مسلم بن عقیل سفیر حسین بن علی علیہ السلام

جس وقت اہل کوفہ کو یہ خبر ملی کہ معاویہ واصل جہنم ہو گیا اور امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے تو وہ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہوئے اور اس بات کا فیصلہ کیا کہ امام (ع)کو کوفہ بلایا جائے ، چنانچہ انھوں نے امام کو خط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی ۔ 

جب کوفہ سے بار بار خطوط آنے لگے تو امام حسین علیہ السلام نے اہل کوفہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جناب مسلم کو اپنا ایلچی بنا کر کوفہ کی جانب روانہ کیا اور انھیں اس بات کا حکم دیا کہ وہاں جا کر کوفہ کے حالات کا جائزہ لو اور ہمیں خبر کرو کہ اگر وہ لوگ اپنے اس نصرت کے وعدے پر قائم رہے تو ہم کوفہ آئیں گے ۔

جناب مسلم بن عقیل امام حسین علیہ السلام کے خط کے ساتھ کوفہ میں جناب مختار کے گھر پہنچے ، اس خط میں امام حسین علیہ السلام نے جناب مسلم کو اپنا بھائی اور مورد اعتماد قرار دیا تھا۔ 

جس وقت کوفہ والوں کو جناب مسلم کے آنے کی خبر ملی تو ۱۸ہزار افراد نے آکر جناب مسلم کے ہاتھوں پر بیعت کی ، اور جب جناب مسلم کو ان کی باتوں پر اطمینان ہو گیا تو آپ نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا کہ ۱۸ ہزار اہل کوفہ نے آپ کے نام پر ہمارے ہاتھوں پر بیعت کر لیا ہے لہذا خط ملتے ہی آپ کوفہ کے لئے روانہ ہو جائیں ۔ 

امویوں نے جناب مسلم کے اس عظیم استقبال کو دیکھتے ہوئے یزید کو خط لکھا کہ اگر کوفہ بچانا چاہتے ہو تو کسی لائق والی کو یہاں بھیجو ۔ چنانچہ یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا والی مقرر کیا اور وہ بصرہ سے کوفہ آیا اور لوگوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا جس کی وجہ سے اہل کوفہ نے جناب مختار کی حمایت کم کر دی اور جیسے جیسے عبیداللہ کا منحوس سایہ اہل کوفہ پر پڑتا گیا جناب مسلم کے حامی کم ہوتے گئے ۔ 

جب عبیداللہ نے ڈرا دھمکا کر اہل کوفہ کو مسلم سے دور کر دیا تو جناب مسلم کی تلاش شروع کی اور جناب مسلم کا پتہ بتانے والے کو انعام و اکرام سے نوازنے کا وعدہ کیا ۔ جناب مسلم کے میزبان ہانی بن عروہ کو دار الامارہ میں بلا کر سزا دی ۔ جناب مسلم نے چار ہزار افراد کے ساتھ دارالامارہ کا محاصرہ کیا لیکن عبیداللہ کی سازشوں کی وجہ سے لشکر کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور لوگ ایک ایک کر کے جناب مسلم کا ساتھ چھوڑنے لگے یہاں تک کہ نماز مغرب و عشاء کے بعد جناب مسلم تنہا ہو گئے ۔

آخر کار کوفہ کی گلیوں میں عبیداللہ کے سپاہیوں سے مقابلہ ہوا اور جناب مسلم نے تنہا ۴۱ سپاہیوں کو واصل جہنم کیا لیکن بھوک پیاس کی شدت اور شدید زخموں کی وجہ سے مقابلے کی تاب نہ لا سکے ۔ ایک سپاہی نے پیچھے سے نیزہ مارا آپ زمین پر گر پڑے ۔ لشکر والوں نے آپ کو گرفتار کر لیا اور دارالامارہ لے گئے ، عبیداللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ آپ کو دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھینک دیا جائے جس سے آپ کی شہادت واقع ہو گئی اس کے بعد ابن زیاد نے جناب ہانی بن عروہ اور جناب مسلم رضوان اللہ علیھما کے سر اقدس کو یزید کے پاس بھیج دیا ۔

آپ کی شہادت ۹ ذی الحجہ سن ۶۰ ہجری میں واقع ہوئی ۔ آپ کی شہادت سے ایک دن قبل امام حسین علیہ السلام نے کوفہ کے ارادہ سے مکہ کو چھوڑا اس لئے آپ کو شہادت کی خبر راستے میں ملی ۔ جس وقت امام حسین علیہ السلام نے جناب مسلم اور جناب ہانی کی شہادت کی خبر سنی تو آپ نے کئی مرتبہ یہ آیت پڑھی ” انا للہ وانا الیہ راجعون” اور جناب مسلم کے حق میں دعا کی ۔

اقتباس از کتاب ” زندگی پیامبر و امامان ” تالیف مرکز تحقیقات اسلامی

تبصرے
Loading...