ماہ صیام کے پہلے دن کی دعا:تشریح و تفسیر

حوزہ نیوز ایجنسیl 
حرف گفتنی:- نیٹ پر ماہ صیام کی یومیہ دعاؤوں کی بے شمار فارسی شروح  دستیاب ہیں جن میں آیت اللہ مجتہدی تہرانی کی شرح مجھے بہت پسند آئی اپنی اس شرح میں ہم نے مختلف فارسی شروح سے فقط اخذ احادیث کی حد تک استفادہ کیا ہے باقی جو کچھ بھی ہے وہ اپنی” بضاعت مزجات ‘ ہے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ وہ  اس مہینہ میں سب سے پہلے مجھے توفیق عمل دے۔ آمین۔   

پہلے دن کی دعا:اللَّهُمَّ اجْعَلْ صِيَامِي فِيهِ صِيَامَ الصَّائِمِينَ وَ قِيَامِي فِيهِ قِيَامَ الْقَائِمِينَ وَ نَبِّهْنِي فِيهِ عَنْ نَوْمَةِ الْغَافِلِينَ‏ وَ هَبْ لِي جُرْمِي فِيهِ يَا إِلَهَ الْعَالَمِينَ وَ اعْفُ عَنِّي يَا عَافِياً عَنِ الْمُجْرِمِينَ‏؛اے اللہ اس مہینہ میں میرے روزے کو روزہ داروں کا روزہ قرار دے اور میرے قیام کو قیام کرنے والوں کا قیام قرار دے اور مجھ کو خواب غفلت سے بیدار کردے اور میری خطاؤں کو بخشدے اے دوجہانوں کے مالک اور مجھ کو معاف کردے اے مجرموں کو معاف کرنے والے۔

حل لغات:- صوم یعنی رکنا ‘ صامت الریح یعنی ہوا کا رکنا ‘ ماء صائم یعنی ٹھہرا ہوا پانی ‘ صائمہ من البکرات یعنی نہ گھومنے والا چرخہ ‘ مصام الفرس یعنی گھوڑا کھڑے ہونے کی جگہ ‘ ( المنجد مصباح اللغات )
صائم صفت مشبہ ہے اسم فاعل کے وزن پر، عربی میں صائم اور صومان کے ایک ہی معنی ہیں بس فرق یہ ہے کہ صائم صفت مشبہ ہے اسم فاعل کے وزن پر اور صومان صفت مشبہ ہے خود اپنے ہی وزن پر کیونکہ صفت مشبہ کے پانچ اوزان ہیں :[۱]فعیل :- جیسے شریف کریم وغیرہ[۲]فعل:- جیسے صعب سہل وغیرہ[۳]فعل :- جیسے حسن زمن وغیرہ[۴]فعل :- جیسے خشن وغیرہ[۵]فعلان :- جیسے صومان اور عطشان وغیرہ

 صفت مشبہ اور اسم فاعل میں فرق یہ ہے کہ اسم فاعل میں صرف حدوث ہوتا ہے یعنی فعل کا واقع ہونا کافی ہوتا ہے جیسے ” ضارب ” ( مارنے والا ) خواہ ایک ہی دفعہ مارے اسے ضارب کہا جائے گا لیکن صفت مشبہ میں محض حدوث نہیں ثبوت کا ہونا لازمی ہوتا ہے یعنی صفت کا پہلے سے پایا جانا اور اس کا آخر تک باقی رہنا جیسے” شریف ” ایک بار شرافت دکھلانے والے کو شریف نہیں کہتے بلکہ شرافت رگ و پئے میں ہو اسی طرح صائم اسم فاعل نہیں ہے کہ ایک بار روزہ رکھ لیا تو صائم ہوگیا نہیں یہ صفت مشبہ ہے کہ روزے کی صفت روزہ دار سے جدا نہ ہو _  

دوسری طرف لفظ صوم کے لغوی معنی میں بھی بلا کی جامعیت ہے یہ مذکر و مؤنث واحد و جمع سب کے لئے بولا جاتا ہے گویا اس لفظ کی معنائی جامعیت اس کےاصطلاحی معنی کی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کررہی ہے  یعنی روزہ مرد ‘عورت ‘ فرد اور جماعت سب پر یکساں واجب ہے ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ؛ صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ۔[سوره بقره ۱۸۳]

اسی لئے ماہ صیام کی تمام دعاؤں میں تقوی اور لللہیت پر زور دیا گیا ہے یعنی ہر دعا کا سینٹرل پوائنٹ ( مرکزی نقطہ ) ذات پروردگار ہے ہم اگر شاعری کی بات کریں تو جس طرح میر تقی میر کی شاعری کا مرکزی نقطہ پھول پھول کی پتی اور پھول کی پنکھڑی ہے اقبال کی شاعری کا مرکزی نقطہ خودی اور عشق ہے وہ گھوم پھر کے خودی پہ آجاتے ہیں غالب کی شاعری کا مرکزی نقطہ جوہر  ہے یعنی جوہر ادراک ‘ جوہر تیغ ‘ جوہر عقل وغیرہ اسی طرح ائمہ کی دعاؤں کا مرکز و محور ذات پروردگار ہے اسی سے لو لگانا اسی سے مانگنا اسی کا دروازہ کھٹکھٹانا اور بس: الہی و ربی و سیدی و مولائی انت غایت املی؛ تو ہی میری آخری امید ہے اگر ایسی دعا انسان کی پوری ہستی سے نکلے تو رحمت خداوندی کو جوش نہ آئے یہ اسکی شان کریمی کے خلاف ہے اور ماہ مبارک رمضان کی چھوٹی چھوٹی یومیہ دعاؤں میں اللہ سے جو طرز تخاطب ہے وہ ایک روزہ دار کی قلبی کیفیتوں کے عین مطابق ہے مختصر طلب میں انتہائی اعلی درجہ کی تڑپ ہے مثلا آج ماہ صیام کا پہلا دن ہے آئیے دیکھتے ہیں اج کی دعا میں بندہ اپنے رب سے کیا کہتا ہے ؟

اللَّهُمَّ اجْعَلْ صِيَامِي فِيهِ صِيَامَ الصَّائِمِينَ:اے اللہ میرا روزہ اس مہینہ میں روزہ داروں کا روزہ قرار دے ،یعنی میرا روزہ رسمی روزہ نہ ہو کیونکہ رسمی روزہ فقہی اعتبار سے تو درست ہوتا ہے لیکن روزہ کی شان اس میں نہیں ہوتی   بھوک اور پیاس کا خول تو ہوتا ہے لیکن اس میں احساس کا مغز نہیں ہوتا صیام و قیام کے اثرات نہیں ہوتے رسمی روزہ ڈھال نہیں ہوتا نڈھال ہوتا ہے روزہ کو توڑنے والی نو چیزوں سے پرہیز تو ہوتا ہے لیکن انقلاب نو کی آہٹ نہیں ہوتی روح میں بھونجال نہیں آتا زندگی میں تبدیلی نہیں آتی رسمی روزہ عوامی ہوتا ہے امامی نہیں ہوتا اس میں حسن ہوتا ہے عشق نہیں ہوتا طلب ہوتی ہے بے چینی اور تڑپ نہیں ہوتی پیغمبر اکرم 1اور امیر المومنین Bدونوں سے یہ حدیث ہے :كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلاَّ اَلْجُوعُ وَ اَلظَّمَأُ[نہج البلاغہ کلام 145]ایک اور حدیث امام صادق(ع)فرماتے ہیں:إِذَا صُمْتَ فَلْيَصُمْ سَمْعُكَ وَ بَصَرُكَ وَ شَعْرُكَ وَ جِلْدُكَ وَ عَدَّدَ أَشْيَاءَ غَيْرَ هَذَا وَ قَالَ لاَ يَكُونُ يَوْمُ صَوْمِكَ كَيَوْمِ فِطْرِكَ ؛جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان آنکھ بال کھال اور انکے علاؤہ تمہارے دیگر اعضاء و جوارح بھی روزہ رکھیں اور کہا دیکھو تمہارا روزہ کا دن تمہارے افطار کے دن کے جیسا نہ ہو۔[کافی ج 4 ص 87]مذکورہ  حدیث کی روشنی میں روزہ کو حقیقی روزہ بنانے کے لئے درج ذیل پانچ چیزوں سے پرہیز ضروری ہے:اونچی آنکھیں؛جھوٹی زبان؛برے منصوبے؛دکھ پہنچانے والے ہاتھ؛اور جدائی ڈالنے والے جملے۔

یہی پانچ چیزیں اللہ سے دوری اور بندوں کی نفرت کا سبب ہیں یہی پانچ چیزیں ہماری عبادتوں کی  روح کو مجروح کئے دے رہی ہیں ہماری نمازیں بے نور اور ہمارے روزے کھوکھلے اگر ہورہے ہیں تو انہی پانچ چیزوں سے ہورہے ہیں ۔

اسی سے مربوط ایک حدیث امیر المومنین(ع)سے ہے: صَوْمُ اَلْقَلْبِ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ اَللِّسَانِ وَ صَوْمُ اَللِّسَانِ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ اَلْبَطْنِ ؛دل کا روزہ زبان کے روزے سے بہتر ہوتا ہے اور زبان کا روزہ پیٹ کے روزے سے بہتر ہوتا ہے ۔

آخر کتنا گہرا ربط ہے ہماری زبان کا ہمارے روزے سے؟ روزہ کو توڑنے والی نو چیزوں میں ایک ہماری زبان بھی شامل ہے اور کیوں نہ ہو ؟

ایک کافر کو مسلمان بننے کے لئے نہ بھاگ دوڑ کی ضرورت ہوتی ہے نہ اعلی قسم کی ورزش کی ایسا بھی نہیں کہ وہ مکہ مکرمہ جاکر خانہ خدا کے سات چکر لگائے گا تو مسلمان ہوگا نہیں ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہیں ہے بس بیٹھے بیٹھے اپنی زبان کو جنبش دے کہے لا الہ الا اللہ ایک انقلاب آجائے گا ۔

عقد نکاح میں صرف ” قبلت ” کی ادائیگی سے نامحرم محرم ہوجائے گی؛بزم طلاق میں صرف ھی طالق کہدینے سے محرم نامحرم ہوجائے گی کتنی چھوٹی چھوٹی یہ لفظیں ہیں جو ہماری زبان سے ادا ہوتی ہیں زبان چاہے تو فاصلے بڑھیں زبان چاہے تو فاصلے گھٹیں اسی لئے علمائے اخلاق نے زبان کے متعلق کہا ” جِرْمُهُ صَغِیرٌ وَ جُرْمُهُ کَبِیرٌ ” جسامت چھوٹی مگر جرم بڑا امیرالمومنین Bنے فرمایا :إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلَامُ ؛جب عقل مکمل ہوجاتی ہے تو باتیں کم ہوجاتی ہیں ۔

نیز اسی زبان سے مربوط قطرہ میں قلزم والی حدیث جو کسوٹی بن گئی ہے  :الْمَرْءُ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهِ؛انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔

کسی دانا نے کہا ،بیوقوف کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ جب بولتا ہے تو اس کی پوری حیثیت کھل کر سامنے اجاتی ہے۔

لہذا اپنا وقار اور روزہ کا معیار بڑھانے کے لئے زبان کی لغزشوں پر ہمیں دھیان دینا چاہئیے ۔

وَ قِيَامِي فِيهِ قِيَامَ الْقَائِمِينَ :اور اس مہینہ میں میرے قیام کو قیام کرنے والوں کا قیام قرار دے ۔

یعنی پہلے ہی دن آنے والے تیس دنوں کی عبادتوں کو ثمر بخش بنانے کی دعا کی جارہی ہے اے اللہ میری شب بیداری کو حقیقی شب بیداری قرار دے میری نماز کو حقیقی نماز گزاروں کی نماز قرار دے وہ نماز جو مجھے برائیوں سے روکے وہ نماز جو مجھے فریب گناہ سے بچائے،اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ ؛بیشک نماز بدکاری سے بچاتی ہے ۔

اگر آپ لوہا پگھلانے کی فیکٹری قائم کریں اور اس میں لوہا ڈالیں اور لوہا نہ پگھلے تو نقص لوہے میں نہیں ہے نقص آپ کی فیکٹری میں ہے کیونکہ سائنس کہتی ہے کہ لوہے کو اگر اس کی مطلوبہ حرارت مل جائے تو وہ خود بخود پگھل جائے گا لوہا نہ پگھلے تو اس کا مطلب ہے اسے وہ حرارت نہیں ملی جو ملنی چاہئے تھی اسی طرح نماز اگر برائی سے نہ روکے تو قصور نماز کا نہیں ہے قصور آپ کا ہے کہ جیسی نماز پڑھنا چاہیے تھا ویسی نماز آپ نے نہیں پڑھی یعنی شرائط نماز پورے نہیں ہوئے ورنہ نماز میں برائی سے روکنے کی طاقت ہے ۔

وَ نَبِّهْنِي فِيهِ عَنْ نَوْمَةِ الْغَافِلِينَ :اور مجھے اس مہینہ میں خواب غفلت سے بیدار کردے۔

غفلت دل کی تالہ بندی ( لاک ڈاؤن ) کو کہتے ہیں سوکھا پڑے تو کیا ہوتا ہے ؟ زمین جھلس جاتی ہے غفلت سے دل کی زمین کی شادابی ویران ہوجاتی ہے پیشانی پچک جاتی ہے آنکھیں دھنس جاتی ہیں منہ سے بدبو آنے لگتی ہے چہرے پر لعنت برستی ہے زمین کو پانی نہ ملے تو سوکھی لکڑی کس طرح ٹیڑھی ہوجاتی ہے اگر دل کی زمین کو ذکر کی طراوت نہ ملے تو جسم کا ہر عضو ٹیرھا ہوجاتا ہے پھر شیطان اس جسم کو دبوچ لیتا ہے –

حدیث میں وارد ہوا ہے :دَوامُ الْغَفْلَةِ یُعْمِی الْبَصِیرَةَ؛غفلت کے طول پکڑنے سے بصیرت ختم ہوجاتی ہے، آج مسلم ملکوں کی غفلت نے ان کی بصیرت کو ختم کردیا ہے شیطان بزرگ کا قبضہ ہو چکا ہے  ” نبھنی ” اس کا روٹ ورڈ  انتباہ ہے یعنی پروردگار مجھے چونکا دے –

وَ هَبْ لِي جُرْمِي فِيهِ يَا إِلَهَ الْعَالَمِينَ :غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج کی دعا میں” ذنب ” ۔نہیں کہاگیا ۔

و ھب لی ذنبی یا الہ العالمین نہیں کہاگیا اگر کیاجاتا تو عربی گرامر کی رو سے جملہ غلط نہ ہوتا لیکن کہا گیا جرمی کیونکہ گناہ اور جرم میں فرق ہے گناہ اللہ کی نافرمانی سے متعلق ہے اور جرم بندوں کے آپس کے معاملات میں زیادتی کرنے کو کہتے ہیں جیسے قتل چوری بہتان اور غیبت وغیرہ یعنی روز اول ہی بندوں سے متعلق جو گناہ سرزد ہوئے ہیں ان کی بخشش کی دعا مانگی جارہی ہے اور جب تک بندوں سے ہمارا تعلق ٹھیک نہ ہوگا اللہ سے ہرگز تعلق استوار نہ ہوگا۔

تحریر:سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...