كربلا اور حائر حسینی

فضیلت زمین كربل

ھر مومن اور مومنہ كی یہ دلی خواہش ھوتی ھے كہ وہ ایك مرتبہ كربلا كی زیارت كو جائے، لہٰذا سب سے پہلے اس سرزمین كی كچھ فضیلت سے آگاھی ضروری ھے، تاكہ مزید معرفت میں اضافہ ھو

شھر مقدس كربلابغداد كے جنوب مغرب میں ۱۰۰ كلومیٹر اور نجف اشرف سے ۸۰ كلومیٹر دوری پر واقع ھے

احتمالاََ لفظ كربلا، مركب ھے كرب وبلا سے، جس كے معنیٰ غم واندوہ كے ھیں، اسلامی تاریخ میں شھر كربلا كا آغاز حضرت امام حسین علیہ السلام كی شھادت سے شروع ھوا، جب سے آج تك یہ شھرشیعوں اور مومنوں كی جان وروح سے عزیز بنا ھوا ھے، اور بحمداللہ روز بروز اسكی آبادی اور وسعت میں اضافہ ھورھا ھے 1

”امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ھے كہ خداوند عالم نے زمین مكہ كو حرم بنانے سے چوبیس ہزار برس پہلے كربلا كو حرم بنایا 2

ایك روایت كے مطابق خدا نے ھر مخلوق میں تواضع كوقرار دیا ھے، جس نے سب سے پہلے تواضع كی اور جس كی تواضع جتنی مدت تك رھی اس كا مقام دوسروں سے اتنی ھی مدت تك بر تر اور افضل ھو كر رھا، چنانچہ سب سے پہلے پانی میں آب فرات، اور زمینوں میں زمین كربلا نے تواضع كركے سر نیاز جھكایا تھا، جس كے نتیجہ میں ذات احدیت نے سب سے پہلے آب فرات اور زمین كربلا كو مقدس اور محترم بنایا 3

چوتھے امام علیہ السلام فرماتے ھیں :

” ایك مرتبہ زمین مكہ نے اپنے فضائل ذكركئے اور كھا :میرا مقابلہ كون كر سكتا ھے؟ بیت اللہ میری پشت پر ھے، ھر سال كرہٴ ارض كے ھر گوشہ سے میرے عقیدت مند میری زیارت كو آتے ھیں ، ذات احدیت نے زمین مكہ كو وحی كی اور فرمایا-:اپنے فضائل ضرور بیان كر لیكن تجھے علم ھونا چاہئے كہ جتنے فضائل تجھے دئے گئے ھیں اگر تو ان كا مقابلہ زمین كربلا سے كرے تو تجھے پتہ چلے كہ تیرے تمام تر فضائل كو زمین كربلا كے فضائل میں وھی نسبت ھے جو ایك قطرہ كو سمندر سے ھوتی ھے 4

آگاہ ھوجا! اگر زمین كربلا كو پیدا كرنا مقصود نہ ھوتا تو تجھے یہ فضائل نہ ملتے، اگر زمین كربلا كا مدفون نہ ھوتا توتجھے پیدا ھی نہ كیا جاتا، اگر زمین كربلا كا مدفون نہ ھوتاتو تیری پشت پربنا ھوا بیت اللہ جس پر تو فخر كررھی ھے، اس كو بنایا ھی نہ جات

انھیں حضرت سے نقل ھے: ”جب كرہ ٴارض پر زلزلہٴ قیامت آئےگا تو اللہ اپنی قدرت كاملہ سے زمین كربلا كو اٹھالے گا، اور زمین كربلا جنت كے ا علیٰ ترین خطوں میں سے ایك خطہ ھوگی، جنت كے دیگر مقامات میں سے زمین كربلا وہ افضل ترین خطہ ھوگی جس میں انبیاء ومرسلین كا مسكن ھوگا یہ زمین جنت میں اس طرح جگمگائے گی جس طرح كوكب دری آسمان پر دوسرے ستاروں میں روشن ھوتاھے، زمین كربلا اپنے نور سے اہل جنت كی آنكھیں خیرہ كرے گی، اور یہ زمین با آواز بلند كھے گی ”میں اللہ كی وہ مقدس، مبارك، پاكیزہ اور مشرف زمین ھو ں جسے اللہ نے سیدالشہداء اور سردار جنت كے جسد اطھر كا امین بنایا ھے“ 5

كوئی خوشی ملی بھی اگر كربلا كے بعد ھونٹوں نے مسكرانے سے انكار كر دی

خاك شفا كی فضیلت

امام صادق علیہ السلام فرماتے تھے: قبر شبیر علیہ السلام كی مٹی میں شفاھے، اور یہ بہت بڑی دوا ھے جو شخص جس مرض میں مبتلا ھواگر خاك كربلا سے علاج كرلے تواللہ اسے شفا دے گا 6

نیزامام نے دوسری جگہ فرمایا :” اپنی اولاد كی ولادت كے فوراََ بعد اس كے گلے پر خاك شفا كا خط كھینچو، كہ یہ بچے كے لئے ھر حیثیت میں امان ھے، جو شخص خاك كربلا كی تسبیح كے ھر دانہ پر ایك مرتبہ” سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ ٰ الا اللہ واللہ اكبر“ پڑھے تواللہ ھر ایك مرتبہ كے عوض اس كے نامہٴ اعمال میں چھ ہزار نیكیوں كا اضافہ كرے گا، اور روزقیامت وہ شخص چھ ہزار گناہ گاروں كی شفاعت كرے گا، خاك كربلا كی تسبیح اگر كسی كی ھاتھ میں ھو خواہ وہ كچھ بھی نہ پڑھے اس كے نامہ اعمال میں تسبیح كا ثواب لكھا جاتا رھے گا“جب ملائكہ آسمان سے زمین پر آتے ھیں تو حوریں ان سے درخواست كرتی ھیں كہ تھوڑی سی خاك شفا لیكر آنا، تمام ائمہ خود بھی خاك كربلا سے شفا حاصل كرتے تھے، اور اپنے شیعوں كوبھی خاك كربلا سے شفا حاصل كرنے كی تلقین كرتے تھے 7

فضیلت زیارت امام حسین علیہ السلام

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں : ”اگر لوگوں كو علم ھوتا كہ زیارت امام حسین علیہ السلام كا كتنا ثواب ھے، تو لوگ شوق زیارت اور حسرت زیارت میں مرجاتے“

نیز آپ سے منقول ھے : ”جو شخص فرزند رسول صلی الله علیه آله كی زیارت كو كربلا آئے اللہ اس شخص كو ایك ہزار حج، ایك ہزار عمرہ، ایك ہزار شھید، ایك ہزار روزہ دار، ایك ہزار صدقہ اور ایك ہزار غلام آزاد كرنے كا اجر عنایت فرمائے گا، اور وہ ایك سال تك ھر آفت سے محفوظ رھے گا، خدا وند عالم كی طرف سے ایك ملك زائر كے ساتھ موكل كیا جائے گا تاكہ ھر لحاظ سے اس كا تحفظ كرے، اگریہ دوران سال فوت ھوجائے تو اس كی تدفین تك ملائكہ كی ایك خاصی تعداد اس كے ساتھ موجود رھے گی، وہ فشار قبر سے محفوظ رھے گا، منكر ونكیر كی دہشت سے محفوظ رھے گا، اس كی قبر میں جنت سے ایك دروازہ كھولا جائے گا، اور روز قیامت اس كا نامہ اعمال اس كے دائیں ھاتھ میں دیا جائے گا، قیامت كے دن جب میدان محشر میں آئے گاتو اس كی پیشانی پر نور كی ایك كرن ھو گی، جس كی روشنی مغرب ومشرق تك جائے گی، اس كے آگے آگے ایك ملك چل رھا ھوگا، اور وہ نداكرے گا: یہ شخص فرزند رسول صلی الله علیه آله كی قبر كے زائرین میں سے ھے، پھر وھاں موجود ھر شخص یہ خواہش كررھا ھوگا كہ كاش میں بھی زیارت امام حسین علیہ السلام كو جاتا 8

كتاب ”كامل الزیارات“ میں نقل كیا گیا ھے كہ امام صادق علیہ السلام كے پاس خراساں سے ایك وفد آیا اور زیارت امام حسین علیہ السلام كے سلسلہ میں سوال كی

آپ نے فرمایا:” مجھے میرے والد نے اپنے والد كے ذریعہ میرے دادا سے روایت كی ھے كہ وہ فرمایا كرتے تھے، جو شخص قربةََ الی اللہ فرزند رسول كی زیارت كو آئے، وہ اس طرح واپس جائے گا جیسے شكم مادر سے باھر آیا تھا، اس كی آمدورفت میں ملائكہ اس كے ساتھ رھیں گے، ملائكہ ذات احدیت سے اس كی بخشش كی دعا كریں گے، رحمت الہٰی اس پر سایہ كرتی رھے گی ملائكہ اسے مبارك باد دے كر كھیں گے :تو كتنا خوش نصیب ھے كہ مظلوم فرزندرسول كے زائرین كی فھرست میں شامل ھوگیا ھے“ 9

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے كہ آپ نے فرمایا:” امام حسین علیہ السلام كی زیارت ھر اس شخص پر واجب ھے جو آپ كی امامت كا اعتقاد واقرارركھتا ھے“ 10

زائرین امام حسین علیہ السلام كی فضیلت

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ھے ”كہ مجھے اس شخص پر تعجب ھوتا ھے جو یہ گمان كرتا ھے كہ ھمارا شیعہ ھے، اس كی عمر گزرتی جاتی ھے مگر قبر امام حسین علیہ السلام كی زیارت كے لئے نھیں جاتا اور سستی وكاہلی كرتا ھے، خدا كی قسم اگر اس كوپتہ چل جائے كہ حضرت كی ز یارت كی كیا فضیلت ھے تو قطعی طور پر وہ كاہلی نھیں كرے گا، راوی نے عرض كیا، كیا فضیلت ھے؟فرمایا:وہ خیر ھے اور اس كی بہت فضیلت ھے سب سے پہلی چیز جو زائر كو ملے گی وہ یہ كہ اس كہ گناہ معاف ھوجائےں گے“

نیزامام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے” كہ سر زمین كربلا وہ زمین ھے جس میں اللہ نے موسیٰ كو كلیم بنایا، نوح كی مناجات سنی، یہ اللہ كی محترم ترین زمین ھے، اگر یہ مقدس نہ ھوتی تو اللہ اسے اپنے اولیاء كا امین اور انبیاء كی گزرگاہ نہ بناتا، كربلا میں جاكر ھمارے مزارات كی زیارت كیا كرو اور تمام شیعوں سے كہہ دو، كربلا جائےں اور زیارت كریں فرزند رسول صلی الله علیه آله كی، زیارت سے غم دور ھوتے ھیں ، زائر حسین علیہ السلام جل كر، ڈوب كر نھیں مرتا، اس كو درندے اذیت نھیں دیتے، جو بھی امامت فرزند رسول صلی الله علیه آله كا قائل ھے، اس كے لئے زیارت كربلا فریضہ ھے، اگر كوئی شخص ھر سال حج كر كے مرے اور فرزندرسول صلی الله علیه آله كی زیارت نہ كرے تو حقوق نبویہ میں سے ایك بہت بڑے حق كا تارك محشور ھوگا، ھر مسلمان پر اللہ كی طرف سے حق امام حسین علیہ السلام فریضہ ھے“ 11

امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے كہ جب سفر زیارت میں زائر كو پسینہ آتا ھے خواہ یہ پسینہ گرمی كی وجہ سے ھو یا تھكاوٹ كی بدولت، پسینہ كے ایك ایك قطرہ كے عوض اللہ ستر ہزار ملائكہ پیدا كرتا ھے، جو تا قیامت زائر كے لئے تسبیح اور استغفار كرتے رھیں گے، جب زائر زیارت كے لئے آب فرات سے غسل كرلیتا ھے تو اس كے سارے گناہ ختم ھوجاتے ھیں 12

زائرین امام علیہ السلام مظلوم كو نبی اكرم مخاطب ھو كر كہتے ھیں ” میرے مظلوم فرزند كی زیارت كے لئے مصائب سفر برداشت كرنے والو!میں محمد تمھیں جنت میں اپنے پڑوس كی بشارت دیتا ھوں “ 13

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں ” میرے مقتول عبرت بیٹے كے زوّارو! میں علی علیہ السلام تمھاری تمام ضروریات خواہ دنیاوی ھوں یا اخروی كے پورا كرنے كی ضمانت دیتا ھوں “ 14

زائر جب صحن فرزند فاطمہ سلام اللہ علیھا میں قدم ركھتا ھے تو ھر طرف سے ملائكہ اسے گھیر لیتے ھیں، جب زائر حرم امام مظلوم میں داخل ھوتا ھے تو امام حسین علیہ السلام اسے دیكھ كر اس كے لئے اللہ سے دعائے مغفرت كرتے ھیں ، امام حسین علیہ السلام كے ساتھ تمام انبیاء اور ملا ئكہ بھی شامل دعاھوجاتے ھیں ، جب زائر واپس پلٹتا ھے توجبرئیل علیہ السلام، اسرافیل علیہ السلام اور ر میكائیل علیہ السلام دیگر ملائكہ كے ساتھ اس كو الوداع كرتے ھوئے كہتے ھیں :” تو خوش نصیب ھے، تیرے تمام گناہ معاف ھوگئے، نہ تو كبھی آتش جہنم تیرے سامنے آئے گی نہ تو آتش جہنم كو دیكھ سكے گا“

پھر ایك ھاتف پكار كر كہتا ھے :توخوش بخت تھا، تجھے جنت مبارك ھوبعد از زیارت جب بھی اس دنیا سے رخصت ھوگا، سب سے پہلے مظلوم كربلا تیری زیارت كو تشریف لائیں گے 15

زیارت امام حسین علیہ السلام كے مخصوص آداب

1.” زیارت امام حسین علیہ السلام كے سفر میں مستحب ھے كہ تواضع، انكساری، خضوع وخشوع اور ذلیل غلام كی طرح راستہ كوطے كرے“

2. امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں : ”لازم ھے كہ اچھی مصاحبت اختیار كرو، اپنے سفر كے ساتھی كے ساتھ، كم باتیں كرو، اور كپڑے پاكیزہ پہنو، زیادہ نماز پڑھو اور محمد و آل محمد پركثرت سے صلوات بھیجو، اور اپنے كو نا مناسب باتوں سے محفوظ ركھو، اپنی نگاہ كو حرام وشبہ سے بچاؤ، اور پریشان مومن بھائیوں كے ساتھ احسان كرو“

3. ابو حمزہ ثمالی سے منقول ھے كہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا” جب كربلا میں وارد ھو جاؤ تو اپنے بدن پر تیل نہ ملو، سرمہ نہ لگاؤ، اور گوشت نہ كھاؤ جب تك وھاں رھو“

4. آب فرات سے غسل كرنا، كہ اس كی فضیلت میں روایات بہت ھیں ، ایك حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے كہ” جو شخص آب فرات سے غسل كرے اور قبر امام حسین علیہ السلام كی زیارت كرے تو وہ گناھوں سے اس طرح پاك ھو جاتا ھے جیسے اسی روز شكم مادر سے پیدا ھوا ھو، چاھے گناھانِ كبیرہ اس كے ذمہ ھوں “

5. جب روضئہ مقدس میں داخل ھوناچاھے تو مشرق كی جانب جودروازہ ھے اس سے داخل ھوجیسا كہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ھے

6. نمازفریضہ ونافلہ كو قبر امام حسین علیہ السلام كے قریب بجالائے كیونكہ نماز اس جگہ مقبول ھوتی ھے، اور یہ بھی روایت ھے كہ واجب نماز آنحضرت كی قبر كے پاس پڑھنا حج كے برابر ھے اور نافلہ عمرہ كے برابر ھے

7. بہترین اعمال روضہ امام حسین علیہ السلام میں دعا ھے كیونكہ زیر قبہ دعا كا قبول ھوناان چیزوں میں سے ایك ھے جسے شھادت كے بدلہ میں خدانے انھیں عطاكیا ھے 16

لہٰذا زائر كو چاہئے كہ اس كو غنیمت سمجھتے ھوئے تضرع، توبہ اور حاجتوں كے پیش كرنے میں كوتاھی نہ كرے، خصوصاََ ان مومنین كے لئے دعا كرے جو اس متبرك مقام تك نھیں پہنچ سكتے، اور اپنی دعاؤں میں خاص طور پر اپنے اور جملہ مومنین كے لئے دعائے مغفرت كو فراموش نہ كریں

بوقت سحر زیارت امام حسین علیہ السلام كی فضیلت

بن شھر آشوب روایت كرتے ھیں : ایك دن جبرئیل علیہ السلام رسول خدا صلی الله علیه آله كی خدمت میں دحیہٴ كلبی كی شكل میں آئے اور آپ كے پاس بیٹھے تھے كہ اچانك حسنین علیہ السلام تشریف لائے اور چونكہ جبرئیل علیہ السلام كے متعلق یہ گمان تھا كے دحیہٴ ھے تو اس كے پاس آئے اور ہدیہ طلب كرنے لگے، جبرئیل نے آسمان كی طرف ھاتھ بلند كیا اور ایك سیب، ایك بھی دانہ اور ایك انار ان كے لئے اتارااور انھیں دے دیا، جب آپ نے یہ میوے دیكھے تو خوش ھوئے اور رسول خدا صلی الله علیه آله كے پاس لے گئے، حضرت نے ان سے لے كر انھیں سونگھااور شہزادوں كوواپس كردیااور فرمایا اپنے باپ اور ماں كے پاس لے جاؤاور اگر پہلے اپنے باپ كے پاس لے جاؤتوبہترھے، پس جو كچھ آنحضرت صلی الله علیه آله نے فرمایا تھا، اس پر عمل كیا اور اپنے پدر كے پاس گئے یھاں تك كہ رسول خدا صلی الله علیه آله بھی ان كے پاس گئے اور پھر پنجتن پاك نے مل كر وہ میوے تناول فرمائے، جتنا كھاتے تھے وہ دوبارہ اپنی پہلی حالت كی طرف پلٹ جاتے تھے، اور كوئی چیز ان میں سے كم نہ ھوتی تھی یھاں تك كہ جب رسول خد ا صلی الله علیه آله كی وفات ھوئی پھر بھی وہ میوے اپنی حالت پر قائم رھے اور ان میں كوئی تغیّر نہ آیا، جب جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا كی وفات ھوئی توانار غائب ھوگیا اور جب امیرالمومنین علیہ السلام كی شھادت ھوئی تو بھی گم ھوا، لیكن وہ سیب جوامام حسن علیہ السلام كے پاس تھا وہ آپ كے بعد امام حسین علیہ السلام كے پاس رھا، چنانچہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں : جب میرے والد گرامی صحرائے كربلا میں نرغہ ا عداء میں گھر گئے تو وہ سیب آپ كے ھاتھ میں تھا، اور جب آپ پر پیاس كا غلبہ ھوتا تو اس كو سونگھتے اور اس سے آپ كی پیاس میں كچھ تخفیف ھوجاتی، جب آپ پرپیاس كا زیادہ غلبہ ھوا تو آپ نے اس سیب كو دانتوں سے كاٹا، جب آپ شھید ھوگئے تو جتنا اس سیب كوتلاش كیا گیا وہ نہ مل سكا، پھر آپ نے فرمایا: ”مجھے اپنے باپ كے مرقد مطھر سے اس سیب كی خوشبو آتی ھے، جب میں ان كی زیارت كو جاتا ھوں اور جوشخص ھمارے مخلص شیعوں میں سے سحر كے وقت اس مرقد مطھر كی زیارت كوجائے تو اسے ضریح منور سے اس سیب كی خوشبو آئے گی“ 17

حرم سركارسیدُالشہداء علیہ السلام

شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ كی كتاب” امالی“ كی روایات سے استفادہ ھوتا ھے كہ بنی امیہّ كے دورحكو مت میں امام حسین علیہ السلام كی قبر مطھر پر جو آثار موجود تھے، وہ حضرت مختار اور ان كے چاہنے والوں كے ذریعہ بنائے گئے تھے، اور اسی طرح امام حسین علیہ السلام كے زیارت كے باب میں كچھ روایات ھیں جن سے معلوم ھوتا ھے كہ حكومت بنی امیہّ كے آخری ایام میں امام حسین علیہ السلام كے روضہ میں كچھ كمرے اور ایك مسجد تھی اور عباسی خلفاء كے دور حكومت میں مخصوصاََ (عباسی خلیفہ) سفاح كے زمانے میں روضہ كی حالت كچھ بہترھوگئی تھی، جس میں كچھ عمارتی كام بھی انجام پایا، لیكن عباسی خلیفہ متوكل كے حكم سے ۲۳۶ھ ق میں اس روضہ كو مسمار بھی كیا گیا، جس میں سیدُالشہداء حضرت اباعبداللہ علیہ السلام كی قبراور اس كے اطراف كی عمارتوں كوویران كیا گیا تاكہ اس زمین میں كھیتی كی جائے، اور اس كے ارد گردكچھ سپاھیوں كو معین كیا گیاجو آنحضرت كی زیارت سے لوگوں كوروك سكیں، اور جب امام حسین علیہ السلام كی قبر كی بربادی كاموقع آیاتو كوئی مسلمان اس پر راضی نھیں ھواكہ امام حسین علیہ السلام كی قبر كوخراب كرے، اسلئے اس نے یہ كام دیزج نامی شخص (جو یھودی تھا) كے ذریعہ انجام دیا، متوكل نے یہ اعلان بھی كروادیا كہ امام حسین علیہ السلام كی زیارت كرنا منع ھے اور اگر كوئی ان كی زیارت كو آئے گاتو اس كو سخت سے سخت سزادی جائے گی

”تاریخ قمقام“ میں ”امالی شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ “ كے حوالے سے نقل ھوا ھے كہ متوكل عباسی نے اپنے دور حكومت میں ۱۷مرتبہ قبر امام حسین علیہ السلام كومسمار كر نے كی كوشش كی، یھاں تك كہ اس كے چاروں طرف پانی بھروادیا، تاكہ قبر كا كوئی نشان باقی نہ رہ جائے اور یہ بھی بتایا جاتا ھے كہ جب متوكل نے امام حسین علیہ السلام كی قبر كو برباد كیا، زمین پر ہل چلوا دیا اور قبر كے اطراف كو پانی سے بند كردیا، مگر پانی قبر تك نھیں پہنچا بلكہ قبر كے ارد گرد چكر كاٹنے لگا جو معجزہ كے نام سے مشھور ھوگیا اور جس مقدار تك پانی نھیں پہنچااور اس كے چاروں طرف پانی طواف كررھا تھا، اسی كو حائر حسینی حساب كیا گیا كہ جس حصہ میں مسافر كواختیار ھے كہ نمازقصر پڑھے یا پوری

متوكل عباسی ۲۴۷ھ ق میں اپنے بیٹے منتصر (جس كا سلوك شیعوں كے ساتھ قدرے بہترتھا) كے ھاتھوں واصل جہنم ھوا، پھر ۳۷۱ ھ ق میں ایك عمارت تیار ھوئی جس میں رواق (كمرے) بھی تھے اور (عضدالدولہ دیلمی) كے ذریعہ قبر مطھر پرضریح بھی نصب كی گئی، ۹۱۴ ھ ق میں جب شاہ اسماعیل صفوی نے بغداد كو فتح كیا اور كربلا كی زیارت كو گیا تو امام حسین علیہ السلام كی ضریح میں طلاكاری (سونے كا كام) كروایا، ایران كے قاچاریہ بادشاھوں كے دور حكومت میں امام علیہ السلام كے گنبد كی طلا كاری كا كام تےن دفعہ انجام پایا، جوبعد میں سر زمین كربلا پر سعدا بن عبدالعزیز كے وحشیانہ حملے كے ذریعہ ۱۲۱۶ھ ق میں عید غدیر كے دن لوٹ لیا گیا، عبدُالعزیز نے كربلا كے دس ہزار رہنے والے لوگوں پر حملہ كیاجن میں سے چھ ہزار لوگوں كو قتل كیا اور حرم كے قیمتی خزانے كو لوٹ لے گیا، آخر میں، ۲۳۲ ھ ق شیخ جعفر كاشف الغطاءرحمۃ اللہ علیہ كی مدد سے فتح علی شاہ قاچار كے ھاتھوں اور اس كے بعد بھی تعمیری كام انجام پایا، آج كی موجودہ ساخت صفوی، عثمانی اور قاچاری حكومتوں كی ھی بنائی ھوئی ھے، طلائی گنبد صفوی دور حكومت كی، اور اسكی طلا كاری كا كام آقا محمد خان قاچار كے حكم سے انجام دیا گیا 18

آستان مقدس امام حسین ں سمیں چند دروازہ ھیں جن، كے نام ا س طرح ھیں، باب قبلہ، باب بین الحرمین، باب سدر، باب سلطانی، باب قاضی الحاجات، باب زینبیہ

حرم سركار سیدالشہداء علیہ السلام میں خود آنحضرت علیہ السلام كی قبر مطھر ھے اور آپ كی قبر كے ساتھ ساتھ جناب علی اكبرں وجناب علی اصغرں كی قبریں ھیں، اسی حرم میں جناب حبیب بن مظاھر كی قبر مولا حسین علیہ السلام كی ضریح اقدس سے چند قدم كے فاصلہ پر ھے اور كچھ فاصلہ پرقتل گاہ ھے، یھیں امام حسین علیہ السلام كو شمر ملعون نے شھید كیا تھا، اور آپ كا سر تن سے جدا كیا تھا، امام حسینں كے مرقد كے كنارے گنج شھیداں واقع ھے، كربلا كے بہتر شھیدوں میں كل بنی ھاشم كی ۱۷ اولاد یں یھیں دفن ھیں جن كی تفصیل اسطرح ھے

اولاد امیرالمومنین علیہ السلام : جناب امام حسین علیہ السلام ، جناب عباس علیہ السلام، جناب عبدُاللہ، جناب جعفر، جناب عثمان، جناب محمد، جناب ابوبكر

اولاد امام حسن علیہ السلام: جناب قاسم علیہ السلام، جناب عبدُاللہ، جناب ابوبكر

اولاد امام حسین علیہ السلام : جناب علی اكبر، علیہ السلام جناب علی اصغر علیہ السلام

اولاد عبدُاللہ بن جعفر بن ابیطالب علیہ السلام : جناب عون علیہ السلام جناب محمدعلیہ السلام

اولاد عقیل بن ابیطالب: جناب جعفر، جناب عبدُالرحمٰن

اولاد مسلم بن عقیل علیہ السلام : جناب عبدُاللہ علیہ السلام، جناب محمد علیہ السلام اور جناب ابراھیم علیہ السلام

مرقد ابرھیم مجاب

حرم امام حسین ں سے متصل شمال مغرب میں انكا مزاراقدس واقع ھے، آپ امام موسی كاظم علیہ السلام كے فرزند اور امام علی رضا علیہ السلام كے بھائی تھے، پہلی مرتبہ آپ نے ۲۴۷ ھ ق میں كربلا كو اپناوطن قراردیا، آپ كو مجاب اس لئے كہتے ھیں كہ جب آپ كربلاتشریف لائے اور قبرامام حسینں وسلام كیا، توامام حسین ں سنے انكے سلام كا جواب دیا، اس وقت سے آپ مجاب كے لقب سے یاد كئے جاتے ھیں 19

حضرت امام حسین علیہ السلام كی زندگی كا مختصر جائزہ

نام: حسین بن علی علیہ السلام

كنیت : ابو عبدُاللہ اور ابوعلی

القاب: سیدُالشہداء، سبط ثانی، سبط الاسباط، رشید، وفی، سید، زكی

-منصب: پانچویں معصوم اور تیسرے امام

تاریخ پیدائش: ۳شعبان المعظم ۴ھ ق

جائے پیدائش: مدینہ منورہ شجرہ نسب: حسین بن علی بن ابیطالب ا علیہ السلام بن عبدُالمطلب

والدہ كا نام: فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا بنت رسول صلی الله علیه آله

مدت امامت: صفر المظفر ۵۰ ھ ق میں اپنے بھائی امام حسن مجتبیٰ كی شھادت سے لیكرمحرم الحرام ۶۱ھ ق تك تقریباََ دس سال امامت كے فرائض سرانجام دئے

تاریخ وشھادت كا سبب: دس محرم الحرام (عاشور) ۶۱ اپنے قریبی دوستوں اور اصحاب كے ساتھ سرزمین كربلا میں یزید بن معاویہ اور عبیداللہ بن زیاد (والی كوفہ) كی طرف سے عمر بن سعد كی قیادت میں بھیجے گئے لشكر كے ھاتھوں انتھائی بے دردی سے شھید ھوئے، اس وقت آپ كی عمر مبارك ۵۷سال تھی

محل دفن: كربلائے معلی دریائے فرات كے مغربی طرف

ازواج: لیلیٰ بنت ابی مرہ ثقفی، شھربانو (ایرانی بادشاہ یزد جرد كی بیٹی) رباب بنت امرء القیس، ام اسحاق بنت طلحہ تمیی، قضاعیہ (ام جعفر) حفصہ بنت عبدالرحمن بن ابی بكر

اولاد : امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام، علی اكبرعلیہ السلام، جعفر، عبداللہ رضیع (علی اصغرعلیہ السلام) سكینہ، فاطمہ

امام حسین علیہ السلام كے بیٹوں میں سے جعفر اپنے والد كی زندگی میں ھی فوت ھوگئے تھے علی اكبراور عبداللہ (كہ جو علی اصغر كے نام سے معروف ھیں) كربلا میں شھید ھوئے اور آپ كی نسل فقط امام زین العابدین علیہ السلام سے ھی آگے بڑھی 20

امام حسین علیہ السلام كے چند مخصوص اصحاب

امام حسین علیہ السلام كے اصحاب اہلبیت علیھم السلام كے بہترین اصحاب میں سے تھے، انھوں نے اپنے اہل وعیال كو چھوڑ كراپنے امام علیہ السلام كی مدد كرنے كے لئے آگے بڑھے اور ایك متوقع جنگ میں اپنے رہبرو قائد سے پہلے شھادت كو گلے لگایااس كے باوجود كہ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور سب كی گردنوں سے بیعت اٹھالی تھی، اور انھیں جانے كے لئے آزاد كردیاتھا، لیكن انھوں نے ناقابل ستائش بیان اور انتھائی دلیری سے كھا:”اگر ھمیں ستر مرتبہ بھی قتل كركے ھمارے جسموں كو آگ لگادی جائے اور دوبارہ زندہ كیا جائے تب بھی ھم آپ كی مدد سے دستبردار نہ ھوں گے اور آپ كو تنھا نہ چھوڑیں گے “جی ھاں !اسی عشق وایثار كی بدولت ھی انتھائی قلیل تعداد نے عمرا بن سعدكے مسلح ترین۳۰ہزار سپاھیوں كے سامنے صبح سے لیكرعصرتك جوانمردی كے ساتھ مقابلہ كیا، مسلم بن عوسجہ، ہلال بن نافع، ابوثمامہ صیداوی، زھیربن قین، حجاج بن مسروق، حنظلہ ا بن سعد، عابس ا بن شبیب شاكری، انیس ا بن معقل، جون (غلام ابی ذر) حارث ا بن امرء القیس كندی، اسلم تركی، بریر بن خصیر ھمدانی، جنادہ بن كعب انصاری، حبیب بن مظاھر اسدی، واضح رھے كہ مذكورہ اصحاب اور بقیہ وہ اصحاب جوروزعاشورامام حسین علیہ السلام كے ھمراہ شھید ھوئے وہ تمام گنج شھیداں میں مدفون ھیں اور تمام كے اسماء مبارك گنج شھیدا ں كے اوپر ایك تختی كی شكل میں لكھے ھوئے ھیں

امام حسین علیہ السلام كی زیارت كے مخصوص ایام

1. پہلی رجب : امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے كہ ”جو شخص پہلی رجب كو امام حسین علیہ السلام كی زیارت كرے تو خدا اسے ضرور بخش دے گا“ اور ابونصر سے منقول ھے كہ امام علی رضا علیہ السلام سے سوال كیاكہ امام حسین علیہ السلام كی زیارت كس وقت بہتر ھے؟فرمایا كہ” پندرہ رجب اور پندرہ شعبان كو“

2. نیمہٴ شعبان : امام زین العابدین علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے وارد ھوا ھے :” جو شخص چاھے كہ اس سے ایك لاكھ چوبیس ہزارانبیاء مصافحہ كرے، تو اسے چاہئے كہ نیمہٴ شعبان میں قبرابوعبداللہ امام حسین علیہ السلام كی زیارت كرے، اس دن ملائكہ اور ارواح پیغمبر ان كی اجازت لے كر زیارت كو آتے ھیں، خوشانصیب ھیں وہ مومنین كہ ان سے وہ مصافحہ كریں اور وہ ان سے مصافحہ كرےں

3. شب قدر : امام حسینعلیہ السلام كی زیارت كی فضیلت ماہ رمضان المبارك میں زیادہ ھے بالخصوص پہلی اور پندرھویں رات، اور خاص طور سے شب قدر میں، امام محمد تقی علیہ السلام سے منقول ھے : ”جو شخص امام حسین علیہ السلام كی زیارت تیئیسویں شب ماہ رمضان المبارك میں كرے تواس سے مصافحہ كریں گے ایك لاكھ چوبیس ہزار ارواح ملائكہ وانبیاء جو سب كے سب خداسے اجازت طلب كرتے ھیں، اور امام حسین علیہ السلام كی زیارت كو تشریف لاتے ھیں “اور دوسری معتبرحدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ھے:”جب شب قدر آتی ھے، توایك منادی ساتویں آسمان سے ندا دیتا ھے كہ خدا نے ھر اس شخص كوبخش دیا جو زیارت امام حسین علیہ السلام كے لئے آیا ھے“

4. عید فطر اور عید اضحی: امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے :” جو شخص تین راتوں (شب عید فطر، شب عیدالاضحی وشب نیمہٴ شعبان ) میں سے ایك رات امام حسین علیہ السلام كی زیارت كرے، تواس كے گذشتہ و آئندہ كے گناہ بخش دئے جاتے ھیں “ اور امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ھے كہ جو شخص شب عرفہ زمین كربلا پرھواور وھاں رھے تاكہ زیارت روزعید كرے اور پھر واپس ھو تو خدااس كواس سال كے شر سے محفوظ كردیتا ھے“

5. روز عرفہ: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :”جو شخص زیارت كرے امام حسینں كی روزعرفہ معرفتِ حق كے ساتھ تواس كے لئے ہزار حج مقبول اور ہزارعمرہ مقبولہ اور ہزار جھاد پیغمبر یا امام عادل علیہ السلام كے ساتھ كاثواب لكھا جاتا ھے“

6. روزعاشورہ: امام محمد باقرعلیہ السلام سے روایت ھے كہ آپ نے فرمایا:” جو شخص زیارت كرے حسین بن علی علیہ السلام كی دسویں محرم كو یھاں تك كے قبر كے نزدیك گریہ كرے، تو وہ خدا سے روز قیامت ملاقات كرے گا، دوہزار حج دوہزار عمرہ اور دوہزار جھاد كے ثواب كے ساتھ اور ان كا ثواب اس شخص كے ثواب كی طرح ھوگاجس نے حج، عمرہ اور جھادخدمت رسول خدا صلی الله علیه آلهاور ائمہ طاھرین علیہ السلام میں كیا ھو“

7. ۲۰صفر (روز اربعین) روز مباہلہ، روزولادت آنحضرت صلی الله علیه آله

8. شب جمعہ: ایك روایت میں ھے كہ خدا وندعالم ھر شب جمعہ زائر حسین علیہ السلام پر نظر ڈالتا ھے اور تمام پیغمبروں اور وصیوں كواس كی زیارت كے لئے بھیجتا ھے

9. امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے : ”جو شخص قبرامام حسین علیہ السلام كی زیارت ھرجمعہ كو كرے تووہ ضرور بخشا جائے گا، اور وہ دنیا سے نھیں جائے گا، حسرت كی حالت میں اور اس كا مقام بہشت میں امام حسین علیہ السلام كے ساتھ ھوگا“ 21

نیزامام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ھے كہ كچھ لوگوں نے آپ سے پوچھا كہ امام حسین علیہ السلام كی زیارت كا كوئی ایساوقت ھے جو دوسرے وقت سے بہترھو؟ توفرمایا:” امام كی زیارت كرو ھر وقت، ھرزمانہ میں، كیوں كہ ان كی زیارت نیكی كا وسیلہ ھے، جواس كو زیادہ بجالائے گاوہ زیادہ نیكی پائے گا اور جوكم بجالائے گا كم نیكی پائے گا، اور كوشش كروامام علیہ السلام كی زیارت كرنے میں فضیلت والے وقتوں میں، كیونكہ ان میں نیك اعمال كے ثواب كئی گناہ ھوجاتے ھیں، اور ان شرف والے وقتوں میں ملا ئكہ آسمان سے نازل ھوتے ھیں “ 22

مذكورہ روایت سے استفادہ ھوتا ھے كہ امام حسین علیہ السلام كی زیارت كا جب بھی موقع ملے اسے غنیمت سمجھ كر فوراََ بجالائیں چونكہ ھماری حیات كا كوئی بھروسہ نھیں

امام حسین علیہ السلام كے چنداقوال

1. ”بالتحقیق برد باری زینت، اور وفاداری جوانمرد ی ھے“

2. اے لو گو! ”جس نے معاف كردیا بڑا بن گیااور جس نے بخل كیا پستی كا شكار ھوگیا“

3. ”بے عزتی كی زندگی سے موت بہتر ھے، اور انسان كے لئے بے عزتی جہنم كی آگ میں جانے سے بہتر ھے“ 23

فضیلت جناب عباس علمدار علیہ السلام

آپ كی فضیلت كے لئے وہ دعا كافی ھے جسے امام جعفرصادق ں نے جناب عباس علیہ السلام كی زیارت كے موقع پر اذن دخول میں پڑھی جس كے الفاظ یہ ھیں :اے فرزند امیرالمومنین! ”خدااس كے مقرب رشتوں، رسولوں، صالح بندوں تمام شہداء وصدیقین كے پاك وپاكیزہ سلام ھرصبح وشام آپ پر ھوں “حضرت امام جعفرصادقں نے حضرت احدیت كے سلام سے شروع كیا، كارزاركربلامیں حضرت عباس ں نے اپنے بھائی امام حسین ں وحجت خداكی تصدیق كركے مرتبہ حق الیقین حاصل كیا، وفاداری كامظاھرہ انسان یاقرابت وبرادری كی وجہ سے كرتا ھے، یااس لئے كرتا ھے كہ خدانے واجب قراردیا ھے، كہ اس كے اولیاء سے وفاداری كی جائے، حضرت امام جعفرصادق ں كی زیارت كے فقرات سے وا ضح ھوتاھے، كہ حضرت عباس علیہ السلام نے فقط بھائی ورشتہ داراور فرزندرسول سمجھ كرامام حسین كی نصرت نھیں كی بلكہ آپ امام حسین علیہ السلام كوحجت خدا اور امام علیہ السلام واجب الطاعةسمجھ رھے تھے، اگرچہ كربلا كے ھر شھید نے دشت نینوا میں كسی طرح نصرت امام حسین علیہ السلام میں دریغ نھیں كیا، لیكن یہ سارے شھید اپنی ساری قربانیوں كے باوجودشھیدعلقمہ كے ھم مر تبہ نھیں ھوسكتے، كیونكہ آپ كی بصیرت راسخ، آپ كاعلم وافر، آپ كاایمان محكم، آپ كاكردارمضبوط، اور آپ كامقصدعالی تھا، لہٰذاامام جعفرصادق ں نے مذكورہ بالاالفاظ میں آپ كومخاطب فرمایا، كہ یہ فضیلت قمربنی ھاشم سے مخصوص تھی جس میں كربلاكا كوئی دوسرا شھیدشریك نھیں تھا 24

مولا عباس علیہ السلام كا ایك معجزہ

علامہ جلیل شیخ عبدُالرحیم تستری -رحمۃ اللہ علیہ كہتے ھیں :”میں نے كربلامیں امام حسین علیہ السلام كی زیارت كی، زیارت كے بعدحرم حضرت عباس علیہ السلام میں پہنچاوھاں میں نے دیكھا كہ ایك بدّواپنے بیمار لڑكے كولیكر آیاجس كے پیروں كوفالج كااثرتھا، ضریح حضرت سے اس كوباندھ دیااور روروكردعائیں كرنے لگاتھوڑی دیر گزری تھی كہ بچہ صحیح وسالم ھوكر حرم میں با آوازبلند كہنے لگا:”عباس علمدار نے مجھ كوشفابخشی “لوگوں نے اس كوگھیر لیااور تبرك كے طور پراس كے كپڑے پھاڑ ڈالے، میں نے جس وقت یہ منظردیكھا ضریح كے قریب گیااور حضرت علیہ السلام سے درخواست كی، كہ آپ نا آشنائے ادب كی دعاؤں كوسن لیتے ھیں اور ھماری دعاؤں كوجبكہ ھمیں آپ كی معرفت بھی ھے مستجاب نھیں فرماتے، ٹھیك ھے اب میں آئندہ آپ كی زیارت كے لئے نھیں آؤنگا، بعدمیں مجھے یہ خیال ھواكہ میں نے گستاخی كی ھےخداسے اپنی غلطی كی معافی مانگتارھا، جب میں نجف پہنچا تو استاد بزرگوارشیخ مرتضیٰ انصاری࿠رحمۃ اللہ علیہ میرے پاس تشریف لائے اور پیسوں كی دوتھیلیاں دیتے ھوئے فرمایا: ”لویہ تمھارے پیسے ھیں جوتم نے حضرت عباس علیہ السلام سے طلب كئے تھے، ایك سے اپنا مكان بنوالواور ایك سے حج كرلو“میں نے بھی حضرت سے یھی دوسوال كئے تھے 25

لہٰذااس مقام مقدس پراپنے لئے اور خصوصاََ ھرمومن كے لئے، زائر كوجناب سكینہ علیھا السلام كا واسطہ دے كردعائیں مانگنی چاہئے

آسماں والوں سے پوچھو مرتبہ عباس کا

نام لیتے ھیں ادب سے انبیاء عباس کا

پوری ھوجاتی ھے ھاتھ اٹھنے سے پہلے ھر مراد

مانگ لو دے كر خدا كوواسطہ عباس کا

(نیر جلال پوری)

آداب زیارت حضرت عباس علیہ السلام

علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ روایت كرتے ھیں :حضرت عباس علیہ السلام كا زائر پہلے در سقیفہ كے پاس كھڑے ھواور داخلہٴ حرم كی دعا پڑھ كرحرم میں وارد ھو، پھر اپنے كوقبر پرگرادے، اور حضرت كی زیارت پڑھے، نمازودعاكے بعدپائے اطھر كی طرف جائے اور وھاں پراس زیارت كوپڑھے جس كی ابتداء ان الفاظ سے ھے” السلام علیك یااباالفضل العباس“زیارت علمداركربلا علیہ السلام كے بعدزائردوركعت نمازاداكرے چونكہ روایت میں اس كی تاكید وارد ھوئی ھے26

حرم مطھرحضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام

بارگاہ مقدس بابُ الحوائج قمر بنی ھاشم سقائے سكینہ آقاابوالفضل العباس علیہ السلام كاحرم امام حسین علیہ السلام سے تقریباََ۳۵۰ میٹر كے فاصلہ پر واقع ھے

خدا وندعالم نے حرم ابوالفضل العباس كی تعمیر كیلئے ھردورمیں كچھ افرد كو منتخب كیا، لہٰذا ھر دور میں حرم قمربنی ھاشم علیہ السلام كو بہتر سے بہتر تعمیر كیاگیااسی بنا پرھم بھی ذیل میں كچھ مثالےں تحریر كررھے ھیں

1. شاہ طھماسپ نے ۱۰۳۲ ھ ق میں گنبد مطھركی نقاشی اور بیل بوٹے بنوائے، اور صندوق قبر پر ضریح مبارك ركھی، صحن وایوان تعمیركرائے، پہلے دروازہ كے سامنے مھمان سرا تعمیركرایا اور ھاتھ كے بنے ھوئے قالینوں سے فرش كومزین كی

2. ۱۱۵۵ھ ق میں نادرشاہ نے حرم مطھر كے لئے گران قیمت ہدیئے ارسال كئے اور حرم كی آئینہ كاری كرائی

3. ۱۱۵۷ھ ق میں نادرشاہ كاوزیرجب زیارت سے مشرف ھواتواس نے صندوق قبر كوتبدیل كرایااور ایوان تعمیر كرائے، روشنی كے لئے شمع آویزاں كرائیں، جس سے حرم بقعہ نور بن گی

4. ۱۲۱۶ھ ق میں جب وھابیوں نے كربلائے معلی كولوٹاتوحرم حسین علیہ السلام اور حرم حضرت عباس علیہ السلام میں جوكچھ تھااس كو بھی لے گئے، حرم كی جدید تعمیركے لئے فتح علی شاہ نے كمر ھمت كسی، اور سونے كے ٹكڑوں سے حرم امام حسین علیہ السلام كے گنبدمبارك كومزین كیااور حضرت عباسعلیہ السلام كے حرم كو بیل بوٹوں كی نقاشی سے آراستہ كرایا، قبلہ كی طرف ایوان بنوائے اور نھایت نفیس لكڑی سے تعویذقبرامام حسین علیہ السلام بنوائی، اور چاندی كی ضریح نصب كی

5. مجتہد اعظم شیخ مازندرانی كے حكم سے مرحوم حاج شكراللہ نے اپنی ساری ثروت خرچ كركے حضرت عباس علیہ السلام كے حرم میں طلا كاری كرائی اور سونے كی تختی پرسونے كے حرف میں مغربی ایوان پراپنانام” شكراللہ“ كتبہ كرایاجو آج تك موجود ھے یہ واقعہ ۱۳۰۹ ھ كاھے

6. محمد شاہ ہندی حاكم لكھنوٴ نے پہلے دروازہ كے سامنے والے ایوان طلاكودرست كرایا، اور سلطان عبدُالحمید كے حكم سے اس ایوان كا رواق بہترین لكڑی كی چھت كے ساتھ بنوایا گی

7. ایوان طلا كے مقابلہ میں چاندی كادر ھے، وہ خودحرم مطھركے خادم مرحوم سید مرتضیٰرحمۃ اللہ علیہ نے ۱۳۵۵ ھ ق میں بنوایاتھا 27

8. روضئہ اقدس میں جوجدید ضریح ھے وہ ۱۳۸۵ ھ ق میں مزین كی گئی اس نفیس اور زیبا ضریح كو اصفھان (ایران) میں پہلے بنایا گیااور پھراسكواس وقت كے مرجع وقت حضرت علامہ آیةاللہ العظمٰی حاج سید محسن الحكیمرحمۃ اللہ علیہ كے مبارك ھاتھوں سے قبرمنورپرركھاگیا 28

مقام دست راست (دایاں بازو)

كربلائے معلی كی زیارتوں میں یہ وہ مبارك مقام ھے كہ جھاں روزعاشورسقائے اہل حرم علیہ السلام كادایاں بازوقطع كیا گیا تھا، اس كے بعد حضرت نے مشك كوبائیں بازومیں سنبھالاتاكہ كسی طرح مشك كوخیام حسینی تك پہنچاسكے

مقام دست چپ (بایاں بازو)

حرم حضرت عباس علیہ السلام كے باب قبلہ سے چندقدم كے فاصلہ پریہ مقام واقع ھے، اور یھی وہ مقام ھے، جھاں سقائے سكینہ كا بایاں بازو كاٹا گیا تھا، اس كے بعد علمدار حسینی نے مشك كو اپنے دانتوں میں تھام لیااور خیموں كی طرف چلے تاكہ پانی كوخیموں تك پہنچادے، مگرظالموں نے تیروں كی بارش شروع كردی جس كی وجہ سے ایك تیرمشك سكینہ علیھا السلام پرلگااور تمام پانی بہہ گیا، اب غازی علیہ السلام كی ھمت جواب دے گئی، اس منظركوپیام اعظمی نے اپنے ایك شعرمیں اس طرح بیان كیاھے:

قسمت نے جب امیدوں كے دامن جھٹك دئے

بچوں نے اپنے ھاتھوں سے ساغرپٹك دئے

تیلہٴ زینبیہ

حرم سركارسیدالشہداء كے صحن كے مغرب میں تقریباََ۲۰میڑ كے فاصلہ پر ایك زیارت گاہ واقع ھے، در اصل ماضی میں یہ ایك ٹیلہ تھا، جو” ٹیلہٴ زینبیہ“ كے نام سے مشھور تھا، مقاتل كی روایتوں كی بناپرحضرت زینب علیھا السلام نے روزعاشور اسی مقام سے امام حسین علیہ السلام كو شھید ھوتے ھوئے دیكھا تھا، اس گھڑی ثانی ٴزھرا ء علیہا السلام فریاد كررھیں تھیں اور ان كی اس فریادكو كوئی سننے والا نہ تھا نالہ وفریادكررھی تھیں مگر آپ كی فریاد سننے والا كوئی نھیں تھ

خیمہ گاہ حسینی

حرم امام حسین علیہ السلام كے جنوب میں خیمہ گاہ واقع ھے آج یہ زیارت گاہ خاص و عام ھے، روزعاشوراسی مقام پرامام حسین علیہ السلام او ران كے انصار كے خیمے نسب تھے، یہ مقام نھایت مقدس اور دل خراش ھے كہ ھرزیارت كرنے والے كادل اس مقام كودیكھ كرافسردہ ھوجاتا ھے، اس میں ایك جانب انصاركے خیام دوسری جانب اقرباء اور درمیان میں حضرت ثانی زھراء كاخیمہ واقع ھے، عصرعاشوردشمنوں نے ان خیام اہلبیت علیھم السلام كے احترام كابھی كچھ خیال نہ ركھااور بعدشھادت امام حسین علیہ السلام ان میں آگ لگادی اور ان كے اہل حرم كواسیركیاگی

مقام علی اصغر علیہ السلام

مقام علی اصغر علیہ السلام وہ مقام خاص ھے جھاں امام حسین علیہ السلام كا شیرخوار بچہ شھیدھواتھا، علامہ سیدبن طاؤسرحمۃ اللہ علیہ نے” مقتل لھو ف“ میں علی اصغرعلیہ اسلام كی شھادت كاواقعہ اسطرح نقل كیا ھے كہ جب امام حسین علیہ السلام نے آواز استغاثہ بلند كی كہ” كوئی ایساھے جواہلبیت رسول كی حمایت كرے؟ آیاھے كوئی ایساخداترس جوخداكاخوف كرے، اور ھماری فریادكوپہنچے؟“ابھی حضرت علیہ السلام كااستغاثہ تمام نہ ھوا تھا كہ خیام اہلبیت علیھم السلام میں یكایك آہ وزاری اور نالہ وبیقراری كی آوازیں بلندھوئیں، كان میں ان آوازوں كا آنا تھاكہ آپ خیام اہلبیت علیھم السلام كی طرف چلے دیكھاكہ علی اصغر علیہ السلام نے اپنے كوجھولے سے گرادیا ھے اور پیاس كی شدت سے ہلاك ھوئے جاتے ھیں، آپ نے دل كومضبوط كركے جناب زینب علیھا السلام سے فرمایا: ”اے بہن! میرے اس چھوٹے بچے كودے دوتاكہ میں اس كوبھی وداع كرلوں “بہن نے بھائی كے حكم كی فوراََ تعمیل كی اور اس بلكتے ھوئے بچے كوباپ كے گودمیں دے دیا، امام حسین علیہ السلام كی گود میں آناتھاكہ علی اصغرعلیہ السلام نے اشارہ سے خدمت امام علیہ السلام میں عرض كی، اے باباجان! ” مجھے بھی میدان قتال میں لے چلیں “چنانچہ آپ اپنے پارہ جگر كوسینہ سے لگائے ھوئے فوج اشقیاء كے سامنے تشریف لائے اور ایك بلند مقام پركھڑے ھوكرعلی اصغرعلیہ السلام كو دونوں ھاتھوں پر اس طرح ركھ لیاكہ بعض كوخیال ھواكہ امام حسین علیہ السلام مجبورھوكراپنے اور یزیدكے درمیان فیصلہ كرنے كے لئے قر آن مجید لے كر آئے ھیں آپ نے علی اصغرعلیہ السلام كوبلندكركے منہ ان كاكھول دیااور پھران كے لئے مسلمانوں سے پانی طلب كیا، اس پرصاحبان اولادكادل نرم اور آب آب ھوگیا، مگرحرملہ ا بن كاہل اسدی ملعون نے ایك تیرایساتاك كر مارا كہ علی اصغرعلیہ السلام كے ننھے سے گلے میں پیوست ھوگیااور وہ مظلوم بچہ باپ كے ھاتھوں پراپنے خون میں لوٹنے لگااس وقت آپ نے جناب زینب علیھا السلام كو آوازدی اور فرمایا:اے بہن !”لوعلی اصغرعلیہ السلام بھی سدھارے“ پھر آپ نے علی اصغر علیہ السلام كے كٹے ھوئے گلے كے نیچے اپنے دونوں ھاتھ پھیلا كرركھ دئے اور جب وہ خون سے بھرگئے تو آپ نے وہ خون آسمان كی طرف پھینك دیا 29

مقام علی اكبر علیہ السلام

حرم امام حسین علیہ السلام سے جنوب میں ذرادورپریہ مقام ایك گلی میں واقع ھے، یھی وہ جگہ ھے جھاں ھم شبیہ رسول حضرت علی اكبر علیہ السلام سینہ پربرچھی كاپھل كھانے كے بعدگھوڑے سے زمین پرتشریف لائے تھے اور یھیں ایڑیاں رگڑرگڑ كرشھیدھوئے تھے، اس كے یھاں سے امام حسین علیہ السلام نے لاشہ كوقتل گاہ لے گئے تھے، اور آج یہ اپنے پدربزرگواركے ھمراہ ایك ھی ضریح میں دفن ھیں

فضیلت جناب علی اكبر علیہ السلام

علی اكبرعلیہ السلام ایك خوبصورت نوجوان اور خاص خصوصیات كے حامل تھے، شكل وصورت اور خلق میں شبیہ پیغمبراكرم صلی الله علیه آلهتھے جوكوئی بھی آپ كودیكھتایہ سمجھتا كہ پیغمبر زندہ ھیں اہلبیت رسول جب بھی پیغمبر كی زیارت كاشوق كرتے علی اكبر علیہ السلام كے چھرے كی طرف دیكھتے حضرت علی اكبرعلیہ السلام ایمان اور معنوی طاقت میں امام حسین علیہ السلام كے تمام ساتھیوں سے آگے تھے 30

نام علی شبیہ بنی عمر سیدہ

كیاكیا تبركات تھے اكبر لئے ھوئے !

شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نقل كرتے ھیں : ایك دن معاویہ اپنی خلافت كے زمانے میں كہنے لگاكہ خلافت كے لائق سب سے زیادہ كون شخص ھے، لوگوں نے كھا: ھم توتیرے علاوہ كسی اور كوخلافت كے لائق نھیں سمجھتے، معاویہ نے كھا:ایسانھیں ھے بلكہ سب سے زیادہ خلافت كے لائق علی بن الحسین علیہ السلام ھیں كہ جن كے نانارسول خدا ھیں ، اور جوشجاعت بنی ھاشم، سخاوت بنی امیہ اور حسن منظروافتخار ثقیف كامجموعہ ھے، اس كامطلب یہ ھوا كہ دشمن بھی جناب علی اكبرعلیہ السلام كی فضیلت ومنزلت سمجھتے تھے، علی اكبرعلیہ السلام عاشور كے دن ابوطالب علیہ السلام كے بیٹوں میں سے پہلے مجاہد تھے كہ جنھوں نے گھوڑے كی ركاب میں قدم ركھ كر امام حسین علیہ السلام سے جنگ كرنے كی اجازت مانگی، امام حسین علیہ السلام نے اپنے بیٹے كوجنگ كی اجازت دی اور میدان كی طرف روانہ كیاپھرمایوس نظروں سے علی اكبرعلیہ السلام كو دیكھا آنكھوں سے آنسوجاری ھوگئے سركو آسمان كی طرف اُٹھایااور كھا :اے خدا!گواہ رہنااس قوم كی طرف سے اب میں اس جوان كو جنگ میں بھیج رھاھوں جو خلقت وخلق وگفتارورفتارمیں تیرے نبی كی شبیہ ھے چنانچہ ھم جب بھی تیرے نبی كی زیارت كاشوق ركھتے تو اس جوان كے چھرے كی طرف دیكھ لیتے تھے، روزعاشورہ آپ كی شھادت برچھی كاپھل لگنے كے سبب واقع ھوئی 31

نھر فرات

یہ بھولنانھیں چاہئے كہ كربلامیں جھاں اور مقدس مقامات ھیں ان میں سے ایك نام دریائے فرات كابھی ھے مگر اكثرزائرین اس كی فضیلت كونہ جاننے كی بناپراس كی زیارت، اس میں غسل كرنے اور اسكے پانی كوپینے سے محروم رہتے ھیں چنانچہ ان ھی باتوں كومدنظرركھتے ھوئے ھم نھرفرات كے بارے میں چند فضائل یھاں نقل كئے جاتے ھیں تاكہ اس كی عظمت سے زائرین حضرات آگاہ ھوجائیں اور اس كے پانی سے مستفیدھوں، امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاھے:” دریائے فرات جنت كی نھروں میں سے ایك نھر ھے، اور اس كا پانی تمام پانیوں كاسردار ھے، ھررات دریائے فرات میں تین مثقال مشك جنت ملائی جاتی ھے، ھررات جنت میں سے كچھ پانی دریائے فرات میں شامل كیاجاتاھے، كرہٴ ارض كے مشرق ومغرب میں دریائے فرات سے زیادہ بركت والاكوئی پانی نھیں ھے، جس بچے كوولادت كے فوراََ بعددریائے فرات كے پانی سے مس كیاجائے وہ ھم اہلبیت علیھم السلام كامحب ھوگا“32

امام جعفرصادق علیہ السلام، ابوالعباس سفاح كے زمانے میں كربلاتشریف لائے تكان سفردوركرنے سے پہلے دریائے فرات پرتشریف لائے اور غلام سے فرمایا -”مجھے پانی كاایك جام بھركے دے“ جب غلام نے پانی دیاتو آپ نے پانی پیاجوبچ رھااسے كپڑوں پرچھڑك دیا، اور فرمایا:”الحمداللہ كتنی عظیم بركتوں كاحامل ھے آب فرات روزانہ آب جنت سے سات قطرات اس دریامیں ڈالے جاتے ھیں اگر میراٹھكانہ اسی جگہ ھوتاتومیں صبح وشام دریائے فرات پر آكراس كے پانی سے غسل بھی كرتااور پیتابھی، اگرلوگوں كو آب فرات كی بركت معلوم ھوتی تواپنے مكان دریائے فرات كے كنارے بنالیتے، كتنی بیماریاں ھیں جودریائے فرات كے پانی سے غسل كرنے سے دورھوجاتی ھیں اور كتنے مرض ھیں جودریائے فرات كاپانی پینے سے دور ھوجاتے ھیں ، جودریاجبرئیل علیہ السلام نے كھودے ھیں وہ یھی پانچ ھیں :دریائے فرات، دریائے دجلہ، دریائے نیل، دریائے نھروان اور دریائے بلخ“ 33

یہ تو ھوئی دریائے فرات اور اس كے پانی كی فضیلت مگر افسوس !اسی نھر كے كنارے ساقی ٴ ٴكوثر كالال اپنے اہل حرم كے ھمراہ تین دن تك پیاسا رھا، جبكہ حضرت علی علیہ السلام فرمایاكرتے تھے: ”قیامت میں سب سے پہلے جس شخص كواس كے اعمال حسنہ كااجرملے گا وہ شخص ھوگاجس نے مخلوق خداكے لئے پانی كاانتظام كیاھوگا“ اور امام صاد ق علیہ السلام كہتے تھے:” تمام صدقات میں سے افضل ترین پیاسے دل كوسیراب كرناھے“

تبصرے
Loading...