كتاب آسمانی سے مراد کیا ہے؟ (حصّہ سوّم)

امام محمد باقر علیہ السلام آیت “قل كفی باللہ شھیداً بینی و بینكم و من عندہ علم الكتاب” كے ذیل میں فرماتے ہیں: “آیت سے مراد ھم اھل بیت (ع) ہیں اور ھم میں سب سے پھلے و سب سے برتر علی علیہ السلام ہیں”۔

یھاں تك یہ بات روشن ھوگئی كہ علم قرآن “راسخین فی العلم” سے مخصوص ہے جو پیغمبر (ص) ائمہ معصومین (ع) اور بعض علماء كو شامل ہے البتہ ان سب میں بالا اور كامل ترین راسخ شخص پیغمبراكرم (ص) ہیں۔ امام صادق (ع) فرماتے ہیں:
“فرسول اللہ افضل الراسخین فی العلم قد علّمہ جمیع ماانزل علیہ من التنزیل و التاویل و ما كان اللہ لینزل علیہ شیئا لم یُعلّمہ تاویلہ و اوصیاء من بعدہ یعلمونہ كلّہ”۔ رسول خدا (ص) سب سے برتر راسخ فی العلم ہیں كہ خداوند عالم نے سارے قرآن كی تفسیر و تاویل سے آپ كو آگاہ كیا ہے اور كوئی آیت نازل ن ہیں ھوئی مگر یہ كہ آنحضرت (ص) اس كی تفسیر و تاویل كو نہ جانتے ھوں اور آپ كے جانشین بھی تمام قرآن كا علم ركھتے ہیں۔

مذكورہ رتبہ بندی میں قرآن سے انسیت كا بالا ترین رتبہ قرآن پرعمل ہے لیكن روایات میں علم و عمل كا رابطہ ہے اور عمل كے آثار میں سے بھی ہے اور علم كے لئے اسے مقدمہ بھی بیان كیا گیا ہے۔ پیغمبر اكرم (ص) فرماتے ہیں:
“ان العالم من یعمل وان كان قلیل العمل” عالم وہ ہے جو اپنے علم كے مطابق عمل كرے اگرچہ عمل كی مقدار كم ھی كیوں نہ ھو ۔

دوسری روایت میں فرماتے ہیں:
“لاتكون عالما حتی تكون بالعلم عاملاً” (اس وقت تك) عالم ن ہیں ھوگے جب تك اپنے علم پرعمل نہ كرو۔

علم كے لئے عمل مقدمہ ہے اس بارے میں پیغمبر اكرم (ص) فرماتے ہیں:
“من عمل بما یعلم ورثہ اللہ علم مالم یعلم” جو كوئی اپنی معلومات پرعمل كرے خداوند متعال اسے مجھولات كا علم عطا كرے گا۔

ان روایتوں كا اطلاق جو علم و عمل كے رابطہ كو دو طرفہ بیان كرتی ہیں قرآن پر علم و عمل كو بھی شامل ہے قرآن مقدمہ ہے اس پر عمل كا اور قرآن پر عمل مقدمہ ہے قرآن كے علم كا۔ لہذا كچھ قرآنی معارف ایسے ہیں جو مخصوص ہیں “راسخین فی العلم” سے اور افراد عادی كی سمجھ سے باھر ہے اور كوئی اس تك ن ہیں پھنچ سكتا، لیكن اس معارف كے علاوہ كو دوسرے بھی درك كرسكتے ہیں۔ ان كا علم عمل كا باعث ھوگا اور ان كا عمل علم میں زیادتی كا سبب ہے۔

مصنّف : اصغر ھادوی كاشانی

مترجم : سید محمد جعفر زیدی

بشکریہ مجتمع جہانی شیعہ شناسی

 

تبصرے
Loading...