مشہور عیسائی عالم اور دانشور جارج جرداق کی ندائی عدالت انسانی سے اقتباس

رات تاریک اور ڈراؤنی تهی، آسمان پر ابر سیاه محیط تها کبهی کبهی بجلی چمک جاتی تهی جس کی روشنی گهٹا ٹوپ اندهیرے میں اجالا پهیلادیتی تهی، عقاب اپنے گهونسلوں میں سرچهپائے سو رہے تهے کہ کل ان کے بال و پر جهڑ جانے والے تهے اور وه سرور جہان کے غم میں سوگوار ہونے والے تهے.

امام (علیہ السلام)جاگ رہے تهے آنکهیں خواب سے محروم تهیں کیونکہ روئے زمین پر دکھ کے مارے ظلم کے پنجے میں تهے اور ان کا جینا دوبهر ہورہا تها. کچھ لوگ لہو و لعب اور سرکشی میں مبتلا تهے،قوت اور طاقت والے ایک طرف ظلم و جور کا بازار گرم کئے ہوئے تهے اور کمزور اور ناتوان طاقتور کا لقمہ بنے ہوئے تهے، آپ (علیہ السلام)کے دشمن شر و فساد میں ایک دوسرے کا ہاتھ بتا رہے تهے، کچھ بدکار تهے جو تعصب و نافرمانی کے کاموں میں ایک دوسرے کی محبت کا دم بهرتے تهے، کچھ خود کو آپ (علیہ السلام)کے یاران و انصار میں سے جانتے تهے مگر انہوں نے حق کو ترک کردیا تها اور ایک دوسرے کی مدد سے گریزان تهے.

امام (علیہ السلام)بیدار تهے آنکهوں نیند سے کوسوں دور تهی کیونکہ عدل و انصاف سے منہ موڑ لیا گیا تها، نیکی کو خیر باد کہہ دیا گیا تها، عوام الناس کی تقدیر فسادیوں کے ہاتهوں میں کهلونا بنی ہوئی تهی . خلائق کی جان خونریز مفسدوں کے اختیار میں تهی اور روئے زمین پر نفاق کی بہتات تهی.

امام جاگ رہے تهے نیند کے ذائقے سے محروم  وه دنیا میں ہمیشہ حق و انصاف کے مددگار اور دست و بازو رہے ، مصیبت زدوں اور پریشان حالوں کے لئے بمنزلہ شفیق و مہربان بهائی تهے، ظالموں اور سرکشوں کے سروں پر مثل صاعقہ تهے، آپ (علیہ السلام)اپنی زبان اور شمشیر دونوں سے ظالموں کے خلاف بر سر پیکار رہے.

اس شب آپ (علیہ السلام)نے اپنی پوری زندگی پر نظر دوڑائی، بچپن ہی سے آپ (علیہ السلام)کے ہاتھ میں  شمشیر بُرّان رہی، مشرکین مکہ کے کلیجوں کو سہائے رہے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کی اور نور رسالت کی خدمت میں جان لڑاتے رہے. آپ (علیہ السلام)نے شب هجرت تلواروں تلے محو خواب رہنا یاد کیا، آپ (علیہ السلام)نے گذشتہ صعوبتوں اور لڑائیوں کا تصور کیا جہان آپ (علیہ السلام)نے اپنے ایمان اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کی محبت کی قوت سے قلعوں کو منہدم کردیا اور ہر خبیث کو جہنم واصل کیا، مؤمنین آپ (علیہ السلام)کی ہر ضربت پر سجده شکر بجا لاتے اور زمین کے بوسے لیتے تهے کیونکہ وه دیکهتے تهے کہ ظالم آپ (علیه السلام) سے یوں بهاگ رہے ہیں جیسے تیز آندهی میں ٹڈیاں تتر بتر ہوجاتی ہیں.

اپنے ابن عم الله کے رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  کا تصور کیا جو کمال شفقت و محبت سے آپ (علیہ السلام)کو دیکھ رہے تهے اور آپ (علیہ السلام)کو کلیجے سے لگاکر فرما رہے تهے “یہ میرا بهائی ہے”.

پیغمبر خدا (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  تشریف لائے اورآپ محو استراحت تهے جناب سیده (سلام الله علیہا) نے آپ (علیہ السلام)کو جگانا چاہا تو پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  نے ارشاد فرمایا ” انہیں سونے دو کہ انہیں میرے بعد طویل مدت تک خواب سے محروم رہنا ہے” اس پر جناب سیده (سلام الله علیہا) روئیں اور روتی رہیں.

آپ (علیہ السلام)کی نظروں میں رسول الله (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کا منظر گذر گیا آپ اس وقت 33 برس کے تهے. آپ (علیہ السلام)نے الله کے رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  اور اپنے بهائی کو غسل کفن اور دفن کا انتظام خود اپنے ہاتهوں سے کیا. آپ (علیہ السلام)ایک دائمی رنج و اندوه طاری ہوگیا، جناب سیده (سلام الله علیہا) اپنے پدر عالی قدر کے غم اور ان کے بعد کی مصیبتوں سے 75  یا 95 دن بعد ہی ان سے جاملیں، فرط غم نے آپ (علیہ السلام)کی نیندیں اڑادیں.

آپ (علیہ السلام)نے اصحاب رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  کی صورتیں یاد کیں جو یہ فقره ہر وقت دہراتے رہتے تهے ” کنا نعرف المنافقین فی عهد رسول الله (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) ببغض علی (علیہ السلام)

یعنی: عہد پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  میں ہم منافقوں کو ان (علی علیہ السلام) سے دشمنی سے پہچانا کرتے تهے، رسول الله نے ایک بار نہیں بارہا یہ فرمایا تها: یا علی لا یبغضک الا منافق. یعنی: ای علی (علیہ السلام) صرف منافق ہی آپ سے دشمنی کرسکتا ہے.

ان ہی لمحوں میں آپ (علیہ السلام)نے ان رفقاء اور انصار کو یاد کیا جو پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  کی زندگی میں میں ایک دوسرے کے مددگار تهے، آج انہی میں سے کچھ لوگ آپ (علیہ السلام)کے ساتھ تهے اور کچھ لوک حکومت کی طمع کئی بیٹهے تهے، وه پاک طینت و پاکباز اصحاب جو وفادار، حق و عدل کے حمایتی اور نیکیوں کا قول و قرار کئے ہوئے تهے خداوندا ان پر رحمتیں نازل فرما جو اس دنیا سے اجنبی اور بیگانہ تهے، انہوں نے حق کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تها اور دشمنوں کے جور و ستم نے انہیں زمین کی گہرائیوں میں پوشیده کردیا.

ابوذر غفاری رسول خدا (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  کے بزرگترین صحابی جن سے زندگی کی ذلت و اہانت برداشت نہ ہوسکی اور وه اس کے خلاف اٹھ کهڑے ہوئے. وه معززترین انسان جس کی حق پرستی کی وجہ سے علی (علیہ السلام)کے سوا ان کا کوئی دوست نہ رہا، ہائے کتنا اندوہناک انجام ہؤا ان کا؟ وه جی جان سے حق کے سرگرم حمایتی رہے یہاں تک کہ انہوں نے عہد عثمان میں مظلومین کی خاطر سارے بنو امیہ کے خلاف محاذ قائم کیا بنو امیہ کے ہاتهوں ان کا غمناک انجام.

ایسے ہی ایک رات کچھ عرصہ پہلے علی (علیہ السلام)کے رفیق و جان نثار متقی و پرہیزگار، غموں میں شریک بهائی صحابی رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  عمار یاسر رضوان الله تعالی علیہ شہید ہوئے، ان کو باغیوں نے صفین کی لڑائی میں شہید کیا تها ( بالکل اسی طرح جیسا کہ رسول الله (صلی الله علیہ و آلہ و سلم)  نے انہیں بشارت سنائی تهی کہ تقتلک فئة باغیة= تم کو باغی گروه قتل کردے گا)

آج ظلم و جفا، جور و ستم سے خونین جنگ اور ہولناک لڑائی لڑنے علی (علیہ السلام)اکیلے ره گئے تهے. یہ ایسی جنگ تهی جس میں حق ایک طرف یکہ و تنہا تها، یہ جنگ تهی علی کی، جو دنیا کی نعمتیں اور آسائشیں دوسروں کے لئے چاہتے تهے اور ان لوگوں کے درمیان موجود کچھ لوگ، رعیت کو کو سرسبز زمینوں اور مرغزاروں سے نکال کر بے آب و گیاه بنجر لق و دق صحراؤں اور باد سموم کی تندیوں میں دهکیلنا چاہتے تهے.

کل کا دن، وه دن جس کا علی (علیہ السلام)اپنے قلب و عقل سے تصور کررہے تهے، اس رات کے بعد کوئی بهی برا آدمی حق کو معزز کرکے ترجیح نہ دے گا جب کہ کذب سے اسے فائده پهنچنے کی امید ہو. اس رات کے بعد کوئی ایسا حاکم نہ ہوگا جو لوگوں کے لئے بمنزلت باپ کے ہو، جو باطل کی لذتوں کے مقابلے میں حق کے مصائب و آلام کو دوست رکهتا ہو. اس رات کے بعد ایسے قلب و عقل کا وجود نہ رہے گا جو خلائق کے ساتھ عادلانہ برتاؤ کرے. حق پر عمل پیرا ہو، چاہے پہاڑوں میں زلزلہ آجائے یا زمین کا سنہ شق ہوجائے- امیر المؤمنین (علیہ السلام)دیر تک روتے رہے.

وقت گذرتا گیا، رات تاریک ہوتی گئی، ابن ابی طالب (علیہما السلام) نے محسوس کیا کہ وہ دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں. ہائے زمین کیسی وحشت کی جگہ اور اجنبی بیگانہ و فریب کی منزل ہے؟ آپ (علیہ السلام)نے دنیا پر اپنے چشم دل سے نظر کی  اور فرمایا ” اے دنیا میرے سوا کسی اور کو فریب دینا”.

کیا زندگی تهی علی (علیہ السلام)کی جو یا تو جہاد کرتے گذر گئی یا مصائب و آلام جهیلتے کٹی-

علی (علیہ السلام)صحن سے مسجد کی طرف روانہ ہوئے، آسمان قطرہ ہائے اشک برسا رہا تها طائروں پر حزن و اندوه طاری تها. ابهی آپ صحن مسجد تک نہ پهنچے تهے کہ بطخیں آپ کی طرف دوڑ کر چیخنے چلانے لگیں اور ان کے ساتھ صبح کی برفیلی ہواؤں نے بهی فریاد و زاری کی صدائیں بلند کیں، نمازی سکوت اور خاموشی کے ساتھ آپ (علیہ السلام)کی طرف بڑھے انہوں نے بطخوں کو امام (علیہ السلام)کے پاس سے ہٹانا چاہا مگر نہ تو بطحیں آپ کے پاس سے دور ہٹیں اور نہ ہی انہوں نے چلانا بند کیا. ہوا بهی سنسنا رہی تهی گویا یہ سب اس مصیبت سے باخبر تهے جو جناب امیر (علیہ السلام)کی دنیا میں آخری مصیبت ہوگی.

امیر المؤمنین (علیہ السلام)نے ان چیختی چلاتی بطخوں کی آوازوں کو غور سے سنا اور لوگوں کی طرف مڑ کر فرمایا: انہیں نہ ہٹاؤ یہ نوحہ کرنے والیاں ہیں. آپ (علیہ السلام)کا یہ جملہ آنے والی مصیبت کی پیشین گوئی تها، آپ (علیہ السلام)نے محسوس کیا کہ ایک دور دراز کا سفر شروع ہؤا چاہتا ہے.آپ تهوڑی دیر تک مسجد کے دروازے پر ٹہرے، ان بطخوں کی طرف نظر کی اور حاضرین کی طرف رخ کرکے کئی بار یہ فقره دہرایا “لا تزجروهن انهن نوائح” (= انہیں نہ ہٹاؤ یہ نوحہ کرنے والیاں ہیں)

علی (علیہ السلام)مسجد میں آئے رب العزت کے حضور سر جهکایا- ان ملجم زہر الود تلوار ہاتھ میں لئے آیا اور حضرت کے سرپر وار کیا کہ جس کے متعلق اس کاکہنا تها کہ اگر یہ وار سارے شہر کے باشندوں پر پڑے تو ایک شخص بهی زنده نہ بچے.

خدا کی لعنت ہو ابن ملجم پر اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو اس پر، اس پر دنیا میں ہر آنے والے اور دنیا سے ہر جانے والے کی لعنت ہو. ہر اس شخص کی لعنت ہو جو خدا کے حکم سے پیدا ہؤا. خداوند عالم ابن ملجم پر ایسی لعنت کرے کہ وہ لعنت دریاؤں پر پڑے تو وہ خشک ہوجائیں، کهیتوں پر پڑے تو وه نیست و نابود ہوجائیں اور سرسبز پودوں کو زمین کے اندر ہی جلا کر راکھ کردے. جہانوں کا خالق و مالک جہنم کے بهڑکتے شعلے اس پر مسلط فرمائے اور اسے منہ کے بل جہنم میں دال دے. اس جگہ جہاں آگ کے شعلے لپک رہے ہوں اور قہر الہی کا جوش و خروش ظاہر کررہے ہوں.

محبان علی (علیہ السلام)کو عظیم ترین صدمہ پهنچا، زمانے نے علی (علیہ السلام)پر گریہ کیا، اور آنے والے صدیان بهی علی (علیہ السلام)پر گریہ کریں گی. دنیا کی ہر چیز شکستہ و  اندوہگین ہوئی سوائے علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) کے جن کا چہرہ ہشاش بشاش تها. آپ (علیہ السلام)نے نہ انتقام کی خواہش ظاہر کی نہ غیظ و غضب کا اظہار کیا بلکہ ” فزت برب الکعبة” کہہ کر اپنی کامیابی کا اعلان فرمادیا. لیکن آپ (علیہ السلام)کے چہرے کی بشاشت تمام مصائب و آفات سے بڑھ کر اندوہناک تهی اس وقت آپ کا چہره سقراط کے چہرے سے مشابہ تها جس وقت جاہل اورنادان عوام نے اسے زہر پلایا تها، عیسی ابن مریم (علی نبینا و آلہ و علیہ السلام)کے چہرے جیسا تها جب کہ قوم یہود آپ (علیہ السلام)کو کوڑوں سے اذیت پهنچا رہے تهے، محمد مصطفی (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کے چہرے جیسا تها جب آپ (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) پر طائف کے نادان پتهر برسا رہے تهے اور یہ نہ سمجھ رہے تهے کہ ہم کس بزرگترین ہستی کو یہ پتهر مار رہے ہیں.

کوفہ کا سب سے بڑا طبیب حاذق اثیر بن عمرو ہانی آیا اور زخم کے معائنے کے بعد اس نے مأیوسی کا اظہار کیا، آپ نے حسن اور حسین (علیہما السلام) کو اپنے پاس بلاکر وصیتیں فرمائیں جن میں سے چند جملے یہ ہیں:

” میرے قتل کی وجہ سے ہنگامہ یا خونریزی نہ کرنا، اپنے پڑوسیوں کا لحاظ کرنا، فقراء اور مساکین کا خیال رکهنا اور انہیں بهی اپنی روزی اور معاش میں شریک رکهنا، اچهی بات کہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا، آپس میں لطف اور مہربانی سے پیش آنا، بی تکلفی اور سادگی برتنا، ایک دوسرے سے نہ کٹنا، متفرق نہ ہونا و…

بروز جمعہ صبح کے وقت آپ (علیہ السلام)کے فرق مبارک پر ضربت لگی تهی اس کے بعد دو روز تک انتہائی کرب و اذیت کے عالم میں زنده رہے مگر آپ (علیہ السلام)نے اف تک نہ کی، لوگوں کو احسان و نیکی اور رحم و کرم وصیت فرماتے رہے. ماه رمضان کی اکیسویں شب کو آپ (علیہ السلام)نے اس دنیا سے رحلت فرمائی.

آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے بعد ایسا خاندان چهوڑ گئے جس کا ایک ایک فرد راه حق میں شہید ہؤا، اپنے بعد دکهیاری بیتی زینب (سلام الله علیہا) کو دنیا بهر کے مصائب و آلام جهیلنے کے لئے چهوڑ گئے اور دنیا نے ان کے ساتھ وه بے رحمی و شقاوت کا سلوک کیا جیسا کسی کے ساتھ نہ کیا ہوگا. حسن اور حسین (علیہما السلام) کو ابوسفیان کی بیٹی اور دیگر خون کے پیاسے دشمنوں میں چهوڑ گئے.

علی (علیہ السلام)اور فرزندان علی (علیہم السلام) کے خلاف سازش کا پہلا دور تمام ہؤا، اس کے بعد بے شمار دور آئے اور ہر دور اپنی آغوش میں ہولناک تر اور سخت تر اور شدید تر مصائب لئے ہوئے تها.

امام (علیہ السلام)اپنے دشمنوں کو دنیا میں زندہ چهوڑ گئے لیکن ان کی یہ زندگی عین ہلاکت تهی.

علی محراب کوفہ میں اپنی شدت عدل کی بنا پر مارے گئے تهے.

تبصرے
Loading...