مومنین کے امتیازات

ہم خدا شناسی (١)کے باب میں یہ جان چکے ہیں، کہ خدا کے ارادہ کا اصل تعلق نیکیوں اور کمالات سے ہوتا ہے،اور برائیوں اور نقائص کا تعلق ارادۂ الٰہی سے با لتبع ہوتا ہے اسی کو دیکھتے ہوئے انسان کے متعلق بھی خدا کا اصلی ارادہ اس کی ترقی و تکامل اور ابدی خوشبختی تک رسائی اور وہاں کی ابدی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے سے تعلق رکھتا ہے اور تباہکاروں اور گنہگاروں کا عذاب اور اُن کی بد بختی جو ان کے برے انتخاب کے نتیجہ میں انہیں حاصل ہوئی ہے با لتبع خدا کے حکیمانہ ارادے میں شامل ہے او ر اگر عذاب و اخروی  بد بختی میں مبتلا ہونا خود انسان کے برے انتخاب کا نتیجہ نہ ہوتا، تو خدا کی بے پایان رحمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے، کہ اس کی ایک بھی مخلوق عذاب میں مبتلا نہ ہو(٢)

………………………………

١۔ درس نمبر ١١ خدا شناسی کی طر ف رجو ع کریں ۔

٢۔ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں ،(فبا لیقین اقطع لو لا ما حکمت بہ من تعذیب جا حدیک و قضیت بہ من اخلاد معا ندیک لجعلت النارکلہا بر داً و سلا ماّ و ما کا نت لاحد فیھا مقراً ولا مقاماً۔

لیکن یہ وہی خدا کی ہمہ گیر رحمت ہے کہ جس نے انسان کی آفرینش کا اقتضاء اس کے اختیارات و انتخاب کی خصوصیت قرار دیا ،اور ایمان و کفردونوں راستوں میں سے ہر ایک کے انتخاب اور اختیارات کا لازمہ ایک اچھے یا برے انجام تک پہنچ جانا ہے اس فرق کے ساتھ کہ نیک انجام تک پہنچ جانا، خدا کے اصلی ارادہ سے متعلق ہے اور دردناک عاقبت تک پہنچ جانا خدا کے تبعی ارادہ سے متعلق ہے اور یہی فرق اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تکوین میں بھی اور تشریع میں بھی(یعنی خلقت میں بھی اور دستور العمل میں بھی)نیکی کے پہلو کو ترجیح دی جائے یعنی انسان فطری طور سے ایسا خلق کیا گیا ہے کہ نیک کام اس کی شخصیت کو بنانے میں گہرا اثر رکھیں اور تشریعی اعتبار سے مکلف کے لئے سہل و آسان ہو تاکہ سعادت کے راستہ کو طے کرنے اور ابدی عذاب سے نجات پانے میں سخت اور جان لیوا تکلیفوں کا سامنا نہ کرنا پڑے(١)اور جزا وسزا کے موقع پر بھی اس کی جزا کے پلّے کو بھاری کردیا جائے اورخدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت کرجائے(٢)اور خدا رحمت کا یہ تقدم و رجحان بعض امور میں مجسم ہوکر سامنے ظاہر ہوجاتا ہے کہ جس کے بعض نمونے ہمیہاں پر آپ کے سامنے ذکر کررہے ہیں۔

ثوا ب میں اضا فہ

خدا وند عالم راہ سعاد ت کے طلبگا روں کے لئے مقام انعام میں سب سے پہلی جس جزاکا قائل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ صرف عمل کے برابر ثواب اپنے بندوں کو نہیں دیتا، بلکہ اس کو بڑھا کے عطا کرتا ہے ،یہ مفہوم قرآن مجید کی بعض آیتوں میں بالکل صاف بیان کیا گیا ہے ،من جملہ سورہ نمل کی آیت نمبر (٨٩) میں ارشاد ہورہا ہے،(مَن جَائَ بَالحَسَنَةِ فَلَہُ خَیر مِنہَا)جو کوئی بھی نیکی انجام دے گا اس سے بہتر اس کی جزا پائے گا۔

……………………

١۔ (یرید اللہ بکم الیسر ولا یر ید بکم العسر) بقرہ ١٥٨، وماجعل علیکم فی الدین من حرج ۔

حج  ٧٨،

٢۔ سبقت رحمتہ  غضبہ

اور سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر(٢٣)میں ارشاد ہے (وَمَن ےَقتَرِف حَسَنَةً نَزِدلَہُ فِیہَا حُسناً)، جو کوئی بھی نیک کام انجام دے گا ہم اس کی نیکی کو بڑھا دیں گے۔

اور سورۂ یونس کی آیت نمبر(٢٦) میں فرما رہا ہے(لِلَّذِ ینَ اَحسَنُوا الحُسنیٰ و زِےَادَة)، ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نیکی کی ہے ،نیکی بھی ہے اور اضافہ بھی ہے۔

اور سورۂ نساء کی آیت نمبر(٤٠) میں اس طرح آیا ہے کہ، (اِنَّ اللّہَ لَا ےَظلِمُ مِثقَالَ ذَرَّةٍ وَاِن  تِلکَ حَسَنَةً ےُضَاعِفہَا وَےُؤتِ مِن لَدُنہُ اَجراً  عظیماً)،

اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا انسان کے پاس نیکی ہوتی ہے تو اسے دوگنا کردیتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عطا کرتا ہے اور سورۂ انعام کی آیت نمبر(١٦٠)میں ارشاد الہی ہے:  (مَن جَائَ بِا لحَسَنَةِ فَلَہُ عَشرُ اَمثَالِہَا وَمَن جَائَ بِالسَّیئَةِ فَلَا ےُجزَیٰ اِلَّا مِثلَہَا وَہُم لَاےُظلَمُونَ)، جو شخص بھی نیکی کرے گا، اسے دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کرے گا اسے صرف اتنی ہی سزا ملے گی اور کوئی ظلم نہ کیا جا ئے گا ۔

گناہان صغیرہ کی بخشش

سعادت کی راہ پر چلنے والوں کیلئے ایک دوسرا امتیاز یہ ہے کہ اگر مومنین بڑے گناہوں سے پرہیز کرنے لگیں تو خدا اتنا مہربان ہے کہ وہ ان کے چھوٹے گناہ بھی معاف کردیگا اور اس کے اثر کو محو کردیگا،جیسا کہ سورۂ نساء کی آیت نمبر(٣١) میں ارشاد ہورہا ہے (اِن تَجتَنِبُوا کَبائِرَ مَاتُنہَونَ عَنہُ نُکَفِّر عَنکُم سَےِّاتِکُم وَنُدخِلکُم مُدخَلاً کَرِیماً)،اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے کہ جن سے تمہیں روکا گیا ہے پرہیز کر لوگے تو ہم دوسرے گناہوں کی پردہ پوشی کردیں گے اور تمہیں  با عزت منزل تک پہنچا دیں گے۔

واضح ر ہے کہ ایسے لوگوں کے چھوٹے گناہوں کو بخشے جانے کے لئے توبہ کی شرط نہیں ہے کیونکہ توبہ بڑے بڑے گناہوں(گناہ کبیرہ) کے بخشنے کا بھی سبب ہے۔

دوسروں کے اعمال سے استفادہ

مومنین کے لئے ایک دوسری برتری یہ ہے کہ خدا وند عالم فرشتوں اور اپنے خاص چنے ہوئے بندوں کے استغفار کو ان مومنین کے حق میں قبول کرتا ہے، اور سارے مومنین کی دعاؤں اور استغفار کو ان کے حق میں قبول کرتا ہے،اور یہاں تک کہ ان اعمال کے ثواب جو دوسرے لوگ کسی مومن کے لئے ہدیہ کرتے ہیں اس کو بھی ان مومنین تک پہنچاتا ہے ،یہ مطالب آیات اور روایات میں بہت کثرت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، لیکن چونکہ یہ موضوع شفاعت کے مسئلے سے بلا واسطہ رابطہ ر کھتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ قدر تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالیں اس لئے ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔

 

تبصرے
Loading...