مغربی دنیا کا اخلاق

یورپین کی زندگی ایک مشینی زندگی ہوکر رہ گئی ہے اور ایک ایسے جسم کی حرکت بن گئی ہے جس میں روح حیات نہ رہی ہو ۔ مادی زندگی کے مختلف شئون میں ترقی کرنے کی وجہ سےمتمدن انسان بہت سی مصیبتوں اور جھمیلوں سے چھٹکارا پا چکا ہے اوررفاہ و آسائش کیطرف بہت آگے بڑھ چکا ہے لیکن اس کے باوجود روح مادیت نے تمام مظاہر حیات میں لوگوں کی توجہ کو بہت سے حقائق کی معرفت سے روک رکھا ہے ۔اور اسی وجہ سے اخلاقی و معنوی جہالت طاق نسیاں کے سپرد ہوگئے ۔

آج کا تمدن اپنے ہمراہ جو مصیبتیں اور ناگواریاں لے کر آیا ہے ان کو آنکھ بند کرکے قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ اب تک جتنے بھی ایجادات ، اکتشافات زندگی کوسہل بنانے اور تمدن کو آگے بڑھانے کے لئے کئے گئے ہیں وہ انسانی تشویش و فکری ناراحتی کونہ تو دور کرسکے ہیں اور نہ ہی اجتماعی خطرناک قسم کے بحران و مشکلات کو دور کرکے معاشرے کی خوش بختی و راحت کو واپس لاسکے ہیں ۔

انسان مختلف جسمانی ضرورتوں کے علاوہ ایک عطش معنوی اور طلب روحی بھی رکھتا ہے ۔ انسان جس طرح جسمانی لذتوں کا شیفتہ و شیدائی ہے اسی طرح فکری پناہ گاہ اور معنوی ضرورتوں کا بھی خواہش مند ہے تاکہ مادے کے علاوہ دوسری ضرورتوں کو پورا کرسکے افکار انسانی کو دائرہ مادیت کے اندر محدود کرنا ایک ناقابل معافی گناہ ہے اور فطرت انسانی سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں ہے ۔

 

 

بشریت کی بزرگ ترین تمنا یعنی سعادت بخش زندگی کا پہلا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب فکراپنی سیرت کامل میں تمدن مادی کے مرحلے سے گزر جائے اور صنعتی و علمی تعجب خیز صلاحیتوں کی ترقی ہوجائے اور روحانی قوتیں بروئے کار آ جائیں ۔

اور کمالات انسانی کے اس منبع سے صحیح فائدہ حاصل کیا جانے لگے ۔ کیونکہ ان دونوں قوتوں کے توازن کے بغیر صد درصد انسانی سعادت حاصل نہیں کی جا سکتی ۔

اخلاقی اور اجتماعی عیوب کودیکھنےکے بعد ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ بشری تکامل کے اسباب شائستہ طریقے سے پورے نہیں ہیں اورآج کے انسان نے خوش بختی کے اسباب معلوم کرنےمیں اشتباہ کیا ہے ۔

لیکن اسی کے ساتھ یہ بات بھی مسلم ہے کہ )صفحات تاریخ میں کوئی بھی قوم ایسی نہیں گذری کہ جس کے زندگی کے تمام گوشوں میں فساد ہی فساد ہو اورکوئی خوبی ان کے اندر موجود ہی نہ ہو ، اسی طرح مغربی دنیا میں تمام تر اخلاقی مفاسد کے باوجود ابھی کچھ خوبیاں باقی ہیں ، مثلا زیادہ تر لوگ امانتدار ہیں ، سچےہیں ، اگرچہ ان خوبیوں سے ان برائیوں کا جبران نہیں ہوسکتا ، یہ چیزیں اخلاقی فضائل میں یقینا شمار ہوتی ہیں مگر یہ بھی توممکن ہے کہ یہ چیزیں مختلف مصالح کی بناء پر کی جاتی ہوں اورکچھ خاص عوامل و اسباب کے ماتحت بجا لائی جاتی ہوں ۔ مغربی دنیا میں ان اخلاقی سرمایہ کو دین کا جزو نہیں سمجھا جاتا اور نہ ان کی بجا آوری آسمانی قانون ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے نہ تو ان کی کوئی قیمت ہے اور نہ کوئی معنویت ہے یہ تو صرف حصول منفعت کی خاطر ان چیزوں کو کرتے ہیں ۔ وہاں کے لوگ ان اخلاقیات کو مادی منفعت کے دریچے سے دیکھتے ہیں اور معاملات میں ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔اگر ان اخلاقیات اور مکارم اخلاق میں کوئی مادی منفعت نہ ہو تو پھر نہ ان کا کوئی اعتبار ہوگا نہ ان کی کوئی قیمت ہوگی اس لئے تمام مغربی دنیا میں اخلاق کو حصول منفعت کا وسیلہ سمجھ کربرتا جاتا ہے ۔

اورعصمت و عفت کے معاملے میں تو مغرب نے حریم اخلاق سے بہت زیادہ تجاوز کرلیا ہے اور اس مسئلے میں تباہی اپنے درجہ کمال کو پہنچ چکی ہے ۔ابتداء میں ہر شخص اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ عصمت ایک انمول موتی ہے اس کا برباد ہو جانا اخلاقی تباہی ہے ۔ لیکن رفتہ رفتہ یا تو یہ حقیقت فراموش کردی گئی اوریا پھر گمراہ کرنے والوں نے اس کو ختم کردیا ۔

اس دور میں پاک دامنی اپنی قدر و قیمت کھو بیٹھی ہے گویا کہ صحت معاشرہ سے دامن کش ہوچکی ہے ۔ایک دوست نقل کررہا تھا :

جرمنی کے ریڈیو سے ایک دن ایک نوجوان عورت اپنی مشکل کو پیش کرکے اس کا حل چاہتی تھی اس نے کہا میں ایک ایسی لڑکی ہوں جس نے ایک جوان سے سالہا سال محبت کی ہے لیکن امتداد زمانہ اور ہر وقت کی صحبت ، پے در پے محبت کرنے سے میری محبت میں کافی کمی آ چکی ہے ۔

اب میں نے طے کرلیا ہے کہ کسی دوسرے نوجوان سے رابطہ مہر والفت قائم کروں گی ۔ کیا میں اس نوجوان کو نہ کھوتے ہوئے دوسرے سے محبت کے پینگ بڑھاؤں یا اسی نوجوان پر اکتفا کروں اوردوسرے کا خیال اپنے دل و دماغ سے نکال دوں ؟ رہبر نے جواب دیا کہ 28 سال سے پہلے تم ایک یا کئی سے تعلقات رکھ سکتی ہو ، اس کی وجہ سے تم کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن مقامات سےنفوس بشری کی تہذیب و اصلاح ہونی چاہئے ،عفت ، تقوی ، فضیلت کی ترویج کرنی چاہئے ، انھیں مقامات سے ترویج فحشاء و منکر ہورہی ہے اور خود راہنما انحراف و ناپاکی و گمراہی کا مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ اس قسم کے لوگوں کی پشت پناہی بھی کرتا ہے اور اخلاقی قید و بند کوتوڑدینے کا حکم عام کرتا ہے ، اور روابط خصوصی کے ضمن میں شادی سے پہلے فحشاء کے مفہوم واقعی کو بدلنا چاہتا ہے اور آزادی مطلق کے نام پر شادی سے پہلے کی بے راہ روی کو بےعفتی کے دائرے سے خارج کرنا چاہتا ہے اور لوگوں کوشرف و تقوی کےبرخلاف ابھارتا ہے ۔

ویل ڈورانٹ مشہور جامعہ شناس تحریر کرتے ہیں : شہری زندگی کچھ ایسی ہوگئی ہے جو آدمی کو شادی بیاہ سے روکتی ہے ، یہاں کی زندگی لوگوں کی جنسی شہوت کو ہمہ وقت رابطہ جنسی کی بناء پر ابھارتی رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نامشروع طریقے سے اس جذبے کو سکون پہنچانا بہت آسان ہوگیا ہے ۔

جس تمدن کے اندر شادی بیاہ میں تاخیر کی جاتی ہو اور اتنی کہ کبھی کبھی تیس تیس سال کے نوجوان غیر شادی شدہ ہوتے ہيں وہاں اس کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے کہ انسان وقف ہیجانات جنسی ہوکر رہ جائے اور غلط باتوں سے اپنے کو بچانے کی قوت کمزور پڑجائے اور یہی وجہ ہے کہ پاکدامنی جو کبھی فضیلت میں شمار ہوتی تھی ، اب اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے ۔

شرم و حیا جو کبھی انسان کی زیبائش میں چار چاند لگاتی تھی اب وہی شرم و حیا ناپسندیدہ عنصر بن چکی ہے ، نوجوان اپنے گناہوں پر فخر کرتا ہے ، عورتیں مردوں سے مساوات کے چکر میں گرفتار عشق و ہوس نامحدود ہوجاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں عورت و مرد شادی بیاہ سے پہلے ہی اپنے ارمان پورے کرلیتے ہیں ۔

سڑکیں رنڈیوں سے خالی دکھائی دیتی ہیں مگر اس کی وجہ پولیس کا خوف نہیں ہے بلکہ آزاد خیال، بے پردہ گھومنے والی لڑکیوں نے رنڈیوں کے بازار کو ٹھنڈا کردیا ہے ۔

آدمی کی فطرت کا تقاضہ ہے کہ اپنی قوتوں کو کنٹرول کرکے معتدل طریقے سے خرچ کرے ۔ خلاف فطرت اقدام ناگوار نتائج پیدا کرنے کا سبب ہوتا ہے ۔ آزادی فکر کے ضمن میں انسان جس راحت و خوش بختی کا متلاشی ہوتا ہے وہ قانون فطرت کو پامال کرنے کے بعد کبھی حاصل نہیں کرپاتا ۔

مغرب نے اپنے یہاں شہوت رانی کو عام کردیا ہے ۔ لیکن کیا شہوت پرست اس آزادی سے سیر ہوگئے ان کی پیاس بجھ گئی ؟ کیا بچوں کی دیوانگی ، اعصابی کمزوری ، جرم و انتحار ، اضطرابات اسی آزادی اورجنسی بے راہ روی کے نتائج نہیں ہیں ؟

سویڈن میں تقریبا ربع صدی کی کامل جنسی آزادی نے جوانوں کے اندر کتنے وحشت ناک قسم کے درد انگیز حالات پیدا کردیۓ کہ جس سے ذمہ داروں کا ناطقہ بندہوگیااور مجبورا ایسے خطرناک ووحشت ناک قسم کے حالات پر پارلیمنٹ میں غورو خوض کرنا پڑا اور وزیر اعظم نے کھلم کھلا کہا : بیس سال کے اندر ہم نے جو غلطی کی ہے اس کے تدارک کے لئے چالیس سال کی مدت درکار ہے ۔

فریڈ کےگمراہ کنندہ اصول کے ماتحت لوگ جنسی شہوت میں مبتلا ہوکر بالکل حیوانوں کی سی زندگی بسر کرنے لگے ہیں اور اس نےلوگوں کو تمایلات جنسی کے کیچڑ میں غوطہ دے دیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنسیات اخلاق سے الگ ایک چیز ہوگئے ۔اور جس دن سے عفت و عصمت تباہی و بربادی کی غار میں گری ہے پھراس کے روکنے کےلئے کسی بند کا تصور ہی نہیں ہوسکا،اسی قسم کی تعلیمات کا نتیجہ مندرجہ ذیل دئے جانے والے اعدادو شمار ہیں ۔

فاتح حکومتوں کے نوجوان جنھوں نے جرمن عورتوں کے ساتھ معاشرت کی ہے ان کے بارے میں مغربی جرمنی نے چند سال کے اندر اندر جو نتائج بتائےہیں وہ یہ ہیں کہ اس معاشرے کے نتیجے میں دولاکھ ناجائز بچے ہوئے جو اب تک جرمنی حکومت کی زیر سرپرستی پرورش پا رہے ہیں ۔اس میں سے پانچ ہزار بچے سیاہ پوست ہيں ۔

اوربقول جرمنی حکومت کے ناجائز پیدا ہونے والے بچوں میں بچ جانے والوں کی یہ تعداد دسواں حصہ ہے ورنہ زیادہ تر اسقاط ، موت یاماؤں کے گلا گھونٹ دینے کی وجہ سے اس دنیا میں نہ رہ سکے ۔

یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ یہ صرف مغربی جرمنی کے اعداد وشمار ہیں ۔ مشرقی جرمنی کی صحیح تعداد کی اطلاع ہمارے پاس نہیں ہے یقینا گمان غالب کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مشرقی جرمنی کے حالات اگر اس سے بدتر نہيں ہیں تو اس سے بہتر بھی نہیں ہیں ۔(خواندینھاسال 15 شمارہ 110 )

دوسرے مغربی ممالک بھی جرمنی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات وہ ہے جو مجلس امور اخلاقی میں تسلیم شدہ ہے ۔

اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ انگلستان کے مرکز میں واقع ہونے والے نارتھمپٹن میں ناجائز بچوں کی اوسطا تعداد پچاس فیصد ہےاور اس میں اس بات کی بھی تشریح کی گئی ہے کہ ناجائز بچوں کی افزائش نسل کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا ہے جب سے یہ حصہ زراعت پیشہ کسانوں سےخالی ہو کر صنعتی بنا ۔(طلاق اورتجدد صفحہ 34 )

ڈال کرینجی لکھتے ہیں کہ : امریکہ کی ایک علمی انجمن نے شوہروں کی اپنی بیویوں کے ساتھ خیانت کا ایک اعداد وشمار جمع کیا تھا جس میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا تھا کہ ایسے شوہروں کو پیش نظر رکھا جائے جو مختلف طبقے سن و سال کے ہوں ، اس اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تقریبا آدھے شوہر اپنی بیویوں سے خیانت کرتے ہیں اور کچھ لوگ پابندی سے اس عمل کو کرتے ہیں اور دوسرے آدھے شوہر جو اپنی بیویوں کا پاس و لحاظ کرتے ہیں وہ یا تو بربنائے مجبوری اور خوف رسوائی کی وجہ سے ہے یا پھر عدم الفرصتی کے وجہ سے ہے ۔ چند سال پہلے نیویارک میں ایک تھوڑی سےمدت کے لئے مکالمہ ٹیلیفونی کے ذریعے ریسرچ کی گئی تو پتہ چلا کہ بہت سی عورتیں بھی اپنے شوہر سے خیانت کرتی ہيں ۔ (آئین کامیابی )

حکومت ہائے متحدہ امریکہ کےتمام اسپتالوں میں 650 اسپتال صرف جنسی بے راہ روی سے پیدا ہونے والے امراض کے لئے مخصوص ہیں ، ان میں ڈیڑھ فی صد لوگ اپنے معالج خصوصی یاخاندانی حکیم کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔

(دائرۃ المعارف برطانیہ جلد 23 صفحہ 45)

ہرسال امریکہ میں تیس سےچالیس ہزار بچے فرائض زوجیت کے ادائیگی کےسلسلے میں ہونے والی بیماریوں سے مرتے ہیں۔ امریکہ میں ان بیماریوں سےمرنےوالوں کی تعداد دیگر امراض سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔(کتاب قوانین جنسی صفحہ 304 )

سکسولوجی رسالہ ” سیکس لوجی ” دسمبر1960 ء کے سرمقالہ میں لکھتا ہے : سالہائے ماسبق کے بہ نسبت ناجائز بچوں کی کثرت پیدائش امریکہ لئے عظیم درد سری کا باعث بن گئی ہے ۔ منتشر ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 1957 ء میں دولاکھ سے زیادہ ناجائز بچے پیدا ہوئے تھے اور گذشتہ بیس سال کے اندران میں پانچ فی صد کا اضافہ ہوچکا ہے ۔

(اطلاعات شمارہ 10414)

ریاستھائے متحدہ امریکہ کے رسالہ ” سیاہ وسفید ” کی ایک سالانہ رپورٹ ایک ملیون فقرے پر مشتمل ہےجس میں 65 فی صد ناجائز ، آزادی وغیرہ سےمتعلق ہے اور پچاس فیصد ناکتحذا لڑکیوں سے متعلق ہے ۔(سیاہ سفید شمارہ 370 )

ڈاکٹر مولینز جولندن کے مغربی حصے میں مشغول طبابت ہیں وہ تحریر کرتے ہیں : انگریزوں کی کلیسا میں جانے والی ہر پانچ لڑکیوں میں سے ایک حاملہ ہوتی ہے ۔ لندن میں ہر سال پچاس ہزار بچے پیٹ سے گرائے جاتے ہیں ۔

ہر بیس پیدا ہونے والے بچوں میں ایک ناجائز ہوتا ہے اوضاع زندگی کے بہتر ہونے کے باوجود ہرسال ناجائز بچوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ ڈاکٹر مولینز کا خیال ہے کہ زیادہ تر ناجائز بچے مرفہ حال گھروں میں پیدا ہوتے ہیں اور ان دوشیزاؤں کے یہاں ہوتے ہیں جو دولت مند گھرانے کی فرد ہوتی ہیں ۔

(کیہان شمارہ 5356 )

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ متمدن انسان غریزہ جنسی میں گرفتار ہوچکا ہے ۔ اس کی ہوس رانی اس منزل پرپہنچ چکی ہے کہ خاندانوں میں جو نظم و ضبط ہونا چاہئے اورانسانی و اخلاقی قدروقیمت جوممکن طور پرہونا چاہئے وہ سب فراموش ہوچکی ہیں اوراس بے راہ و روی کی اب کوئی حد ان کے لئے متعین نہیں رہی ۔

تہران کے اخباروں میں چند سال پیشتر یہ خبر چھپی تھی کہ امریکہ کے صوبہ اڈا ہو میں کچھ لوگوں نے اپنی اپنی عورتوں کوتین ہفتے کے لئے ادلا بدلی کرلی تھی اورہر ایک نے اپنے دوسرے دوست کو بطورہدیہ اپنی بیوی دی ، اس واقعے پرامریکہ میں بڑا واویلا مچایا گیا ، مجبورا حکومت نے عفت عمومی کومجروح کرنے اوراشاعت فحشاء کے جرم میں ان لوگوں کوعدالت میں کھینچ بلایا ۔ یہ سارے خرافات لوگوں کی زندگی کےایک شعبے میں یعنی جنسی مسائل میں ظاہر ہوتی ہیں ۔

تبصرے
Loading...