موت کے بعد انسان کی روح کسی حیوان میں منتقل ھوتی ہے، یا برزخ میں رہتی ہے؟

۱-کیا انسان کی روح موت کے بعد کسی حیوان میں قیام پاتی ہے؟ یا ۲-برزخ میں آوارہ ھوتی ہے؟ ۳-قرآن مجید میں آیا ہے کہ انسان مرنے کے بعد منتقل ھوتا ہے، کہاں اور کس وقت؟
ایک مختصر

موت کے بعد انسان کی روح کا کسی دوسرے انسان یا حیوان میں منتقل ھونا، تناسخ کے قائل لوگوں کا اعتقاد ہے اور اسلام کے مطابق باطل اور مردود ہے- روح، دنیا میں بدن سے جدا ھونے کے بعد عالم برزخ میں ایک مثالی بدن میں منتقل ھوتی ہے اور قیامت تک اسی حالت میں رہتی ہے- عالم برزخ ، جسے بعض اوقات عالم قبر اور عالم ارواح بھی کہا جاتا ہے، دنیا و آخرت کے درمیان ایک عالم ہے- اس قسم کے عالم کا موجود ھونا قرآن مجید کی آیات اور روایتوں سے ثابت ھوتا ہے-
تفصیلی جوابات

۱- موت کے بعد انسان کا انجام ان مسائل میں سے ہے، جس نے ہمیشہ انسان کے ذہن کو مشغول کردیا ہے اور وہ اس سوال کا ایک اطمینان بخش اور استدلالی جواب تلاش کرنے کی کوشش میں لگا ہے-

موت اور روح کے منتقل ھونے کے بارے میں مختلف نظریات اور تفسیروں کا مطالعہ کرنے کے دوران ہم ایک ایسے نظریہ سے دوچار ھوتے ہیں، جو تناسخ کے نام سے مشہور ہے- اس نظریہ کے مطابق، روح، بدن سے جدا ھونے کے بعد کسی دوسرے انسان یا حیوان و غیرہ میں منتقل ھوتی ہے- یہ عقیدہ قدیم زمانہ سے دنیا کے بعض علاقوں میں رائج تھا- ھندوستان اور یونان کے بعض فلاسفہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان کی روح پہلے بدن سے جدا ھونے کے بعد کسی ایسے دوسرے بدن میں منتقل ھوتی ہے جو اس انسان کے مزاج اور فطرت کے متناسب ھو-

اس عقیدہ کے تمام دنیا میں طرفدار پائے جاتے ہیں- عالم اسلام میں بھی بعض فلاسفہ اور متکلمین اور فرقے ایک دوسری صورت میں اس عقیدہ کے پیرو بنے ہیں- عالم عرب کے کچھ محدود علاقوں میں، خاص کر موجودہ شام اور لبنان میں دروزیوں { اسما عیلیہ سے منشعب شدہ ایک فرقہ} کو تناسخ کا معتقد جانا جاسکتا ہے-

پوری تاریخ میں غالی فرقوں کی ایک مشترک خصوصیت تناسخ رہی ہے- ان انتہا پسند گروھوں کے قائدین نے تناسخ کے عقیدہ کی وجہ سے اپنے پیرووں میں اپنے آپ کو امام، پیغمبر اور حتی کہ خدا کے عنوان سے متعارف کیا ہے-

تناسخ کے قائلوں کی پانچ قسمیں ہیں:

۱-۱: ” نسوخیہ” ان کا اعتقاد ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح کسی دوسرے انسان میں منتقل ھوتی ہے، اگر مرنے والا انسان اچھا ھوتو اس کی روح نیک انسان کے بدن میں منتقل ھوتی ہے اور اگر برا ھو تو اس کی روح کفار و فجار کے بدن میں منتقل ھوتی ہے-

۲-۱: ” مسوخیہ” ان کا اعتقاد ہے کہ مرنے والا انسان نیک ھو تو اس کی روح اچھے حیوانوں میں، جیسے بلبل اور قمری { فاختہ} میں منتقل ھوتی ہے اور اگر مرنے والا انسان برا ھوتو اس کی روح کتے اور سورجیسے برے حیوانوں میں منتقل ھوتی ہے-

۳-۱: فسوخیہ”، ان کا اعتقاد ہے کہ اگر مرنے والا انسان نیک ھو تو اس کی روح مفید نباتات جیسے پھول اور میووں میں منتقل ہوتی ہے اور اگر برا ہو تو اس کی روح تلخ اور بدبودار نباتات جیسےحنظل میں منتقل ھوتی ہے-

۴-۱: ” رسوخیہ” ان کا اعتقاد ہے کہ نیک انسانوں کی روح قیمتی معدنیات ، جیسے جواہرات میں منتقل ھوتی ہے اور برے انسانوں کی روح پست معدنیات میں منتقل ھوتی ہے-

۵-۱: تناسخ کے قائلوں کے ایک گروہ کا اعتقاد ہے کہ انسان کی روح پہلے جمادات میں، پھر حیوانات میں اور اس کے بعد انسان میں منتقل ھوتی ہے- [1]

تناسخ کے قائلین کے نظریہ کے مطابق روح کا منتقل ھونا مسلسل اور لامتناہی ہے- اس قسم کے تفکر کے مطابق انسانوں کی بہشت اور جہنم اسی نقل و انتقال یعنی نیک انسانوں کے نیک بدنوں میں اور برے انسانوں کے برے بدنوں میں منتقل ھونے کی صورت میں ہے- ان کے اعتقاد کے مطابق روح کا یہ نقل و انتقال تب تک جاری رہتا ہے یہاں تک کہ روح پاک و صاف ھوکر آسمان کی طرف جائے اور فرشتوں کے بدن میں قیام پاکر ملائکہ میں تبدیل ھو جائے-[2]

اسلام کے نظریہ کے مطابق تناسخ باطل اور مردود ہے- اس کے باطل ھونے کی دلائل جاننے کے لئےآپ ہماری اسی سائٹ کے سوال : ۱۰۹۹ { سائٹ: ۱۱۵۴} ، عنوان: ” دید گاہ اسلام دربارہ تناسخ ” کا مطالعہ کرسکتے ہیں-

امام صادق {ع} نے ایک طولانی حدیث میں فرمایا ہے :” تناسخ کے قائلین نے دین کی راہ کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کی ہے اور اپنے نفس کو شہوت کی سرزمین پر قرار دیا ہے، ان کے لئے نہ بہشت ہے اور نہ جہنم اور نہ پھر سے زندہ ھونا ہے، ان کے لئے قیامت وہی ایک بدن سے روح کے نکل کر دوسرے بدن میں داخل ھونا ہے- [3]

اسلام کے نظریہ کے مطابق موت، دنیوی زندگی کا خاتمہ اور مادی بدن سے روح کا جدا ھونا ہے – اور اس کے بعد روح برزخ کے مثالی بدن میں داخل ھوکر نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے-

مثالی جسم اور بدن، مادی جسم کے مشابہ ہے- لیکن اس میں مادی بدن کی بہت سی خصوصیات نہیں ہیں- امام صادق {ع فرماتے ہیں:” جب خدا وند متعال ایک مومن کی روح کو قبض کرتا ہے تو، اسے دنیوی بدن جیسے ایک بدن میں قرار دیتا ہے- – – [4]

۲- مرنے کے بعد انسان کے انجام کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: حقیقت میں انسان دو مرتبہ مرنے اور دو مرتبہ زندہ ھونے کا تجربہ کرتا ہے- قرآن مجید اس موضوع کے بارے میں یوں ارشاد فرتا ہے:” وہ لوگ کہیں گے پروردگار؛تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو مرتبہ زندگی عطا کی تو اب ہم نے اپنے گناھوں کا اقرار کر لیا ہے تو کیا اس سے بچ نکلنے کی کوئی سبیل ہے؟” [5]

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی سے مراد دنیا کی موت اور برزخ کی زندگی اور برزخ کی موت اور حساب کے لئے قیامت میں زندہ ھونا ہے-[6]

لیکن برزخ کیا ہے؟

” برزخ” دو چیزوں{ مادہ و روح- – -} کے درمیان فاصلہ، حائل اور واسطہ ہے اور ” عالم مثال” کو اس لئے عالم برزخ کہتے ہیں کہ اجسام کثیفہ { مادی} اور عالم ارواح مجرد کے درمیان فاصلہ ہے اور دنیا و آخرت کے درمیان فاصلہ ہے-[7] عالم برزخ کو کبھی عالم قبر اور عالم ارواح بھی کہا جاتا ہے – برزخ دنیا و آخرت کے درمیان ایک عالم ہے – اس قسم کے عالم کے وجود کے بارے میں قرآن مجید کی آیات و روایات دلیل پیش کرتی ہیں-

قرآن مجید کی بعض آیات میں مرنے کے بعد برزخی زندگی کی بات کی گئی ہے- من جملہ اس آیہ کریمہ میں ارشاد ھوتا ہے:”- – – ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے-“[8] بظاہر اس آیت سے دنیا و آخرت کے درمیان ایک عالم کے وجود کا ثبوت ملتا ہے –

جن آیات سے اس قسم کے عالم کا صراحت کے ساتھ ثبوت ملتا ہے ، وہ شہیدوں سے متعلق آیات ہیں، جیسے:” اور خبردار راہ خدا میں قتل ھونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں-“[9]

برزخ، صرف عالی مقام مومنین ، جیسے شہیدوں کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ فرعون اور اس کے ساتھیوں جیسے طغیان گر کفار کے لئے بھی برزخ ہے، قرآن مجید میں آیا ہے: ” وہ { فرعون اور اس کے ساتھی} ہر صبح و شام آگ میں قرار پاتے ہیں اور قیامت برپا ھونے پر انھیں حکم دیا جاتا ہے کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کیا جائے-“[10]

جس طرح اشارہ کیا گیا کہ مذکورہ آیات، موت کے بعد برزخی زندگی کی تائید کرتی ہیں، تھوڑا سا غور کرنے کے بعد ہم ان آیات کے مضمون سے صالحین اور گناہگاروں کی حیات کی کیفیت معلوم کرسکتے ہیں-

ائمہ اطہار {ع} سے نقل کی گئ متعدد روایتیں پائی جاتی ہیں ، جن سے انسان کی برزخی زندگی کی کیفیت معلوم ھوتی ہے-

امام صادق {ع} نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ:” برزخ وہی قبر کا عالم ہے، جو دنیا و آخرت کی پاداش و کیفر ہے، خدا کی قسم ہم آپ کے بارے میں نہیں ڈرتے ہیں، لیکن برزخ سے-“[11]

اس کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں حضرت امام صادق {ع} نے مومنین کی ارواح کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے:” وہ بہشت کے کمروں میں قیام پائے ہیں، بہشتی کھانے کھاتے ہیں، اور بہشتی شربت پیتے ہیں اور کہتے ہیں: پروردگارا، جلدی قیامت برپا کرنا اور ہم سے کیے گئے وعدے پورے کرنا-“[12]

البتہ عالم برزخ، قیامت اور جاوداں بہشت و جہنم کے لئے عارضی منزل اور تمہید ہے- عالم برزخ میں مکمل طور پر کسی کا حساب و کتاب نہیں کیا جاتا ہے، اور انسان کے اعمال کے مطابق اسے مکمل حکم یا سزا نہیں ملتی ہے- قیامت میں مسئلہ خلود کے علاوہ عذاب و پاداش کی کیفیت ان دو عالموں کا فرق ہے- قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:” وہ جہنم جس کے سامنے ہر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ھوگی تو فرشتوں کو حکم ھوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو-[13] یہ آیہ شریفہ برزخیوں کے عذاب کو آگ مہیا کرنا اور قیامت کے عذاب کو اس میں داخل کرنا شمار کرتی ہے- یہ تفاوت، برزخ اور بہشت کی نعمتوں کے درمیان بھی پائی جاتی ہے-

بعض روایتوں کے مطابق مومنین کے ایک گروہ کے لوگ، جو حق کا اعتقاد رکھتے تھے لیکن دنیا میں مرتکب گناہ ھوئےہیں اور توبہ کرنے کی توفیق حاصل نہیں کی ہے، انھیں برزخی عذاب سے دوچار کیا جائے گا، تاکہ ان کا وجود گناھوں سے پاک ھو جائے اور بہشت خلد میں داخل ھونے کی لیاقت پیدا کریں گے-[14]

برزخ کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل عناوین ملا حظہ ھوں:

۱- تکامل برزخی، سوال: 20246{ سائٹ: ur19481}

۲- آگاہی از احوال اموات در عالم برزخ، سوال: 20246{ سائٹ: ur19481}

۳- برزخ و زندگی برزخی، سوال: ۳۸۹۱{ سائٹ: ۴۱۶۰}

۴- ثواب و عقاب در برزخ، سوال: ۵۶۷۴{ سائٹ: ۶۱۴۶}

 

[1] طیب، سید عبد الحسین، كلم الطيب در تقرير عقايد اسلام، ص 638 طبع سوم، انتشارات کتابفروشی اسلامی.

[2] حسنی رازی، سید مرتضی، تبصرة العوام فی معرفة مقالات الانام، ص 89، طبع دوم، انتشارات اساطیر،1364 هـ .

[3] طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج 2، ص 344، نشر المرتضی، مشهد مقدس ،1403 هـ .

[4] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 3، ص 245، طبع چهارم، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1365 هـ .

[5] غافر، 11.

[6] طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 17، ص 475، طبع پنجم، دفتر انتشارات اسلامى، قم، 1417 ھ-

و [7]ملاحظہ ھو: سيد جعفر سجادى، فرهنگ علوم فلسفى و كلامى، طبع 1357؛ نثر طوبى يا دايرة المعارف لغات قرآن.

[8] مؤمنون،100.

[9] آل عمران، 169.

[10] مكارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونه، ج 14، ص 316، طبع اول، دار الكتب الاسلامیه، تهران، 1374 هـ-ش.

[11] کافی،ج 3 ص 242.

[12] کافی،ج 3 ص244.

[13] غافر، 46.

[14] مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، ج 7، ص 81، مؤسسة الوفاء، بيروت ، 1404 هـ .

 

تبصرے
Loading...