موت کا اچانک واقع ہونا غفلت سے بیداری کا سبب ہے

کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کب تک زندہ ہے اور کب اس کی موت آئے گی۔ قرآن میں الله تعالی فرماتا ہے:

”وَ مٰا تَدْرِی نَفْسٌ مٰا ذٰا تَکْسِبُ غَداً وَ مٰا تَدْری نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ“ (سورہلقمان، آیت ۳۴)

اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔ اورکوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کی موت کس جگہ واقع ہوگی۔

خدا کی منجملہ عنایات میں سے ایک یہ ہے کہ کسی کو بھی یہ نہیں معلوم کہ اسے کب موت آئے گی کیونکہ اگر اپنی موت کے وقت کو جانتے ہوتے تو زیادہ غفلت اور غرور کا شکار ہوجاتے، سوائے ان لوگوں کے جو روحانی طور پر اعلی ظرف کے حامل ہیں اور جن کے لئے موت کے وقت سے واقف ہونا نہ ہونا برابر ہے اور وہ مسلسل اپنے وظائف کی انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں۔ ہوسکتا خداوند انہیں خبر دے کہ ان کی موت کب واقع ہوگی لیکن ہمارے لئے وقت اجل کا جاننا اور زیادہ سہل انگاری اور اعمال و وظائف کو پس پشت ڈالنے کا سبب ہوگا لہذا یہ حکمت الہی کے خلاف ہے کہ خداوند ہمیں ہمار ی اجل کی خبردے۔ حکمت الہی اقتضاء کرتی ہے کہ ہم ہمیشہ اس فکر میں رہیں کہ ہوسکتا ہے اگلا لمحہ ہماری موت کا ہو اور اس فکر کی صورت میں زیادہ اچھی طرح اپنی عمر کے ایک ایک لحظہ سے استفادہ کریں۔

حضور کی حدیث کے ایک جملہ ”وَ مَنْ یَزْرَعُ خَیْراً…“ میں دنیا ایک زرخیز زمین کے مانند بتائی گئی ہے جو بوئے جانے والے ہر بیچ کے بارآور ہونے کے لئے تیار ہے خواہ وہ بیچ انسان کے نیک اعمال ہوں یا برے۔ اس سلسلہ میں ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

از مکافات عمل غافل مشو

گندم از کندم بروید جو از جو

ہرچہ کشتی دوجہان از نیک و بد

حاصلش بینی بہ ہنگام درو

یعنی کسی عمل کے بدلے سے غافل نہ ہو، گندم سے گندم اور جو سے جو پیدا ہوتا ہے۔ دنیا میں جو کچھ بوگے خواہ اچھا یا بُرا، اس کا ما حصل کاٹتے وقت پاؤ گے۔

تبصرے
Loading...