موت کے ہاتھ میں ہے سب کا گریبانِ حیات

ان دنوں  بلوچستان میں  بہتالہو،گرتی لاشیں ،اجڑتی بستیاں  اورلاپتہ افرادکے لواحقین کے نالوں  اورفریادوں  نے ہرپاکستانی کادل زخمی کرکے رکھ دیاہے اورادھردردِدل رکھنے والے بلوچ زعماء بھی آنسوؤں  سے لبریزاپنی داڑھیوں  کاواسطہ دیتے ہوئے اسلام آبادکے ایوانوں  میں دہائی دے رہے ہیں  مگرآگ کایہ الاؤ پھیلتاہی جارہاہے اورمرض ہے کہ بڑھتا ہی جارہاہے جوں  جوں  دواکرتے ہیں ۔ایوانِ اقتدارکے سردرویوں  سے یوں معلوم ہوتاہے کہ گویایہ کسی دوسرے ملک کی داستان سنائی جارہی ہے یاکسی اجنبی علاقے کی بات ہورہی ہے جس سے کبھی وہ واقف ہی نہیں ۔ اس خونی برسات سے ایسی لاتعلقی کااظہارکیاجارہاہے جیسے ان مرنے والوں  سے ہماراکوئی تعلق ہی نہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ وہاں  ہر مرنے ولا پاکستانی ہے چاہے وہ کسی دشمن کی سازشوں  میں  مبتلااپنے ہی بھائیوں سے ان دیکھی اوربے مقصدجنگ کی آگ کاایندھن بن رہاہے یاپھرکوئی سیکورٹی فورسزکے وہ جوان جو ملک کی حفاظت کیلئے بے دریغ جا نیں  قربان کررہے ہیں یاپھرکوئی بلوچ چرواہااپنی بکریوں  کی حفاظت کرتاہوایاکوئی برسوں  سے آبادکارپنجابی حجام خدمت سرانجام دیتا ہوا ماردیاجاتاہے یاپھرعلمی درسگاہوں  میں  بلوچ نسل کی برسوں  کی جہالت ختم کرنے اورانہیں  علم کی روشنی سے منورکرنے والے پنجابی اساتذہ کودن دیہاڑے قتل کرکے ان کی لاشوں  کی سرِعام پھینک دیاجاتا ہے لیکن ان سب کے باوجوداسلام آبادکے ایوان ہائے اقتدارمیں بلوچ صدرکی موجودگی میں  ایک گھمبیرخاموشی کیوں  طاری ہے؟

دھڑادھڑکمیٹیاں  بن رہی ہیں  ۔نت نئے پیکج ہردن سامنے آرہے ہیں  مگرعمل کی توفیق کہیں  بھی نظرنہیں  آتی۔آئی جی ایف سی میجرجنرل عبیدسے لیکر آرمی چیف تک،سی آئی ڈی سے ڈی جی آئی ایس آئی تک حکمرانوں  کوجھنجوڑجھنجوڑکربتارہے ہیں  کہ دامن کی یہ آگ پورے وجودکواپنی لپیٹ میں  لینے کوہے مگرجواب میں  صرف بڑھکوں  اورجھوٹے دعوؤں  کے سوا کچھ نہیں ،آخرکیوں ؟جب سارے ثبوت اورشواہدمل چکے ہیں  کہ یہ گھناؤناکھیل امریکااپنے دواتحادیوں  کے ساتھ کھیل رہاہے ،امریکی کانگرس میں  سی آئی اے کے اشارے پرمنصوبہ سازوں  نے بساط بچھادی ہے اوران کی گفتگوصرف چشم کشاہی نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مہروں کوکام بھی سونپ دیاگیاہے۔امریکی سفیرکی خطرناک سرگرمیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں توپھریہ مجرمانہ خاموشی اورغفلت کاسبب کیاہے؟

میں  اپنے سابقہ دوکالموں میں  بڑی وضاحت کے ساتھ اس خطرناک سازش کی طرف ارباب اختیارکی توجہ دلاچکاہوں کہ اب بلوچستان میں لینے والے ہاتھ توکم ہوسکتے ہیں  لیکن بلوچستان میں اسلحہ پھینکنے اورڈالرپھونکنے والوں  کی کوئی کمی نہیں ۔پچھلے چندبرسوں میں نیٹوکے جدیداسلحے سے بھرے ہوئے ہزاروں کنٹینرزغائب کردیئے گئے جن کاآج تک کوئی سراغ نہیں  مل سکااورپھرکوئٹہ شوریٰ کے پروپیگنڈے کی آڑمیں  سینکڑوں  امریکی جاسوس اہلکارجو یہاں  ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت باغیوں  میں  اسلحہ اوررقوم کی تقسیم کے کام پرمامور تھے ،ریمنڈڈیوس کی گرفتاری پرپول کھل جانے پران کوفوری طورپرنکال دیاگیالیکن جب سے پاکستان نے امریکااورنیٹوسپلائی پرپاؤں  رکھاہے،بلوچستان میں امریکا، اسرائیل اوربھارت کے کنسورشیم نے فنڈزاوراسلحے کی ترسیل میں  اچانک اضافہ کردیاہے اورایک اطلاع کے مطابق اب بلوچستان کے پانچ اضلاع میں نئی صف بندی شروع کردی گئی ہے اوراخترمینگل کے بھائی جاویدمینگل کی قیادت میں لشکربلوچستان کومالامال کیاجارہاہے جس کی سربراہی ڈاکٹراللہ نذرکے سپردکی جانے کی اطلاع ہے۔

برہمداغ بگٹی سوئٹزرلینڈمیں ،ہیربیارمری اورجاویدمینگل لندن میں  اورڈاکٹراللہ نذربلوچستان میں امریکی سرما ئے سے جہاں  خودعیاشی کررہے ہیں  وہاں  ملک کی جڑیں  کاٹنے کیلئے ملک دشمن قوتوں  کے آلہ کاربنے ہوئے ہیں ۔بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افرادکی بڑی تعدادفراری کیمپوں میں  موجودہے یاپھرافغانستان میں  تربیت حاصل کررہی ہے ۔دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں  کہ خودبلوچستان کی صوبائی کابینہ کے لوگوں نے لشکرترتیب دے رکھے ہیں جوان حالات میں یقیناخرابی میں  اضافے کاموجب بن رہے ہیں اوریہ بات بھی ہرکسی کے علم میں  ہے کہ بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں کسی بھی دفترمیں جتنامرضی اسلحہ حاصل کرلیں  یاکتنابڑامرضی اسلحے کاڈھیرلگوالیں اس پرکوئی قدغن نہیں  بلکہ سب کچھ آسانی سے میسرہے اوراس مقصدکی خاطرامریکاکاکراچی میں موجودقونصل خانہ اہم کرداراداکررہاہے اوربلوچستان کے حوالے سے دہشتگردی کی مددکرنے والاتمام لٹریچرامریکاسے تیارکرکے لایاجارہاہے جوکراچی میں  امریکی قونصل خانے میں  تعینات سی آئی اے کے افراداپنی مجوزہ گاڑیوں میں  سیاسی نمبرپلیٹ کی سہولت کی آڑمیں  ان دہشتگردوں تک پہنچانے کافریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔

ادھردوسری طرف میڈیامیں  کچھ تجزیہ نگاراپنی لاعلمی کی بناء پریاپھرکسی مخصوص ایجنڈے کے تحت یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں  کہ بلوچستان کوزبردستی الحاق پرمجبورکیاگیاجوسراسرجھوٹ ، لغوہے اور وہ تاریخ سے بددیانتی کے مرتکب ہورہے ہیں  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برٹش بلوچستان توایک جمہوری عمل کے ذریعے ووٹ  کے ساتھ پاکستان میں  شامل ہواتھااوررہی بات ریاست  قلات ،تواس میں  تین ریاستیں بیلہ،خاران اورمکران تھیں  جہاں  زبان،رنگ ونسل کے حساب سے بھی قلات سے علیحدہ لوگ بستے تھے۔قلات میں  ساروان اور جھالاوان کے علاقون میں  بروہی بولی جاتی تھی جبکہ خاران،مکران اوربیلہ میں  بلوچی بولی جاتی تھی۔آج بھی وہ لوگ زندہ ہیں  جواس بات کی گواہی دیتے ہیں  کہ جام غلام قادرجس نے لس بیلہ کو قلات سے الگ کرکے پاکستان کے ساتھ ملانے کافیصلہ کیاتھا،وہ اکثرپاکستان کانام لیکرآبدیدہ ہوجایاکرتے تھے اوریہ کہتے ہوئے ان کی ہچکی بند ھ جاتی تھی کہ اس ملک میں  کوئی مظلوم نہیں  لیکن سب سے زیادہ مظلوم پاکستان ہے۔

خاران کے شیرانی اورمکران کے نواب بھائی خان توساری عمربرملا اس بات کااعتراف کرتے رہے کہ ہم اپنی مرضی سے قلات سے علیحدہ ہوئے تھے۔آج بھی بزرگ بلوچ موجود ہیں  جو خان آف قلات کے آمرانہ دورکی کہانیاں  نہیں  بھولے بلکہ ان کے وزیراعظم شمس الدین کے خلاف” شمس گردی” نامی کتاب بھی ایک بلوچ نے تحریرکی جس کی پاداش میں  اسے ریاست بدرہوناپڑااوربقیہ زندگی ملتان میں گزارنی پڑی۔خودخان آف قلات کاوہ بیان آج بھی تاریخ کی امانت ہے کہ مجھے رسول اکرمۖ کی خواب میں زیارت ہوئی جہاں  انہوں  نے فرمایاکہ میرے نام پرایک ملک بن رہاہے ،اس میں  فوری شامل ہوجاؤلیکن یہ بھی تاریخ کاالمناک حصہ ہے کہ جہاں خودبلوچ سرداروں  نے اپنے علاقوں میں اپنے عوام کی تعمیروترقی کے نام پرنہ صرف لوٹ مارکامیدان گرم کررکھاتھاوہاں  ان کوزندگی کی بنیادی سہولتوں  سے بھی اس لئے محروم رکھاگیاکہ کل کلاں  یہ ان سرداروں  کی برابری کادعویٰ نہ کردیں ۔

لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے سول اورفوجی حکمرانوں  نے بھی ان سادہ بلوچوں  کے پاکستان میں خلوص کے ساتھ شامل ہونے کامذاق اڑایااوراپنے اقتدارکوطوالت دینے کیلئے ان کومقامی سرداروں  کے چنگل سے چھڑانے میں  کبھی کوئی اہم کردارادانہیں  کیا۔ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں  نے ان سادہ لوح بلوچوں سے بھائیوں  جیساسلوک کرنے میں  ہمیشہ گریزکیاجس سے یہ ان کے اندریہ تاثر پیداہوناشروع ہوگیاکہ وفاق میں  بیٹھے ہوئے حکمران بھی ان سرداروں  کی طرح ہم پراعتبارنہیں  کرتے۔جہاں  ایوب خان کے مارشل لاء کاذکرکیاجاتاہے وہاں اس زمانے میں  پرنس عبدالکریم کی قیادت توایک محدودواقعہ تھا۔ایساتوانگریزوں  کے زمانے میں بلوچستان کی تاریخ میں کئی بارہوالیکن بلوچستان میں میرنوروزکی بغاوت اورپھرایوب خان کی وعدہ خلافی بلوچوں  کوآج بھی بری طرح یادہے۔ابھی چنددن پہلے اخترمینگل میڈیاپرپیپلزپارٹی کے روٹی کپڑے مکان کی تشریح یوں  کررہے تھے کہ اس موجودہ حکومت نے ہمیں  کھانے کیلئے گولی ،پہننے کیلئے کفن اوررہنے کیلئے قبردی ہے۔

بلوچستان کے معاملے پرجہاں باربار اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج کی زیادتیوں  اورغلطیوں  کاتذکرہ کیاجارہاہے وہاں ہمارے سیاستدانوں کی حماقتوں ،نفرتوں ،غروراورتکبرمیں نچڑی ہوئی پالیسیوں کاذکرنہ کرناصریحاً ناانصافی ہوگی۔دلچسپ صورتحال تویہ ہے موجودہ حکومت ساراملبہ سابقہ فوجی حکومت پرڈال کر خودکومعصوم اور بری الذمہ قراردیتے ہوئے عوام کی آنکھوں میں  دھول جھونکنے کی کوشش کرتی ہے اورنجانے کیوں اپنے عظیم رہنما ذوالفقار علی بھٹوکی چارسالہ فوج کشی کو بھول جاتی ہے جب انہوں  نے نواب اکبربگٹی کے ذریعے لندن پلان اورعراقی اسلحے کا ڈرامہ رچاتے ہوئے منتخب بلوچی وزیراعلیٰ عطاء اللہ مینگل کی حکومت کوبرطرف کردیاتھااورنواب اکبربگٹی کوبلوچستان کاگورنرمقررکرکے بلوچستان میں  فوجی ایکشن کاحکم دیاتھا۔ بھٹو جب تک حکمران رہے انہوں  نے بلوچستان میں  فوجی ایکشن برقراررکھابلکہ بلوچوں  کی ساری حقیقی قیادت فوجی آپریشن سے پہلے بھٹوآمریت میں  غداری کے مقدمے میں  جیل بھیج دی گئی تھی اوریہ غداری کامقدمہ جیل میں  چلتاتھااوراس کی ساری کاروائی میں سیاسی لوگ گواہ تھے۔آج بھی بلوچستان میں ایسے بے شمارلوگ آپ کوملیں  گے جن کو ذوالفقارعلی بھٹوسے نفرت اوران کے غرورتکبرکے خلاف ان کے دلوں میں  آگ بھری ہوئی ہے۔

میری حیرت اس وقت اوربڑھ جاتی ہے جب موجودہ حکومت کل کے واقعات کوعوام کے ذہنوں  سے کھرچ کرنکالنے کوناکام کوشش کرتی ہے۔اپنے عظیم رہنماذوالفقار علی بھٹو کو معصوم ثابت کرنے کیلئے فوراًفوج پریہ الزام دھردیاجاتاہے کہ اس وقت ذوالفقاربھٹوپرفوج حاوی تھی اوروہ ان کے سامنے بے بس تھا۔ایک لمحے کیلئے اگریہ مان لیاجائے لیکن جس فوجی جنرل ٹکاخان نے بلوچوں  کاقتل عام کیااس کوپیپلزپارٹی کاسیکرٹری جنرل کس نے مقررکیااوراس کوپنجاب کوگورنربناکرکیاپیغام دیاگیاتھا۔یہ بات کہتے ہوئے ان کی زبان کیوں  جلتی ہے کہ ایک فوجی جنرل جس کودن رات آپ گالیاں  نکالتے ہیں  ،اسی جنرل نے بلوچوں  کوعام معافی دیکربلوچستان میں نفرتوں  کوختم کیااوران کی دلجوئی کیلئے کئی ایسے اقدامات اٹھائے جس سے ان بلوچوں  کے زخم مندمل ہونے میں  مددملی۔اس کادوربلوچستان کی تاریخ میں سب سے پرامن ادوارمیں  سے تھا۔

پچھلی کئی دہائیوں  سے قدرتی گیس سوئی بلوچستان کے مقام سے نکل رہی تھی لیکن گیس اسی فوجی کے دورمیں بلوچستان کوملی،بلوچستان کے کئی ہزاردیہاتوں  کو سستی بجلی مہیاکی گئی حالانکہ بلوچ اس دورمیں  افغانستان کی پالیسی کی وجہ سے ناراض تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ ان کے یہاں  آنے سے بلوچ آبادی کاتناسب کم ہورہاہے لیکن اس وقت  کے افغان جہاد کے بارے میں  اس فوجی کی دلیرانہ پالیسی نے اس کی سیاسی بصیرت کو ثابت کردیااور پاکستان نے ثابت قدمی سے اپنے مسلمان بھائیوں  کی مددمیں  کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں  کیا۔ افغان جہادکے دوران پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں  کے ساتھ انصارمدینہ والا سلوک روارکھا ۔افغان جہادکے بارے میں  اختیارکردہ پالیسی کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان کی اپنی سا  لمیت محفوظ رہی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس خطے میں  سرخ ریچھ کوایسی عبرتناک شکست دی جس نے چندسال پہلے پاکستان کودوٹکڑے کرنے میں  کھل کربھارت کی مددکی تھی بلکہ اسی روس کے جہاں  کئی ٹکڑے ہوئے وہاں  کئی نئی مسلمان ریاستیں  دنیامیں  معرض وجودمیں  آئیں جبکہ افغان جہادکے دوران پاکستان کوہرروزنت نئے مصائب سے دوچارکیاگیا،مالی نقصان کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ جانی نقصان بھی اٹھاناپڑالیکن تاریخ پاکستان کے اس سرفروشانہ کردارکوکبھی فراموش نہ کرسکے گی۔

روس نے پاکستان کوافغان جہادکاساتھ دینے پر بلوچستان میں  حالات کوخراب کرنے کی کئی مرتبہ کوشش بھی کی ۔مکران کے کافی لوگ مسقط کی فوج میں  بھرتی ہوتے تھے جبکہ روس نوازاس کے انتہائی خلاف تھے۔بھرتی کے ایک مرکزپرفائرنگ میں  مسقط کا ایک کرنل ماراگیا۔فوجی عدالت میں مقدمہ چلا جہاں ان مجرموں  کوسزاسنادی گئی،لیکن عدالت فوجی تھی اس لئے پروپیگنڈے کارخ فوج کی طرف موڑدیاگیالیکن اس کے باوجودبلوچستان کے وہ دس سال تاریخ کے انتہائی پرامن سال گنے جاتے ہیں  ۔آج بھی سندھ میں  آباد٦ ملین،پنجاب کے ٨  ملین،،بلوچستان کے ٣ ملین اورخیبرپختونخواہ کے ڈیڑھ ملین بلوچ اس بات کے گواہ ہیں ۔

بدقسمتی سے فاسق کمانڈوکی حکومت،اس کاتکبر،غرور،نفرت ،پھرفوج کا آپریشن اوراب پچھلے چارسالوں  سے جمہوری حکومت کی دانستہ لاپرواہی نے بلوچستان کواس حال پرپہنچادیاہے کہ ہرکوئی بھانت بھانت کی بولی بول رہاہے اورہرکوئی اپنے تعصب اوراپنے نقطہ نظرکے پیمانے سے بلوچستان کے حالات پرتبصرہ کرتاہے۔جس کسی کوفوج سے نفرت ہے وہ اس کوموردِ الزام ٹھہراتاہے۔جس کوسیاستدانوں  سے بغض ہے وہ انہیں  تختۂ مشق بناتاہے۔اسی طرح کچھ مفادپرست بلوچ جوکسی کے ایماء پرپچھلے پچاس سال سے پنجاب کوگالیاں  دے رہے ہیں انہوں  نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں  کی ظالم دراصل کون ہے ۔ ملک دشمن قوتوں  کے ایماء پربرسوں  سے قیام پذیرپنجابی آبادکاروں  کی لاشیں  تحفے میں  پنجاب کوروانہ کی جارہی ہیں لیکن یادرکھیں  یہ ساٹھ ،ستریااسی کی دہائی نہیں جب آپ نفرت کے جھوٹے پروپیگنڈے کی آڑمیں  چھپ جاتے تھے۔اب جوکوئی جو کچھ کررہاہے لوگوں  کے دلوں  پرنقش ہے۔اس کے جواب میں  جوخونی طوفان اٹھے گاتووہاں نہ ظلم کرنے والے بچیں  گے اورنہ ہی نفرت کے بیج بونے والے اپنے گھروں  کواس یلغار سے محفوظ رکھ سکیں  گے بلکہ یہ طوفان توسب سے پہلے انہی گھروں  کوملیامیٹ کرتاہواعبرت کے ایسے نقوش چھوڑجائے گاکہ صدیوں  تک آنے والی نسلیں ان کرداروں پر لعنت ملامت کرتی رہیں  گی۔

قتل کرکے  ہمیں  تم  زندہ رہو  گے کب تک

موت کے ہاتھ میں  ہے سب کا گریبانِ حیات

تبصرے
Loading...