معصومۂ قم (سلام اللہ علیہا) کا یوم ولادت

امام رضا علیہ السلام نےاپنی زندگی میں ہی آپ کی منزلت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا: جو شخص بھی معصومہ کی قم میں زیارت کرے گا اس نے گویا میری مشہد میں زيارت کی ہے ۔

پہلی ذيقعدہ سنہ 173 ھجری کو آسمان بشریت پر ایک ایسا ستارہ درخشان ہوا کہ 12۔ 13 سو سال گذرجانے کے باوجود اس کے انوار سرزمین قم پر اس طرح بکھرے ہوئے ہیں کہ نہ صرف اس کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین بلکہ بڑے بڑے علماء ، عرفا ، صلحا،مجتہدین و مبلغین و واعظین بھی صبح و شام اس کے جوار مقدس میں انوار علم و معرفت سے اپنا دامن بھرتے رہتے ہیں ، باب الحوائج امام موسیٰ ابن جعفر(ع) کی دریگانہ ، امام ضامن آہو حضرت علی ابن موسیٰ الرضا(ع) کی ہمشیر گرامی حضرت فاطمۂ معصومہ علیہا اسلام کی ذات اقدس عام و خاص ہر ایک کے درمیان اس قدر بلند اور مقبول ہے کہ نہ صرف شیعیان اہل بیت علیہم السلام ان کے دربار میں آکر “اشفعی لنا “کی آواز بلند کرتے ہیں بلکہ دوسرے مکاتب فقہ سے تعلق رکھنے والے پیروان اسلام بھی یہاں آکر زانوئے ادب تہہ کرتے دیکھے گئے ہیں ، معصومہ قم اس الہی مکتب کی پرورش یافتہ ہیں جہاں لطف و مہربانی موج مارتی ہے ۔ عالم ہستی میں خاندان رسول اسلام (ص) کی اس عظیم ہستی کی مسرت بار آمد پر ہم اپنے تمام سامعین کی خدمات عالیہ میں تہنیت و تبریک پیش کرتے ہیں ۔

جناب فاطمۂ معصومہ پہلی ذیقعدہ کومدینہ منورہ میں پیدا ہو ئیں ، آپ کے پدر گرامی حضرت موسیٰ ابن جعفر ہیں جن کے لئے پیغمبر اسلام (ص) نے برسوں پہلے فرمادیا تھا کہ” موسیٰ ابن جعفر میرے حقیقی پیرو ، میرے دوست اور میرے منتخب کردہ ہیں “۔ اور آپ کی والدہ جناب نجمہ خاتون بھی اپنے زمانے کی پاکباز ترین خاتون سمجھی جاتی تھیں جن کو ان کے فرزند علی رضا علیہ السلام کی ولادت کے بعد طاہرہ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ جناب معصومہ ایسے پاک و پاکیزہ ماحول میں پرورش کے سبب علم و معرفت و کمال کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوئیں اور وہ مقام حاصل کرلیا کہ آپ کو عنفوان شباب میں ہی محدثہ ، شفیعہ ، معصومہ اور کریمہ کے خطاب سے یاد کیا جانا لگا تھا ۔ مورخین نے لکھا ہے ایک دن ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے کچھ چاہنے والے مدینہ منورہ آئے اور امام کے عصمت کدہ پرکچھ فقہی سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے لیکن یہ سن کر انہیں سخت مایوسی ہوئی کہ امام عالی مقام مدینہ سے کہیں باہر تشریف لے گئے تھے ۔انہوں نے اپنے سوالات جو وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھنا چاہتے تھے قلمبند کئے او چاہتے تھے کہ گھر میں بھجوادیں کہ امام تحریری شکل میں ان کے جوابات بعد میں دے دیں اسی اثناء میں ایک چھ سات سالہ لڑکی گھر سے باہر تشریف لائی اوران سے خطوط کی شکل میں ان کے تحریر کردہ سوالات لئے اور کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا اور تھوڑی دیر میں ہی ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر لائیں اور ان کے سپرد کردیا ۔ ان لوگوں کے درمیان ستر سالہ بوڑھے افراد بھی تھے جنہوں نے ایک عمر اہل بیت (ع) سے عقیدت و محبت میں گزاری تھی مگر اس طرح کا منظر دیکھنے کو نہیں ملا تھا کہ ایک چھ سات سال کی لڑکی ان کے فقہی سوالات کے جواب اس انداز میں تحریر کردے ۔ چنانچہ یہ لوگ خوشی خوشی واپس ہوئے اور مدینہ سے اپنے شہر کی طرف روانہ ہوگئے ۔ مدینہ سے نکلتے ہی راستے میں اتفاق سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام واپس آتے ہوئے دکھائی دئے اور وہ لوگ امام کی زیارت کے لیے اپنی سواریوں سے اتر پڑے اور امام کی خدمت سلام و ارادت کا اظہار کرتے ہوئے گھر پر حاضری اور خطوط کے جوابات مل جانے کی پوری تفصیل امام علیہ السلام کے سامنے بیان کردی ، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے خطوط پر ایک نظر ڈالی اور چہرہ کھل اٹھا ، اور اسی آسمانی سکراہٹ کے ساتھ تین مرتبہ فرمایا “فداہا ابوہا “اس کا باپ اس پر فدا ہوجائے ۔

سنہ 179 میں جس وقت ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قید کر کے بغداد کے جیل خانے میں ڈالا ہے جناب فاطمۂ معصومہ چھ سات سال کی تھیں لہذا آپ اسی زمانے سے امام علی رضا علیہ السلام کے گھر میں ان کے ساتھ رہنے لگیں اور بھائی کی سرپرستی میں ہی علمی عرفانی اور اخلاقی کمالات حاصل کئے ۔ جناب فاطمہ معصومہ مدینہ کی خواتین کے درمیان نبی اکرم کی احادیث بھی نقل فرماتی تھیں اور عباسی دور کی غبار آلود فضاؤں میں بھی حق و حقانیت کی شمعیں روشن کئے ہوئے تھیں ، چنانچہ حدیث غدیر اور حدیث منزلت کے راویوں میں آپ کا نام بھی ذکر ہوا ہے اس کے علاوہ حضرت علی (ع) کے دوستوں کی شان و منزلت میں بھی آپ نے معصومین علیہم السلام نے احادیث نقل کی ہیں ۔

سنہ 198 میں جب امین اپنے بھائی مامون کے ہاتھوں قتل ہوگيا او عباسی حکومت پوری طرح مامون کے ہاتھ میں آگئی تو مامون نے امام علی رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان بلا لیا او معصومۂ قم کو بھائی سے جدائی کا غم سہنا پڑا جو آپ کے لیے سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا بالآخر سنہ 201 میں آپ نے بھی اپنے چند دوسرے بھائیوں اور عزيزوں کے ساتھ امام رضا علیہ السلام سے ملاقات کے لیے خراسان کا سفر کیا مگر جس وقت آپ شہر ساوہ میں تھیں راستے میں ہی بھائی کی شہادت کی خبر ملی اور آپ برداشت نہ کرسکیں اور سولہ سترہ دن کے بعد ہی درد فراق میں مبتلا یہ بہن بھائی کی خدمت میں پہنچ گئی اور قم میں ہی آپ کو دفن کردیا گیا ۔ امام رضا علیہ السلام نےاپنی زندگی میں ہی آپ کی منزلت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا: جو شخص بھی معصومہ کی قم میں زیارت کرے گا اس نے گویا میری مشہد میں زيارت کی ہے ۔

تبصرے
Loading...