مرثیہ امام

 

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

فرمایا کہ کیوں درپۓ ‌آزار ہو لوگو حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

شامِ غریباں

پروین شاکر

غنیم کی سرحدوں کے اندر

زمینِ نامہرباں پہ جنگل کے پاس ہی

شام پڑ چکی ہے

ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے

اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو

جو اپنی نوخیزیوں کی پہلی رتوں میں

رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے

اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک

جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر

ردائے عفت اوڑھانے والے

بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں

بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ

ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا

مگر وفا کی سبیل بن کر

فضا سے اب تک چھلک رہا ہے

برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں

کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے

والے پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں

بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ

حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے

چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں

کٹے ہوئے سر

شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں

کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جارہی ہے

تبصرے
Loading...