معادقرآن میں(درس اول)

آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن کریم اورسنت کے علاوہ ہمارے بڑے بڑے فلاسفرکے بھی یہی کوشش ہوتی تھیں کہ کبھی کبھارمعاد کے بارے میں کچھ مطالب بیان کریں،ملاصدراحکمت متعالیہ کا بنیانگذارہے اورکچھ نظریات خود انہیں سے منحصر ہے کہ ان سے پہلے ان نظریات کو کسی نے بیان نہیں کیاتھا جیسے حرکت جوہری یا وجودمیں تشکیک کا بحث ،لیکن ان سب کے باوجود اس بارے میں ان کی کوئی مستقل کتابچہ موجود نہیں ہے لیکن معاد کے بارے میں “زاد المسافر” کے نام سے ایک الگ کتاب موجود ہے یه بہت ہی مختصر کتابچہ ہے لیکن بارہ (12) بابوں پرمشتمل ہے اورزیادہ تربحث معاد جسمانی کو دلیل اوربرہان سے ثابت کرنے کے بارے میں ہے درحالیکہ ان سے پہلے کے فلاسفراس بارے میں عاجزی کا اظہار کر چکے تھے کہ ہم دلیل اوربرہان کے ساتھ معاد جسمانی کو ثابت نہیں کر سکتے ۔

یہ سب آپ کی خدمت میں معاد کی بحث کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے ہے مخصوصاً حوزات علمیہ کے طلاب اورفضلاء کو چاہئے کہ اپنے اصلی کاموں میں سے ایک معاد کے بارے میں بحث کو قرار دیں،معاد کے دلائل ، اس بارے میں قرآنی مباحث اوراس بارے میں موجود روایات پرعمل کریں مرحوم مجلسی نے بحار الانوار کے چھٹی جلد میں معاد کے بارے میں کچھ ابواب کو ذکر کیا ہے درحالیکہ اس وقت نہ یہ کامپیوٹرموجود تھا نہ دوسری فہرست وار کتابیں جواس وقت ہمیں دستیاب ہیں مثلا چوتھا باب حب لقاء اللہ و ذم الفرارمن الموت(اللہ سے ملاقات کی محبت اورموت سے فرار کرنے کی مذمت)کے بارے میں ہے اورہر جگہ پر آیات کو نقل کیا ہے اورساتھ میں روایات بھی منقول ہے ۔انہوں نے اس چھٹی جلد کے صفحہ نمبر ١٢٤، باب چهارم میں چند آیات کو ذکر کیا ہے ۔

پانچوان باب:ملک الموت کے بارے میں ہے اورملک الموت کے حالات اس کے ساتھیوں اورقبض روح کے بارے میں ہے اس باب میں مرحوم مجلسی نے ٦ آیات اور ١٨ احادیث کو ذکر کیا ہے ۔

چھٹا باب:سکرات الموت اور اس کے سختیوں کے بارے میں ہے ۔

ساتواں باب:ما یعاین المؤمن والکافرعند الموت وحضورالآئمہ عند ذلک وعند الدفن ( مرتے اوردفن ہوتے وقت مؤمن اورکافر کن افراد کو مشاہد کرتے ہیں اورآئمہ علیہم السلام کاتشریف لانے) کے بارے میں ہے۔

آٹھواں باب:برزخ کی حالات کے بارے میں ہے،کیا قرآن کریم میں برزخ پر دلالت کرنے والی کوئی آیت ہے؟۔

نواں باب: بہشت اورجہنم کے بارے میں ہے۔

دسواں باب: مرنے کے بعد کی حالات کے بارے میں ہے.

یہ علامہ مجلسی کے ذکرکردہ مطالب کا ایک خلاصہ ہے لیکن اگر ہم معاد کے بارے میں قرآن کریم میں تفصیلی گفتگو کرنا چاہئیں تو٢٤عناوین کو بیان کرسکتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :

١۔موت اورتوفی ،ان دونوں کے درمیان فرق کو هم بیان کریں گے۔

٢۔ اللہ سے ملاقات کا شوق رکھنا اچھا ہے اورموت سے فرارکی مذمت ہوئی ہے ۔

٣۔ ملک الموت کیا ہے ۔

٤۔ سکرات موت کیا ہے ۔

٥۔ برزخ،قبر،اوروہاں پرسوال اورجواب ۔

٦۔ دنیاوی بہشت

٧۔ قیامت کی نشانیاں۔

٨۔ صورکا پھونکا جانا اوردنیا کا ملایامٹ ہوجانا۔

٩۔ حشرکا اثبات اوریہ کہ انسان محشورہو جائیں گے ۔

١٠۔ قیامت کے اسماء (قرآن کریم میں قیامت کے٧٠ نام ذکر ہوئے ہيں ، البتہ اس میں صفت بھی شام ہے )۔

١١۔ خدا کے علاوہ کوئی اورقیامت کے واقع ہونے کے زمان سے آگا ہ نہیں ہے ۔

١٢۔ محشرکے اوصاف۔

١٣۔ صراط کیا ہے ۔

١٤۔ قیامت کے دن عرش کو اٹھانے والے ۔

١٥۔ قیامت کے دن متقین اورمجرمین کی حالت ۔

١٦۔ میزان اورحساب.

١٧۔ جانورکیسے محشور ہوں گے.

١٨۔ نامہ اعمال ،اعضاء و جوارح کی گواہی اوراعمال کا مجسم ہونا ۔

١٩۔ شفاعت.

٢٠۔ بہشت اورجسمانی ومعنوی اورروحانی نعمتیں اورلذتیں ۔

٢١۔ جہنم:جہنم کی جگہ اوراس کے سات دروازے ۔

٢٢۔ اعراف اوراہل اعراف.

٢٣۔ بہشت یا جہنم میں ہمیشگی ۔

٢٤۔ معادجسمانی ۔

١۔ موت اورتوفی میں فرق

پہلامطلب یہ ہے کہ موت اورتوفی میں کیا فرق ہے ، قرآن کریم میں روح کونکالنے کے لئے توفی سے تعبیر کیا ہے، فرماتا ہے: (وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ وَ يُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا)[1] لغت میں “توفی” کسی چیزکو پورے طور پر لے لینے اوراسے محفوظ کرنے کے معنی میں ہے ،یعنی توفی میں دو نکتہ موجود ہے ،ایک کسی چیزکو لے لینا ہے اوردوسرا اسے محفوظ کرنا ہے ،اگر آپ کسی سے کوئی چیز لے لیں لیکن دوسرا آکر اسے آپ کے ہاتھ سے چھین لے تو اسے توفی نہیں کہه سکتے ،لیکن اگر کسی چیز کو لے لینے کے بعد اپنے پاس محفوظ بھی کر لیں تو اسے توفی کہتے ہیں،پس توفی میں لے لینا اورمحفوظ کرنا دونوں عنوان موجود ہے ۔

قرآن کریم میں اجل کے پہنچ جانے اورتوفی کی بات ہے وہاں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خداوند متعالی یا ملک الموت اپنے ساتھیوں کے ساتھ ، روح کو بدن سے لے لیتا ہے اوراسے دوبارہ معاد جسمانی کی شکل میں اسی بدن میں ڈالنے تک اپنے پاس محفوظ کر کے رکھتا ہے ، یہاں سے یہ معنی واضح ہوتا ہے کہ مرنا ، فنا ہونا اورنابودی نہیں ہے بلکہ ا س کا معنی روح کو لے لینا اوراسے محفوظ کرنا ہے ، یہاں کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله کے بارے میں خدا نےفرمایا ہے:’إِنَّكَ مَيِّتٌ وَ إِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ‘[2] اس میں موت سے تعبیر ہوا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ انسان کا اجل آپہنچے گا ،کہ فرمایا ہے : ‘إِنَّكَ مَيِّتٌ وَ إِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ‘ یہاں پرپھر لینے اورمحفوظ کرنے کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن دوسرے بہت ساری آیات میں ‘توفتہ رسلنا ‘سے تعبیر فرمایا ہے کہ خدا کا یہ مامورآتے ہیں اورانسان کے روح کو پورے طور پر لے لیتے ہیں اوراسے حشر کے دن تک محفوظ کرتے ہیں ،لہذا قرآن کریم میں موت اورفوت کو توفی سے تعبیر کیا ہے ۔

٢ ۔ ملک الموت

سب سے پہلا موقعہ جہاں انسان اچانک کسی فرشتہ سے روبروہوتا ہے وا اس کے مرنے کا وقت ہے ،انسان جب تک زندہ ہے وہ کسی فرشتہ کو نہیں دیکھ پاتا مگر یہ کہ وہ اولیا ء الہی میں سے ہو ،کہ شب قدرمیں ملائکہ کے رفت وآمد کو دیکھ لیتا ہے، لیکن عام انسان جب تک اس دنیا میں ہے کسی فرشتہ کو نہیں دیکھ پاتا ،جس طرح عام طورپرجنّات کو بھی نہیں دیکھ پاتا ،پہلا مقام جہاں انسان کسی فرشتہ کو دیکھتا ہے وہ مرنے کی وقت ہے ،جب وه اسے دیکھتا ہے تواس وقت یہ جان لیتا ہے کہ اس جہاں سے جانے والا ہے ،چونکہ کسی ایسے مخلوق کو دیکھتا ہے جس کو ابھی تک نہیں دیکھا ہے اوراس کے اندر ایسی خصوصیات ہیں جو دوسرے افراد میں نہیں تھیں،لہذا وہ جان لیتا ہے کہ یہ اس جہان سے جانے کا وقت ہے۔

یہاں پرسب سے پہلا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں متوفی کے بارے میں کچھ آیات ہیں اور مرنے کے بارے میں چھ عناوین ہیں ، بعض آیات میں کلی طور پر ذکر ہوا ہے ‘وَ مِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى'[3] لیکن متوفی( قبض روح کرنے والا ) کون ہے ذکر نہیں ہوا ہے ‘ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُر’بعض آیات میں قبض روح کرنے کوملک الموت سے نسبت دی ہے ‘قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذي وُكِّلَ بِكُمْ ‘[4] بعض آیات میں رسل اورملائکہ سے نسبت دی ہے “حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا”[5] “الَّذينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَة”[6] “الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُم “[7] “وَ لَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذينَ كَفَرُوا الْمَلائِكَة”[8] “فَكَيْفَ إِذا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُون “[9]پس ان تمام آیات میں توفی کو ملائکہ سے نسبت دی ہے.

٤۔ کچھ دیگر آیات میں خود خدا سے نسبت دی ہے “اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حينَ مَوْتِها”[10]

٥۔ بعض آیات میں موت سے نسبت دی ہے “فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ”[11].

موت کو خدا ،ملک الموت اور ملائکہ سے نسبت دینے کے بارے میں تحقیق

یہاں پرموت(قبض روح کرنے) کی مسؤلیت کے بارے میں پانچ مختلف نسبتیں ہیں ،کیا ان آیات کے درمیان میں کوئی اختلا ف ہے ؟ کیوں خدا وند عالم ایک جگہ پر موت کوملک الموت سے نسبت دیتا ہے اوردوسری جگہ پر اپنے آپ سے اورتیسری جگہ ملائکہ سے نسبت دیتا ہے ؟ اورایک جگہ پر کسی سے بھی نسبت نہیں دی ہے اورایک جگہ پرموت کو خودموت سے نسبت دی ہے ،کیوں ایسا ہے ؟ ہم یہاں پردوجواب دے سکتے ہیں :

پہلاجواب:ایک جواب جومرحوم علامہ طباطبائی رضوان اللہ تعالی علیہ کے کلمات میں بھی موجود ہے[12] بعد میں ان سے دوسرے مفسروں نے بھی نقل کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کے طول میں واقع ہے ،قبض روح کا اصلی سبب خدا ہے،اس کے بعد ملک الموت ہے اس کے بعد اس کے اعوان و انصار ہیں یعنی ملک الموت کے بہت سارے اعوان وانصارہیں اوربہت سارے ملائکہ اس کے اختیار میں ہیں جوقبض روح کرتے ہیں،چونکہ ملک الموت ان سب کا بڑاہے ملائکہ جو فعل انجام دیتے ہیں وہ انہیں سے بھی نسبت دے سکتے ہیں اورملک الموت سے بھی اور خداملک الموت کا حاکم ہے ،تو ملک الموت کے کام کو خدا سے بھی نسبت دے سکتے ہیں یہاں ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ اسی آیت کے ذیل میں علامہ طباطبائی نے بیان فرمایا ہے :’نظراً الی اختلاف مراتب الاسباب’ اسباب کے مراتب مختلف ہیں ‘فالسبب القریب الملائکة و الرسل اعوان الملک الموت و فوقہم ملک الموت الآمر بذلک المجری لامراللہ واللہ من وراءھم محیط وھوالسبب الاعلی ‘خداوند متعالی سب سے اعلی سبب ہے اورخدا کے بعد ملک الموت ہے اوراس کے بعد ملائکہ میں سے ملک الموت کے اعوان وانصار ہیں ۔

اس کے بعد ایک مثال بیان فرماتا ہے :’مثل کتابت الانسان بالقلم ‘ جب آپ کوئی چیز لکھ لیتا ہے تو ہم یوں کہہ سکتے ہیں : قلم نے لکھا ہے ، انسان کے ہاتھ نے لکھا ہے ، خود انسان نے لکھا ہے ، ان میں سے ہر ایک کی طرف نسبت دے سکتے ہیں ، اس عالم میں تمام افعال اسی طرح ہیں ،انسان کے افعال کو خود اس کی طرف نسبت دے سکتا ہے ،اوراسی طرح دوسرے اسباب کی طرف بھی نسبت دے سکتا ہے ،یہاں تک کہ خداوند متعالی تک پہنچ جائے ،لیکن ظاہر یہ ہے کہ اماتہ اورتوفی میں یہ جہت نہیں ہے ،تمام امورمیں اسی طرح ہیں ،جوفرشتے رزق وروزی پہنچانے کے کام میں مشغول ہیں ،وہاں پراس کو خدا سے نسبت دیں ،یا ملائکہ یا اس کے اعوان وانصار سے نسبت دیں ، یا طبیعی اسباب سے نسبت دیں ،ان سب کی طرف نسبت دیں ، یہ مطلب ثبوتی اورامکانی لحاظ سے صحیح ہے لیکن کیا آیات شریفہ کے ظاہر سے اس جواب کو تطبیق کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ کچھ مشکل ہے ۔

دوسراجواب: موارد کے لحاظ سے یہ بھی مختلف ہے ،ممکن ہے بعض موارد میں خود خداوند متعالی اس کام کو انجام دیں ،لیکن اس صورت میں اس کے طریقہ کے بارے میں بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ۔

بعض مواردمیں ملک الموت اوربعض موارد میں فرشتے قبض روح کرتے ہیں،توحید صدوق میں ایک روایت ہے کہ کوئی شخص امیر المؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اورعرض کیا کہ قرآن کریم میں تناقض ہے اوراس تناقض کے لئے اسی مطلب کو مثال کے طور پر بیان کیا،اس کے بعد بولا یہ کونسی کتاب ہے ؟ کہ ایک جگہ پرفرماتا ہے ‘اللہ یتوفی الانفس ‘ دوسری جگہ فرماتا ہے ‘ یتوفاکم ملک الموت الذی وکل بکم ‘ تیسری جگہ فرماتاہے : ‘توفتہ رسلنا’ یہ سب آپس میں تناقض ہے؟

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا : ‘إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يُدَبِّرُ الْأُمُورَ كَيْفَ يَشَاءُ- وَ يُوَكِّلُ مِنْ خَلْقِهِ مَنْ يَشَاءُ بِمَا يَشَاءُ “اس کے بعد فرمایا :’أَمَّا مَلَكُ الْمَوْتِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُوَكِّلُهُ بِخَاصَّةِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ خَلْقِهِ ‘ یعنی ملک الموت بعض افراد کے قبض روح کرتا ہے ‘ بِخَاصَّةِ مَنْ يَشَاءُ ‘اوربعض دوسرے افراد کا دوسرے فرشتے قبض روح کرتے ہیں”وَيُوَكِّلُ رُسُلَهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ خَاصَّةً بِمَايَشَاءُ مِنْ خَلْقِهِ “اس کے بعد دوبارہ فرمایا’ انه تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يُدَبِّرُ الْأُمُورَ كَيْفَ يَشَاءُ- وَ لَيْسَ كُلُّ الْعِلْمِ يَسْتَطِيعُ صَاحِبُ الْعِلْمِ أَنْ يُفَسِّرَهُ لِكُلِّ النَّاسِ ‘اس کے بعد امیر المؤمنین علیہ السلام نے ایک کلی مطلب کو بیان فرمایا کہ انسان تمام علم کو دوسروں کے لئے بیان نہیں کرسکتا ‘لِأَنَّ مِنْهُمُ الْقَوِيَّ وَ الضَّعِيفَ وَ لِأَنَّ مِنْهُ مَا يُطَاقُ حَمْلُهُ وَ مِنْهُ مَا لَا يُطَاقُ حَمْلُهُ ‘علم کے لحاظ سے افراد مختلف ہیں،بعض ضعیف اوربعض قوی ہیں،ان کےفکرقوی یا ضعیف ہیں ،اسی طرح خودعلم بھی مختلف ہے بعض آسان ہے اور سب کے لیے قابل فہم ہے اوربعض علوم ،بشری فکرسے بہت بلند وبالا ہے ‘إِلَّا أَنْ يُسَهِّلَ اللَّهُ لَهُ حَمْلَهُ وَ أَعَانَهُ عَلَيْهِ مِنْ خَاصَّةِ أَوْلِيَائِهِ’ اس کے بعد اس شخص سے فرمایا تم اس طرح کی باتیں نہ کرو کہ قرآن میں تناقض ہے ،تمہیں اس بارے میں کیا معلوم !’وَ إِنَّمَا يَكْفِيكَ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ الْمُحْيِيَ الْمُمِيتَ’ تم بس یہی جان لو کہ خدا زندہ کرنے والا ہے اوراس کے بعد مارتا ہے ‘ وَ أَنَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ عَلَى يَدَيْ مَنْ يَشَاءُ مِنْ خَلْقِهِ [13]’ انفس کو اپنے ماموروں کے ذریعہ بھی توفی کرتا ہے تم اس سے زیادہ اورفکر نہ کرو ۔

پس ان آیات کے آپس میں اختلاف موارد کے اختلاف کی وجہ سے ہے ،لیکن یہ دیکھنا پڑے گا کہ یہ روایت دوسری روایات سے قابل جمع ہے یا نہیں؟ ۔

ملک الموت کے بارے میں ایک روایت ہے کہ ملک الموت نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے عرض کیا کہ میں نماز کے اوقات میں ہرانسان کے بارے میں جستجو کرتا ہوں ،اس کے گھرمیں داخل ہوتا ہوں ،ہر روز پانچوں نماز کے اوقات میں دیکھتا ہوں کہ اس انسان نے نماز پڑھا ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں دیکھنا ہو گا کہ یہ روایت اور دوسری روایات قابل جمع ہے یا نہیں ؟

وصلي الله علي محمد و آله الطاهرين

————————————————-

[1] -انعام/٦١

[2] -زمر /30

[3] -حج/5

[4] – سجدہ/١١

[5] – انعام/١٦١

[6] – نساء/٩٧

[7] – نحل/١٦

[8] – انفال/٥٠

[9] – محمد/٢٧

[10] – زمر/٤٢

[11] – نساء/١٥

[12] – تفسیر المیزان :ج١٦،ص١٥٢

[13] – بحار الأنوار؛ ج‌90، ص: 141

 

 

 

تبصرے
Loading...