ماہ رمضان کے آداب و مقدّمات

انسان کوئي بھي کام انجام دينا چاہے اور پھر اسے مکمل طور سے انجام بھي دے لے ليکن اگر اس کے آداب و شرائط کا لحاظ نہ رکھے تو عام طور سے اس نتيجہ کو حاصل نہيں کرپاتا جو اس کا مقصود ہوتا ہے – کسي عمل کو اس کے آداب و مقدمات کے ساتھ بجالانا ہي پيش نظر مقصد کے حصول کا باعث ہوتا ہے- کتني دعائيں قبوليت کے درجہ تک نہيں پہنچ پاتيں- کتني نمازيں نماز گزار کے منھ پر ماردي جائيں گي- کتنے روزے ايسے ہيں جو روزوں

انسان کوئي بھي کام انجام دينا چاہے اور پھر اسے مکمل طور سے انجام بھي دے لے ليکن اگر اس کے آداب و شرائط کا لحاظ نہ رکھے تو عام طور سے اس نتيجہ کو حاصل نہيں کرپاتا جو اس کا مقصود ہوتا ہے – کسي عمل کو اس کے آداب و مقدمات کے ساتھ بجالانا ہي پيش نظر مقصد کے حصول کا باعث ہوتا ہے-

کتني دعائيں قبوليت کے درجہ تک نہيں پہنچ پاتيں- کتني نمازيں نماز گزار کے منھ پر ماردي جائيں گي- کتنے روزے ايسے ہيں جو روزوں کے بجائے فاقہ کي شکل اختيار کرجاتے ہيں- کتنے حج ايسے ہيں جو نہ صرف يہ کہ قبول نہيں ہوتے بلکہ کفّارے لادکر لاتے ہيں- اس کے علاوہ نہ جانے کتني محنتيں اور رياضتيں ايسي ہيں جو اپني منزل مقصود تک نہيں پہنچ پاتي ہيں-

لہذا ضروري ہے کہ ہم جب کوئي کام انجام ديں تو اس کے آداب کا خيال رکھيں اور ان کي رعايت کريں- ضروري ہے کہ ان امور کي شناخت کي جائے جو ہماري رياضتوں کو ہمارے پيش نظر مقصد و منزل سے ملاديں-

ماہ رمضان اللہ کي برکتوں کا مہينہ ہے لہذا اس سلسلہ ميں رمضان کو مد نظر رکھ کر ضرور غور کرنا چاہئے- تو آئيے اس سلسلہ ميں کچھ وقت صرف کرتے ہيں- البتہ ظاہر ہے کہ يہ مباحث کي تفصيل کافي زيادہ ہے لہذا في الوقت اس بارے ميں اتني ہي بحث کريں گے جتني يہ مقالہ اجازت دے گا-

ماہ رمضان کي عظمت

ماہ رمضان کے بارے ميں اجمالي طور سے يہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ يہ اللہ کا مہينہ ہے اور اس ميں خصوصي طور سے بندوں کي طرف نظر کرم کي جاتي ہے- اس لئے اس ماہ کا استقبال اچھے انداز ميں ہونا چاہئے-

رسول اللہ ماہ شعبان ہي سے اس ماہ کي تياري شروع کرديتے تھے اسي طرح ہمارے ديگر ائمہ بھي پہلے ہي سے اس کے استقبال کے لئے تيار رہتے تھے- امام رضا عليہ السلام نے ماہ شعبان کے آخري جمعہ کے وقت ابا صلت سے فرمايا تھا:

اے ابا صلت! شعبان کے اچھے خاصے دن گزر چکے ہيں اور يہ اس کا آخري جمعہ ہے لہذا اس ميں ہوئي کوتاہيوں کا اس کے باقي ماندہ حصہ ميں تدارک کرلو، اور جو چيز تمہارے لئے مفيد ہے اسے انجام دو اور جو مفيد نہيں ہے اسے چھوڑدو، اور دعا و استغفار و تلاوت قرآن زيادہ سے زيادہ کرو، اور اللہ سے اپنے گناہوں کي توبہ کروتاکہ ماہ خدا اس حال ميں تمہاري طرف آئے کہ تم اللہ کے لئے خالص ہوچکے ہو، اور اپني گردن پر کوئي امانت نہ چھوڑو يہاں تک کہ اسے ادا کردو، اور اپنے دل ميں کسي مومن کا کينہ نہ چھوڑو يہاں تک کہ اسے نکال پھينکو، اور کوئي گناہ نہ چھوڑو مگر يہ کہ اس سے تم اکھڑ چکے ہو، اور اللہ کا تقوي اختيار کرو اور اپني خلوتوں اور جلوتوں سب ميں اسي پر بھروسہ کرو، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافي ہے بيشک اللہ اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے، اللہ نے ہر چيز کے لئے ايک مقدار معين کردي ہے، اور اس ماہ کے بقيہ حصہ ميں يہ ذکر زيادہ کيا کرو: ”اللّہمّ اِنْ لَمْ تَکُنْ غَفَرْتَ لَنا فِيما مَضيٰ مِنْ شَعْبان فَاغْفِرْ لَنا فيما بَقيٰ مِنْہُ” کيونکہ اللہ اس ماہ کے احترام ميں کچھ لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے- (يا ابا صلت انّ شعبان قد مضي اکثرہ—؛ وسائل، ج7، ص218)

ماہ رمضان کو معصومين عليہم السلام ايک خاص انداز ايک خاص رنگ اور ايک خاص طريقہ سے گزارتے تھے-

رسول اللہ کے بارے ميں ملتا ہے کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو آپ کا رنگ متغير ہوجاتا تھا، نمازيں زيادہ ہوجاتي تھيں اور دعاميں گريہ و زاري بڑھ جاتي تھي- (انّہ اذا دخل شہر رمضان تغيّر لونہ و کثُرت صلاتہ، وابتہل في الدعاء و اشفق منہ؛ اقبال الاعمال، سيد ابن طاۆس، ج1، ص69، مکتب الاعلام الاسلامي، 1414)

امام سجاد عليہ السلام کا اس مہينہ سے اتنا لگاۆ تھا کہ ماہ رمضان کو وداع کرتے ہوئے عجيب انداز اپناتے ہيں آپ فرماتے ہيں:

يہ مہينہ ختم ہوا اور اپني انقطاع مدت اور اپنے دن پورے کرنے کے بعد ہميں داغ جدائي دے گيا اور اب ہم اسے وداع کررہے ہيں(ثمّ قد فارقنا عند تمام وقتہ، وانقطاع مدّتہ، ووفاء عددہ، فنحن مودّعوہ —؛ صحيفہ کاملہ سجاديہ، دعاء 45،وداع رمضان)

آپ کا وداع بھي عجيب وداع ہے جسے ايک عام اور معمولي وداع نہيں کہا جاسکتا، فرماتے ہيں:

ايسے کا وداع ہے جس کي جدائي ہمارے اوپر بڑي شاق ہے(وداع من عزّ فراقہ علينا؛ ايضاً)

دوسري جگہ فرماتے ہيں:

سلام ہو تجھ پر کہ تيري آمد کے لئے ہم انتظار کي گھڑياں کاٹتے تھے اور آئندہ بھي تيري آمد کے منتظر رہيں گے- (السلام عليک ماکان احرصنا بالامس عليک و اشدّ شوقنا غداً اليک؛ ايضاً)

ايک اور جگہ پر رمضان کي جدائي کو مصيبت سے تعبير کرتے ہيں:

پروردگارا! محمد و آل محمد پر درود بھيج اور اس مہينہ کي جدائي کي مصيبت کا تدارک فرما-(اللہمّ صلّ علي محمّد وآل محمّد واجبِر مصيبتنا بشھرنا؛ ايضاً)

ہمارے ائمہ عليہم السلام رمضان سے مکمل استفادہ کرتے تھے اور اس سے ہونے والے فائدے کو دنيا کا سب سے بڑا فائدہ جانتے تھے:

اس مہينہ ميں ملنے والا منافع دنيا کے سارے منافعوں سے بالاتر ہے-(و اربحنا افضل ارباح العالمين؛ ايضاً)

محمد ابن عجلان نے نقل کيا ہے کہ ميں نے امام صادق عليہ السلام کو يہ کہتے سنا کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو امام زين العابدين عليہ السلام اپنے نہ کسي غلام کي تنبيہ کرتے تھے اور نہ ہي کنيز کي، اور جب کوئي غلام يا کنيز غلطي کرتے تھے تو اسے لکھ ليتے تھے کہ فلاں نے فلاں وقت يہ غلطي کي ہے اور سزا نہيں ديتے تھے اور ان کے ساتھ اخلاق و ادب سے پيش آتے تھے- پھر جب رمضان کي آخري رات آتي تھي تو ان سب کو بلاتے تھے اور اپنے پاس اکٹھا کرتے تھے پھر وہ نوشتہ کھولتے تھے اور کہتے تھے: کہ مثلا فلاں نے يہغلطي کي تھي اور ميں نے نہيں ٹوکا تھا- وہ کہتا تھا :ہاں يابن رسول اللہ!

يہاں تک کہ سب کے ساتھ ايسا ہي کرتے تھے اور آخر ميں ان کے درميان کھڑے ہوکر کہتے تھے کہ بآواز بلند يہ کہو کہ: اے علي ابن الحسين اللہ نے آپ کے سارے اعمال کو بھي اسي طرح ايک ايک کرکے لکھا ہے جيسا کہ آپ نے ہمارے اعمال کو لکھا ہے- اس کے پاس ايسي کتاب ہے جو حق کي بنياد پر آپ کے خلاف بولنے کي طاقت رکھتي ہے اس سے کوئي بھي چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا عمل نہيں چھوٹتا وہ سب کچھ لکھتا ہے اور آپ کا ہر عمل اس کے پاس حاضر ہے جيسا کہ ہم نے اپنے تمام اعمال کو آپ کے پاس حاضر پايا، ہميں معاف کرديں اور بخش ديں جيسا کہ آپ اميدوار ہيں کہ اللہ آپ کو معاف کردے اور بخش دے، اور جيسے آپ چاہتے ہيں کہ معاف کياجائے اسي طرح آپ بھي ہميں معاف کرديں تو آپ اس کو بخشنے والا اور مہربان پائيں گے- اور آپ کا پروردگار کسي پر ظلم نہيں کرے گا- جيسے آپ کے پاس کتاب ہے جو حق کي بنياد پر ہمارے خلاف بولتي ہے،ہمارا چھوٹا بڑا ہر طرح کا عمل لکھتي ہے، لہذا اے علي ابن الحسين اپنے حاکم وعادل رب کے نزديک اپنے ادني مقام کو ياد کريں جو ذرہ برابر کسي پر ظلم نہيں کرتا، اور قيامت کے دن اسے سامنے لائے گا، اور اللہ کافي ہے اور ہرچيز پر گواہ ہے، لہذا ہميں معاف کريں اور بخش ديں اللہ آپ کو معاف کرے گا اور بخش دے گا کيونکہ اس کا فرمان ہے ‘وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّونَ اَن يَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ’ (نور:22)-

يہ سب آپ خود بھي يہ کہتے رہتے تھے اور ان سے بھي کہلواتے رہتے تھے اور وہ آپ کے ساتھ ساتھ بآواز بلند کہتے رہتے تھے اور آپ روتے رہتے تھے اور کہتے رہتے تھے کہ پروردگارا! تو نے حکم ديا ہے کہ جس نے ہم پر ظلم کيا ہے ہم اسے معاف کرديں اور ہمارے اوپر ہمارے نفسوں نے ہي ظلم کيا ہے تو جيسا تو نے کہا ہم نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو معاف کرديا لہذا اب تو بھي ہميں معاف فرما کيونکہ معاف کرنے کے لئے ہم سے اور اپنے حکم کے دوسرے مخاطبين سے زيادہ تو حقدار ہے-

اور تو نے حکم ديا ہے کہ ہم کسي سائل کو اپنے دروازے سے واپس نہ کريںاور ہم تيرے در پہ سائل و مسکين بن کر آئے ہيں اور تيرے در پہ اور تيري چوکھٹ پر بيٹھے ہيں، ہم تيري بخشش، خيراور عطا کے طالب ہيں، لہذا ہم پر احسان کر اور ہميں محروم نہ کر، کيونکہ تو ہم سے اور اپنے حکم کے مخاطبين سے زيادہ اس کا سزاوار ہے، پروردگارا تو صاحب عزت ہے لہذا مجھے عزت عطا کر کيونکہ ميں تيرے در کا سائل ہوں، اور تو خير و نيکي کا سخي ہے تو اے کريم مجھے بھي اپنے در سے پانے والوں ميں شمار کرلے… (بحار، ج95، ص187)

تبصرے
Loading...