بنتا ہے اور وہ لوگ جو ہر وقت انقلابات کا تشخص بدلنے کے درپے ہوتے ہیں ان کا کوئی خاص اور معین پرچم نہیں ہوتا اور وہ اپنی شناخت کروا کر سامنے نہیں آتے بلکہ ان کی حرکت خفیہ اور غیر اعلانیہ ہوتی ہے چنانچہ انقلابات کو بچانے کے لئے معین اور مشخص معیارات کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ انحراف پیش نہ آئے۔

* انقلاب اسلامی کا اہم ترین اور بنیادی ترین معیار امام اور مکتب امام ہے جو امام کی روش، خطابات اور وصیت نامے میں جلوہ گر ہوگیا ہے۔

* امام کی معیارات کی صحیح تشریح ضروری ہے اور ان معیارات کی غلط تشریح کرنے، انہیں بھلا دینے یا خفیہ رکھنے سے معاشرے کو قطب نما (کمپاس) کی خرابی جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خراب قطب نما سمتوں کا صحیح تعین کرنے سے عاجز ہوتا ہے [جس کے نتیجے میں کسی علاقے میں ناواقف مسافر کھوجاتا ہے]، چنانچہ امام کا موقف اور ان کی آراء و افکار کو بالکل واضح اور روشن انداز سے واضح کرنا چاہئے… امام کی شخصیت اور ان کا تشخص بھی اسی واضح اور روشن موقف پر منحصر ہے جس نے دنیا کو لرزہ بر اندام اور ملتوں کو بیدار کردیا۔

* امام نے استکبار، رجعت پسندی اور قدامت پرستی، مغربی لبرل جمہوریت اور منافقین اور دو چہروں والے افراد کے بارے میں واضح موقف اپنایا ہے اور ہم بعض افراد یا بعض گروہوں کو خوش کرنے کے لئے امام کی موقف کو چھپا نہیں سکتے اور ہمیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اگر امام کی ذات سے ان کا مکتب الگ کردیا جائے تو امام کا تشخص ہی ختم ہوجائے گا اور امامت سے ان کا تشخص چھین لینا، امام خمینی کی خدمت نہیں کہلا سکتا۔

* بعض لوگ امام کے بعض افکار و نظریات کو یا تو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کا انکار کردیتے ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ یہ ٹھیرا فکری رویہ وہ لوگ اپنا رہے ہیں جو کسی زمانے میں امام کے افکار کی ترویج کیا کرتے تھے یا ان کے پیروکار تھے۔

* نوجوانوں کو امام خمینی کا وصیت نامہ پڑھنے اور اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وصیت نامے میں امام کے تفکر اسی وصیت نامے میں منعکس ہوا ہے۔

* خالص محمدی اسلام امام خمینی کے مکتب کا ایک اہم معیار ہے اور امام کے تفکرات میں خالص اسلام سے مراد ظلم کے خلاف لڑنے والا، عدل و انصاف کا طالب، محرومین کا حامی اور پا برہنہ انسانوں اور مستضعفین کے حقوق کا پاسدار، اسلام ہے۔

* امام کے تفکر میں امریکی اسلام خالص محمدی اسلام کے مد مقابل کھڑا ہے۔ اور امریکی اسلام وہی تشریفاتی اور تقریباتی (Ceremonial)، ظلم اور زیادہ طلبی کے سامنے غیر جانبداری اور جابر قوتوں کے ساتھ ہمراہ ہوکر ان کی حمایت کرنے والا اسلام ہے۔

* امام کے نزدیک خالص محمدی اسلام کا نفاذ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسلام کی حاکمیت عملی صورت اپنا سکے اور امام بزرگوار اسلامی جمہوریہ کو اسلام کی حاکمیت کا مظہر اور اسلام کے نفاذ کی تمہید سمجھتے تھے اسی بنا پر امام اسلامی جمہوریہ کا تحفظ واجب ترین واجب (اوجبِ واجبات) قرار دیا کرتے تھے۔

* امام خالص اسلام کے نفاذ ہی کو انقلاب اسلامی کا بنیادی مقصد سمجھتے تھے؛ اسی بنا پر امام اپنی حیات کے آخری لمحے تک پوری قوت کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کے تحفظ پر ڈٹے رہے اور انھوں نے دنیا کے سامنے سیاسی نظام کا ایک بالکل نیا ماڈل پیش کیا جو اسلامی شریعت اور عوام کی رائے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔

* مکتب امام کا ایک اہم معیار آپ کا جاذبہ اور دافعہ (Attraction and repulsion) تھا اور امام اس قوت سے مکتب اسلامی کے دائرے کے اندر رہ کر استفادہ کیا کرتے تھے لہذا سیاست کے میدان میں ہر قسم کا تولا یا تبرا بھی امام کے تفکر اور اصولوں کے عین مطابق ہونا چاہئے۔

* امام کا جاذبہ اور دافعہ بہت وسیع تھا؛ امام خمینی کی دشمنی اور ان کا فیصلہ کن موقف صرف اور صرف اسلام کی خاطر ہوا کرتا تھا اور اس موقف میں ذاتی مسائل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تھا اسی وجہ سے امام اپنی ملت کی تمام اقوام اور طبقوں کو اپنی آغوش لطف میں پناہ دیا کرتے تھے لیکن کمیونسٹوں، لبرل عناصر اور مغربی نظاموں کے دلباختہ عناصر کو نہایت فیصلہ کن انداز سے دفع کیا کرتے تھے اور رجعت پسندوں کی بھی کئی بار سخت اور تلخ عبارتیں استعمال کرکے مذمت کرتے اور انہیں دفع دور کرلیتے تھے؛ چنانچہ اس اہم معیار کی ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص امام کی راہ کا سالک اور امام کے مکتب کا پیروکار بھی کہلائے اور ایسے افراد و عناصر کا ساتھ بھی دے اور ان کی ہمراہی بھی کرے جو اعلانیہ انداز میں امام کے خلاف جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں۔

* اگر امریکہ، اسرائیل، شہنشاہیت پسند، منافقین اور امام کی دیگر دشمن اور معاندین ایک شخص کے گرد اکٹھے ہوجائیں اور اس کی تعریف و تمجید کریں اور اس کا احترام کریں اور [اسی حال میں] وہ شخص دعوی کرے کہ “میں امام خمینی کا پیروکار ہوں” تو اس کا یہ دعوی قابل قبول نہیں ہے اور اس دعوے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا کیونکہ امام نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگر اسلام دشمن قوتیں ہماری تعریف کرنا شروع کردیں تو ایسی صورت میں جان لینا چاہئے کہ ہم خائن ہیں۔

* بعض لوگوں نے یوم القدس کو اعلانیہ طور پر امام کے اہداف و مقاصد کے خلاف موقف اختیار کیا اور حالیہ روز عاشور کو انھوں نے نہایت رسوا کن اقدامات کئے تو ایسی صورت میں اگر کوئی شخص امام کے اصولوں کے سراسر خلاف موقف کے ساتھ ہمراہی اور اتفاق کا اظہار کرے یا حتی اس موقف کے سامنے خاموشی اختیار کرے تو ملت ایران حقائق کا ادراک کرکے ایسے شخص کی طرف سے مکتب امام کی پیروکاری کا دعوی، قبول نہیں کرے گی۔

* خدا کے وعدوں پر اعتماد و اطمینان اور معنوی و الہی محاسبات کو مدنظر رکھنا، مکتب امام کا ایک اور اہم معیار ہے اور امام خمینی اپنے فیصلوں اور تدبیروں میں معنوی محاسبات کو پہلے درجے کی اہمیت دیا کرتے تھے اور کسی بھی کام کی انجام دہی سے ان کا واحد مقصد رضائے الہی کا حصول ہوتا تھا۔

* امام خمینی کے مشن میں ناامیدی، خوف، غفلت اور غرور مہمل الفاظ تھے اور امام نے ذاتی، سماجی، سیاسی مسائل حتی دشمنوں اور مخالفین کے بارے میں اپنی قضاوتوں اور فیصلوں میں تقوی کے راستے سے ذرہ برابر انحراف نہیں کیا اور یہ سب کے لئے ـ بالخصوص انقلابی، با ایمان اور امام کے عاشق نوجوانوں کے لئے ـ سبق ہے کہ حتی دشمن کے سلسلے میں بھی حق و عدل اور تقوی اور انصاف کی اصولوں کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔

* عوام اور عوامی کردار مکتب امام کا ایک اور اہم معیار ہے اور امام نے انتخابات اور دیگر میدانوں میں عوام کے کردار کا سہارا لینے میں نہایت اہم اور عظیم اقدامات سرانجام دیئے ہیں۔

* انقلاب اسلامی کی کامیابی کے صرف دومہینے بعد ریفرینڈم کرانے، اور حکومت کے شیوے اور اس کی نوعیت کے تعین کی غرض سے عوامی رائے سے رجوع کرنے کی مثال ـ وہ بھی اتنے مختصر عرصے میں ـ کسی بھی انقلاب میں نہیں ملتی۔

* انقلاب اسلامی کے بعد ہر قسم کے حالات حتی مسلط کردہ جنگ کے دشوار ترین ایام میں متعدد بار انتخابات کا انعقاد کیا جاتا رہا اور گذشتہ 30 سالہ تاریخ میں کوئی ایک انتخاب بھی حتی ایک روز ملتوی نہیں ہوا اور یہ خصوصیت جمہوریت کے بلند بانگ نعرے لگانے والے کسی بھی نظام میں نہیں پائے جاتے۔

امام کی تحریک کی آفاقیت:

* امام نے شجاعت کا زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تحریک کی عالمگیریت اور آفاقیت کا اعلان کیا مگر امام کی اسلامی تحریک کی آفاقیت کا مطلب دوسرے ممالک کے امور میں مداخلت یا استعماری انداز سے انقلاب دوسری ممالک میں برآمد کرنا نہ تھا بلکہ امام کا مقصود اور ان کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کی قومیں اس عظیم تاریخی تحریک کی برکتوں سے مستفیض ہوں اور آگاہ ہوکر اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نبھائیں۔

* فلسطینی ملت کا مردانہ وار اور منظقی دفاع انقلاب اسلامی کے بارے میں ان کے عالمی تفکر کی ایک مثال ہے اور امام صراحت کی ساتھ اسرائیل کو سرطانی پھوڑا سمجھتے تھے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ سرطانی پھوڑے کا علاج اسے کاٹ کر پہینک دینا ہے۔

* فلسطینی ملت کا مردانہ وار اور منطقی دفاع، معقول ترین موقف تھا؛ دنیا کی جابر قوتوں نے ایک قوم کو ظلم و ستم، قتل و غارت، آزار و جلاوطنی کا نشانہ بنا کر ایک جغرافیائی یونٹ کو دنیا کے نقشے سے حذف کرنے اور ایک سو فیصد غیر منطقی اور نامعقول اقدام کرکے اسرائیل کے نام سے ایک جعلی مملکت کو اس یونٹ کے مقام پر لا کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن اس واضح و آشکار تاریخی ستم کے سامنے امام نے سوفیصد معقول اور منطقی موقف اپناکر فرمایا کہ اس جعلی جغرافیائی یونٹ کو حذف ہونا چاہئے اور تاریخ میں اصلی مملکت یعنی فلسطین کی حیات جاری اور ساری رہنی چاہئے۔

* غاصب اسرائیل کے مقابلے میں امام کا موقف بالکل واضح اور صریح تھا لیکن اس وقت اگر کوئی اشارہ کرکے بھی اسرائیل کے خلاف کوئی موقف اپناتا ہے تو مکتب امام کی پیروکاری کے بعض دعویدار اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

* امام کی مکتب کی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ امام نے کسی کے بارے میں کوئی موقف اپنانے یا فیصلہ کرنے کے لئے افراد کے موجودہ حال (Current state) کو معیار قرار دیا، امام نے کئی بار فرمایا کہ افراد کے بارے میں فیصلہ کرنے کا معیار ان کا موجودہ حال (اور موجودہ کردار) ہے اور یہ مسئلہ امام کے مکتب کی شناخت اور اس کی پیروی کا اہم معیار ہے… افراد کے ماضی کا حوالہ دینا (اور ماضی میں ان کے کردار کا حوالہ دینا) صرف اسی وقت قابل قبول ہوگا کہ ان کا حال ان کے ماضی کے برعکس نہ ہوا ہو اور اگر ایسا ہوا (اور افراد کا موجودہ کردار ان کے ماضی کے کردار سے مختلف ہوا) تو فطری سی بات ہے کہ ان کا ماضی ان کے تشخیص و شناخت کا معیار نہیں ہوسکتا۔

* طلحہ اور زبیر کا تاریخی کردار صدر اول میں بہت ہی اونچا اور قابل قدر تھا مگر بعد میں ان کا موقف بدل گیا اور ان کے خلاف امیرالمؤمنین (ع) کا فیصلہ کن موقف ہر قسم کا موقف اپنانے یا فیصلہ کرنے کے سلسلے میں افراد کے حال (موجودہ حالت) کو مدنظر رکھنے کی ضرورت کی تاریخی مثال ہے۔

* امام خمینی نے بھی انقلاب کے سلسلے میں اپنے بعض پرانے ساتھیوں کے خلاف فیصلہ کن موقف اپنایا اور یہ امام کی طرف سے اس اہم معیار کی پابندی کا عملی نمونہ تھا؛ ان لوگوں میں سے بعض حتی نجف کے زمانے سے امام کے ہمراہ تھے لیکن بعد کے مراحل میں امام نے انہیں مسترد کیا کیونکہ ان کا نیا موقف ابتدائی موقف سے بالکل مختلف تھا۔

* امام اور مکتب امام کے اصولوں اور معیارات و موازین سے آگہی کے لئے سب لوگ خاص طور پر نوجوانوں کو امام کے افکار و آراء اور مکتب و تعلیمات کا مطالعہ کرنا ہوگا۔

* امام کے وصال کے بعد ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران کی قوت میں روز افزوں اضافہ ہوا ہے اور دشمن کی ہر سازش اور منصوبہ بندی ـ خواہ بعض سادہ لوح عناصر ان کی حمایت ہی کیوں نہ کریں ـ ایران کی عظیم الشان ملت کی استقامت اور بصیرت کی برکت سے آخر کار اسلامی جمہوریہ ایران کی تقویت پر منتج ہوتی ہے۔

* امریکہ، برطانیہ،دیگر مغربی ممالک اور منافقین، شہنشاہیت پرستوں نے گذشتہ سال کے صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والے فتنے کی حمایت کی؛ دشمنوں اور فتنہ انگیزوں کی ہمراہی 9 دی اور 22 بہمن کے عظیم قومی کارناموں اور ملت ایران کی عظمت کی پرشکوہ تجلی پر منتج ہوئی اور اس کے بعد بھی ملت ایران اور اس کے پڑھے لکھے نوجوان تقوی اور بصیرت کے سہارے دشمنوں کی ہر سازش کو ناکام بنا دیں گے۔

خطبہ دوئم:

* فلسطین کو یہودی بنانے کی سازش اور غزہ کی مسلسل ناکہ بندی اور متعلقہ مسائل بہت اہم ہیں۔ ان مسائل کو توجہ دینے اور ان کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

* فلسطین کو یہودی بنانے کی سازش کا مقصد فلسطین میں اسلام کی جڑیں سُکھانا ہے چنانچہ عالم اسلام اپنے پورے وجود کے ساتھ اس عظیم جرم کے مد مقابل کھڑا ہوجائے اور اس سازش پر عملدر آمد کا راستہ روک لے۔

* غزہ کی ناکہ بندی ایک وحشیانہ اقدام ہے اور امریکہ، برطانیہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دعویدار دیگر مغربی طاقتوں کی حمایت سے غزہ میں ڈیڑھ ملین انسانوں کا محاصرہ کرلیا گیا ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ اس سلسلے میں بعض عرب اور اسلامی ممالک بھی اپنی مکمل خاموشی کے ذریعے اس واقعے کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ بعض اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا پس پردہ کردار غدارانہ اور خائنانہ ہے۔

* آزاد اور بین الاقوامی پانیوں میں غزہ کو امداد پہنچانے والے قافلے پر صہیونیوں کا حالیہ حملہ اور اس سلسلے میں ان کی نفرت انگیز دروغ گوئی نے دنیا والوں کے سامنے صہیونیوں کے وحشی پن اور درندگی طشت از بام کر رکھی ہے اور یہ وحشی پن وہی حقیقت ہے جس کی صدا اسلامی جمہوریہ نے گذشتہ تیس برسوں سے اٹھائی ہوئی ہے مگر ہماری اس صدا کو جھوٹی اور ریاکار مغربی قوتوں کی طرف سے بے رخی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

* امداد رسانی کے قافلے پر صہیونیوں کا حملہ در حقیقت صہیونیوں کے محاسبے اور منصوبہ بندی میں بہت بڑی غلطی کا نتیجہ تھا؛ صہیونی ریاست جس طرح کہ لبنان پر حملہ کرتے وقت اور اس کے بعد غزہ پر حملہ کرتے وقت محاسباتی غلطیوں کی مرتکب ہوئی اس حملے میں بھی بڑی غلطی کی مرتکب ہوئی اور ان پےدرپے غلطیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ریاست قدم بقدم اپنے قطعی مقدر ـ یعنی فنا کی وادی میں سرنگونی ـ کے مرحلے کے بالکل قریب پہنچ رہی ہے۔

* نیویارک میں این پی ٹی کی نشست میں رونما ہونے والا واقعہ بھی بہت اہم اور قابل توجہ ہے۔ اس اجلاس کے نتائج سے معلوم ہوا کہ امریکہ جیسی جابر اور متکبر قوت کی نہ تو بات کا دنیا میں کوئی خریدار ہے اور نہ ہی اس کی رائی کی کوئی وقعت ہے۔ اس اجلاس کا نتیجہ جبر کی قوتوں کی خواہش کے بالکل برعکس تھا اور دنیا کے 189 ممالک نے دباؤ ڈال کر صہیونی ریاست کو این پی ٹی میں شامل ہونے کا پابند بنایا ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کے اتلاف اور انہدام کی ضرورت مد نظر ٹہری۔

* اسلامی جمہوریہ ایران، اپنی قوم کی 30 سالہ استقامت کی بدولت دنیا کی رائے عامہ میں تبدیلیوں کا سبب بنا ہوا ہے چنانچہ آج نہ صرف اقوام بلکہ حکومتیں بھی امریکہ کے مدمقابل کھڑے ہوکر ڈٹ جاتے ہیں اور اس کی رائے کے خلاف رائے دیتے ہیں۔

دوسرے خطبے کی آخری بات:

* یہ بین الاقوامی مسائل اور واقعات عظیم الشأن ملت ایران کے لئے اللہ کی بشارتوں میں سے ہیں…

 

تبصرے
Loading...