لذتِ معصیت سے دسبردار ہونا:

 

ایک خطا کار انسان پر یہ بھي لازم ہے کہ بارگاہ پروردگار میں اعتراف اور دعائے استغفار کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو گناہ و معصیت سے دور بھي کرے ورنہ اس کا یہ عمل استغفار اس کو کوئي فایدہ پہنچانے والا نہیں ہے اوریہ توبہ ایک قسم کا نفس کے ساتھ دھوکا ہوگا جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں: ’’اگر گناہ گار توبہ کرے اور گناہ سے دستبردار ہو جاے تو خدا سلب شدہ نعمتوں کو پلٹا دینے والا ہے۔‘‘(خطبہ١٤٣۔٢١)

 ہمیشہ کے لیے نافرماني کا سدباب کرے:

ایک گناہ گار کا وظیفہ یہ بھي ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نافرماني اور گناہ کا سدباب کرے اور دوبارہ برگشت کے ارادہ اور امکان کو ختم کر دے ۔یہ اسي صورت میں ممکن ہے جب توبہ کے بعد نفس کي تربیت کا برابر خیال رکھا جاے۔ بقول ائمہ طاہرینٴ انسان کو اپنے نفس کا ہر روز محاسبہ کرنا چاہیے۔لہٰذا بہتر ندامت یہ ہے کہ نافرماني کا تکرار نہ ہو جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’نافرماني کا ہمیشہ کے لیے سدباب کرے۔‘‘(خطبہ١٤٣۔٢)

کمال اخلاص کے ساتھ خدا سے دعا کرے:

گناہ گار کي ذمہ داریوں میں ایک یہ بھي ہے کہ اگر گناہ سرزد ہو جائے تو خلوص نیت اور صدق قلبي سے بارگاہ پروردگار میں باکمال تضرع و گریہ، طلب مغفرت کرے۔ جیسا کہ حضرت ٴفرماتے ہیں:’’اگر بلا نازل ہونے لگے اور نعمتیں سلب ہونے لگیں توپاک نیت اور خلوص کے ساتھ بارگاہ خدا میں گریہ و زاري کے ساتھ دعا کرے‘‘۔(خطبہ ١٧٨۔٧)

خدا کي محبت پر تکیہ کرے:

یقینا یہ نکتہ ہمیشہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہیے کہ خدا وند عالم دنیا کي ہر شے سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے اور اس کي محبت کا فیض ہمیشہ بندو ں پر جاري ہے ۔اب اگر کسي سبب نافرماني د امن گیر ہو جائے تو اس کي محبت پر تکیہ کرتے ہوے فوراً بارگاہ خدامیں طلب مغفرت کرے اسي کو کمال بندگي کہتے ہیں۔ اس حقیقت کو اميرالمومنین ٴ اس طرح فرماتے ہیں:’’(اگر گناہ و معصیت کے سبب)بلائيں نازل ہونے لگیں اور نعمتیں سلب ہو نے لگيں تو فوراً بارگاہ خدا میں ’’صدق نیت‘‘ اور خدا کي محبت پر تکیہ کرتے ہوئے بارگاہ کردگار سے طلب مغفرت کرے ۔جو کچھ بھي گناہوں کے سبب چھن چکا ہے تم کو حاصل ہو جاے گا۔‘‘(خطبہ١٧٨۔٨)

توبہ کرنے والے کا وظیفہ:

کمال انساني کے لیے گناہ کے بعد صرف توبہ کر لینا کافي نہیں ہے بلکہ چند نکات کي نگراني بہر کیف اس پر لازم ہے جن میں سے بعض کا تعلق توبہ کي بھرپائي سے ہے تو بعض کا تعلق تہذیب نفس سے ہے تاکہ نفس دوبارہ کسي قسم کے گناہوں کے دلدل میں نہ اتر جاے۔

١۔ امور کي اصلاح:توبہ کے بعد انسان کي سب سے پہلي ذمہ داري اپنے امور کي اصلاح کرناہے کہ جس کے بعد توبہ انسان کے لیے سرمایہ نجات اور دوسروں کے لیے مشعل حیات بن کر سامنے آتي ہے۔ اس حقیقت کو امیرالمومنینٴ کے کلام میں مختلف تعبیروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آپٴ فرماتے ہیں:’’اپنے مسایل کي اصلاح کرو کیونکہ توبہ تمہارے ہمراہ ہے‘‘ ۔(خطبہ ١٦۔١٠)

یا اس طرح فرماتے ہیں :’’خدا اس شخص پر رحمت نازل کرتا ہے جو توبہ کا استقبال کرے،خطا کي معافي چاہے اوراپنے امور کي اصلاح کرے‘‘۔(خطبہ ١٤٣۔٥)

٢۔ بچي ہوي زندگي کا صحیح مصرف: توبہ کے بعد ضروري ہے کہ باقي ماندہ حیات کو غنیمت جانے اور ان ایام کا صحيح اور بروقت استعمال کرے ۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے نظر آتے ہیں:’’باقي ماندہ ایام زندگي کاصحيح مصرف کرو… کیونکہ باقي ماندہ زندگي غفلت اور خدا سے دوري والے ایام سے کم ہے‘‘۔( خطبہ ٨٦۔٩ )

٣۔ معصیت کے مقابلہ صبر :گناہ کرنے کے بعد نفس کو گناہ و معصیت کا ذایقہ مل جاتا ہے اور زندگي میں بارہا انسان کو مختلف وسیلے سے اس کو اپني طرف کھینچتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں انسان بعض اوقات دوبارہ لغزشوں کا شکار ہو جاتا ہے لہذاانسان کو چاہئے کہ اس گناہ و معصيت کے مقابلہ صبر سے کام لے اور نفس پرکنٹرول بنائے رکھے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’گناہ ومعصيت کے برابر صبرسے کا م لو ۔‘‘(خطبہ ٨٦۔٩)

٤۔ اپنے آپ کو زیادہ آزادي نہ دے:توبہ کرنے والے کي ایک ذمہ داري یہ بھي ہے کہ وہ خود کو حد سے زیادہ آزادي نہ دے۔ یہاں پر خود سے مراد نفس انساني ہے کیونکہ اگر نفس کو آزاد چھوڑ دیا جاے تو وہ انسان کو پست ترین مقام تک کھینچ لے جاتا ہے جہاں سے واپسي دوبارہ مشکل نظر آتي ہے۔ البتہ یہ و ظیفہ صرف توبہ کرنے والے کا نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے لئے ضروري ہے کہ زندگي کے کسي بھي حصہ میں نفس کو مطلق العنان نہ ہونے دے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں : ’’خود کو حد سے زیادہ آزادي نہ دو ورنہ یہ آزادي تم کو ظلم و تجاوز کي جانب لے جائے گي۔‘‘ (خطبہ ٨٦۔٩)

٥۔ نفس کے ساتھ سستي نہ کرو:نفس کي لگام کو ہمیشہ تھامے رکھنا چاہئے کیونکہ تھوڑي سي غفلت بھي انسان کو بد تر نتیجہ تک پہنچا سکتي ہے۔ علمائ اخلاق نفس کي شباہت وحشي جانور سے دیتے ہیں۔ وحشي جانور کي چاہے کتني بھي تربیت کي جائے پر وہ انسانوں کے درمیان خوشگواري محسوس نہیں کرتے لہٰذا چند منٹ کي بھي غفلت ہو جاے تو نفس اپنا کام کر جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’نفس کے ساتھ سستي سے کام نہ لو ورنہ ناگہاں گناہوں کے مرتکب ہو سکتے ہو‘‘۔(خطبہ٨٦۔٩)

٦۔ نفس کو وعظ و نصیحت کرتا رہے: توبہ کے بعد نفس کو گناہ سے دور رکھنے کے لئے ضروري ہے کہ وعظ و نصیحت کے آب سے غفلت و کوتاہي کي گرد صاف کرتا رہے ورنہ کبھي کبھي چھوٹي سي غفلت ایک بڑے جرم کا مقدمہ بن کر صفحہ وجود پر نمایاں ہوسکتي ہے۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’اور وہ نصیحت ووعظ کو قبول کرتے ہیں‘‘۔(خطبہ ١٤٣۔٢)

 توابین کے اوصاف

١۔ ہدایت کي نشانیاں ہیں:

توابین کو حضرت ٴہدایت کا منارہ و نشاني بیان کرتے ہیں ۔شاید اس کا راز یہ ہے کہ جب دوسرے گناہگار ان کي زندگي کو دیکھتے ہیں تو ان پر رشک کرتے ہو ئے خود میں عفو و بخشش کي امید پیدا کر لیتے ہیں اور ان کي تاسي میں راہ توبہ پر گامزن ہو جاتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’وہ ہدایت کي نشانیاں ہیں‘‘ ۔(خطبہ ٢٢٢۔١٢)

٢۔ اندھیروں کے چراغ ہیں:

توابین کو کبھي اندھیرے اور تاریکي کا چراغ بتایا ہے۔ شاید اس کي وجہ یہ ہو کہ جیسے جیسے انسان گناہ کا مرتکب ہوتا جاتا ہے نا امیدي اس پر اندھیرااور تاریکي بن کر چھاتي چلي جاتي ہے اور انسان راہ اور منزل دونوں کو ہي گم کر بیٹھتا ہے پس یہ گناہوں کي سیاہي اس کے مقدر کي تاریکي بن کر سامنے آتي ہے لہٰذا ایسے میں توابین کي زندگي اور ان کا شیو ہ عمل ایک عام اور گناہ گار انسان کے لیے چراغ کا درجہ رکھتا ہے جو انتخاب راہ و منزل میں معاون بنتا ہے جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’توابین تاریکي اور اندھیرے کا چراغ ہيں۔‘‘( خطبہ ٢٢٢۔١٣)

٣۔ فرشتوں کے حلقے میں رہتے ہیں:

توبہ کرکے واپسي کرنے والے کا درجہ نگاہ رب العزت میں بہت بلند ہے لہٰذا توابین پر خدا کا ایک احسان یہ بھي ہے کہ فرشتوں کي ایک جماعت ہمیشہ ان کو اپنے حلقے ميں رکھتي ہے۔ جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’فرشتے ان پر نازل ہوتے ہیں‘‘۔(خطبہ٢٢٢۔١٣)

٤۔ توابین پر خدا کي جانب سے سکون و اطمنان کي بارش ہوتي ہے:

جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں: ’ان پر سکون و اطمینان خیمہ زن رہتا ہے‘‘۔(خطبہ٢٢٢۔١٣)

٥۔ توبہ کرنے والے پر رحمت کا دروازہ کھلا ہوتا ہے:

توابین پر خدا کا ايک یہ بھي لطف رہا ہے کہ ان پر رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’اور ان پر آسمان کے دروازے کھلتے ہیں۔‘‘ (خطبہ ٢٢٢۔١٣)

٦۔ تو ابین کا خدا کے نزدیک بلند مقام ہے:

نگاہِ پروردگار میں توابین کا ایک خاص مقام ہے کہ جہاں پر وہ رحمت خدا وندي سے بہرہ مند ہوں گے:’’ان کے لیے ایک بلند مقام ہے جہاں وہ رحمت پروردگار کا مشاہدہ کریں گے۔‘ ‘(خطبہ ٢٢٢۔١٤)

٧۔ توابین کي کوشش مشکور ہے:

توبہ کرنے والا گویا توبہ کے ذریعہ قرب الٰہي حاصل کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس راہ پرپیش آنے والے مشکلات کا سامنا کرتے ہو ئے خدا تک پہنچتاہے یا گناہ کے ذریعہ خدا اور اس کے درمیان ہو جانے والے فاصلے کو کم کرنے کي کوشش کرتا ہے تو اپنے بندوں پر شفیق پروردگار بندے کي سعي کو ضایع نہیں کرتا بلکہ مقبولیت کا درجہ دیتا ہے۔’’خدا ان کي کوششوں کو قبول کرتا ہے۔‘‘(خطبہ ٢٢٢۔١٤)

٨۔ توابین کے حق میں فرشتے دعا کرتے ہيں:

توبہ کرنے والا کرامت کي اس بلندي پر پہنچ جاتا ہے کہ معصوم فرشتے بھي اس کے حق میں دعا کرتے ہیں اور بارگاہ خدا وندي میں اس کي مغفرت طلب کرتے ہیں۔‘‘(خطبہ٢٢٢۔١٤)

٩۔ اپني ضرورتيں خدا سے چاہتے ہيں:

توابین کي ایک یہ بھي برجستہ صفت ہے کہ نہ تو وہ کسي سے دل کا راز کہتے ہیں اور نہ ہي اپني جبین ِنیاز کو کسي کے در پر خم کرتے ہیں۔ اپنے راز و نیاز خدا سے کرتے ہیں اور اپني ضرورتیں بھي خدا سے چاہتے ہیں اور’’الفقر فخري‘‘ کا روشن مصداق بن جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو حضرت عليٴ اس طرح ترسیم کرتے ہیں:’’اپني امید کو خدا کے دروازئہ امید سے منسلک کرتے ہیں اور اس کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیں جو مانگنے والوں کو نا امید نہیں کرتا۔‘‘ (خطبہ ٢٢٢۔١٥)

 

تبصرے
Loading...