قيام عاشورا سے درس ( دوسرا حصّہ )

حضرت امام حسين عليہ السلام نے ان کے جواب ميں فرمايا ! ” لا واللہ اعطيتھم بيدي اعطاء الذليل و لا اقر اقرار العبيد ” (1) خدا کي قسم ! نہ تو ذلت والا ہاتھ ان کو دوں گا اور نہ بردگان کي طرح ان کي حکومت کو قبول کروں گا ” اس سے بيشتر ذلت کيا ہوتي کہ حضرت امام حسين بن علي عليہ السلام يزيد کے ہاتھ پر بيعت کرتے اور اس کي منکرات کو قبول کر ليتے اور اس کے عوض چند روز بيشتر زندہ رہتے – 2- ايثار و از خود گذشتگي

 حضرت امام حسين عليہ السلام نے ان کے جواب ميں فرمايا !

” لا واللہ اعطيتھم بيدي اعطاء الذليل و لا اقر اقرار العبيد ” (1)

خدا کي قسم ! نہ تو ذلت والا ہاتھ ان کو دوں گا اور نہ بردگان کي طرح ان کي حکومت کو قبول کروں گا “

  اس سے بيشتر ذلت کيا ہوتي کہ  حضرت امام  حسين بن علي عليہ السلام  يزيد کے ہاتھ پر بيعت کرتے اور اس کي منکرات کو قبول کر ليتے اور  اس کے عوض چند  روز بيشتر زندہ رہتے –

2-  ايثار و از خود گذشتگي

عظيم لوگوں کي ايک بڑي خوبي ايثار اور فداکاري ہوتي ہے – ايسے لوگ دوسروں کو خود پر مقدم جانتے ہيں  اور ہميشہ خود کو دوسرے کي مدد کے ليۓ تيار کيے رکھتے ہيں –  قرآن ايمان دار لوگوں کي مشخص صفات ميں سے ايک صفت ” ايثار”  کو شمار کرتا ہے –

” و يۆئرون علي انفسھم و لو کان بھم خصاصۃ ” (2)

اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجيح ديتے ہيں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں – ( سورہ حشر – آيت 9 )

ايثار کي مختلف حالتيں ہيں – ايثار بعض اوقات جان کا ہے تو بعض اوقات مال کا اور ان دونوں کي خدا کے نزديک بہت قدر و قيمت ہے ليکن آنحضرت کے پاس جو کچھ بھي تھا انہوں نے پورے خلوص کے ساتھ اپني  اور اپنے بچوں و رشتہ داروں کي جانوں کو خدا کي راہ ميں قربان کر ديا –

شاعر اس بارے ميں کيا خوب کہتا ہے کہ

ان کان دين محمد لم يستقم       الا بقتلي ، يا سيوف خذيني

کربلا کے72 شہداء کے اندر قرباني اور ايثار کا جذبہ واضح تھا جنہوں نے شہادت پانے کے ليۓ ايک دوسرے پر سبقت لے جانے کي کوشش کي – اس ايثار اور جذبے نے قيامت تک کے انسانوں کے ليۓ  قرباني کي ايک مثال قائم کر دي ہے جس سے رہنمائي پا کر ہر دور ميں مظلوم ظالم کي آنکھوں  ميں آنکھيں ڈال کر بات کرنے کي جرات پيدا کر رہا ہے –

3- خدا پر توکل

حضرت  حسين بن علي عليہ السلام حکومت يزيد کے اصل چہرے کو بےنقاب کرنے کے ليۓ مدينہ منوّرہ سے باہر گۓ اور مکہ ميں رہے  اور اپنے خطابات  کے ذريعے لوگوں کو  اس ظالم حکومت کے کرتوتوں سے آگاہ کيا  ليکن جب ان کي جان لينے کي  کوششيں کي جانے لگي تو اللہ کے گھر کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ حجاز کو ترک کرکے عراق کي طرف روانہ ہو گۓ –  راستے ميں کوفہ والوں کے حيلوں سے آگاہ ہونے کے باوجود انہوں نے اللہ تعالي پر بھروسہ کيا اور  اپنے سفر کو جاري رکھا –

انہوں نے خدا پر توکل کرتے ہوۓ اس عظيم واقعہ ميں  مسلم امہ کو سخت حالات ميں   روانگي اور قيام  کا درس ديا  اور آخرکار اپني منزل کو حاصل کر ليا –

حسيني قافلے کي روانگي کے  بعد بھي متعدد بار  خاندان بني ھاشم اور دوسروں نے اس  ظالم حکومت کے خلاف قيام کيا اور بالاخر بني اميّہ کي حکومت 132 ہجري ميں جاتي رہي –

حوالہ جات :

1-  از کلمات امام حسين عليہ السلام ، ص 44

2-  سورہ حشر- آيت 

تبصرے
Loading...