مصلح عالم (۱)

اگر چہ اس مضمون میں تمام باتوں کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اپنے محترم قارئین کی مزید توجہ کے لئے ان چار عنوانات: ۱۔آیات قرآن، ۲۔اجماع واتفاق مسلمین، ۳۔روایات اہل سنت، ۴۔روایات شیعہ، کے ذیل میں ہم ان کی مختصر وضاحت پیش کریں گے ۔

جن چیزوں کے بارے میں تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق اور اجماع ہے، ان میں آخری زمانہ میں اہلبیت پیغمبر کے درمیان سے قائم آل محمد )عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کاظہور( بھی شامل ہے اور اس نظریہ کے تمام قائلین ایک ساتھ مل کر ایک ایسے عالمی انقلاب اورمصلح کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں جو خدا وند عالم پر ایمان اور اسلامی احکام کی بنیادوں پر دنیا کے نظام کو چلائے گا اور ہر طرف عدالت قائم کرے گا، دنیا کو ظالموں کے خونخوار پنجوں سے نجات عطا کرے گا اور اسلامی پرچم کو پوری دنیا میں بلند کر دے گا ۔

سب لوگوں کی آنکھیں اسی کی طرف لگی ہوئی ہیں اور سب لوگ انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں کہ پیغمبر اکرم کی اولاد میں سے ایک محترم شخصیت قیام کرکے توحید ،اسلامی برادری اور مساوات کو نئے سرے سے زندگی عطا کردے، بشریت کو سکون و اطمینان کی نعمت سے بہرہ مند کرے، تفرقہ و جدائی اور محرومی وناکامی سے نجات عطا کرے ۔

یہ ایک الٰہی وعدہ ہے جو ہر گز جھوٹا نہیں ہو سکتا، دنیا اس روشن و تابناک دور کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ،زمانہ کی رفتار ،سورج کی گردش بشریت کو ہرلمحہ اس دن سے نزدیک تر کر رہے ہےں ۔

حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت قائم ہونے کے ایمان سے متعلق قرآن مجید کی متعدد آیات ،متواتر روایات،اور مستحکم ترین اجماعات کو بہترین دلیل اور سند کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، لہٰذا جو مسلمان بھی قرآن کریم اور پیغمبر اکرم کی نبوت کا یقین رکھتا ہے اسکے لئے اس ظہور پر مکمل یقین اور ایمان رکھنا ضروری ہے ۔

اگر چہ اس مضمون میں ان باتوں کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اپنے محترم قارئین کی مزید توجہ کے لئے ان چار عنوانات: ۱۔آیات قرآن، ۲۔اجماع واتفاق مسلمین، ۳۔روایات اہل سنت، ۴۔روایات شیعہ، کے ذیل میں ہم ان کی مختصر وضاحت پیش کریں گے ۔

۱۔قرآن مجید کی آیتیں

خدا وند عالم نے قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں ان باتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگی، دین اسلام ہر طرف پھیل جائے گا اور تما م مذاہب پر اس کا غلبہ ہوگا، (صالح اور لائق حضرات حکومت کریں گے) ان میں سے بعض آیتیں یہ ہیں:

(۱)

اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے ۔

(۲)

وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے ۔

(۳)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ خدا اسکے علاوہ کچھ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اپنے نور کو تمام(اور کامل) کر دے ۔

(۱)سورہٴ انفال آیت۳۹۔

(۲)سورہٴ توبہ آیت۳۳ وسورہٴ فتح آیت ۲۸۔

(۳)سورہٴ توبہ آیت۳۲۔

(۱)

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے ۔

(۲)

اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کرنا چاہتا ہے اور کفار کے سلسلہ کو قطع کردینا چاہتا ہے ۔

(۳)

اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہر حال فنا ہونے والاہے ۔

(۴)

اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میںبھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے ۔

(۵)

اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوںسے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایاہے ۔

(۶)

اور ہمارے پیغامبربندوں سے ہماری بات پہلے ہی طے ہو چکی ہے کہ انکی مدد بہرحال کی جائیگی اور ہمارا لشکر بہر حال غالب آنے والا ہے ۔

(۷)

بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیامیں بھی مدد کرتے ہیں ۔

(۱)سورہٴ صف آیت۸۔

(۲)سورہٴ انفال آیت۷۔

(۳)سورہٴ اسراء آیت۸۱۔

(۴)سورہٴ انبیاء آیت۱۰۵۔

(۵)سورہٴ نور آیت۵۵۔(۶)سورہٴ صافات آیت۱۷۱۔۱۷۳۔

(۷)سورہٴ غافر آیت۵۱۔

(۱)

اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آنے والے ہیں بے شک اللہ صاحب قوت اور صاحب عزت ہے

انکے علاوہ دوسری آیتیں بھی ہیں جنکی تاویل حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے وقت سامنے آئے گی وہ سب بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا اور اہل حق، باطل پرستوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے یاانبیائے الٰہی کا تسلط اور نور خدا کا تمام و کامل ہونا حتمی ہے ،ان سب آیتوں کے معنی ابھی مکمل طریقے سے ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور یہ آیتیں آخری زمانے میں انکے عملی ہونے کی بشارت دے رہی ہیں ۔

خدا وند عالم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کی ضرور مدد کرے گا اور ان کو غلبہ عطا کرے گا اور یہ طے ہے کہ اس غلبہ اور مدد کا تعلق صرف آخرت ہی سے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود ارشاد فرمایا ہے:

دنیاوی زندگی میں ۔

دوسرے یہ کہ اس سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ انبیاء کرام اپنی اقوام کے اوپر اپنے زمانہ میں غلبہ حاصل کر لیں گے اور انکے مشن کو ترقی ہوگی کیونکہ بہت سارے انبیاء کی تبلیغ کا ان کی قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ بہت سے انبیاء کو قتل بھی کر دیا گیا ۔

اس مدد اور غلبہ سے انکے مقصد اور پیغام کی مدد اور اسکا غلبہ مراد ہے اور ان آیتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نصرت کسی خاص رتبہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سے ہر طرح کی(مطلق) نصرت مراد ہے ۔

یہی نور کو تمام کرنے کے معنی بھی ہیں کہ جو لوگ خدا کے نور کو بجھانا چاہیں گے اور اسلام کی

(۱)سورہٴ مجادلہ آیت۲۱۔

پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کریں گے انکے مقابلہ میں خدا وند عالم اپنے نور کو کامل کر دے گا اسکے معنی بھی یہی ہیں کہ خدا وند عالم دین کو ترقی عطا کرے گا اسلام کی سرحدیں بڑھتی چلی جائیں گی اور یہ نور اس وقت مکمل ہوگا جب اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا ۔

زمین پر مومنین کی جا نشینی اور اس پر ان کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری زمین کے مالک و مختار بن جائیں گے بلکہ یہ موقع صرف امام زمانہ اور ان کے ساتھیوں کو ملے گا۔

باطل کے اوپر ہر لحاظ سے حق کے غلبہ کے بھی یہی معنی ہیں کہ ہر اعتبار سے حق، باطل پر کامیاب و کامران ہو جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ حجت و برہان کے ذریعہ غالب ہوگا اور ظاہر میں غالب نہ ہوگا تو اسے ہر لحاظ سے غلبہ نہیں کہا جائے گا جبکہ ان آیتوں سے ہر طرح کا تسلط سمجھ میں آتا ہے ۔

لیکن یہ آیت:

تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا دے ۔

اسلام کے غالب ہو جانے کے بارے میں واضح دلیل ہے ۔

ان آیتوں کی تائید اُن روایتوں سے بھی ہوتی ہے جو رسول اکرم سے اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں جیسے آپ نے فرمایا:

جہاں کہیں بھی رات داخل ہوتی ہے یہ دین وہاں ضرورپہنچے گا۔

اس حدیث میں آپ نے”علی ما دخل علیہ اللیل “فرمایا ہے اور ”علی ما دخل علیہ الیوم او الشمس“نہیں فرمایا اسکا راز شائد یہ ہو کہ اسمیں دین کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جہاں رات ہوتی ہے وہاں سورج ضرور پہنچتا ہے اسی طرح اسلام کے روشن و منور سورج کی کرنیں پوری دنیا میں پھیل جائےں گی اور کفر و ضلالت کی تاریکی کا اسی طرح خاتمہ ہو جائے گا جس طرح سورج ،رات کا خاتمہ کر دیتا ہے ۔

۲۔اجماع مسلمین

اگر اس اجماع اور اتفاق سے شیعوں کا اجماع مرادہو تو یہ بالکل واضح ہے اور اسے سب ہی جانتے ہیں کہ امام حسن عسکری کے فرزند دلبند حضرت قائم آل محمدکا ظہور شیعہ اثنا عشری مذہب کا اہم حصہ ہے اور اگر اس سے تمام مسلمانوں کا اتفاق مراد ہو تو اسکے ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کے ایک صاحب نظر اور نکتہ سنج عالم، معتزلیوں کے علامہ ابن الحدید کا یہی ایک جملہ کافی ہے جو انہوں نے شرح نہج البلاغہ (مطبوعہ مصر ج۲ ص۵۳۵)میں تحریرکیا ہے :

”قد وقع اتفاق الفریقین من المسلمین اجمعین علی ان الدنیا والتکلیف لا ینقضی الا علیہ“

”دونوں فرقوںسنّی اور شیعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا اور تکلیف شرعی کاخاتمہ نہ ہوگا مگر حضرت پر “یعنی آپ کے ظہور کے بعد۔

اہل سنت کے اور چار معروف علماء کے اقوال کیونکہ آئندہ مضمون میں نقل کئے گئے ہیں لہٰذا انہیں اس مقام پر ذکر نہیں کیا جا رہا ہے انھیں وہیں ملاحظہ فرمائیے ۔

جو لوگ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ مصلح منتظر مہدی آل محمد علیہ الصلاة والسلام کے ظہور کے بارے میں تمام مسلمانوں کے درمیان اس حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پہلی صدی ہجری سے اب تک جس نے بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے یا جس کی طرف اس دعوے کی نسبت دی گئی ہے سب نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے لیکن خود مسئلہ ظہور کی مخالفت کسی نے نہیں کی کیونکہ یہ بات مسلمانوں کے اجماع اور پیغمبر اکرم کی صریحی روایات کے خلاف تھی بلکہ وہ ان کی مخالفت اور ابطال کے لئے یہ طریقہ اپناتے تھے کہ روایات میں حضرت مہدی کے ظہور سے متعلق جن علامتوں اور نشانیوں کا تذکرہ ہے چونکہ ان مدعیوں کے یہاں ان میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔

اہل سنت کے چاروں مذاہب کے چار بزرگ علماء یعنی ابن حجرشافعی، ابو السرور احمد بن ضیاء حنفی،محمد بن احمد مالکی،یحییٰ بن محمد حنبلی سے جب اس سلسلہ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اسکا اسی اندازمیں جواب دیا جسکی تفصیل کتاب ”البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان “ باب ۱۳ پر انکے فتووٴں کے ساتھ نقل ہوئی ہے انھوں نے مسئلہ ظہور مہدی کوثابت کرنے کے ساتھ آپ کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے یعنی وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے یا حضرت عیسیٰ آپ کی اقتدا کریں گے یا آپ کے دوسرے اوصاف بیان کئے ہیں مختصر یہ کہ یہ ان کا مدلّل، دوٹوک اور قانونی فتویٰ ہے حتیٰ کہ جناب زید کی طرف مہدویت کی جو غلط نسبت دی گئی تھی اس سلسلہ میں بنی امیہ کے شاعر حکیم بن عیاش کلبی نے یوں کہا ہے:

(۱)

مجھے کوئی ایسا مہدی نہیں دکھائی دیا جسے سولی دی گئی ہو۔

اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ مہدی جب ظہور کرینگے تو تمام ممالک کو فتح کرینگے اور پوری دنیا میں صرف انہیں کی حکومت ہوگی ، ہر جگہ عدل و انصاف کا رواج ہوگا تو پھر جناب زید جنہیں سولی پر لٹکایا گیا وہ کس طرح مہدی ہو سکتے ہیں؟

۳۔احادیث اہل سنت

اہل سنت کے بڑے بڑے محدثین جنکے نام اور ان کی کتابوں کی تفصیل اس مقالہ میں اختصار کی بنا پر ذکر کرنا ممکن نہیں ہے انہوں نے حضرت مہدی کے بارے میں صحابہ کے علاوہ بہت

(۱)ابن حجر عسقلانی شافعی نے اپنی کتاب ”الاصابہ ج۱ ،ص۳۹۵ پر” فوائد کواکبی“ سے جو روایت نقل کی ہے اسکے مطابق، یہ حکیم بن عیاش ،امام جعفر صادق کی بد دعا کی وجہ سے بہت ہی عبرتناک حالت میں ہلاک ہوا تھا۔

سے تابعین سے بھی کثرت کے ساتھ روایتیں نقل کی ہیں اور بعض حضرات نے تو اس سلسلہ میں مستقل کتاب بھی تالیف کی ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے ان روایتوں کے متواتر(۱)ہونے کی تصریح کی ہے اور ان حضرات کی تحریروں میں اس بات کی تاکید موجود ہے ۔

اس مقالہ کے بعض حصے جیسے صحابہ کے نام یا جن علمائے اہل سنت نے اس سلسلہ میں کتابیں لکھی ہیں یا جن لوگوں نے روایتوں کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے ان سب کے نام چونکہ اسی کتاب میں آئندہ ذکر کئے جائیں گے لہٰذا انہیں یہاں حذف کیا جا رہا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ : پیغمبر اکرم کی متواتر روایات سے صرف مسئلہ ظہور مہدی ہی حتمی اور قطعی نہیں ہے بلکہ تواتر کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے اور حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہو کر آپ کی اقتدا کرینگے اور آپ پوری دنیا کو فتح کر کے اسمیں قرآنی احکام کوعام کردینگے ۔

اسکے علاوہ اہل سنت کے بہت سے علماء و محققین نے اپنے اشعار، قصائد یا اپنی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر “ کی تیسری فصل کے پہلے باب میں آنحضرت کی ولادت ،غیبت اور امامت سے متعلق اہل سنت کے ساٹھ علماء کے واضح اعترافات نقل کئے ہیںچنانچہ جو منصف مزاج انسان بھی ان اعترافات کو ملاحظہ کر ے اسکے لئے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا ہے ۔

۴۔احادیث شیعہ

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیعوں نے جو روایتیں نقل کی ہیں وہ سب سے زیادہ معتبر ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم کے دور سے لیکر آج تک انکے درمیان حدیث نویسی کا سلسلہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا اورجو کتابیں پہلی صدی ہجری سے۵۰ہجری تک یا ۵۰ ہجری سے ۱۰۰ ہجری تک لکھی گئیں

(۱)حدیث متواتر : اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسکے نقل کرنے والے راوی اتنے افراد ہوں جنکے جھوٹ بولنے اور ساز باز کرنے کا امکان نہ ہو

تھیں انمیں سے بعض آج بھی موجود ہیں جن سے لوگ با قاعدہ استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان کی سب سے پہلی کتاب وہی کتاب ہے جسے رسول اکرم نے املاء فرمایا تھا اور حضرت علی نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا جیساکہ متعدد روایات میں ذکر ہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام احادیث کو نقل کرتے وقت اس کتاب کو سند کے طور پر پیش کرتے تھے ۔

دوسرے فرقوں کی روایتوں کے مقابلہ میں شیعوں کی روایتوں کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی روایتیں ائمہ معصومین کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں اور یہ حضرات زہدوتقویٰ کا نمونہ ہیں اور ان کی عظمت و فضیلت فریقین کے نزدیک ہر لحاظ سے مسلّم ہے اور ”اہل البیت ادریٰ بما فی البیت “ (یعنی گھر والوں کو اپنے گھر کے حالات بہتر معلوم ہوتے ہیں)کے مطابق ان سے منقول روایتیںفطری طور پر زیادہ محکم اور غلطیوں سے پاک ہیں ۔

تیسری اہم وجہ : جسکی بنا پر شیعوں کی روایات سب سے زیادہ معتبر قرار پائی ہیں اور درحقیقت یہی سبب ان کی روایتوں کا بہترین پشت پناہ اور سند بھی ہے وہ حدیث ثقلین ہے جو متواتر بھی ہے یا حدیث سفینہ اورحدیث امان یا ان کے علاوہ اور دوسری روایات ہیں جن میں امت کو اہل بیت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ اہل بیت قرآن مجید کے ہم پلہ ہیں اور ان کا قول حجت ہے اور ان کے دامن سے وابستگی گمراہی سے نجات ہے نیز یہ کہ کوئی زمانہ، معصوم امام کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتا ہے ۔

 

یہی وجہ ہے کہ ائمہ طاہرین سے جو روایتیں نقل ہوئیں ہیں ان میں اعلیٰ درجہ کی صداقت اور اعتبار پایا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف تو تمام عقلاء کی سیرت یہی ہے کہ وہ ایک معتبر شخص کی بات کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں دوسرے یہ کہ اہل بیت کو پیغمبراکرم سے جس درجہ قربت حاصل تھی اور آنحضرت کے نزدیک ان لوگوں کا جو مرتبہ و مقام تھا وہ صحابہ اور تابعین میں کسی کو بھی حاصل نہیں تھا حتیٰ کہ حدیث ثقلین کے مطابق ان حضرات کا قول اور فعل شرعی حجت اور دلیل ہے اور کیونکہ یہ لوگ معصوم ہیں اور قرآن سے کبھی جدا نہیں ہونگے لہٰذا امت کے لئے ان کی بات ماننا اور ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے ۔

اس مختصر تمہید کے بعد( جسے ہم نے اپنی اُس کتاب میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس میں اہل بیت کی پیروی کے واجب ہونے اور ان سے علم حاصل کرنے کے بارے میں گفتگو کی ہے) باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کے یہاں قائم آل محمد حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالی فرجہ کے ظہور سے متعلق ان کے عظیم علماء ومحدثین کی کتابوں میں معتبر ترین روایات موجود ہیں جو آغاز ہجرت سے اب تک لکھی گئی ہیں جیسے ان اصل کتابوں کی روایتیں جو حضرت قائم آل محمد کی ولادت سے پہلے تالیف ہوئی ہیں مثلاً حسن بن محبوب (متوفیٰ ۲۲۴ ھ) کی کتاب ”مشیخہ“ یا ”سلیم بن قیس “ (متوفیٰ ۷۰ یا ۹۰ ہجری )کی کتاب ۔

یہ ایسی روایات ہیں کہ ان میں سے صرف ایک روایت ہی امام زمانہ کی امامت کو یقینی طور پر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور یہ کہ آپ امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں ،وہ روایات جن میں ایسی پیشین گوئیاں بھی ہیں جو اب تک سچ ثابت ہو چکی ہیں اور وہ اولیائے خدا کا معجزہ سمجھی جاتی ہیں اور انہیں ان کی غیب سے متعلق خبر شمار کیا جاتا ہے ۔وہ روایتیں جن میں اس ظہور کے خصوصیات ،شرائط اور اس کی علامتیں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں ان روایتوں کی تعداد تواتر سے کہیں زیادہ ہے اور ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا صرف اسی کے لئے ممکن ہے جسکا مطالعہ بہت وسیع ہو اور وہ اس فن میں واقعاً صاحب نظر ہو ۔

قارئین محترم یہ مشکل صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے جسکی بہترین دلیل حدیث کے اہم مجموعوں کے علاوہ بڑے بڑے شیعہ محدثین کی وہ سینکڑوں کتابیں بھی ہیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔

جیسے تیسری صدی ہجری کے بزرگ عالم عیسیٰ بن مہران مستعطف کی تالیف ”المھدی “، فضل بن شاذان کی کتاب ”قائم و غیبت “، تیسری صدی ہجری کے جلیل القدر عالم عبد اللہ بن جعفر حمیری کی تالیف ”غیبت“،یا کتاب ”غیب وذکرالقائم “ موٴلفہ ابن اخی طاہر(متوفیٰ۳۵۸ھ)، محمد بن قاسم بغداد ی معاصر ابن ہمام (متوفیٰ ۳۳۳ھ) کی کتاب ”غیبت“، شیخ کلینی کے ماموں علان رازی کلینی کی تالیف ”اخبار القائم “یا ”اخبار المھدی“مولفہ جلودی (متوفیٰ ۳۳۲ھ)، چوتھی صدی ہجری کے ایک بڑے عالم نعمانی کی ”کتاب غیبت“، حسن بن حمزہ مرعشی (متوفیٰ ۳۵۸ھ)کی تالیف ”غیبت“یا” دلائل خروج القائم“ مولفہ ابن علی حسن بن محمد بصری، (تیسری صدی ہجری کے عالم)احمد بن رمیح المروزی یا کتاب ”ذکر القائم من آل محمد“ قدیم محدث ابی علی احمد بن محمد جرجانی کی تالیف” اخبار القائم “ یا”الشفاء والجلاء“ مولفہ احمد بن علی رازی” ترتیب الدولہ“مولفہ احمد بن حسین مہرانی، ”کمال الدین “ ، ”کتاب غیبت کبیر“تالیف شیخ صدوق(متوفیٰ ۳۸۱ھ)، ابن جنید کی کتاب”غیبت“ (متوفیٰ۳۸۱ھ)، ”کتاب غیبت“مولفہ شیخ مفید(متوفیٰ ۴۱۳ھ)، سید مرتضیٰ (متوفیٰ ۴۳۶)کی کتاب غیبت، شیخ طوسی(متوفیٰ ۴۶۰)کی کتاب ”غیبت“۔ سید مرتضیٰ کے ہم عصر اسعد آبادی کی تالیف” تاج الشرفی ،کتا ب ما نزل من القرآن فی صاحب الزمان“ موٴلفہ عبداللہ عیاش (متوفیٰ ۴۰۱) ”فرج کبیر“،موٴلفہ محمد بن ھبت اللہ طرابلسی (شاگرد شیخ طوسی ) اسی طرح” برکات القائم“ ،تکمیل الدین، بغیة الطالب ،تبصرة الاولیاء ،کفایة المہدی ،اخبار القائم ،اخبار ظہور المہدی الحجة البالغ ،تثبیت الاقران ،حجة الخصام ،الدر المقصود ،اثبات الحجة ،اتمام الحجة ،اثبات وجود القائم ،مولد القائم،الحجة فی ما نزل فی الحجہ ،الذخیر ة فی المحشر ،السلطان المفرج عن الایمان،سرود اہل الایمان، جنی الجنتین ،بحار الانوار کی تیرھویں جلد ،غیبتِ عوالم کے علاوہ ایسی اور بھی سینکڑو ں کتابیں ہیں جن کی فہرست اور موٴلفین کے نام تحریر کرنے سے یہ گفتگو کافی طویل ہو جائے گی ۔

ان متواتر روایات کی روشنی میں اس مقام پر ہم حضرت مہدی کے بعض اوصاف اور ان کی بعض علامتیں ایک فہرست کی شکل میں پیش کر رہے ہیں جن کی وضاحت کسی دوسرے موقع پر پیش کی جائے گی ۔ (۱)

آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام عصر کے موجود ہونے کے بارے میں اور بھی عقلی و نقلی دلیلیں موجود ہیں جن کوہم اس مقام پر بیان نہیں کر رہے ہیں ۔

البتہ مختصر یہ کہ وہ تمام عقلی و نقلی دلیلیں جو امامت عامہ پر دلالت کرتی ہیں یا یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک امام معصوم کا موجود ہونا ضروری ہے، ہر امام کی معرفت واجب ہے اور کبھی بھی زمین حجت سے خالی نہیں رہ سکتی کیونکہ ”لو بقیت الارض بغیر حجة لساخت باھلھا “ اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ تمام اہل زمین کو اپنے اندر دھنسا لے گی ،یہی سب دلیلیں حضرت صاحب الزمان کے وجود اور آپ کی امامت کی مستحکم دلیلیں ہےں اور امام عصر ارواحنافداہ کے وجود کے اثبات اور پردہٴ غیبت میں آپ کے زندہ رہنے پر استدلال و بر ہان قائم کرنے کے لئے یہی دلیلیں بہترین سند ہیں ۔

(۱)چونکہ یہ تمام اوصاف ”امام مہدی کے اوصاف اور امتیازات “نامی فصل میں بیان کئے جائیں گے لہٰذا انہیں اس جگہ سے حذف کر دیا گیا ہے ،قارئین کرام ص۸۰کا مطالعہ فرمائیں ۔

 

تبصرے
Loading...