ماہ صیام کے سولہویں دن کی دعا:تشریح و تفسیر

حوزہ نیوز ایجنسیl 
سولہویں دن کی دعا:اَللّهُمَّ وَفِّقْني فيہ لِمُوافَقَة الْأبرارِ وَجَنِّبْني فيہ مُرافَقَۃ الأشرارِ وَآوني فيہ برَحمَتِكَ إلى دارِ القَرارِ بإلهيَّتِكَ يا إله العالمينَ؛ اے معبود! مجھے اس مہینے میں نیک انسانوں کے ہمراہ ہونے کی توفیق دے اور برے لوگوں کی ہمنشینی سے دور رکھ ، اور اپنی رحمت سے سکون کے گھر میں مجھے پناہ دے، تیری معبودیت کے واسطے اے تمام جہانوں کے معبود۔
حل لغات :- ابرار، بر کی جمع یعنی نیک لوگ۔

اَللّهُمَّ وَفِّقْني فيہ لِمُوافَقَة الْأبرارِ وَجَنِّبْني فيہ مُرافَقَۃ الأشرارِ: میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہمارا جگر موم کی طرح ایک چکنا مادہ تیار کرتا ہے جسے کولیسٹرول کہتے ہیں اور اسکی دو قسمیں ہیں:ایچ ڈی ایل جسے اچھا تصور کیا جاتا ہے،ایل ڈی ایل جسے برا تصور کیا جاتا ہے۔
آپ کو صحت مند زندگی گذارنا ہے تو اچھے کولیسٹرول کو بڑھانا پڑے گا اور برے کولیسٹرول کو گھٹانا پڑے گا یہی بات دعا میں کہی گئی ہے کہ اے اللہ مجھے توفیق دے کہ میں اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کروں اور برے اور شریر لوگوں کی صحبت سے اجتناب کروں  جس طرح اچھا کولیسٹرول ہمارے خلیوں کو تازہ رکھتا ہے مختلف قسم کے ہارمونز تیار کرتا ہے ہڈیوں کو سخت کرتا اور جسم میں حرارت پیدا کرتا ہے اور خون کو نالیوں اور پٹھوں سے ڈھکیلتا ہوا جگر کی طرف لے جاتا ہے جو اسکا مرکز ہے اسی طرح نیک لوگوں کی صحبت بندے کو انفس و آفاق کی سیر کراتی ہوئی اس کے رب سے ملاتی ہے اچھا کولیسٹرول خون کو ادھر ادھر نہیں ہونے دیتا وہ اسکو اس کی اصلی جگہ تک پہنچاتا ہے بالکل اسی طرح اچھے لوگوں کی صحبت انسان کو بھٹکنے نہیں دیتی وہ اسکو دار القرار تک پہنچاتی ہے  سیدۂ عالمیان نے خطبہ فدک میں فرمایا: میرے باپ نے تمہاری گردنوں کو پکڑا اور تمہیں برائی اور جہالت سے کھینچ کر خدا تک پہنچایا تم جہنم کے کنارے کھڑے تھے میرے باپ نے تمہیں بچایا تم ہر لالچی کے کے لئے مال غنیمت اور ہر زود کار کے لئے چنگاری تھے ہر پیر کے نیچے پامال تھے تم گندہ پانی پیتے تھے تم پتے چباتے تھے لیکن خدا نے میرے باپ کے ذریعہ تمہیں ان تمام مصیبتوں سے نکالا۔
بلال ہلال ہوگئے سلمان منا اہلبیت ہوگئے بے زر ابوزر ہوگیا یہ صرف صحبت کی کرشمہ سازی تھی اقبال کا ایک مصرعہ ہے:نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔

کسی اللہ والے کی ایک نگاہ، مس خام کو کندن بنادیتی ہے،امیرالمومنین(ع) نے مالک اشترؒ کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا:وَالْصَقْ بِأَهْلِ الْوَرَعِ وَالصِّدْقِ؛اپنا قریبی رابطہ اہل تقوی اور اہل صداقت سے رکھنا۔
یعنی انسان جامعہ اور سوسائٹی سے کٹ کر نہیں رہ سکتا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان  ہر ایک سے دوستی کرلے دو سو روپیوں کا گھڑا آپ دوسو دفعہ ٹھونک بجا کر گھر لاتے ہیں کہ گھر میں رہنے والی چیز قاعدے کی ہو یہی احتیاط ہمیں الم غلم کھانوں اور ایرے غیرے کی صحبت اختیار کرتے وقت کرنا چاہئیے۔

امیرالمومنین(ع) نے پھر فرمایا:وَ أَکْثِرْ مُدَارَسَةَ الْعُلَمَاءِ وَ مُنَاقَشَةَ الْحُکَمَاءِ؛علماء کے ساتھ علمی مباحثہ اور حکماء کے ساتھ مناقشہ کرنا۔
بعض لوگ علماء سے دوستی کرتے ہیں لیکن ان کی یہ دوستی صرف اثر و رسوخ کو بڑھانے یا لوگوں کو دکھانے کے لئے ہوتی ہے کہ ہم فلاں عالم کے دوست ہیں جب چاہیں ہم انہیں کسی مجلس میں بلوالیں لیکن کبھی ان سے علمی گفتگو نہیں کرتے لہذا دوستی سطحی اغراض کے لئے نہ ہو بلکہ نفس کی اصلاح اور ذہن کی معلومات کے لئے ہو۔

امیرالمومنین(ع) نےپھر فرمایا: ثُمَّ الْصَقْ بِذَوِي الْمُرُوءَاتِ وَالاَْحْسَابِ، وَأَهْلِ الْبُيُوتَاتِ الصَّالِحَةِ، وَالسَّوَابِقِ الْحَسَنَةِ، ثُمَّ أَهْلِ النَّجْدَةِ وَالشَّجَاعَةِ، وَالسَّخَاءِ وَالسَّمَاحَةِ؛ فَإِنَّهُمْ جِمَاعٌ مِنَ الْکَرَمِ، وَشُعَبٌ مِنَ الْعُرْفِ؛ پھر اس کے بعد اپنا رابطہ بلند خاندانوں نیک اور شریف گھرانوں عمدہ روایات رکھنے والوں اور صاحبان ہمت و شجاعت و سخاوت و کرم سے مضبوط رکھنا کیونکہ یہ لوگ کرم کا سرمایہ اور نیکیوں کا سرچشمہ ہوتے ہیں۔

اور صرف اتنا ہی نہیں کہا بلکہ آگے فرمایا: ثُمَّ تَفَقَّدْ مِنْ أُمُورِهِمْ مَا يَتَفَقَّدُ الْوَالِدَانِ مِنْ وَلَدِهِمَا، وَلاَ يَتَفَاقَمَنَّ فِي نَفْسِکَ شَيْءٌ قَوَّيْتَهُمْ بِهِ؛ ان کے حالات کی اسی طرح خبر رکھنا جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کی نگرانی کرتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرنا جو ان کی تقویت کا باعث ہو تو اسے بڑا نہ سمجھ لینا۔
یعنی صرف رابطہ رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا اگر وہ کمزور ہیں تو ان کی تقویت کے اسباب بھی فراہم کرنا چاہئیے۔
ایک استاد ایک پڑوسی اور ایک دوست یہ تینوں بہت حد تک ہماری زندگی میں اثر انداز ہوتے ہیں لہذا بہت احتیاط کے ساتھ ان تینوں کا انتخاب کرنا چاہئیے۔
ایک اسکالر نے اچھی مثال دی جسکا نچوڑ یہ ہے کہ سوڈیم اور کلورین دونوں الگ الگ ہوں تو زہر ہیں لیکن ان دونوں کو ملا دیا جائے تو سوڈیم کلورائیڈ یعنی ان کا مرکب سادہ نمک بن جاتا ہے ایک شاگرد نے اپنے کیمسٹری کے  استاد سے پوچھا سر ! ایسا کیونکر ممکن ہے ؟ کہ الگ الگ ہوں تو زہر ہوں مل جائیں تو نمک بن جائیں ؟ استاد نے کہا بیٹا !  لاء آف نیچر یعنی قانون فطرت۔
 لیجئیے وہ مقام کہ جہاں بچہ کے ذہن میں خدا کا تصور ڈالا جاسکتا تھا وہاں ایک غلط استاد نے نیچر کا لفظ ڈالدیا آگے چل کر بچہ نیچری نہ بنے گا تو کیا بنے گا !!!!! 

اب سوچئیے کہ آج کی دعا کتنی اہم ہے؛اے اللہ مجھے نیک لوگوں کے ہمراہ ہونے کی توفیق دے خواہ وہ اسکول ہو کالج ہو یونیورسٹی ہو یا دفتر کی چہار دیواری ہو یا کاروبار کا میدان ہو۔

وَآوني فيہ برَحمَتِكَ إلى دارِ القَرارِ بإلهيَّتِكَ يا إله العالمينَ: اور اپنی رحمت سے سکون کے گھر میں مجھے پناہ دے، تیری معبودیت کے واسطے اے تمام جہانوں کے معبود۔
دار القرار جہاں نہ فتنوں کا گذر ہو نہ خدا بیزار ٹیکنالوجی کا اثر ہو نہ بے شرمی کی رمق ہو نہ لہو لعب کی شفق ہو صرف سلاما سلاما کے نغمے ہوں کافوری شراب کے چھلکتے ہوئے پیالے ہوں ریشمی تکیہ جات ہوں حریر و دیبا کے ملبوسات ہوں مئے زنجبیل ہو نہر سلسبیل ہو سندس و استبرق کے پیرہن ہوں چاندی کے چمکتے ہوئے کنگن ہوں صبح و شام اللہ کے تذکرے ہوں لیل و نہار طویل سجدے ہوں۔

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ ہمیں ان معانی و مفاهیم کی سمجھ کے ساتھ ہی ان پر عمل کی بھی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...