ماہ رمضان ، قرآن کریم کے نازل ہونے کا مہینہ ہے

ماہ رمضان ، قمری اور عربی سال کا نواں مہینہ ہے اور یہ مہینہ ، شعبان اور رمضان کے درمیان واقع ہوا ہے ، بارہ مہینوں میں سے صرف ماہ رمضان کا قرآن کریم میں ذکرہوا ہے ۔ ” شھر رمضان ا لذی انزل فیہ القرآن ھدی” ۔

ماہ رمضان ، قمری اور عربی سال کا نواں مہینہ ہے اور یہ مہینہ ، شعبان اور رمضان کے درمیان واقع ہوا ہے ، بارہ مہینوں میں سے صرف ماہ رمضان کا قرآن کریم میں ذکرہوا ہے ۔

”انزال”اور ”تنزیل” میں فرق اور قرآن کی وجہ تسمیہ

نزول کے معنی نیچے آنے اور بلند جگہ پر داخل ہونے کے ہیں، انزال اور تنزیل کے درمیان فرق یہ ہے کہ انزال پوری چیز کو ایک مرتبہ نازل کرنے کے ہیں اور تنزیل ، کسی چیز کو کئی مرتبہ میں نازل کرنے کے ہیں اور کلمہ (قرآن) اس کتاب کا نام ہے جس کو خداوند عالم نے اپنے محبوب پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل کیا ہے اور اس کو اس وجہ سے قرآن کہا جاتا ہے کہ (پہلے یہ پڑھا نہیں جاتا تھا اور بشر کو سمجھانے کے لئے اسے نازل کیا گیا اور اس کے نتیجہ میں یہ پڑھی جانے والی کتاب قرار پائی) اس کو پڑھا گیا ہے جیسا کہ خداوندعالم نے فرمایا ہے : ” انا جعلنا قرآنا عربیا لعلکم تعقلون” (١) اور یہ کلمہ پورے قرآن پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور اس کے اجزاء پر بھی ۔

ماہ رمضان میں قرآن کے نازل ہونے اور اس کے تدریجی یا ایک دفعہ نازل ہونے سے متعلق اقوال کی تحقیق

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کریم ایک مرتبہ ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے ، دوسری طرف اس آیت ” و قرآنا فرقناہ لتقراہ علی الناس مکث ، و نزلناہ تنزیلا” کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم آہستہ آہستہ کئی مرتبہ یعنی ٢٣ سال میں نازل ہوا ہے اور تاریخ بھی اس معنی کی تائید کرتی ہے ، اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ یہ آیت اس آیت سے منافات رکھتی ہے ۔

اور بعض علماء نے اس کے جواب میں کہا ہے : قرآن کریم دو بار نازل ہوا ہے ، ایک مرتبہ ماہ رمضان میں پورا قرآن آسمان سے زمین پر نازل ہوا اور دوسری مرتبہ آسمان سے کئی مرتبہ آہستہ آہستہ زمین پر نازل ہوا ہے ، یہ وہ جواب ہے جس کو مفسرین نے روایات سے لیا ہے ان میں سے بعض کو ہم آئندہ بحث میں بیان کریں گے، انشاء اللہ۔ لیکن بعض مفسرین نے ان پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ آیت میں تعبیر انزال (یعنی پورے قرآن کے ایک مرتبہ نازل ہونے) کے بعد فرمایا ہے ” ھدی للناس و بینات من الھدی والفرقان” ۔ یہ قرآن اس لئے نازل ہوا ہے کہ لوگوں کی ہدایت کرے اور حق و باطل کے درمیان فرق ڈالے، اور ہدایت کی روشن دلیلوں کو بیان کریں ، اور یہ معنی دنیا کے آسمان پر نازل ہونے سے سازگار نہیں ہیں، کیونکہ اس بناء پر قرآن کریم کی تفسیر بہت سالوں سے آسمان میں موجود تھی لیکن لوگوں کو ہدایت کرنے والی نہیں تھی ۔

بعض مفسرین نے اس اعتراض کا یہ جواب دیاہے کہ قرآن کے ہدایت ہونے کے معنی یہ ہیں کہ قرآن لوگوں کے لئے ہادی ہوسکتا ہے اور ان کو گمراہی سے نجات اور حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرسکتا ہے اور یہ معنی اس معنی سے منافات نہیں رکھتے کہ قرآن چند سالوں تک آسمان پر رہا ہو اور اس وقت اس نے لوگوں کی ہدایت نہ کی ہو اور جب اس کے کام کا وقت آگیا تو وہ آسمان سے زمین پر نازل ہوگیا اور اس کی بہت سے مثالیں ہیں، جیسے بہت سے قوانین کو قانون گذار بناتا ہے لیکن اس کو اجراء کرنے کے لئے بہت زیاوہ وقت لگتا ہے اور پھر وہ قانون اجراء ہوتا ہے ۔

یہ وہ سوال وجواب تھے جو آیت سے متعلق بیان ہوئے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ قوانین کے حکم اورخطابات میں بہت زیادہ فرق ہے ، خطابات میں خطاب کے صادر ہونے سے پہلے مخاطب کا ہونا ضروری ہے چاہے اس کو اس ایک مدت کے بعد خطاب کیاجائے اور مقام تخاطب سے پہلے خطاب کے کوئی معنی نہیں ہیں، اور قرآن کریم میں اس طرح کے خطاب بہت زیادہ ہیں، جیسے مندرجہ ذیل تین آیات میں خطاب” قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی روجھا و تشتکی الی اللہ و اللہ یسمع تحاورکما” (٣) ۔

” و اذا راوا تجارة او لھوا انفضوا الیھا و ترکوک قائما ” (٤) اور ” رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ، فمنھم من قضی نحبہ و منھم من ینتظر، و ما بدلوا تبدیلا ” (٥) ۔

ان تینوں آیتوں میں ان مخاطبین سے خطاب ہوا ہے جو خطاب سے پہلے موجود تھے ۔

بعض مفسرین نے جواب دیا ہے کہ ماہ رمضان میں قرآن کے نازل ہونے سے مراد قرآن کریم کا وہ حصہ ہے جو ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے ۔

لیکن یہ جواب بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ مفسرین کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، قرآن کریم کے ساتھ ستائیس رجب کو مبعوث ہوئے ہیں اور رجب سے رمضان کے درمیان ایک ماہ سے زیادہ فاصلہ ہے لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بعثت کی اس مدت سے اس وقت تک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے پاس قرآن نہ رہا ہو ۔

اس کے علاوہ سورہ ”علق” کی پہلی آیات گواہی دیتی ہیں کہ یہ پہلا سورہ ہے جو نازل ہوا ہے اور بعث کے پہلے روز نازل ہوا ہے ، اسی طرح سورہ مدثر گواہی دیتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعوت کے اوائل میں نازل ہوا ہے اور یہ بہت بعید ہے کہ پہلی آیت ، ماہ رمضان میں نازل ہوئی ہو ، اس کے علاوہ مورد بحث جملہ میںجو فرماتا ہے : ” شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن” اس میں صریح طور پر اس بات پر دلالت نہیں ہے کہ قرآن سے مراد اس کے پہلے نازل شدہ حصہ سے بحث ہے لہذا اس آیت کو نازل شدہ پہلے جزء پر حمل کرنے پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔

اور اس آیت کے مثل جس میں کہا گیا ہے کہ قرآن کریم ایک زمانہ میں نازل ہوا ہے اور بھی بہت سی آیات ہیں جیسے : ”والکتاب المبین انا انزلناہ فی لیلة مبارکة انا کنا منذرین ” (٦) اور ” انا انزلناہ فی لیلہ القدر” (٧) ۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام قرآن ایک زمانہ میں نازل ہوا ہے اور ان آیات کے ظاہر سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ اس مراد قرآن کا پہلا حصہ ہے یا مراد نازل ہونے کا پہلا دن ہے اور اس کے اوپر کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کے ظاہر سے دست بردار ہوجائیں ۔

ان آیات میں تدبر کرنے سے جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ ان تمام باتوں کے علاوہ دوسری چیز ہے، کیونکہ جن آیات میں کہا گیا ہے کہ قرآن ماہ رمضان یا ماہ رمضان کی ایک رات میں نازل ہوا ہے اس میں ”انزال” سے تعبیر کیا ہے جو کہ ایک مرتبہ نازل ہونے پر دلالت کرتا ہے اور ان میں سے کسی ایک میں بھی ”تنزیل” کی تعبیر بیان نہیں ہوئی ہے مثلا ایک جگہ فرمایا ہے : ” شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن” (٨) دوسری جگہ فرمایا ہے : ” حم و الکتاب المبین انا انزلناہ فی لیلة مبارکة ”(٩) ایک دوسری جگہ فرمایا ہے : ” انا انزلناہ فی لیلة القدر” (١٠) ۔

یہ تعبیر اور ایک مرتبہ نازل ہونا دو طریقوں سے ہوسکتا ہے ایک یہ ہے کہ پورا قرآن یا قرآن کا ایک حصہ ایک مرتبہ نازل ہوا ہو اور پھر اس کے بعد ایک ایک آیت آہستہ آہستہ نازل ہوئی ہو جس طرح سے بارش قطرہ قطرہ نازل ہوتی ہے لیکن پوری بارش اور اس کے تمام قطرات مفید فائدہ ہوتے ہیں اس لئے اس کو تعبیر کرتے ہیں کہ ” کماء انزلناہ من السمائ” (١١) ۔ اور اسی اعتبار سے فرمایا ہے : ” کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا آیاتہ” (١٢) ۔

دوسرے یہ ہے کہ کتاب سے جو کچھ ہم سمجھتے ہیں وہ ہماری عام فہم فکر کی وجہ سے ہے کہ ہم آیات کو الگ الگ طریقہ سے سوچتے ہیں اور تدریجا نازل ہونے کی فکر کرتے ہیں، جب کہ حقیقت کچھ اور ہے جس حقیقت کی وجہ سے ایک امر اور غیر تدریجی ہے ، اور اس کا نازل ہونا انزال کے اعتبار سے ایک مرتبہ ہے تنزیل کی وجہ سے نہیں ۔

اور اسی دوسرے اعتبار کی وجہ سے قرآن کریم کی آیات سے استفادہ ہوتا ہے جیسے ” کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر” (١٣) چونکہ کلمہ ” احکمت” احکام سے ہے اور احکام ،” تفصیل” کے مقابلہ میں ہے اور تفصیل سے مراد یہ ہے کہ کتاب کو فصل فصل کردے ، اور احکام کے معنی یہ ہیں کہ اس طرح سے ہو کہ اس کے جزء جزء نہ ہوں اور اس کے اجزاء ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں اور چونکہ تمام کے تمام ایک معنی کی طرف پلٹتے ہیں جس کے جزء اور فصل نہیں ہیں، اور آیت اس متعلق بالکل صریح ہے کہ ہم جو آج یہ تفصیل دیکھ رہے ہیں وہ تفصیل قرآن میں کریم میں بعد میں دی گئی ہے ورنہ قرآن کریم شروع میں محکم اور بغیر جزء و فصل کے تھا ۔

اس آیت سے بھی زیادہ واضح یہ آیت ہے ”ولقد جئناھم بکتاب فصلناہ علی علم ھدی و رحمة لقوم یومنون۔ ھل ینظرون الا تاویلہ یوم یاتی تاویلہ یقول الذین نسوہ من قبل قد جائت رسل ربنا بالحق ” (١٤) ۔

اور یہ آیت ” وما کان ھذا القرآن ان یفتری من دون اللہ ، ولکن تصدیق الذی بین یدیہ و تفصیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العالمین” اس کے بعد فرماتا ہے : ” بل کذبوا بما لم یحیطوا بعلمہ و لما یاتھم تاویلہ ” (١٥) ۔ ان آیات اور خصوصا سورہ یونس کی آیت سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ تفصیل اور جدا کرنے کا مسئلہ ایسا ہے جو بعد میں کتاب خدا پر عارض ہوا ہے اور یہ پہلے اس طرح نہیں تھا ۔

پس کتاب خود بخود ایک چیز ہے اور اس کے اوپر جو تفصیل عارض ہوئی ہے وہ دوسری چیز ہے ، اور کفار نے جو کتاب کی تکذیب کی ہے ان کی وہ تکذیب تفصیل کتاب سے مربوط ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ یہ بھول گئے کہ یہ تفصیل کس چیز کی طرف پلٹے گی اور قیامت کے روز بہت جلد سمجھ جائیں گے اور سمجھنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے ، اس وقت پشیمان ہوں گے جب کہ اس کی پشیمانی ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی اور فرار کا بھی راستہ نہیں ہوگا ۔

یہ آیت مذکو رہ آیت سے زیادہ واضح ہے : ” حم والکتاب المبین، انا جعلناہ قرآنا عربیا لعلکم تعقلون و انہ فی ام الکتاب لدینا لعلی حکیم” ۔ (١٦) چونکہ اس آیت سے یہ معنی سمجھ میں آتے ہیں کہ قرآن پہلے ایک کتاب مبین میں تھا جو پڑھنے والی اور عربی نہیں تھی او ربعد میں پڑھنے والی اور عربی ہوئی ہے اور الفاظ نے بھی عربیت کا لباس پہن لیا تاکہ لوگ اس کو سمجھ سکیں ورنہ یہ کتاب پہلے ”ام الکتاب” تھی جو کہ خداوند عالم کے پاس تھی اور کسی کا ہاتھ اس تک نہیں پہنچ سکتا تھا، یہ ایسی کتاب ہے جو حکیم ہے یعنی یہ کتاب قرآن ، آیت آیت اور سورہ سورہ نہیں ہے ۔

دوسری آیت ”فلا اقسم بمواقع النجوم ، وانہ لقسم لو تعلمون عظیم، انہ لقرآن کریم، فی کتاب مکنون ، لا یمسہ الا المطہرون، تنزیل من رب العالمین” (١٧) سورہ زخرف کے سیاق میں بھی یہ بات بیان ہوئی ہے اور اس کے ظاہر سے بھی یہ بات اچھی طرح واضح ہے ،قرآن کریم ، کتاب مکنون میں انسانوں کی آنکھوں سے پوشیدہ تھا اور ایسی کتاب میں موجود تھا جس کو پاک انسانوں کے علاوہ کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ۔ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔لیکن نازل ہونے سے پہلے کتاب مکنون میں موجود تھا یعنی غیروں سے چھپا ہوا تھا جیسا کہ سورہ زخرف کی آیت میں اس کو ام الکتاب کہا گیا ہے اور سورہ بروج میں لوح محفوظ کہا گیا ہے ۔اور فرمایا : ” بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ” (١٨) ۔ بلکہ یہ لوح اس وجہ سے محفوظ ہے کہ اس میں اختلاف نہیں ہوسکتا اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ جو قرآن آہستہ آہستہ نازل ہوگا (چونکہ یہ ایسے عالم پر نازل ہوگا جس کے اوپر زمانہ اور تدریج حاکم ہے) وہ کبھی بھی ناسخ و منسوخ اور تدریج سے خالی نہیں ہوسکتا اور یہ تدریج خود ایک طرح کی تبدیلی ہے ، لہذا کتاب مبین جو کہ اصل قرآن ہے اور تفصیل و تدریج سے خالی ہے وہ ایسا امر ہے جو اس قرآن کے علاوہ نازل ہوا ہے اور قرآن اس امر کے لئے لباس کے مانند ہے ۔

اور یہی معنی یعنی نازل شدہ اور انسانی ہونے والا قرآن ، کتاب مبین ہے (جس کو ہم حقیقت کتاب کہتے ہیں ) اور یہ صاحب لباس کے اندام کے لئے لباس کی جگہ ہے اور حقیقت کے لئے مثال، اور صاحب کلام کی غرض کے لئے مثل و نظیر کی مانند ہے جس حقیقت کو کبھی کبھی قرآن نام رکھتے ہے جیسا کہ آیت ” بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ ” (١٩) اور دوسری آیتوں میں یہ تعبیر آئی ہے اور اسی نکتہ کی وجہ سے آیت ” شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن” (٢٠) ، آیت ” انا انزلناہ فی لیلة القدر” (٢١) اور آیت ” انا انزلناہ فی لیلة مبارکة” (٢٢) کو جو کہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن ایک دفعہ نازل ہوا ہے ، حمل کرتے ہیں یعنی حقیقت قرآن کریم ، یعنی کتاب مبین ، قلب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ایک رات میں ایک مرتبہ نازل ہوا ہے اور پھر یہی قرآن کریم بعد میں بشری، مفصل اور پڑھنے والا ہوا ہے اور تدریجا تئیس سال کی مدت میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعوت کے ساتھ ساتھ نازل ہوا ہے ۔

قرآن کا تدریجی نازل ہونا مندرجہ ذیل آیات سے بھی استفادہ ہوتا ہے : ” ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ” (٢٣) ، ” لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ، ان علینا جمعہ و قرآنہ، فاذا قراناہ فاتبع قرآنہ ثم ان علینا بیانہ ” (٢٤) ۔ چونکہ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا کو معلوم تھا کہ کونسی آیتیں ان پر نازل ہوں گی اسی وجہ سے آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے اس آیت کو پڑھ دیتے تھے اور خداوند عالم نے آپ کو اس کام سے منع کیا ، اس کی وضاحت انشاء اللہ دوسری جگہ پر بیان ہوگی ۔

خلاصہ یہ کہ اگر کوئی قرآن کریم کی آیات میں غورو فکر کرے تو اس کو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کریم ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر تدریجا نازل ہوا ہے وہ کسی حقیقت پر تکیہ کئے ہوئے ہیں، جس کو انسان کی قاصر عقلیں سمجھ نہیں پاتیں، اور یہ حقیقت ،رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے اور ان کو تعلیم دی گئی ہے اور کتاب سے مراد کیا ہے اس کوہم انشاء اللہ اس آیت ” ھو الذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ” (٢٥)کی تاویل و تنزیل کی بحث میں بیان کریں گے ۔

یہ وہ بات ہے جو قرآن کریم کی آیات میں غور وفکر کرنے سے سمجھ میں آتی ہے ، جی ہاں محدثین کا کام صرف احادیث کو نقل کرنا ہے اور علمائے علم کلام، اسی طرح سے اس زمانہ کے مادی علماء چونکہ مادہ کے ماوراء اور محسوسات کے منکر ہیں اس لئے وہ مجبور ہوگئے ہیں کہ اس طرح کی آیات جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن ہدایت و رحمت، نور، روح ، ستاروں کے واقع ہونے کی جگہ اور کتاب مبین ہے ، یا لوح محفوظ میں خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ، یا صحف مطہرہ میں ہے ، یا دوسری تعبیرات جو قرآن سے متعلق بیان ہوئی ہیں ان سب کو استعارہ اور مجاز گوئی پر حمل کریں اور اس طرح انہوں نے اپنے اس عمل سے قرآن کریم کو ایک اشعار کی کتاب کے برابر قرار دیدیا ہے ۔

 

ماہ رمضان میں قرآن کے نازل ہونے کی توجیہ سے متعلق بعض اہل حدیث کے اقوال

بعض لوگوں نے اپنی تحقیق میں یہ بیان کیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن کریم ماہ رمضان میں نازل ہوا ہو؟، یہاں پر ہم ان اقوال کا خلاصہ بیان کریں گے ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت کے ساتھ ساتھ قرآن کا ایک حصہ نازل ہوا ہے اور اس حصہ میں آپ کو حکم دیا گیا کہ لوگوں کو تبلیغ اور انذار کریں، دوسری طرف اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بعثت پیغمبر اکرم اور قرآن کریم کا ایک حصہ رات میں نازل ہوا ہے جیسا کہ اس آیت ”انا انزلناہ فی لیلة مبارکة انا کنا منذرین” (٢٦) سے صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم رات میں نازل ہوا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ رات ماہ رمضان کی راتوں میں سے ایک رات تھی جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٨٥ میں بیان ہوا ہے : ”شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن” ۔

پس یہاں تک کوئی شک نہیں ہے ، صرف یہ گفتگو باقی ہے کہ ان آیات سے مرادپورا قرآن ہے یا اس کا بعض حصہ؟ اس سوال کے جواب میں ہم کہتے ہیں : گویا کہ پورا قرآن ایک رات میں نازل نہیں ہوا ہے لیکن سورہ حمد جو کہ قرآن کریم کی بہت سی تعلیمات پر مشتمل ہے ، ایک رات میں نازل ہوا ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے پورا قرآن ایک رات میں نازل ہوا ہو اور اسی اعتبار سے کہا جاسکتا ہے : (ہم نے قرآن کریم کو فلاں شب میں نازل کیا ہے) ۔

اس کا دوسرا جواب یہ دیا جاسکتا ہے : لفظ قرآن جس طرح سے دو جلدوں کے درمیان تمام آیات پر اطلاق ہوتا ہے اسی طرح سے بعض آیات پر بھی اطلاق ہوتا ہے ، جس طرح سے تمام آسمانی کتابوں منجملہ توریت، انجیل اور زبور پر بھی اطلاق ہوتا ہے اور یہ خود قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے ۔

اس کے بعد مزید کہا ہے : قرآن کریم کا پہلا حصہ ” اقراء باسم ربک الذی خلق…” (٢٧) ماہ رمضان کی پچیسویں رات میں نازل ہوا ہے اور اس وقت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیابان میں تھے اور حضرت خدیجہ کے گھر کی طرف جارہے تھے ، اسی وقت یہ آیتیں آپ پر وحی ہوئیں، اور آپ نے جبرئیل سے پوچھا: کس طرح اپنے پروردگار کو یاد کروں، جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور آپ کو تعلیم دی اور کہا کہ کہیے : بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین” سورہ حمد کے آخیر تک ، اس کے بعد نماز کی کیفیت بیان کی اور نظروں سے غایب ہوگئے، جب رسول خدا(ص) متوجہ ہوئے تو جبرئیل وہاں موجود نہیں تھے، اس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے اندر خستگی کا احساس کیا جو احساس آپ کو جبرئیل کو دیکھنے کے بعد ہوتا تھا اور یہ پہلی مرتبہ تھا جب آپ جبرئیل سے روبرو ہوئے ، لہذا جب آپ گھر پہنچے تو تھکاوٹ کی وجہ سے صبح تک سو نہیں پائے ، اگلے روز صبح کو وحی کا فرشتہ پھر نازل ہوا اور یہ سورہ آپ کے لئے تلاوت کیا: ” یا ایھا المدثر قم فانذر” (٢٨) ۔

اس کے بعد مذکورہ مفسر کہتے ہیں : پس قرآن نازل ہونے کے معنی یہی سورہ حمد کا نازل ہونا ہے جو کہ ماہ رمضان میں شب قدر کو نازل ہوا ہے ، لیکن شیعہ کتب میں جو بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ٢٧ رجب کو مبعوث ہوئے ہیں، اور یہ ایسی روایتیں ہیں جو شیعوں کی ان کتابوں میں پائی جاتی ہیں جو چوتھی صدی کے بعد لکھی گئی ہیں اور یہ کتاب خدا کے مخالف بھی ہیں جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ کتاب خدا میں قرآن کاماہ رمضان میں نازل ہونا بتایا گیا ہے ۔

اس کے بعد مزید کہتے ہیں : ابھی اور بھی روایات ہیں جو ان روایات کی تائید کرتی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ ماہ رمضان میں قرآن نازل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت سے قبل ایک دفعہ لوح محفوظ سے بیت المعمور پر نازل ہوا ہے ، اور جبرئیل نے اس کو بیت المعمور میں ملائکہ کو املاء کرایا اور پھر بعثت کے بعد تدریجا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ۔

اور یہ روایات خیالی ہیں جن کو دوسرے لوگوں نے اسلامی روایات میں داخل کردیا ہے اور چند اسباب کی بناء پر یہ مردود ہیں:

١۔ یہ روایتیں ، کتاب خدا کی مخالف ہیں ۔

٢۔ لوح محفوظ کو طبیعت کے علاوہ جانا گیا ہے جب کہ لوح محفوظ ، عالم طبیعت کو کہا جاتا ہے ۔ اور بیت المعمور، کرہ زمین کو کہتے ہیں جو زمین پر انسان کے بسنے کی وجہ سے معمور اور آباد ہوا ہے ، یہ اس مفسر کے اقوال کا خلاصہ ہے ۔

ان باتوں کا خیالی اور بے اساس ہونا

مولف : مجھے نہیں معلوم کہ اس مفسر کا کونسے جملے بالکل غلط ہیں اور کون اصلاح کے قابل ہیں تاکہ ان میں سے کسی ایک کو حق و حقیقت پر منطبق کیا جائے ، کیونکہ اس صورت میں یہ قضیہ اس مثال کی طرح ہوجائے گا جس میں کہا گیاہے کہ پیوند ، کپڑے سے زیادہ ہیں ۔

کیونکہ اولا : بعثت کے متعلق انہوں نے یہ افسانہ اپنے پاس سے بنایا ہے ، یا انہوں نے جو یہ کہا کہ قرآن کا سب سے پہلے نازل ہونے والا حصہ کون ہے ۔ جس وقت ”اقراء باسم ربک” نازل ہوا تو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) راستہ میں تھے ۔اس کے بعد سورہ حمد نازل ہوا ہے ، اس کے بعدآنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نماز کی تعلیم دی گئی ، اور آپ گھر میں داخل ہوئے تو خستگی کی وجہ سے سوگئے اور صبح کو سورہ مدثر نازل ہوا اور آپ کو تبلیغ کا حکم دیا گیا ، یہ سب ایسے مطالب ہیں جن پر نہ تو آیات محکمات دلالت کرتی ہیں اور نہ سنت قائمہ۔ بلکہ یہ خیالی قصے ہیں جو نہ کتاب سے موافق ہیں اور نہ حدیث سے اور اس کاصحیح نہ ہونا بیان کیا جائے گا ۔

ثانیا : انہوں نے کہا ہے کہ یقینا بعثت، نزول قرآن اور تبلیغ کا امر تینوں ایک ساتھ واقع ہوئے ہیں اور اس بات کی توضیح اور تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے : نبوت ، قرآن کے نازل ہونے سے آغاز ہوئی اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) صرف ایک رات نبی اور غیر رسول تھے، اسی رات کی صبح کو آپ رسالت کے عہدے پر بھی مبعوث ہوگئے ، کیونکہ سورہ مدثر نے آپ کو تبلیغ کا حکم دیا، لیکن یہ مفسیر کبھی بھی اپنے اقوال پر کتاب یا سنت سے دلیل نہیں لا سکتا اور اس سے بھی تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ کو مسلمات میں سے بیان کیا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ لیکن سنت سے اس لئے مسلم نہیں ہے کیونکہ سنت سے متعلق جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں چاہے وہ اہل سنت کی کتابیں ہوں یا شیعہ امامیہ کی کتابیں ہوں یہ سب کتابیں دوسری صدی اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بہت بعد لکھی گئی ہیں ، اگر چہ مفسر مذکور نے ان اعتراضات کو صرف کتب شیعہ میں بیان کیا ہے لیکن عامہ کی تمام کتابیں بھی اسی طرح ہیں ، اگر شیعوں کی روایتوں میں دھوکا ہوا ہے تو عامہ کی روایتوں میں بھی ایسا ہی ہے ، لیکن تاریخ کی کتابوں میں اگر چہ ان جزئیات کی تفصیل بیان نہیں ہوئی ہے لیکن ان میں دھوکے کا زیادہ احتمال ہے اور اگر زیادہ نہ ہو تو حدیث کی کتابوں کی طرح ان میں بھی کچھ نہ کچھ ترمیم کی گئی ہے ۔

کتاب خدا ، ہر اہل فن کے لئے واضح ہے اوراس کی آیات کی دلالت بعثت کے مسئلہ پر روایات سے بھی زیادہ قاصر ہے ۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کی آیات ، مفسر مذکور کے برخلاف جو کہ انہوں نے بعثت کے متعلق بیان کیا ہے ، دلالت کرتی ہیں ۔اور اس سورہ کی پانچ آیات کی گواہی کی بناء پر یہ پہلا سورہ ہے جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اور کسی ایک مفسر نے بھی نہیں کہا ہے بلکہ اس کا احتمال بھی نہیں دیا ہے کہ یہ جدا جدا نازل ہوا ہو اور یہ احتمال دیتے ہیں کہ کم سے کم ایک مرتبہ نازل ہوا ہے اور یہ اس بات پر مشتمل ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) لوگوں کے سامنے نماز پڑھتے تھے اور بعض لوگ آپ کو اس کام سے منع کرتے تھے اور قریش کی مجالس میں آپ کی برائی ہوتی تھی اور اگر سورہ علق سے پہلے آنحضرت (ص) پر قرآن نازل نہیں ہوا تھا تو آپ کس طرح نماز پڑھتے تھے اور اپنی نماز میں کیا پڑھتے تھے ؟ سورہ علق میں بھی سجدہ کے علاوہ نماز سے متعلق کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے ، پس معلوم ہوتا ہے کہ سورہ علق سے پہلے بھی کوئی نماز تھی اور کچھ لوگ تھے جو آپ کو نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے اورمنع کرنے سے باز نہیں آتے تھے ، مگر یہ کہا جائے کہ وہ نماز پڑھنے والا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے علاوہ کوئی اور تھا اور اس بات کا باطل ہونا واضح ہے ، کیونکہ اس سورہ کے آخر میں آنحضرت (ص) کوخطاب کرکے فرمایا ہے : ” کلا لا تطعہ” جو لوگ آپ کو یہ کہتے ہیں کہ نماز نہ پڑھو ان کی اطاعت نہ کرنا بلکہ اسی طرح سجدے کرتے رہو اور اس سے نزدیک ہوجائو ۔

ذیل میں اسی سورہ کی ان آیات کو ذکر کرتے ہیں جن میں اس قول کو باطل قرار دیا گیا ہے : ” ارایت الذی ینھی عبدا اذا صلی، ارایت ان کان علی الھدی، او امر بالتقوی، ارایت ان کذب و تولی، الم یعلم بان اللہ یری؟ کلا لئن لم ینتہ لنسفعا بالناصیة ، ناصیة کاذبة، خاطئة، فلیدع نادیہ، سندع الزبانیة، کلا لا تطعہ و اسجد واقترب ” (٢٩) ۔ اس سورہ کی آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس سورہ کے نازل ہونے سے پہلے بھی نماز پڑھتے تھے اورخود ہدایت کے راستہ پرتھے او رکبھی کبھی دوسروں کو بھی تقوی کی دعوت دیتے تھے اور یہی نبوت ہے لیکن رسالت نہیں ہے اور اسی وجہ سے آنحضرت (ص) کی اس حالت کو انذار نہیں کہا گیا ہے ، پس آپ بعثت سے پہلے نبی بھی تھے او ر نماز بھی پڑھتے تھے جب کہ ابھی قرآن کریم آپ پر نازل نہیں ہوا تھا اور سورہ حمد جو کہ نماز کا جزء ہے ابھی نازل نہیں ہوا تھا اور آپ کو تبلیغ کا بھی حکم نہیں دیا گیا تھا ۔

سورہ حمد بعثت کے بہت بعد نازل ہوا اور اگر یہ سورہ علق کے بعد بلا فاصلہ نازل ہوا تھا اور اس مفسر کے بقول قلب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوچکا تھا تو پھر اس طرح سے کہتا: ” قل بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد للہ رب العالمین … ” اوریا یہ کہتا : ” بسم اللہ الرحمن الرحیم قل الحمد للہ رب العالمین…”۔

اور یہ بھی ضروری تھا کہ اس سورہ میں بات ” مالک یوم الدین” پر ختم ہوجاتی کیونکہ باقی سورے میں دوسری بات بیان کی گئی ہے اس کے علاوہ قرآن کریم کی بلاغت کے اعتبار سے ”مالک یوم الدین” پر بات ختم ہونا مناسب تھا ۔

جی ہاں سورہ حجر ، سورہ مکی ہے جس کے بارے میں آئندہ بیان کریں گے ، سورہ حجر میں فرماتا ہے : ”ولقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم” (٣٠) اور ”سبع مثانی” سے مراد سورہ حمد ہے قرآن عظیم کے ساتھ بیان ہوا ہے اور یہ سورہ حمد کی تعظیم اور تجلیل کی وجہ سے ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود سورہ حمد کا قرآن نام نہیں رکھا گیا ، بلکہ قرآن کریم کی آیات میں سے سات آیات بیان کیا گیا ہے اس دلیل کی بناء پر کہ ”کتابا متشابھا مثانی” (٣١) پورے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے اور سورہ حجر کی آیت میں سورہ حمد کی سات آیتوں کو مثانی کہا گیا ہے 

اور چونکہ سورہ حجر، سورہ حمد کے نام پر مشتمل ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ حمد ، سورہ حجر سے پہلے نازل ہوا ہے ۔

اور چونکہ سورہ حجر میں یہ آیت ” فاصدع بما توْمروا عرض عن المشرکین انا کفیناک المستھزئین…” (٣٢) ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک مدت تک انذار نہیں کیا اور اس آیت میں آپ کو دوبارہ انذار کرنے کے حکم دیا گیا : ” فاصدع” ، سورہ حجر سے دو چیزیں سمجھ میں آتی ہیں ، ایک انذار کو ترک کرنا اوردوسرے سورہ حمد کا سورہ حجر سے پہلے نازل ہونا اور آپ کہاں سے ثابت کرتے ہیں کہ سورہ حمد ، ترک انذار سے پہلے نازل ہوا ہے؟

اگر سورہ مدثر اور وہ مطالب جو اس پر مشتمل ہیں جیسے ”قم فانذر” اور کہا جائے کہ یہ سب ایک مرتبہ نازل ہوئے ہیں تو پھر یہ آیت ”فاصدع بما تومر” اور ”اعرض عن المشرکین اور ” ذرنی و من خلقت وحیدا” اور ان دونوں کے مفہوم ایک دوسرے سے نزدیک ہیں ان دونوں مفہوم سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اولا کوئی بھی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی دعوت دینے میں پریشان کرنے والا نہیں تھا اور ثانیا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک مدت تک انذار کو ترک کردیا تھا ۔

اور چونکہ سورہ مدثر کی آیتیں الگ الگ نازل ہوئی ہیں پھر بھی اس کے سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے شروع کی آیتیں آغاز رسالت میں نازل ہوئیں اور باقی سورہ انذار کے بعد نازل ہوا ہے ۔

اور یہ بات جو کہی ہے : (جو روایتیں یہ کہتی ہیں کہ قرآن بعثت سے پہلے اور ایک دفعہ شب قدر میں لوح محفوظ سے بیت المعمورپر نازل ہوا ہے اور بعثت کے بعد تدریجا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے یہ سب روایتیں جعلی اور خرافی ہیں کیونکہ کتاب کے مخالف ہیں، اوران کا مضمون صحیح نہیں ہے بلکہ لوح محفوظ سے مراد عالم طبیعت اور بیت المعمور سے مراد زمین ہے ) یہ بات بالکل غلط اور افتراء ہے ، کیونکہ اولا : قرآن کریم کی کوئی بھی آیت ظاہرا ان روایات کے مخالف نہیں ہے، جس کا بیان پہلے گذر چکا ہے ۔

اور مذکورہ روایات میں نہیں فرمایا: قرآن کریم ، بعثت سے قبل ایک دفعہ بیت المعمور پر نازل ہوا ہے اور ایک دفعہ کا لفظ مفسر مذکور نے روایات میں غورو فکر کئے بغیر خود سے بڑھا دیا ہے ۔

ثالثا : لوح محفوظ کی تفسیرسے عالم طبیعت کومراد لینا ایک بہت ہی بیکار اور غلط تفسیر ہے او ر ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے بقول کس مناسبت کی وجہ سے کلام خدا میںعالم طبیعت کو لوح محفوظ کہا گیا ہے؟کیا اس وجہ سے ہے کہ عالم طبیعت ، تغیر و تبدل سے محفوظ ہے؟ جبکہ عالم طبعیت تمام تغیر و تبدل کی جگہ ہے کیونکہ یہ عالم حرکات ہے اور موجودات کی ذات، سیال اور ان کی صفتیں ہر وقت بدلتی رہتی ہیں ۔

یا اس وجہ سے لوح محفوظ کہا گیا ہے کہ یہ تکوینا اور تشریعا ، فساد اور تباہی سے محفوظ ہے؟ جب کہ یہ بھی خلاف واقع ہے ، کیونکہ عالم طبیعت ، عالم کون و فساد ہے ۔ یا اس وجہ سے کہا گیا ہو کہ غیروں کی اطلاع سے محفوظ ہے یعنی اہل اطلاع کے علاوہ کوئی اس کے اسرار سے واقف نہیں ہے جیسا کہ یہ آیت شریفہ ” انہ لقرآنکریم فی کتاب مکنون لا یمسہ الا المطھرون” (٣٣) خبر دے رہی ہے؟ جب کہ یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ ہر درک کرنے والے انسان کا عالم طبیعت کو درک کرنا برابر ہے ۔

اور ان سب اعتراضات کے بعد سب سے اہم اعتراض جو اس پر وارد ہے وہ یہ ہے کہ اس مفسر نے ماہ رمضان میں قرآن کریم کے نازل ہونے کی صحیح علت بیان نہیں کی ہے جو کہ خود صحیح ہے اور قرآن کریم کی آیات کے الفاظ بھی اس کو قبول کرتے ہیں ، کیونکہ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ”انزل فیہ القرآن” کے معنی یہ ہیں کہ ”کانما انزل فیہ القرآن” یعنی گویا کہ قرآن کریم ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے اور اس آیت ” انا انزلناہ فی لیلة ” کے معنی یہ ہوے ”کانا انزلناہ فی لیلة” یعنی گویا کہ ہم نے قرآن کریم کو ایک رات میں نازل کیا ہے جب کہ نہ اہل لغت اس عبارت سے یہ معنی مراد لیتے ہیں اور نہ اہل عرف اور نہ ہی کلام کے سیاق و سباق سے آشنا لوگ یہ معنی مراد لیتے ہیں ۔

اور اگر یہ کہنا جائز ہو کہ شب قدر میں سورہ حمد کے نازل ہونے کی وجہ سے قرآن شب قدر میں نازل ہوا ہے کیونکہ قرآن کے اصل مطالب اس سورہ میں موجود ہیں تو پھر دوسرے اشخاص کا یہ کہنا بھی جائز ہوگاکہ پورا کا پورا قرآن اجمالی طور پر قلب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم کی اجمالی تعلیمات قلب پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں اور کسی کے یہ کہنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے ، اس مفسر کے اقوال میں اور بھی بہت سے اعتراض ہیں لیکن وہ ہماری غرض و غایت سے خارج ہیں اس لئے ہم ان کو یہاں بیان نہیں کریں گے ۔

”ھدی للناس و بینات من الھدی والفرقان”

کلمہ ”ناس” کے استعمال کی جگہ

کلمہ ”ناس”، معاشرہ کے اس چھوٹے طبقہ کو کہتے ہیں جن کی فکر یںبہت کم اور نیچی سطح کی ہوتی ہیں یہ لفظ اکثر و بیشتر اسی طبقہ پر اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ یہ آیتیں ”ولکن اکثر الناس لا یعلمون” (٤٣) اور ” تلک الامثال نضربھا للناس و ما یعقلھا الا العالمون” (٣٥) اسی بات پر اطلاق کرتی ہیں ۔

اور یہ اکثریت انہی لوگوں کی ہے جن کی زندگی کی بنیاد تقلید پر ہے اور یہ معنوی امور میں دلیل و برہان کے ذریعہ تشخیص و تمیز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، یہ لوگ دلیل کے ذریعہ بھی حق و باطل کے درمیان فرق نہیںکرسکتے ،مگر یہ کہ کوئی ان کی ہدایت کرے اور حق کا راستہ ان کو دکھلا دے اور قرآ ن کریم ان کے لئے ہدایت گر ہے جو اس طبقہ کے لئے حق کو باطل سے جدا کرتا ہے اور یہ بہترین ہدایت ہے ۔

لیکن وہ خاص افراد جو علم و عمل کے ذریعہ سے کامل ہوگئے ہیں اور ہدایت الہیہ کے انوار سے استعداد حاصل کرنے کے ذریعہ اور قرآن کریم پر اعتماد کرتے ہوئے حق و باطل کے درمیان فرق کو سمجھ لیتے ہیں ، قرآن کریم ان کی ہدایت پر گواہ ہے کیونکہ اس طبقہ کو حق کی طرف ہدایت کی ہے اور حق کو ان کے لئے مشخص کیا ہے اور معین کرتا ہے کہ کس طرح حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کیا جاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے : ” یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام، و یخرجھم من الظلمات الی النور باذنہ و یھدیھم الی صراط مستقیم” (٣٦) ۔ یہی سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ”ھدی” او ر”بینات من الھدی” کے درمیان کیوں فرق رکھا گیا ہے ؟ کیونکہ ان دونوں کے درمیان عام و خاص کا فرق ہے ، قرآن بعض لوگوں کے لئے ہدایت اور بعض کے لئے ہدایت کی دلیل ہے ۔

حوالہ جات:

١۔ بیشک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو ۔(سورہ زخرف، آیت ) ۔

٢۔ اور ہم نے قرآن کو متفرق بناکر نازل کیا ہے تاکہ تم تھوڑا تھوڑا لوگوں کے سامنے پڑھو اور ہم نے خود اسے تدریجا نازل کیا ہے ۔(سورہ اسرائ، آیت ١٠٦) ۔

٣۔ بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کررہی تھی اور اللہ سے فریاد کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا کہ وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔(سورہ مجادلہ، آیت ١) ۔

٤۔ اور اے پیغمبر یہ لوگ جب تجارت یا لہو و لعب کو دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو تنہا کھڑا چھوڑ دیتے ہیں ۔(سورہ جمعہ، آیت ١١) ۔

٥۔ مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے ۔(سورہ احزاب، آیت ٢٣) ۔

٦۔ ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے ہم بیشک عذاب سے ڈرانے والے تھے ۔( دخان، آیت ٣) ۔

٧۔ بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے ۔(سورہ قدر، آیت ١) ۔

٨۔ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں ۔(سورہ بقرة، آیت ١٨٥) ۔

٩۔ ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے ہم بیشک عذاب سے ڈرانے والے تھے ۔(سورہ دخان، آیت ٣) ۔

١٠۔ بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے ۔(سورہ قدر، آیت ١)

١١۔ زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا ۔

١٢۔ یہ ایک مبارک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور صاحبانِ عقل نصیحت حاصل کریں ۔

١٣۔ الر – یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ہیں اور ایک صاحبِ علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ۔

١٤۔ ہم ان کے پاس ایسی کتاب لے آئے ہیں جسے علم و اطلاع کے ساتھ مفصل بیان کیا ہے اور وہ صاحبانِ ایمان کے لئے ہدایت اور رحمت ہے (53) کیا یہ لوگ صرف انجام کار کا انتظار کررہے ہیں تو جس دن انجام سامنے آجائے گا تو جو لوگ پہلے سے اسے بھولے ہوئے تھے وہ کہنے لگیں گے کہ بیشک ہمارے پروردگار کے رسول صحیح ہی پیغام لائے تھے تو کیا ہمارے لئے بھی شفیع ہیں جو ہماری سفارش کریں یا ہمیں واپس کردیا جائے تو ہم جو اعمال کرتے تھے اس کے علاوہ دوسرے قسم کے اعمال کریں -درحقیقت ان لوگوں نے اپنے کو خسارہ میں ڈال دیا ہے اور ان کی ساری افترا پردازیاں غائب ہوگئی ہیں ۔

١٥۔ اور یہ قرآن کسی غیر خدا کی طرف سے افترا نہیں ہے بلکہ اپنے ماسبق کی کتابوں کی تصدیق اور تفصیل ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے ۔ درحقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے اور اس کی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے اسی طرح ان کے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی تھی اب دیکھو کہ ظلم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے ۔

١٦۔ حم ۔ اس روشن کتاب کی قسم ۔ بیشک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو ۔ اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلند اور اَپراز حکمت کتاب ہے ۔

١٧۔ اور میں تو تاروں کے منازل کی قسم کھاکر کہتا ہوں ۔ اور تم جانتے ہو کہ یہ قسم بہت بڑی قسم ہے ۔ یہ بڑا محترم قرآن ہے ۔ جسے ایک پوشیدہ کتاب میں رکھا گیاہے ۔ اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے ۔ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔

١٨۔ یقینا یہ بزرگ و برتر قرآن ہے ۔جو لوح محفوظ میں محفوظ کیا گیا ہے ۔

١٩۔ یقینا یہ بزرگ و برتر قرآن ہے ۔جو لوح محفوظ میں محفوظ کیا گیا ہے ۔

٢٠۔ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں ۔

٢١۔ بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے ۔

٢٢۔ ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے ہم بیشک عذاب سے ڈرانے والے تھے ۔(سورہ دخان، آیت ٣) ۔

٢٣۔ پس بلند و برتر ہے وہ خدا جو بادشاہ برحق ہے اور آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور یہ کہتے رہیں کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما ۔

٢٤۔ دیکھئے آپ قرآن کی تلاوت میں عجلت کے ساتھ زبان کو حرکت نہ دیں ۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑھوائیں ۔ پھر جب ہم پڑھوادیں تو آپ اس کی تلاوت کو دہرائیں ۔ پھر اس کے بعد اس کی وضاحت کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے ۔ (سورہ قیامت ، آیت ١٦۔ ١٩) 

٢٥۔ اس نے آپ پروہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیں لَحکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں – اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ ا ن ہی متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا حکم صرف خدا کو ہے اور انہیں جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں – جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے اور یہ بات سوائے صاحبانِ عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔ (سورہ آل عمران، آیت ٧) ۔

٢٦۔ ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے ہم بیشک عذاب سے ڈرانے والے تھے ۔(سورہ دخان، آیت ٣) ۔

٢٧۔ سورہ علق ، آیت ١۔

٢٨۔ اے میرے کپڑا اوڑھنے والے ۔اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ ۔ (سورہ مدثر، آیت ١۔٢) ۔

٢٩۔ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو منع کرتا ہے ۔ بندئہ خدا کو جب وہ نماز پڑھتا ہے ۔ کیا تم نے دیکھا کہ اگر وہ بندہ ہدایت پر ہو ۔ یا تقویٰ کا حکم دے تو روکنا کیسا ہے ۔ کیا تم نے دیکھا کہ اگر اس کافر نے جھٹلایا اور منھ پھیر لیا ۔ تو کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ یاد رکھو اگر وہ روکنے سے باز نہ آیا تو ہم پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ۔ جھوٹے اور خطا کار کی پیشانی کے بال ۔ پھر وہ اپنے ہم نشینوں کو بلائے ۔ ہم بھی اپنے جلاد فرشتوں کوبلاتے ہیں ۔ دیکھو تم ہرگز اس کی اطاعت نہ کرنا اور سجدہ کرکے قرب خدا حاصل کرو ۔ (سورہ علق، آیت ٩۔ ١٩) ۔

٣٠۔ اور ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے ۔سورہ حجر، آیت ٨٧۔

٣١۔ سورہ زمر، آیت ٢٣۔

٣٢۔ پس آپ اس بات کا واضح اعلان کردیں جس کا حکم دیا گیا ہے اور مشرکین سے کنارہ کش ہوجائیں ۔ ہم ان استہزاء کرنے والوں کے لئے کافی ہیں(سورہ حجر، آیت ٩٤۔ ٩٥) ۔

٣٣۔ اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے ۔ (سورہ واقعہ، آیت ٧٩) ۔

٣٤۔ سورہ روم، آیت ٣٠۔

٣٥۔ اور یہ مثالیں ہم تمام عالم ہانسانیت کے لئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحبانِ علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔ (سورہ عنکبوت، آیت ٤٣) ۔

٣٦۔ قرآن کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے(سورہ مائدہ، آیت ١٦) ۔

 

 

تبصرے
Loading...