كشتى نوح عليہ السلام

 

”ہم نے نوح عليہ السلام كو حكم ديا كہ وہ ہمارے حضور ميں اور ہمارے فرمان كے مطابق كشتى بنائيں”_(1)

لفظ (وحينا) سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ حضرت نوح كشتى بنانے كى كيفيت اور اس كى شكل وصورت كى تشكيل بھى حكم خدا سے سيكھ رہے تھے اور ايساہى ہونا چاہئے تھا كيونكہ حضرت نوح آنے والے طوفان اور اس كى كيفيت ووسعت سے آگا ہ نہ تھے كہ وہ كشتى اس مناسبت سے بنا تے اور يہ وحى الہى ہى تھى جو بہترين كيفيتوں كے انتخاب ميں ان كى مدد گار تھى _

آخر ميں حضرت نوح عليہ السلام كو خبردار كيا گيا ہے :” آج كے بعد ظالم افراد كے لئے شفاعت اور معافى كا تقاضانہ كرنا كيونكہ انہيں عذاب دينے كا فيصلہ ہوچكا ہے اور وہ حتماََ غرق ہوجائيں گے”_ (2)

 

كشتى بنارہے ہو دريابھى بنائو

اب چندجملے قوم نوح عليہ السلام كے بارے ميں بھى سن ليں :وہ بجائے اس كے كہ ايك لمحہ كے لئے حضرت نوح(ع) كى دعوت كو غور سے سنتے ، اسے سنجيدگى سے ليتے اور كم ازكم انہيں يہ احتمال ہى ہوتا كہ ہو سكتا ہے كہ حضرت نوح كے بار باركے اصرار اور تكرار دعوت كا سر چشمہ وحى الہى ہى ہو اور ہو سكتا ہے طوفان اور عذاب كا معاملہ حتمى اور يقينى ہى ہو، الٹا انہوں نے تمام مستكبر اور مغرور افراد كى عادت كا مظاہرہ كيا اور تمسخرواستہزاء كا سلسلہ جارى ركھا _ ان كى قوم كا كوئي گروہ جب كبھى ان كے نزديك سے گزرتا اور حضر ت نوح اور ان كے اصحاب كو لكڑياں اور ميخيں وغيرہ مہيا كرتے ديكھتا اور كشتى بنانے ميں سرگرم عمل پاتا تو مذاق اڑاتا اور پھبتياں كستے ہوئے گزر جاتا ”_(3)

 

كہتے ہيں كہ قوم نوح عليہ السلام كے اشراف كے مختلف گروہوں كے ہردستے نے تمسخر اور تفريح وطبع كے لئے اپناہى ايك انداز اختيار كرركھا تھا _

ايك كہتاتھا:”اے نوح(ع) دعوائے پيغمبرى كا كاروبار نہيں چل سكا تو بڑھئي بن گئے، دوسرا كہتا تھا :كشتى بنا رہے ہو؟ بڑا اچھا ہے البتہ كشتى كے لئے دريا بھى بنائو، كبھى كوئي عقلمندديكھا ہے جو خشكى كے بيچ ميں كشتى بنائے؟

ان ميں سے كچھ كہتے تھے : اتنى بڑى كشتى كس لئے بنارہے ہو اگر كشتى بنانا ہى ہے تو ذرا چھوٹى بنالو جسے ضرورت پڑے تو دريا كى طرف لے جانا تو ممكن ہو _

ايسى باتيں كرتے تھے اور قہقہے لگا كرہنستے ہوئے گزر جاتے تھے يہ باتيں گھروں ميں ہوتيں _كام كاج كے مراكز ميں يہ گفتگو ہوتيں گويا اب بحثوں كا عنوان بن گئي وہ ايك دوسرے سے حضرت نوح اور ان كے پيروكاروں كى كوتاہ فكرى كے بارے ميں باتيں كرتے اور كہتے : اس بوڑھے كو ديكھو آخر عمر ميں كس حالت كو جاپہنچا ہے اب ہم سمجھے كہ اگر ہم اس كى باتوں پر ايمان نہيں لائے تو ہم نے ٹھيك ہى كيا اس كى عقل تو بالكل ٹھكانے نہيں ہے _

دوسرى طرف حضرت نوح عليہ السلام بڑى ا ستقامت اور پامردى سے اپناكام بے پناہ عزم كے ساتھ جارى ركھے ہوئے تھے اور يہ ان كے ايمان كانتيجہ تھا وہ ان كو رباطن دل كے اندھوں كى بے بنياد باتوں سے بے نيازاپنى پسند كے مطابق تيزى سے پيشرفت كررہے تھے اور دن بدن كشتى كا ڈھانچہ مكمل ہو رہا تھا كبھى كبھى سراٹھا كران سے يہ پرمعنى بات كہتے: ”اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو توہم بھى جلدى ہى اسى طرح تمہارا مذاق اڑائيں گے”_(4)

وہ دن كہ جب تم طوفان كے درميان سرگرداں ہوكر ،سراسيمہ ہوكر ادھر ادھر بھاگو گے اور تمہيں كوئي پناہ گاہ نہيں ملے گى موجوں ميں گھرے فرياد كرو گے كہ ہميں بچالو جى ہاں اس روز مومنين تمہارى غفلت اور جہالت پر مذاق اڑائيں گے”اس روز ديكھنا كہ كس كے لئے ذليل اور رسوا كرنے والا عذاب آتا ہے اور كسے دائمى سزا دامن گير ہوتى ہے ”_(5)

اس ميں شك نہيں كہ كشتى نوح كوئي عام كشتى نہ تھى كيونكہ اس ميں سچے مو منين كے علاوہ ہر نسل كے جانور كو بھى جگہ ملى تھى اور ايك مدت كے لئے ان انسانوں اور جانوروں كو جو خوراك دركار تھى وہ بھى اس ميں موجود تھى ايسى لمبى چوڑى كشتى يقينا اس زمانے ميں بے نظير تھى يہ ايسى كشتى تھى جو ايسے دريا كى كوہ پيكر موجود ميں صحيح وسالم رہ سكے اور نابود نہ ہو جس كى وسعت اس دنيا جتنى ہو، اسى لئے مفسرين كى بعض روايات ميں ہے كہ اس كشتى كا طول ايك ہزار دو سو ذراع تھااور عرض چھ سو ذراع تھا (ايك ذراع كى لمبائي تقريباََآدھے ميڑكے برابر ہے ) _

بعض اسلامى روايات ميں ہے كہ ظہور طوفان سے چاليس سال پہلے قوم نوح(ع) كى عورتوں ميں ايك ايسى بيمارى پيدا ہو گئي تھى كہ ان كے يہاں كوئي بچہ پيدا نہيں ہوتا تھا يہ دراصل ان كے لئے سزا كى تمہيد تھى _

آغاز طوفان

گزشتہ صفحات ميں ہم نے ديكھا ہے كہ كس طرح حضرت نوح عليہ السلام اور سچے مومنين نے كشتى نجات بنانا شروع كى اور انہيں كيسى كيسى مشكلات آئيں اور بے ايمان مغرور اكثريت نے كس طرح ان كا تمسخراڑايا اس طرح تمسخر اڑانے والوں نے كس طرح اپنے آپ كو اس طوفان كے لئے تياركيا جو سطح زمين كو بے ايمان مستكبرين كے منحوس وجود سے پاك كرنے والا تھا 

يہاں پر اس سرگزشت كے تيسرے مرحلے كے بارے ميں قرآن گويا اس ظالم قوم پر نزول عذاب كى بولتى ہوئي تصوير كو لوگوں كے سامنے پيش كررہا ہے _

پہلے ارشاد ہوتا ہے :”يہ صورت حال يونہى تھى يہاں تك كہ ہماراحكم صا در ہوا اور عذاب كے آثار

 

ظاہر ہونا شروع ہوگئے پانى تنور كے اندر سے جو ش ما رنے لگا”_(6)

اس بار ے ميں كہ طوفان كے نزديك ہونے سے تنور سے پانى كا جوش مارنا كيامناسبت ركھتا ہے مفسرين كے درميان بہت اختلاف ہے_(7

موجودہ احتمالات ميں سے يہ احتمال زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے كہ يہاں ” تنور” اپنے حقيقى اور مشہور معنى ميں آيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد كوئي خاص تنور بھى نہ ہو بلكہ ممكن ہے كہ اس سے يہ نكتہ بيان كرنا مقصود ہوكہ تنور جو عام طوپر آگ كا مركزہے جب اس ميں سے پانى جوش مارنے لگا تو حضرت نوح اور ان كے اصحاب متوجہ ہوئے كہ حالات تيزى سے بدل رہے ہيں اور انقلاب قريب تر ہے يعنى كہاں آگ اور كہاں پانى بالفاظ ديگر جب انہوں نے يہ ديكھا كہ زيرزمين پانى كى سطح اس قدراوپر آگئي ہے كہ وہ تنور كے اندر سے جو عام طور پر خشك ،محفوظ اور اونچى جگہ بنايا جاتا ہے ، جوش ماررہا ہے تو وہ سمجھ گئے كہ كوئي اہم امر درپيش ہے اور قدرت كى طرف سے كسى نئے حادثے كاظہور ہے _ اور يہى امر حضرت نوح اور ان كے اصحاب كے لئے خطرے كا الارم تھا كہ وہ اٹھ كر كھڑے ہوں اور تيار رہيں _

شايد غافل اور جاہل قوم نے بھى اپنے گھر وں كے تنور ميں پانى كو جوش مارتے ديكھا ہو بہرحال وہ ہميشہ كى طرح خطرے كے ان پر معنى خدائي نشانات سے آنكھ كان بند كيے گزرگئے يہاں تك كہ انہوں نے اپنے آپ كو ايك لمحہ كے لئے بھى غور وفكر كى زحمت نہ دى كہ شايد شرف تكوين ميں كوئي حادثہ پوشيدہ ہواور شايد حضرت نوح(ع) جن واقعات كى خبر ديتے تھے ان ميں سچائي ہو _

 

اس وقت نوح(ع) كو ”ہم نے حكم ديا كہ جانوروں كى ہرنوع ميں سے ايك جفت (نراور مادہ كا جوڑا) كشتى ميں سوار كرلو ” _تاكہ غرقاب ہو كر ان كى نسل منقطع نہ ہوجائے _

اور اسى طرح اپنے خاندان ميں سے جن كى ہلاكت كا پہلے سے وعدہ كيا جاچكا ہے ان كے سواباقى افرادكو سوار كرلو نيز مومنين كو كشتى ميں سوار كرلو ”_(8)

(1) سورہ ہو دآيت37

(2) سورہ ہو دآيت37

(3)سورہ ہو دآيت38

 

(4)سورہ ہود ايت38

(5) سورہ ہو دآيت39

 

(6)سورہ ہو دآيت30

(7) بعض نے كہا ہے كہ تنور سے پانى كا جوش مارنا خدا كى طرف سے حضرت نوح كے لئے ايك نشانى تھى تاكہ وہ اصل واقعہ كى طرف متوجہ ہوں اور اس موقع پروہ اور ان كے اصحاب ضرورى اسباب ووسائل لے كر كشتى ميں سوار ہوجائيں _

بعض نے كہا ہے كہ يہاں ”تنور” مجازى اور كنائي معنى ميں ہے جو اس طرف اشارہ ہے كہ غضب الہى كے تنورميں جوش پيدا ہوا اوروہ شعلہ ورہوا اوريہ تباہ كن خدائي عذاب كے نزيك ہونے كے معنى ميں ہے ايسى تعبير فارسى اور عربى زبان ميں استعمال ہوتى ہيں كہ شدت غضب كو آگ كے جوش مارنے اور شعلہ ور ہونے سے تشبيہ دى جاتى ہے _

(8) سورہ ہو دآيت40

 

 

 

 

 

 

تبصرے
Loading...