ماہ صیام کے بارہویں دن کی دعا:تشریح و تفسیر

حوزہ نیوز ایجنسیl 
بارہویں دن کی دعا: اَللّهُمَّ زَيِّنِّي فيہ بالسِّترِ وَالْعَفافِ وَاسْتُرني فيہ بِلِباسِ الْقُنُوعِ وَالكَفافِ وَاحْمِلني فيہ عَلَى الْعَدْلِ وَالْإنصافِ وَآمنِّي فيہ مِنْ كُلِّ ما اَخافُ بِعِصْمَتِكَ ياعصمَةَ الْخائفينَ؛ اے معبود! مجھے اس مہینے میں پردے اور پاکدامنی سے مزیّن فرما، اور مجھے کفایت شعاری اور اکتفا کا جامہ پہنا دے، اور مجھے اس مہینے میں عدل و انصاف پر آمادہ کردے، اور اس مہینے کے دوران مجھے ہر اس شیئے سے امان دے جس سے میں خوفزدہ ہوتا ہوں، اے خوفزدہ بندوں کی امان۔
حل لغات :- عفاف یعنی حرام یا قبیح چیز سے رکنا؛ صفت مذکر عفیف اور اس کی جمع اعفاء صفت مؤنث عفیفہ اور اس کی جمع عفیفات۔
اَللّهُمَّ زَيِّنِّي فيہ بالسِّترِ وَالْعَفافِ:اے اللہ مجھے حجاب و عفاف سے مزین فرما۔ 
کیونکہ ناپاکیوں کے ساتھ اللہ سے تعلق قائم نہیں ہوسکتا اسی لئے ایک ماہ کے روزے رکھوائے آنکھ کان زبان دل اور دماغ کو پہلے پاک کروایا دیکھو آنکھ کا انداز غلط نہ ہو کانوں کا استعمال بیہودہ نہ ہو زبان پر فضول باتیں نہ آنے پائیں جذبات عبدیت کے زیر اثر ہوں قوی پر ندامت کا غلبہ ہو اور پھر اس مہینہ میں اللہ بندوں کے چھوٹے بڑے تمام گناہ بخش دیتا ہے تاکہ بندوں کا اس سے تعلق قائم ہو۔
جس مذہب میں نظافت آدھا ایمان ہو سوچئیے اس مذہب میں عفت کا کیا مقام ہوگا ؟ہم نے عفت کو بھی تقسیم کیا ہوا ہے کہ یہ صفت صرف عورت میں ہونا چائیے جبکہ ایسا نہیں ہے اسلام کی نگاہ میں عفت صرف عورت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مرد سے بھی مطلوب ہے جنسی میلان خواہ مرد ہو یا عورت انسان کے خمیر میں پیوست ہے اور یہ میلان ایسا درندہ صفت ہے کہ معمولی سی بے حجابی کو بھی برداشت نہیں کرتا اسی لئے اسلام نے نکاح کے بعد بھی شرم و حیا سے متعلق کچھ ضروری احکام نافذ کئے ہیں کیونکہ عفت شرم و حیا ہی سے آتی ہے ستر پوشی کا خیال اسی شرم و حیا کا نتیجہ ہے جن قوموں میں شرم و حیا نہیں ہے ان میں عریانی کا عام رواج ہے افریقا اور یورپ عریانی کی راجدھانیاں ہیں امریکہ بھی پیچھے نہیں ہے میں نے نیویارک لاس اینجلس اور سیان فرانسیسکو میں مادر زاد ننگے شاہراہوں پر دیکھے  (قصدا نہیں) تو ستر پوشی شرم و حیا سے آتی ہے ” ستر ” یعنی وہ لباس جو عیوب کو چھپاتا ہے غالب کا ایک شعر ہے:

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی 
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا 

شرم و حیا نہ ہو تو آدمی ننگ وجود ہے عفت شرم سے آتی ہے اور آنکھوں سے جاتی ہے علمائے اخلاق کہتے ہیں کہ نگاہیں شہوت کی قاصد ہوتی ہیں شعراء نے سب سے زیادہ اس پر روشنی ڈالی ہے کہ نگاہیں تیر کی طرح دل میں پیوست ہوجاتی ہیں اسلام سے پہلے کے شعراء نے بھی کہا کہ آنکھیں دل کو زخمی کرتی ہیں اور اسلام کے بعد کے شعراء نے بھی کہا کہ نگاہوں سے دل زخمی ہوتے ہیں:قتل کرڈالا مگر ہاتھ میں تلوار نہیں۔

علماء اور شعراء کے درمیان ہر مسئلہ میں اختلاف ہے لیکن اس مسئلہ میں سب متفق ہیں کوئی اختلاف نہیں نگاہ کی اسی تاثیر کو دیکھتے ہوئے قرآن مجید نے اعلان کیا: قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿سورة النور٣٠﴾ ایمان والوں سے کہہ دیجئیے کہ ذرا اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کرتے رہیں اسی میں ان کے لئے پاکیزگی ہے اللہ تعالیٰ کو جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کی خبر ہے۔

اگر مردوں کو عفت کی تعلیم دی تو خواتین کو بھی فراموش نہیں کیا کیوں کہ عورت اور مرد دونوں کا خمیر ایک ہے:وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا…﴿سورة النور٣١﴾اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے۔

ان دونوں آیات کے لب و لہجہ کو دیکھیئے پہلے آنکھیں نیچی رکھنے کو کہا پھر شرمگاہ کی حفاظت کا معاملہ اٹھایا کیونکہ فتنہ کا سرچشمہ یہی آنکھیں ہیں اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ بد نگاہی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ بے حیا کا جسم مردہ ہوتا ہے اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا کھلا ہے اور کیا نہیں کھلا ہے تو مردہ لاشوں کو دیکھ کر نفس کو کیا گندا کرنا۔

وَاسْتُرني فيہ بِلِباسِ الْقُنُوعِ وَالكَفافِ: اور مجھے کفایت شعاری اور اکتفا کا جامہ پہنادے۔
دعا کا یہ ٹکڑا معاشی زندگی کی شاہ کلید ہے جسے “ماسٹر کی” کہتے ہیں قرآن مجید کہتا ہے: …نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا….﴿سورة الزخرف٣٢﴾ ہم نے دنیا کی زندگی میں ان کی روزی بانٹ دی ہے۔
قرآن مجید کی اس آیت کریمہ کی رو سے قناعت کا مطلب ہے خدا کی تقسیم پر راضی ہونا حدیث کی رو سے قناعت حرص و ہوس سے انتقام لینے کا نام ہے دوسروں سے لڑنے کے بجائے اپنے آپ سے لڑنے کا نام قناعت ہے دنیا میں آج جو بے چینی بے سکونی  اضطراب التہاب اور ادھم مچی ہوئی ہے وہ صرف دو باتوں کی وجہ سے ہے کہ انسان کے پاس جو ہے اس سے راضی نہیں ہے اور جو نہیں ہے اس کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہا ہے فقیر روٹی کے لئے پریشان ہے اور بادشاہ بھوک کے لئے حالانکہ اللہ نے اس دنیا میں ہر ایک کے حصہ کی روٹی بھی رکھی ہے اور سو گرام کی بھوک بھی معین ہے لیکن اپنے پاس ایک ٹن دیکھنے کی خواہش نے اضطراب بڑھا دیا ہے – استحصال ذخیرہ اندوزی اسٹاک لوٹ مار اور دھوکہ دہی سے دنیا باز اجائے تو فقر و فاقہ افلاس اور تنگ دستی سے تنگ آکر ہونے والی خودکشیاں ختم ہوسکتی ہیں جس طرح سیلاب کی تباہی کاریوں سے بچنے کے لئے بندھ باندھے جاتے ہیں اسی طرح معاشی خواہشات کے سیلاب کو روکنے کے لئے اسلام نے قناعت کا بندھ باندھا ہے – میں نے کنزالعمال میں ایک حدیث دیکھی کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:«مَنْ أَصْبَحَ وَ الدُّنْیَا أَکْبَرُ هَمِّهِ فَلَیْسَ‏ مِنَ‏ اللَّهِ‏ فِی شَیْ‏ءٍ وَ أَلْزَمَ قَلْبَهُ أَرْبَعَ خِصَالٍ هَمّاً لَا یَنْقَطِعُ عَنْهُ أَبَداً وَ شُغُلًا لَا یَنْفَرِجُ مِنْهُ أَبَداً وَ فَقْراً لَا یَبْلُغُ غِنَاهُ أَبَداً وَ أَمَلًا لَا یَبْلُغُ مُنْتَهَاهُ أَبَدا» جو صبح کرے اور اس کا مقصد ہی دنیا کمانا ہو تو وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے اور اللہ اس کے دل کو چار عادتوں سے باندھ دیتا ہے جن سے موت تک چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا؛رنج و غم، جس سے کبھی جدا نہیں ہوسکتا،کام، کہ جس سے کبھی اسے فراغت نہیں مل سکتی؛ایسا فقر؛ جو کبھی مالداری کو نہیں پہنچتا،اور ایسی امید؛ کہ جو کبھی انتہا کو نہیں پہنچتی۔

وَاحْمِلني فيہ عَلَى الْعَدْلِ وَالْإنصافِ: اور مجھے اس مہینے میں عدل و انصاف پر آمادہ کردے۔
ظلم پر ظلم پھر ظلم پر ظلم اتنے ظلم ہوچکے ہیں کہ انصاف ہی معدوم ہوچکا ہے:انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے۔

ہمارے معاشرے کے ریشہ ریشہ میں ظلم گھسا ہوا ہے دوکانداروں نے اپنی دکانوں میں ظلم کے باٹ رکھے ہیں کسان اپنے کھیتوں میں ظلم کے بیچ بو رہے ہیں علماء کی دستاروں میں ظلم کے پیچ پڑے ہوئے ہیں؛ جو وزیروں کی چوکھٹوں کی گرد چاٹ کر پوری صنف کو بدنام اور گندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں نہ باپ اپنے بچوں کے ساتھ انصاف کررہا ہے نہ بچے ماں باپ کے ساتھ استاد کو معلوم ہی نہیں کہ انصاف کس بھیڑیے کا نام ہے اس نے دیکھا ہی نہیں تو اپنے شاگردوں کو سمجھائے گا کیسے ؟ محض تھیوری سے کسی سبجکٹ کا حق تھوڑی ادا ہوتا ہے پہلے زمانوں میں چیخا جاتا تھا کہ انصاف کو عدالتوں تک محدود نہ رکھا جائے اب عدالتوں میں بھی انصاف نہیں رہا اب عادلانہ نظام عدل الٰہی کو نافذ کرنے والا امام ہی برپا کرے گا -کمیونزم مارکسیزم سوشلزم کیپیٹلزم اور ڈیموکریسی سب کے جنازے نکل چکے ہیں کسی نے بھی اپنی حیات میں انصاف سے انصاف نہیں کیا سیاسی انصاف معاشی انصاف سماجی انصاف فردی اور اجتماعی انصاف مدنی اور حکومتی انصاف کا پرچم اب آنے والا امام ہی لہرائے گا ظلم سے بھری ہوئی کائنات میں انصاف کے قیام کے لئے دعا نہ کرنا بھی دعا سے نا انصافی ہے چونکہ اجتماعی انصاف کی بنیاد فردی انصاف سے پڑتی ہے اسی لئے آج کی اس دعا کا یہ فقرہ نہایت اہم ہے:۔اے اللہ مجھے عدل و انصاف کا جامہ پہنادے اور اس کے بعد والا فقرہ۔۔۔

وَآمنِّي فيہ مِنْ كُلِّ ما اَخافُ: اور ہر اس شی سے مجھے امان دے جس سے میں ڈرتا ہوں۔
کتنا معنی خیز فقرہ ہے کہ جب تک عادلانہ نظام قائم نہ ہوگا خوف اور ڈر کا سایہ رہے گا اور جب تک ڈر رہے گا دعا کی ضرورت رہے گی۔

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ ہمیں ان معانی و مفاهیم کی سمجھ کے ساتھ ہی ان پر عمل کی بھی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...