موصوع ”تقوی” – تقوی كا مفہوم اور متقين كی صفات

رہبر انقلاب اسلامی كا درس تفسیر

تقوی : 

تقوی كا لفظ ايسا ہے جسے معاشرہ میں بہت دہرايا جاتا ہے ۔ تقوی كی تہذيب كو معاشرے میں عام كرنے كی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں كہ تقوی كا اس طرح معنی كيا جاۓ جسے آپ آسانی سے سمجھ سكیں ليكن تقوی كا لفظی معنی كيا ہے وہ ايك عليحدہ بحث ہے ۔ 

تقوی كا مفہوم: 

تقوی يعنی حركت كی حالت میں دوری اختيار كرنا ، نہ یہ كہ جمود كا شكار رہ كر پرھيز گار بننے كا خواب ديكھا جائے كيونكہ ايك دفعہ آپ بغير حركت كیے پرھيز گار بنتے ہیں مثلا آپ گھر میں بیٹھ جائیں ﴿اور كسی كے كام سے كام نہ ركھیں﴾ اس غرض سے كہ آپ پہاڑ سے نہ ٹكرا جائیں ، كسی كھائی میں نہ گر جائیں ، ڈرائيونگ يا كوہ پيمائی سے پرھيز كرتے ہیں تاكہ پرخطر راستوں سے اپنے دامن كو بچا سكیں۔ یہ ايك قسم كا اجتناب اور پرھيز ہے ليكن اسلام اس كی تلقين نہیں كرتا ۔ بلكہ اسلام كی تعليم یہ ہے كہ حوادث و واقعات كا سامنا كرتے ہوۓ پرھيز گاری سے كام لیں جيسے ايك ڈرائيور ، ڈرائيونگ كرتے ہوۓ بعض چيزوں سے اجتناب كرتا ہے اور خود كو بچاتا ہے۔ یہ وہی پرھيز گاری ہے جسے ہم نے پہلے عرض كيا ہے يعنی اپنی بابت خبردار رہنا اور احتياط كے ساتھ حركت كرنا ۔ پس یہاں كلمہ پرھيزگاری كا استعمال بالكل ٹھيك ہے ليكن جب ہم ملاحظہ كرتے ہیں تو ديكھتے ہیں كہ كثرت سے” متقين” كا ترجمہ “پرھيزگاروں” كی صورت میں بيان كيا گيا ہے حالانكہ یہ معنی ہمارے ذہنوں اپنی خاص ظرافت كے ساتھ موجود نہیں ہے۔ میں ترجيح ديتا ہوں كہ”پرہيزمندان” كہا جائے ليكن چونكہ یہ لفظ رائج نہیں ہوا ہے اس لئے اسے استعمال كرنے پر مصر نہیں ہوں۔ میں خود بھی گذشتہ سالوں میں تقوی كو پرواہ كرنے اور پرواہ ركھنے كے معنی میں سمجھتا تھا ليكن بعد میں اس طرف متوجہ ہوا كہ پرواكاران اور پروامندان دو نامانوس عبارات ہیں جبكہ كلمات كو اس طرح ہونا چاہیے كہ سننے میں سنگين محسوس نہ ہوں بلكہ رائج كلمات ہوں۔ 

لہذا تقوی كا معنی ہے حركت كی حالت میں دوری اختيار كرنا اور خبردار رہنا يعنی مختلف ميدانوں میں سرگرم عمل رہیں ليكن خبردار رہتے ہوۓ اور محتاط انداز میں حركت كریں يعنی ٹكراٶ ، بے راہ روی ، اپنے آپ كو اور دوسروں كو نقصان پہنچاۓ بغير اور انسانی حدود كے دائرہ میں رہتے ہوۓ حركت كی جاۓ تاكہ گمراہی سے بچا جا سكے ۔ اس كی وجہ یہ ہےكہ راستہ بہت خطر ناك ، طويل اور تاريك ہے۔ اس تاريك دنيا كا آپ مشاہدہ كر رہے ہیں جس پر مادی طاقتوں نے گرد و غبار كی تہہ لگا ركھی ہے ۔ وہی طاقتیں اپنے ارادوں كو مسلط كرتی ہیں جس سے بہت سے لوگ گمراہ راستوں پر چل نكلتے ہیں لہذا خبردار رہنے كی ضرورت ہے۔ كتنے ہی لوگ ہیں جو آج كی دنيا میں استكباری راستوں كی حقانيت كو قبول كر چكے ہیں ۔ دنياۓ مغرب كی راہ و روش یہ ہے كہ وہ كسی ايك حقيقت كے خلاف كمر بستہ ہو كر لوگوں كو ابھارتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے كہ ديكھا جاۓ وہ ايسا كيوں كرتے ہیں ؟ 

كيا یہی مقصد نہیں ہے كہ وہ چاہتے ہیں انسانوں كے افكار و نظريات كو اپنی طرف متوجہ كریں۔ قابل افسوس كی بات یہ ہے كہ كئی لوگوں كو انہوں نے اپنی طرف جذب بھی كر ليا ہے اور یہی وہ راہ حقيقت سے گمراہی ہے كيونكہ اگر ذرہ برابر غفلت كی گئی تو گمراہ ہونے كے امكانات پوری طرح مہيا ہیں لہذا اگر كوئی شخص چاہتا ہے كہ تقوی اختيار كرے تو پھر قرآن اس كی ہدايت كرتا ہے ليكن جو شخص پرھيز گار نہیں ہے اور آنكھیں بند كر كے آگے بڑھنا چاہتا ہے، كيا قرآن اس كی ہدايت كر سكتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ اس لئے كہ كوئی اچھی بات كسی ايسے شخص كے لیے كار گر ثابت نہ ہو پاتی جس كا دل كسی حقيقت كو قبول كرنے كے لیے تيارہی نہ ہو۔ ايسا شخص كسی حقيقت پر يقين نہیں كر سكتا اور وہ مدہوشی كی حالت میں اپنی يا دوسرے كی خواہشات كی خاطر گامزن رہتا ہے ۔ ايسے شخص كو قرآن ہرگز ہدايت نہیں كرے گا ۔ ہاں قرآن ايك صدا ہےليكن یہ صدا ايسے لوگوں كے كانوں تك نہیں پہنچ پاتی ۔ اسی مطلب كی طرف قرآن كريم نے ان الفاظ میں اشارہ كيا ہے: 

٫٫ اولئك ينادون من مكان بعيد ٬٬ ﴿ ۴۴ / فصلت ﴾ 

یہ ايسے لوگوں كی طرف ہی اشارہ ہے جنہیں دور سے صدا دی جاتی ہے ۔ آپ كبھی كسی ايسے شخص كی آواز كو دور سے سنتے ہیں جو اپنی طرف سے پوری شد و مد سے كوئی انتہائی اہم ترانہ گا رہا ہوتا ہے ليكن آپ كے اور اس كے درميان ايك كلو میٹر فاصلہ كی وجہ سے اس كی آواز تو آ رہی ہوتی ہے ليكن وہ كيا كہہ رہا ہے معلوم نہیں ہو سكتا كيونكہ اس كے الفاظ سنائی نہیں دے رہے ہوتے بلكہ صرف آوازآرہی ہوتی ہے۔ یہی آواز جتنے بھی اچھے انداز سے بيان كی گئی ہو اسے بالكل نہیں سمجھا جا سكتا ۔ اسی طرح ہے اگر ايك ديوار پر لكير كھينچی گئی ہو اور آپ اسے دور سے ديكھ رہے ہوں۔ ليكن جب اس كے قريب جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے كہ اس میں تو بڑی محنت سے نقش و نگاری كی گئی ہے جو دور سے دكھائی نہیں ديتی ۔ اسی بنا پر قرآن ان افراد سے كہہ رہا ہے كہ انہیں دور سے صدا دی جاتی ہے اور وہ كچھ نہیں سن پاتے لہذا انہیں چاہیے كہ وہ خبردار رہیں تاكہ ھدايت پا سكیں ۔

متقين كی صفات 

اس آيت كی تفسير بيان كرتے ہوۓ قائد انقلاب اسلامی نے فرمايا : پرھيز گار لوگوں كی چھ صفات ہیں اور ان چھ صفات كا ايك انسان میں جمع ہونا درحقيقت انسان كے اندر تقوی كے عناصر كو تشكيل ديتا ہے اور صحيح اور حقيقی تقوی انہی چھ صفات سے عبارت ہے اور انہیں چھ صفات سے انسان راہ كمال پر گامزن ہوتا ہے۔ البتہ اس سے پہلے درس میں ہم بيان كر چكے ہیں كہ تقوی انسان كے لیے تمام مراحل میں مدد گار ثابت ہوتا ہے يعنی جب آپ تقوی كے حامل ہوں گے تو پھر قرآن سے درس بھی حاصل كر سكتے ہیں اور ہدايت بھی اور جوں جوں تقوی كے مراحل بڑھیں گے قرآن فہمی میں اضافہ ہوتا چلا جاۓ گا۔ اگر كوئی شخص تقوی كے اعلی مراتب پر فائز ہو تو وہ قرآن كی ظرافتوں اور عميق نكات اور گہرے معانی تك بہتر رسائی حاصل كر سكتا ہے ۔ تقوی صرف قرآن فہمی كی ابتداء میں ہی ضروری نہیں بلكہ تمام مراحل میں ضروری ہے۔ لہذا يوں نہیں ہے كہ اگر كوئی پاكيزگی كے ساتھ قرآن فہمی میں اترا تو پھر فورا بطن قرآن تك رسائی حاصل كرلے ۔ نہیں ايسا نہیں ہے بلكہ ہرہرمرحلے میں جتنا جتنا پرھيزگاری میں قدم آگے بڑھے گا اسی مقدار میں قرآن فہمی میں بھی پيشرفت حاصل ہوگی ۔ اب یہ چھ صفات تمہيد ہیں اس مرحلہ كے لیے جس سے انسان ايك متوسط حد تك متقی بن سكتا ہے اور اس كے بعد بلند مقامات كا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ان چھ صفات میں سے پہلی صفت ٫٫ الذين يؤمنون بالغيب ٬٬ ہے ۔

تبصرے
Loading...