محبت کا اسلامی حل

ٹی وی، کیبل، ڈش اور انٹرنیٹ نے ہماری معاشرتی اقدار کو تیزی سے بدل کر رکھ دیا ہے۔ شہوت انگیز ماحول اور شہوانی فلم، ڈرامے جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔ رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کر دی ہے، ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے منافع کے لیے دلفریب پیکیج پیش کرتی ہیں اور نوجوان نسل میں غلط ذہنیت کو پروان چڑھاتی ہیں۔ اختلاط اور بات چیت کے وسائل عام ہونے کی وجہ سے “محبت” کا مرض عام ہے جس کے نتیجے میں اولاد اپنی پسند کے پیچھے بھاگتی ہے جبکہ والدین اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں، دونوں کے نکتہ نظر میں شدت کی وجہ سے اکثر گھروں میں رشتے طے کرتے وقت ناچاقی اور بے سکونی عام ہوتی جا رہی ہے۔ امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب “الجواب الکافی لم سال عن الدواء الشافی” میں “محبت” کے موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے جس میں اولاد اور والدین دونوں کے لیے سوچنے کا سامان ہے۔ مناسب اضافوں کےساتھ اس کی تلخیص ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔ 

عشق و محبت کے تین درجے ہوتے ہیں:

ابتدائی درجہ، درمیانی درجہ اور آخری درجہ

ابتدائی درجے میں اس پر قابو پانا بعد کے مراحل سے آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے اس آزمائش میں مبتلا کرے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسے ہر ممکن طریقے سے دفع کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی طرف توجہ کرے اور گناہ کے کاموں کی طرف توجہ کرنے کی بجائے مساجد میں دل لگائے اور صالحین کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دے تاکہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتے ہوئے اس مصیبت سے اسے نجات دے۔لیکن اگر اس کا دل قابو میں نہ ہو اوراس کی رغبت بڑھتی جائے تو اس پر لازم ہے کہ حال دل کو لوگوں کے سامنے افشاء نہ کرے۔ محبوب سے رابطہ کر کے اس کی رسوائی اور بدنامی کا سبب نہ بنے ۔ اس لیے کہ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں کا فلاں کے ساتھ کوئی معاملہ ہے تو ہزار میں سے نو سو ننانوے بلا تحقیق کیے اس کی تصدیق کرنے والے اور اسے پھیلانے والے بن جاتے ہیں اور فریق دوم کی نیک نامی اور عزت بلا وجہ خاک میں مل جاتی ہے۔ ایسا کرنا بڑا ظلم ہے جو بسا اوقات مالی نقصان سے زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے۔

ان لوگوں سے بچے جو معمولی مفادات یا جھوٹی دوستی نباہنے کے لیے محب اور محبوب کے درمیان ناجائز ملاقات کا انتظام کرتے ہیں۔ ایسے منتظمین کو اللہ کا خوف کرنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت کی گئی ہے تو اس کا حال کیا ہو گا جو حرام ملاقاتوں (Dates)کا انتظام اپنے ذمے لیتا ہے؟ اس کے اس فعل کی وجہ سے کتنے گھر برباد ہو جاتے ہیں، میاں بیوی، بہن بھائی، باپ بیٹی کا ایک دوسرے پر اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔ اس والد کو وہ قیامت کے دن کیا جواب دے گا جس کی اولاد اس کی وجہ سے غلط راستے پر چل پڑی۔ 

محبت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو اجرو ثواب کا سبب ہے یعنی اپنی بیوی سے محبت کرنا۔ یہ محبت نکاح کے مقاصد کو پورا کرنے میں مددگار ہو نے کی وجہ سے فائدہ مند ہے۔ نظر اور عزت کی حفاظت کا سبب ہے اور دل کو حرام چیزوں کی طرف مائل ہونےروکتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جب کوئی خوبصورت لیکن غیر محرم چہرہ دل میں جگہ بنا لیتا ہے ۔ اگر وہ شخص اسے اپنے تک محدود رکھے تو اس پر کوئی پکڑ نہیں۔ایک شخص نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا “امیر المومنین، میں نے ایک خاتون کو دیکھا اور مجھے اس سے عشق ہو گیا ہے” تو انہوں نے جواب دیا “اس امر پر تیرا کوئی قابو نہیں”۔ 

اس کا بہترین اور جائز حل نکاح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:

يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ(صحیح بخاری کتاب النکاح باب من لم یستطع الباءۃ فلیتزوج)

“اے نوجوانوں کے گروہ! تم میں سے جو کوئی قوت رکھتا ہو وہ تو نکاح کرے کیونکہ وہ نظر کو نیچا کرتا ہےاور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے”۔

والدین اور سرپرستوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ صنف مخالف کی کشش اللہ نے فطرت میں رکھی ہے جسے زور زبردستی سے دبانا مزید مفاسد کو جنم دے سکتا ہے۔ معقول وجوہات اور شرعی عذر نہ ہو تو معاملے کو طول دینے کی بجائے دونوں کا نکاح کر دینا ہی مسئلے کا بہترین حل ہے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ کسی راستے سے گزر رہے تھے۔ اتفاق سے کسی خاتون کی آواز ان کے کان میں پڑی جو عشقیہ اشعار پڑھ رہی تھی۔ معلوم ہو اکہ وہ محمد بن قاسم بن جعفر بن ابی طالب سے محبت کرتی ہے تو ان دونوں کے نکاح کا انتظام کر دیا۔ عدالتی نکاح کی بڑھتی ہوئی تعداد کا بڑا سبب نوجوان نسل کی سرکشی کے علاوہ والدین کی بے جا ضد اور انا پرستی بھی ہے۔نوجوانوں کو سمجھانے والے بہت ہیں اس لیے میں اس پر گفتگو کرنے کی بجائے والدین سے کہنا چاہوں گا کہ اگر کوئی شرعی عذر یا جائز اعتراض موجود نہیں تو اپنی غیرت اور اناکو دین کے تابع کیجیے اور مسئلے کے اسلامی حل یعنی نکاح میں رکاوٹ نہ ڈالیے۔ مفاسد کو رفع کرنے اور اولاد کو ساری زندگی کے ذہنی کرب سے بچانے کا اس سے اچھا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

تبصرے
Loading...