مخالفین انبیا

ابتدائے خلقت بشریت سے آج تک ، ہمیشہ ایسے افراد اور گروہ پائے جاتے رہے ہیں جو ہادیان الٰہی اور واقعی مصلحان کی مخالفت کے لئے سامنے آتے رہے۔ ان کے خلاف طرح طرح کے پروپگنڈے کرتے رہے اور انبیائے کرام ، بشریت کی ہدایت اور اصلاح کے ذمہ دار اور پیشوا ہونے کے اعتبار سے دشمنوں اور مخالفوں کی جانب سے سب سے زیادہ مخالفت اور مزاحمت سے روبرو ہوتے رہے۔ خدا وندعالم کی طرف سے کوئی بھی نبی نہیں آیا مگر یہ کہ اسے مختلف قسم کے آزار و اذیت ، آلام و مصائب ، غیر انسانی برتاؤ ، دشوار گزار رکاوٹوں اور منفی پروپگنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔

یہاں پر انبیائے الٰہی کے مخالفین اور ان کی چند اہم خصوصیات کو بیان کیا جارہا ہے ۔

مخالفین انبیائ کو چند دستوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے خیالی مادی و دنیاوی منافع اور فائدے کی بنیاد پر انبیائے کرام کی مخالفت پر کمر بستہ تھا۔

۱﴾مستکبرین

انبیائے کرام کی مخالفت اور ان سے برسر پیکار ہونے والے دستوں میں ایک دستہ مستکبرین کا تھا ۔ وہ اپنی استکباری خو کی بنیاد لوگوں کے استعمار اور استثمار کے در پے تھے اور انھیں یہ بات بالکل گوارا نہ تھی کہ انبیائے کرام ہدایت و رہنمائی کے ذریعہ لوگوں کو ان کے حقوق اور قدر ومنزلت سے آگاہ کریں تاکہ وہ مستکبرین کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور انھیں ان سے کمزور لوگوں سے سوئ استفادہ کرنے کی اجازت نہ دیں ۔ قرآن کریم نے اس گروہ کے بارے میں ازشاد فرماتا ہے:

الم تر الی الذی حاج ابراھیم فی ربہ ان آتاہ اللہ الملک. کیا آپ نے نمرود کو نہیں دیکھا کہ جسے خدا وندعالم نے ملک و حکومت عطا کیا اور وہ اسی پروردگار کے بارے میں ابراہیم سے بحث و جدال کرنے لگا؟!﴿بقرہ/۰۰۲﴾

شاید نمرود کی جناب ابراہیم سے مخالفت کا سبب یہی تھا کہ وہ جناب ابراہیم کو اپنے استکباری اغراض و مقاصد تک پہونچنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ اورخطرہ محسوس کر رہا تھا۔

قرآن کریم نے ایک دوسرے مستکبر ، فرعون کے بارے میں فرمایا: ان فرعون لعال فی الارض، و انہ لمن المسرفین۔﴿یونس/۳۸﴾بے شک فرعون بہت بڑا مستکبر ہے اور وہ اسراف اور زیادتی کرنے والا بھی ہے۔

ان فرعون علا فی الارض و جعل اہلہا شیعاً.﴿قصص/۴﴾ فرعون نے روئے زمین پر بلندی اور استکبار اختیار کیا اور اس نے اہل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا۔

اور قارون ، فرعون اور ہامان کے بارے میں فرمایا:قارون و فرعون و ہامان و لقد جائھم موسیٰ بالبینات فاستکبروا فی الارض ماکانوا سابقین۔﴿عنکبوت/۹۳﴾ اور قارون ، فرعون اور ہامان کی بھی یاد دلاؤ جن کے پاس موسیٰ کھلی ہو ئی نشانیاں لے کر آئے تو ان لوگوں نے زمین میں استکبار سے کام لیا حالانکہ وہ ہم سے آگے جانے والے نہیں تھے۔

قرآن کریم نے دوسری آیات کریمہ میں مخالفین انبیائ کو مستکبر کی صفت سے یاد کیا ہے: قال الملأ الذین استکبروا من قومہ للذین استضعفوا لمن آمن منھم أ تعلمون ان صالحاً مرسل من ربہ.﴿اعراف/۵۷﴾ قوم صالح (ع)کے بڑے لوگوں نے کمزور بنادیئے جانے والے لوگوں سے جو ایمان لائے تھے ان سے کہنا شروع کیا کہ کیا تمہیں اس کا یقین ہے کہ صالح خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں؟!

اسی طرح قوم شعیب کے مستکبرین آپ (ع) کو اور آپ کے پیروکاروں کو شہر سے باہر نکال دینے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے: قال الملأ الذین استکبروا من قومہ لنخرجنک یا شعیب و الذین آمنوا معک من قریتنا.﴿اعراف/۸۸﴾ ان کی قوم کے مستکبر سرداروں نے کہا کہ ائے شعیب ! ہم تو اور تمہارے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کردیں گے۔

مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انبیائے کرام کی مخالفت کرنے والے دستوں میں ایک محاذ مستکبرین کا بھی تھا جو عوام الناس پر اپنے استکباری اور استعماری تسلط اور قبضہ میں کو باقی رکھنے کے لئے الٰہی نمائندوں کی مخالفت اور ان کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔

۲﴾طالبان قدرت

مخالفین انبیائ کا دوسرا گروہ مقامی قدرت طلب اور ریاست پرست افراد تھے۔ وہ اپنی قوم ، قبیلہ یا شہر میں سماجی مقام و منزلت اورحیثیت کے حامل تھے اور لوگوں پر سرداری کرتے تھے۔ قرآن کریم نے اس گروہ کو ’’ ملأ ‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ان الملأ یأتمرون بک. مومن آل فرعون نے جناب موسیٰ (ع) سے کہا کہ سرداران قوم اور شہر کے بڑے لوگ آپ کے خلاف سازشیں رچ رہے ہیں۔﴿قصص/۰۲﴾

ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوا: قال الملأ من قوم فرعون ان ھذا لساحر علیم . قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: بے شک موسیٰ نہایت دانا جادوگر ہیں۔﴿اعراف/۹۰۱﴾

وقال الملأ من قوم فرعون أتذر موسیٰ و قومہ لیفسدوا فی الارض ۔ قوم فرعون کے بڑے لوگوں نے اس سے کہا: کیا تو موسیٰ اور ان کی قوم کو اسی طرح آزاد چھوڑ دے گا تاکہ وہ روئے زمین پر فساد برپا کرتے پھریں؟!﴿اعراف/۷۲۱﴾

اس گروہ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ چونکہ یہ لوگ اپنے مدمقابل کو ختم کرنے اورانھیں اپنے راستہ سے ہٹانے کے لئے کافی قدرت و طاقت نہیں رکھتے تھے لہٰذا ہمیشہ استکبار اور مستکبرین کے دامن میں پناہ لیتے تھے اور ان کی تشویق و ترغیب کرتے تھے تاکہ وہ ان کی مدد کریں اور نتیجہ میں وہ اپنے دشمن پر کامیاب ہوجائیں۔

قوم فرعون کے سردار اور بڑے لوگ ، جناب موسیٰ (ع) کے وجود ذی جود کو اپنے خیالی مقام و منزلت کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے لہٰذا وہ فرعون کو جناب موسیٰ (ع) کے خلاف اکسانے کے در پے رہتے تھے تاکہ وہ انھیں اور ان کی قوم کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کردے۔

قرآن کریم نے قوم ہود کے بارے میں فرمایا: و قال الذین کفروا من قومہ انا لنراک فی سفاھۃ. قوم ہود میں سے کفر اختیار کرنے والے رؤسائ نے جناب ہود (ع) سے کہا: ہم تو آپ کو حماقت میں مبتلا دیکھ رہے ہیں!﴿اعراف/۶۶﴾

قوم نوح کے بارے میں اس طرح آیا ہے : فقال الملأ الذین کفروا من قومہ مانراک الا بشرا مثلنا. قوم نوح کے کافر سردوروں نے آپ (ع) سے کہا: ہم تو آپ کو صرف ایک معمولی انسان جانتے ہیں!﴿ہود/۷۲﴾

مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ بزرگان قوم و قبیلہ، انبیائے کرام کے سخت مخالفین میں سے تھے جو قوم و قبیلہ کے درمیان اپنی خیالی حیثیت و منزلت کی بقائ اور کمزور بنا دیئے جانے والی عوام کی محنتوں ، زحمتوں اور خون پسینے پر تعمیر کردہ شاہانہ زندگی کو نابودی کے دہانے پر دیکھ کر اس کی حافظت کی خاطر انبیائے خدا کی مخالفت پر اتر آتے تھے۔

۳﴾ راحت طلب افراد:

یہ وہ مالدار اور ثروتمند افراد تھے جو مال و ثروت اور طرح طرح کی مادی نعمتوں کے دریا میں غوطہ زن تھے۔ قرآنی اصطلاح میں انھیں ’’ مترف‘‘ کہا جاتا ہے ۔یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مال و دولت اور مادی نعمتیں کبھی مثبت اثرات کا باعث ہوتی ہیں تو کبھی اس کے بہت سے منفی اور نقصان دہ اثرات بھی سامنے آتے ہیں اور بسا اوقات یہی چیزیں کم ظرف انسانوں کو مغرور بنا کر خدا اور خدائی نمائندوں کے مقابلہ میں لاکر کھڑا کر دیتی ہیں اور وہ دولت کے نشہ میں سرکشی اور بغاوت پر اتر آتا ہے اور جو چیز بھی ان کے حیوانی اور شہوانی غرائز و خواہشات کے خلاف ہوتی ہیں وہ اس کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔وہ حیوانی لذات اور راحت طلبی کو کسی چیز سے بھی بدلنے پر تیار نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انبیائے کرام نے ایسے راحت طلبوں اور مترفین کو خیر و صلاح ، فلاح و نیکی کی طرف دعوت دی تو تو انھوں نے اسے اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق اور موافق نہیں پایا تو ان حضرات کی مخالفت کرنے لگے۔

قرآن کریم نے ارشاد فرمایا: وما ارسلنا فی قریۃ من نذیر الاقال مترفوھا انا بما ارسلتم بہ کافرون.ہم نے کسی شہر میں کسی ڈرانے والے کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے مترفین اور بڑے لوگوں نے ان سے کہا : تم جو بھی پیغام لے کر آئے ہو ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں!﴿سبأ /۴۳﴾

علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان میں اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: مترفون اسم مفعول ہے اور اس کا مصدر اتراف ہے اس کا معنی نعمت میں زیادی اور فراوانی ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نعمت کی فراوانی حق کے مقابلے میں برتری طلبی کا سبب بھی بن سکتی ہے جیساکہ دوسری آیت میں انھیں مترفین کی زبانی آیا ہے کہ انھوں نے کہا: نحن اکثر اموالاً و اولاداً و ما نحن بمعذبین۔ ﴿سبأ/۵۳﴾ہم اموال اور اولاد کے اعتبار سے تم سے زیادہ اور بہتر ہیں اور ہم کپر عذاب ہونے والا نہیں ہے۔

دنیاوی نعمتوں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ انسان ان کا دلدادہ ہو جاتا ہے اور یہ سب اس کی نظر میں اس طرح بڑی اور قابل اہمیت ہوجاتی ہیں کہ وہ اپنی سعادت اورخوشبختی کودنیاوی نعمتوں کی فراوانی میں دیکھنے لگتے ہیںچاہے حق کے موافق ہوں یا اس کے مخالف۔ یہ لوگ دنیا کے سامنے آخرت کو بھلا دیتے ہیں اور مادی نعمتوں کوبرتری اور کثرت کا معیار بنا کر فخر و مباہات کرتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’نحن اکثر اموالاً و اولاداً‘‘ ایسے لوگ چونکہ اپنی سعادت اور کامیابی کو اپنے اموال و اولاد کی کثرت میں دیکھتے ہیں لہٰذا ان کے نہ ہونے کو عذاب سمجھتے ہیںاور کہتے ہیں :مال و اولاد کی کثرت اور زیادی ہماری یقینی خوشبختی اور کامیابی کا ذریعہ ہے لہٰذا اس کے ہوتے ہوئے ہم پر عذاب ہو اس کا کوئی معنی ہی نہیں ہے! 

دوسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ ایسے افراد ﴿مترفین﴾کثرت مال و اولادکی بنا پر غرور میں مبتلا ہو جاتے ہیں لہٰذا وہ یہ سوچنے لگتے ہیںکہ خدا وندعالم نے ان پر خاص عنایت اور توجہ کی ہے اسی لئے اس نے انھیں کثرت مال اور اولاد سے نوازا ہے اور جب تک یہ مال و اولاد ان کے پاس موجود ہیں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا کے نزدیک محترم اور مکرم ہے لہٰذا ان پر عذاب بھی نہیں ہوگا!﴿المیزان/ج۶۱، ص۳۸۳﴾

قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں رسول اکرم سے خطاب فرمایا: و کذلک ما ارسلنا من قبلک فی قریۃ من نذیر الا قال مترفوھا انا وجدنا آبائنا علیٰ امۃ و انا علیٰ آثارھم مقتدون.﴿زخرف/۳۲﴾ اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کی بستی میںکوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس بستی کے خوشحال لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایاہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ہیں۔

۴﴾ بے دین دنیا پرست علمائ

انبیائ کی دعوت اور تبلیغ کی راہ میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ ،دنیا پرست علمائ اور دانشمندان تھے۔ یہ وہ افراد تھے جو حقائق اور واقعیات کو جانتے ہوئے ان کا انکار یا ان میں تحریف کرتے تھے۔ انبیائے الٰہی کے لئے اس گروہ کا خطرہ دوسرے گروہوں سے کہیں زیادہ تھا۔ اس لئے کہ عوام میں علمائ اور دانشمندوں کا اثر ورسوخ دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے ۔ ہر قوم و ملت میں لوگ اپنے علمائ اور دانشمندوں کی باتیں سنتے اور مانتے ہیں اور انھیں اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ وہ مختلف مسائل ، خاص طور سے دینی اور عقائدی مسائل میں صاحب نظر اور عالم ہوتے ہیں ۔ لہٰذا لوگ دنیاوی اور اخروی سعادت کے حصول کے لئے ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

دانشمندوں کے درمیان علمائے دین کی منزلت زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے اس لئے کہ وہ لوگوں کی سعادت اور کامیابی اصلی عناصر، ان کے عقائد سے سروکار رکھتے ہیں۔ یہ بات علمائے دین کی ذمہ داریوں کو مزید سنگین بنا دیتی ہے کہ وہ ہر طرح سے اپناخیال رکھیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سیدھے راستہ سے بھٹک جائیں ۔ اس لئے کہ ایک عالم دین کی گمراہی ،صرف ایک شخص کی گمراہی نہیں ہے بلکہ ایک قوم و ملت کی گمراہی ہے۔

اگر علمائ دینی مسائل اور حقائق سے آگاہی کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے انجام نہ دیں تو وہ دو نازیبا اور ناشایستہ عمل کے مرتکب ہوسکتے ہیں : ۱﴾ حقائق کو چھپانا، ۲﴾ حقائق میں تحریف اور رد وبدل کرنا؛ جیسا کہ انبیائے کرام کے زمانہ میں بعض علمائ نے ان دونوں کو انجام دیا ۔ قرآن کریم فرماتا ہے:

الذین آتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابنائھم و فریقاً منھم لیکتمون الحق و ھم یعلمون۔﴿بقرہ/۶۴۱﴾جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ رسول کو بھی اپنی اولاد کی طرح پہچانتے ہیں پس ان کا ایک گروہ ہے جو حق کو دیدہ و دانستہ چھپارہا ہے۔

علمائے اہل کتاب خاص طور سے علمائے یہود و نصاریٰ رسول خدا کے بارے میں بہت سے بشارتوں اور حقیقتوں سے واقف تھے لیکن اس کے باوجود انھیں چھپاتے تھے۔

حقائق میں تحریف اور رد و بدل کے بارے میں فرماتا ہے: فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولقون ھذا من عند اللہ لیشتروا بہ ثمناً قلیلاً.﴿بقرہ/۹۷﴾ وائے ہو ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ کر یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تاکہ اسے تھوڑے دام میں بیچ لیں۔

یہ آیت علمائے بنی اسرائیل کے حالات کو بیان کر رہی ہے کہ وہ اپنی آسمانی کتاب کو تحریف شدہ صورت میں لکھتے اور اسے لوگوں میں تقسیم کرتے تھے تاکہ اس کے بدلے میں وہ ان لوگوں سے معمولی سی رقم حاصل کرسکیں کہ تحریف کتاب جن کے دنیاوی نفع اور فائدے میں تھی۔﴿منشور جاوید/ج۰۱، ص۵۸۳﴾

۵﴾ سادہ لوح فریب خوردہ عوام

ہر نبی کی امت میں ایسے افراد پائے جاتے تھے جو خود بخود نبی خدا کے مخالف نہیں تھے بلکہ وہ مستکبرین ، سرداران قوم و قبیلہ، ثروتمندوں اور بے دین دنیا پرست علمائ اور دانشمندوں کے ذریعہ دھوکا کھا جاتے تھے۔ ویسے بھی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ معاشرہ کی اکثریت وہ سادہ لوح افراد ہوتے ہیں جو صاحبان اقتدار اور ثروتمندوں کے تحت تاثیر ہوتے ہیں اور چونکہ وہ مالی ، سیاسی ، اعتقادی اعتبار سے مستقل نہیں ہوتے لہٰذا وہ اپنے فکری استقلال کو بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ آج بھی سماج میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے ۔ اگران کی باتوں کو سنا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ خود ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے بلکہ وہ یا تو مستکبروں یا مقامی بزرگوں اور مخالفوں کی باتوں کو دہراتے ہیں یا بے درد ثروتمندوں اور مالداروں یا بے دین دانشمندوں کی باتوں کی تکرار کرتے ہیں اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی سادہ لوحی کی بنا پر اپنے فکری استقلال کو کھو دیا ہے اورانھوں نے اس کی لگام کوصاحبان اقتدار و ثروت کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔

قرآن مجید ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: فاستخف قومہ فاطاعوہ انھم کانوا قوماً فاسقین.﴿زخرف/۴۵﴾ پس فرعون نے اپنی قوم کو سبک سر بنا دیا اور انھوں نے اس کی اطاعت کرلی کہ وہ سب پہلے ہی سے فاسق اور بدکار تھے۔

روز قیامت جہنم میں جانے والے بارگاہ الٰہی میں فریاد کریں گے کہ : ربنا انااطعناسادتنا و کبرائنا فاضلونا السبیل.﴿احزاب۷۶﴾ خدایا! ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی اطاعت کی اور انھوں نے ہمیں سیدھے راستہ سے بہکا دیا ۔

قوم عاد کے بارے میں فرمایا: و تلک عاد جحدوا بآیات ربھم و عصوا رسلہ و اتبعوا امر کل جبار عنید.﴿ہود/۹۵﴾ اور یہ قوم عاد ہے جس نے پروردگار کی آیتوں کا انکار کیا ۔ اس کے رسول کی نافرمانی کی اور ہر ظالم و سرکش کا اتباع کرلیا

روز قیامت کمزور بنادئے جانے والے ، مستکبرین سے کہیں گے: لولا انتم لکنا مومنین۔اگر تم لوگ نہ ہوتے ﴿اور ہمیں دھوکا نہ دیتے ﴾تو ہم صاحب ایمان ہوتے!اذ تامروننا ان نکفر باللہ و نجعل لہ انداداً. تمہیں لوگ توہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم خدا کا انکار کردیں اور اس کا شریک اور مثل قرار دیں۔﴿سبا/۳۳۔۱۳﴾

خدائی نمائندوں کے مخالف دستوں میں صرف یہی ایک ایسا دستہ تھا جو کسی خاص جذبہ اور مقصد کے بغیر ان کی مخالفت کرتا تھا ۔ لیکن بقیہ ہر گروہ اور دستہ اپنے خاص ناروا منافع اور زود گزر فائدے کی حفاظت کے لئے انبیائے الٰہی کی مخالفت کی آواز بلند کرتا تھا۔

 

تبصرے
Loading...