ماہ صیام کے دوسرے دن کی دعا:تشریح و تفسیر

دوسرے دن کی دعا:اللَّهُمَّ قَرِّبْنِي فِيهِ إِلَى مَرْضَاتِكَ وَ جَنِّبْنِي فِيهِ مِنْ سَخَطِكَ وَ نَقِمَاتِكَ وَ وَفِّقْنِي فِيهِ لِقِرَاءَةِ آيَاتِكَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔

اے معبود! مجھے اس مہینے میں اپنی خوشنودی سے قریب فرما اور مجھے اپنی ناراضگی اور انتقام سے دور رکھ، اور مجھے اپنی آیات (قرآن) کی تلاوت کی توفیق عطا فرما، اپنی رحمت کے واسطے اے سب سے زیادہ رحم والی ذات۔

حل لغات :- تلاوت :عربی میں تلا کہتے ہیں پیچھے پیچھے چلنے کو؛ التالی کہتے پیں پیچھے چلنے والا؛ التلو کہتے ہیں اونٹنی کا وہ بچہ جس کا دودھ چھڑا دیا جائے اور وہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلے۔

 اس کیفیت کو اپنی نظروں میں رکھئیے کہ اونٹنی کا ایک بچہ دودھ کے لئے کس طرح بے تابانہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے ۔

وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا ﴿ سورة الشمس 2﴾ جب چاند سورج کے پیچھے چلے چاند میں بھی تلاوت ہی کا تلا ہے یعنی چاند کس طرح سورج کی تلاوت کرتا ہے ایسی تلاوت کہ خدا کو بھی اس کی قسم کھانا پڑی ۔

رُبَّ تالِ القرآنِ و القرآنُ يَلعَنُهُ: کتنے ہی ایسے ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن قرآن ان پر لعنت کرتا ہے؛[ بحار الأنوار  ،  جلد۸۹،صفحه۱۸۴] ؛یہ تال بھی تلاوت سے آیا  ہے تال یعنی پڑھنے والا پیچھے چلنے والا جستجو کرنے والا کتنے ہی ایسے ہیں جو قرآن کی جسجو میں لگے ہوئے ہیں لیکن قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔

 جی ہاں! جب کوئی کھلاڑی گیند کو کیچ نہیں کرپاتا تو دنیا اس کی ملامت کرتی ہے کہ اتنی بھاگ دوڑ کی مگر گیند کو پکڑا نہیں۔

لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ﴿ سورة الواقعة 79﴾  اہلبیت(ع) کے بغیر قرآن کو سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے سائنس کے بغیر کائنات کو سمجھنا ۔

اللَّهُمَّ قَرِّبْنِي فِيهِ إِلَى مَرْضَاتِكَ :پروردگار اس مہینے میں مجھے اپنی رضا خوشنودی سے قریب فرما ۔

اللہ کی رضا کو پالینا کوئی سادہ بات نہیں ہے یہ عشق کی انتہا ہے ساری تگ و دو کا حاصل ہے ؛کوئی سو کلومیٹر پیدل چل کر اپنے محبوب کے پاس جائے اور اس کا محبوب اسے نہ ملے یا ملاقات کرنے سے انکار کردے تو اس پر کیا گذرے گی؟ پیاسے کو دو گھونٹ پانی چاہیئے آپ اسے اشرفیاں دیں تو وہ لیکر کیا کرے گا ؟ سب کچھ مل گیا لیکن اس کی رضا نہ ملی تو سوچئیے کیا یہ سادہ بات ہے ؟ اور یہ صرف اسی دعا کا ٹکڑا نہیں ہے نماز مغرب کی تعقیبات پڑھئیے آپ کو یاد آئے گا ؛اللھم انی اسئلک موجبات رحمتک و عزائم مغفرتک و النجاة من النار و من کل بلیہ والفوز بالجنہ و رضوان فی دار السلام ؛پروردگار میں جنت میں کامیابی کے ساتھ داخلے اور دار السلام میں تیری رضا کا خواستگار ہوں اور کیوں نہ ہو ؟ یہ تو اہل جنت کی بھی تمنا ہے ؛و رضوان من اللہ اکبر ؛اللہ کی رضا تو سب سے بڑی چیز ہے جنتیوں کی غذا بھی اللہ کی خوشنودی کے لیے ہوتی ہے۔

 ہم دنیا میں بندوں سے تعلقات نبھانے کا کتنا خیال رکھتے ہیں لوگوں سے روابط کو برقرار رکھنے کے لیے کتنے جتن کرتے ہیں دوستی باقی رکھنے کے لئے کتنی ترکیبیں کرتے ہیں ٹائم ضائع ہوتا ہے پیسہ خرچ ہوتا ہے تھکان سے دوچار ہوتے ہیں، شادیوں میں شرکت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہم سے خوش ہو جائے خواہ پیدل چل کر جانا پڑے ،تحائف پیش کرتے ہیں تاکہ تعلقات بنے رہیں یہ سب تو ہم برابر لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں پارٹی ذرا بڑی ہو حکومت کا کوئی اعلی افسر ہو یا کوئی وزیر محترم ہو تو خود کو اس کے آگے بچھادیتے ہیں نہ جبّہ و دستار کا وقار دیکھتے ہیں نہ لباس رسول کا اعتبار  مانع ہوتا ہے یہ عوام کا نہیں خواص کا ذکر ہے، دوستوں کی رسی یعنی”  طناب دلبراں ”  جو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے  اس کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں اور” حبل اللہ ” جو لَا انفِصَامَ کی  شان رکھتی ہے یعنی جو  ہاتھوں سے چھوٹ سکتی ہے ٹوٹ نہیں سکتی  اسکو یا تو پکڑا ہی نہیں ہے اور اگر پکڑا بھی ہے تو ڈھیلا پکڑا ہے جبکہ رضائے خدا دنیا کی تمام جھنجھٹوں سے پاک ہے اور اس کا حصول نہایت ہی آسان ہے۔

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا مسواک کرلو اللہ خوش ہوجائے گا؛ والدین کی خدمت کرلو اللہ خوش ہوجائے گا ؛دل سے توبہ کرلو اللہ خوش ہوجائے گا ؛قرآن کی تلاوت کرلو اللہ خوش ہوجائے گا؛نہیں تو اپنے ہی بچہ کو بوسہ دے لو اللہ خوش ہوجائے گا۔

وَ جَنِّبْنِي فِيهِ مِنْ سَخَطِكَ: سخط، عربی میں کہتے ہیں ناراضی اور غصہ کو لیکن ہر ناراضی کو نہیں کہتے بلکہ کسی بڑے آدمی کی ناراضی کو “سخط” کہتے ہیں، اب اللہ سے بھی بڑا کوئی ہے ؟ اور اس کے غصہ اور انتقام سے بھی بڑا کسی کا غصہ اور انتقام ہے ؟ ” کورونا ” کا مزہ دنیا نے دیکھ اور چکھ لیا، اس کے غصہ نے کیا تباہی مچا رکھی ہے ایک ایک ملک کا اربوں کھربوں کا سرمایہ اس کے انتقام کی چند چھینٹوں میں ڈوب گیا اسی لئے مولا امیر (ع) نے دعائے کمیل میں فرمایا:«وَهذا ما لا تَقُومُ لَهُ السَّمـاواتُ وَالْاَرْضُ»اے اللہ تیرے انتقام کو زمین و آسمان بھی اٹھا نہیں سکتے ۔

وَ وَفِّقْنِي فِيهِ لِقِرَاءَةِ آيَاتِكَ :قرآن مجید کی تلاوت کیوں ؟

خاص کر اس مہینہ میں کچھ وجوہات کی بنا پر قرآن کی تلاوت ضروری ہے ایک تو یہ کہ رمضان کا تعارف روزہ سے نہیں قرآن سے ہوا ہے؛ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [سورة البقرة185] فرمان رسول گرامی(ص) ہے:القرآنُ مَأدُبَةُ اللّهِ، فَتَعَلَّموا مَأدُبَتَهُ ما استَطَعتُم[بحار الأنوار: ۹۲/۱۹/ ۱۸؛ كنز العمّال:۲۳۵۶]؛یعنی قرآن رحمان کا دستر خوان ہے؛اور دوسری بات یہ کہ قرآن کا موسمِ بہار رمضان ہے اور بہار کے موسم میں عندلیبیں نہ چہچہائیں تو وہ بہار ہی کیا؟ آم کے موسم میں کوئی آم نہ کھائے تو یا وہ کنجوس ہے یا ذیابطیس کا شدید مریض ہے اسی طرح رمضان المبارک میں کوئی قرآن کی تلاوت نہ کرے تو اس کا مطلب  رحمت خدا سے وہ بہت دور ہوچکا ہے –

قرآن  مجید کی تلاوت میں؛ اجر و ثواب کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہیں جو درج ذیل ہیں:

(١) تاریخ سے عبرت لینے کے لئے قرآن کی تلاوت ضروری ہے۔

علم الحیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسان اس زمین پر تقریبا تین لاکھ برس سے آباد ہے لیکن اسکی ترقی قرآن مجید کے نزول کے بعد ہوئی ہے قرآن مجید نے انسانی دماغ کو توحید کا نظریہ دیا، چاند اور سورج کو انسان خدا سمجھ کر پوجتا تھا ؛قرآن مجید نے آکر بتایا کہ وہ خالق نہیں مخلوق ہیں ،ان کو تسخیر کرنے کا تصور پیش کیا ،اوہام کی پستیوں سے اسے نکال کر حقائق کی بلند مسند پر بٹھایا، اس طرح قرآن نے ماڈرن سائنس کی بنیاد رکھی؛ ورنہ انسان کو پتھر کے چند بے ڈھنگے ہتھیار بنانے میں ہزاروں برس لگ گئے تھے پھر ان ہتھیاروں کو سیدھی دھار دینے میں سینکڑوں برس لگ گئے، آگ کے استعمال کو سیکھنے میں مدتیں بیت گئیں؛ آج سے کوئی ساڑھے چھ سات ہزار برس پہلے زراعت کا انکشاف ہوا زراعت کے انکشاف کے بعد انسانی زندگی خانہ بدوشی سے سکونت کی طرف منتقل ہوئی سکونت کے بعد تمدن کی بنیاد پڑی قومیں ابھریں پھر فنا ہوگئیں بستیاں آباد ہوئیں پھر اجڑ گئیں تمدن اپنے عروج کو پہنچ کر ختم ہوگئے ۔

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ ﴿ سورة الأنعام  6﴾ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم ان سے پہلے کتنی اقوام کو تباہ کرچکے ہیں ہم نے انہیں وہ شان و شوکت عطا کی تھی جو تمہیں نصیب نہیں ہوئی ہم ان کے کھیتوں پر چھماچھم بارشیں برساتے تھے اور ان کے باغات میں شفاف پانی کی نہریں بہتی تھیں جب انہوں نے ہماری نافرمانی کی تو ہم نے انہیں تباہ کردیا اور ان کا وارث کسی اور قوم کو بنادیا۔

کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کیوں ؟ تاریخ کا ہر سبق آپ کو قرآن سے ملے گا، ٹوٹ جانے والے رشتے بھی آپ کو قرآن میں ملیں گے، محلوں میں پڑجانے والے مکڑی کے جالے بھی آپ کو قرآن میں ملیں گے، سائے کے پیچھے دوڑنے والے دیوانے بھی آپ کو اسی میں ملیں گے اور دیوار سے ٹکرانے والے فرزانے بھی آپ کو اسی میں ملیں گے، بڑھاپے کی چیخیں، مرنے والی کی آہیں، لعاب دہن کا پھندا ،سینہ کوٹنے والی ماں، رونے دھونے والی بہن، کندھا دینے والا بیٹا، قبر میں اتارنے والے رشتہ دار، لحد کی وحشت، سانپوں کا گھر، کیڑوں کا راج، سلطنتوں اور سرحدوں کا عروج و زوال، سب آپ کو قرآن میں ملے گا جس طرح بارش مردہ زمین کی نس نس میں زندگی دوڑا دیتی ہے اسی طرح قرآن کی تلاوت مردہ دلوں کو بیدار کردیتی ہے ،قرآن روح کے تاروں کو چھیڑتا ہے اسکی تلاوت روح کو گرمادیتی ہے تڑپادیتی ہے۔

(٢) انفس و آفاق کی طاقتوں کو سمجھنے کے لئے قرآن کی تلاوت ضروری ہے۔

مٹی میں پٹرول، آگ میں اسٹیم، ہوا میں ریڈیو، پانی میں بجلی، بجلی میں مشین، مشین میں حرکت اور حرکت میں برکت۔«سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ» ﴿ سورة فصلت ۵۳﴾ ؛ہم عنقریب اپنی نشانیاں اطراف عالم اور خود انکے نفس کے اندر دکھائیں گے،ہم تمہیں بتائیں گے کہ ہم نے قوت کے کتنے خزانے تمہیں دیئے ہیں بہترین قدوقامت،خوبصورت ترین خدوخال ،مضبوط ہڈیاں، موزوں پٹھے، بیدار آنکھیں، لبریز دل، مٹھی بھر بھیجہ؛جسم کا بے تاج راجہ، بال کھال،خون کی نہروں اور باریک رگوں کا جال، کوئلہ؛ پٹرول؛ دھات؛ لوہا ؛تانبا؛ پیتل؛ایلومینیم؛سوڈیم؛پوٹاشیم؛ کیلشیم؛آکسیجن؛ ہائیڈروجن ؛نائٹروجن؛ درختوں کے پتے؛ پھول شگوفے اور پھر اس میں رس تلخی ترشی مٹھاس رنگ بو ذائقہ؛ بادام اخروٹ انگور شہتوت؛ گندم؛ جو؛ چاول باجرہ ماش خشخاش؛ شیر شکر شہد شربت شراب؛ چیونٹی تتلی مکھی مچھر؛ شیر ہاتھی زرّافے زیبرا؛گلاب نرگس نیلوفر موگرا ؛سیر گاہیں چراگاہیں تعلیم گاہیں؛عزاخانے شفا خانے دوا خانے؛جھیل چشمے آبشار؛ لق و دق صحرا وسیع سمندر سربفلک پہاڑ؛ تخلیق کا کمال؛ تکوین کا جمال؛غرض حیرت انگیز کائنات کے حیرت انگیز نظام کو سمجھنے کے لئے قرآن کی تلاوت ضروری ہے، عجائبات انفس و آفاق کے اندر چمکتی ہوئی سچائی کو صرف اور صرف قرآن سے معلوم کیا جاسکتا ہے، تلاوت سمجھ سمجھ کر پڑھنے کو کہتے ہیں جھوم جھوم کر پڑھنے کو نہیں کہتے عمل اور حرکت پر آمادہ کرنے والی قرات کو تلاوت کہتے ہیں دماغوں کو منجمد کردینے والی قرائت پر خود قرآن لعنت کرتا ہے ؛ رُبَّ تالِ القرآنِ و القرآنُ يَلعَنُهُ؛آیات پر غور نہ کرنے کی سزا قرآن مجید نے موت بتائی ہے۔

أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ[سورة الأعراف 185]کیا یہ لوگ آسمان و زمین وغیرہ کی تخلیق اور جو جو چیز اللہ نے بنائی ہے اس پرغور نہیں کرتے؟ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی موت قریب آگئی ہے ۔اللہ اکبر

اے خدا اس مہینہ میں اپنی کتاب عظیم  کی تلاوت کی ہم سب کو توفیق کرامت فرما۔آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...