قضاء وقدر الہی(حصہ سوم)

قضاء وقدر پر ایمان اوراعتقاد کے آثار (فوائد اور احتمالی خطرات)
قضاء قدر کے فوائد

گزشتہ مطالب  میں ہم نے  قضاءوقدر اور انسان کے اختیار کے بارے میں   کچھ مطالب   بیان کیے  اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ انسان  ایک بااختیار مخلوق ہے لیکن ساتھ ساتھ قضاءوقدر کی  محددودیتیں بھی ہیں  خصوصا جب  “قضاءوقدر  حتمی  ” قضاءوقدر مسمی ” قضاءوقدر مقطوع ہوں  تو وہاں پر تسلیم  کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے
لیکن گذشتہ   مباحث میں واضح ہوچکے ہیں کہ  لوح  مبارک محفوظ کے ضمن میں ديگر الواح مبارکہ بھی ہیں جن پر انسان کے بارے میں ” قضاء وقدر غیرحتمی ” قضاءوقدر قابل تغییر ” قضاء وقدر معلق” مکتوب ہیں  جو  انسان کے رفتار ،کردار سے مربوط  ہیں  تو یہاں پر  انسان اپنے ہاتھ سے اپنی تقدیر بناسکتا ہے        اور قضاءوقدر کو مختلف تعبیرات  کے ساتھ ہم استعمال کرتے میں مثلا مشیت الہی ، ارادہ الہی ،  تقدیر الہی ، قضاء الہی ،  اور فیض الہی  یہ سب  قضاء وقدر الہی  کے معنی  کے لئے استعمال ہونے والے مختلف    کلمات ہیں  لیکن مراد ومقصد  ایک ہے   
پس قضا ء وقدر الہی نہ صرف   اختیار انسان کے ساتھ  منافی نہیں تھی بلکہ  اس کی انسان کے اوپر بہت ساری برکتین  کے باعث  بھی ہیں   انسان ایک مسئولیت پذیر ہونے کے ناطے خداوند کی حکمت  سے بعض  کام  انسان کے مقدر ہوتے ہیں  جس کی وجہ سے انسان  کی تربیت ہوتی ہے اور مشکلات کا سامنا کرنا انسان کے لئے آسان ہوتا ہے  
 مثلا  اگر انسان کی تقدیر میں کچھ مشکلات ہوں اور انسان کا قضاءوقدر الہی پر ایمان ہو تو یقینا  صبر وتحمل کے ساتھ ڈھٹ کر ان مشکلات کا سامنے کرتے ہوئے اپنے خالق ہستی سے ان مشکلات سے نکلنے کے لئے دعا ء  کے ذریعے  رابطہ برقرار کرے گا اور اس کی مشئت پر راضی ہوجائيگا
دوسری طرف انسان کو  ملنے والی تعمتوں  کے پیچھے بھی تقدیر الہی کا ہاتھ  نظرآئیگا  جس پر وہ خالق ہستی  کا تمام  وجود کے ساتھ شکرگزار ہوگا
حضرت آیۃ اللہ  مصباح یزدی  فرماتے ہیں ” بتحقیق قضاءوقد رالہی    پر ایمان اور اعتقاد جہاں    خد ا کی معرفت   کے اعلی درجے کی نشانی  شمار ہوتی ہے اور انسان  کی تکامل عقل  کا باعث   بنتا ہے وہاں  اسکے   بہت عملی  آثار وفوائد   ہیں  ان میں سے بعض کی طرف  ہم یہاں پر اشارہ کرینگے
 جو شخص  اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ  حوادث   خداوند  حکیم کے ارادے کی تحت پیش  آتے ہیں   اور اسکے پس منظر میں  قضاءوقدر الہی   ہے تو ہرگز  دردناک حوادث  کا اسکو ڈر نہیں ہوگا  اورنہ ان کے سامنے تسلیم ہوگا  نہ  انکی وجہ سے  مایوس ہوگا    بلکہ جب  اسکا ایمان   یہ ہے کہ یہ حوادث  ایک حکیم ودانا کے نظام کا  حصہ ہے  اور اس کی مصلحت اور حکمت سے ہی پیش آتے ہیں  تو  خندہ پیشانی سے  ان حوادث کا مقابلہ کریگا  اور یہاں سے انسان کے اندر صبر وتحمل  ، توکل ، رضا ، تسلیم  وغیرہ  ملکہ   پیدا ہوتا ہے
اسی طرح وہ اس دنیا  کی   محدود خوشیاں اور لذتوں سے دھوکہ نہیں کھائے گا  نہ ان کی وجہ سے وہ غرور وتکبر کے شکار ہوگا  اور وہ کبھی خدا کی تعمتوں  دوسروں پر فخر ومباھات اور اپنی بڑائی منوانے کے لئے استعمال نہیں کرے گا  انہی  آثار کی طرف  قرآن کریم کی یہ آیت شریفہ  اشارہ کرتی ہے “- کوئی مصیبت زمین پراور تم پر نہیں پڑتی مگر یہ کہ اس کے پیدا کرنے سے پہلے وہ ایک کتاب میں لکھی ہوتی ہے، اللہ کے لیے یقینا یہ نہایت آسان ہے 0تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو، اللہ کسی خودپسند، فخرجتانے والے کو پسند نہیں کرتا “(16)

قضاء وقدر  کے احتمانی خطرات

جہاں ہم نے  مندرجہ بالا چند سطور  میں  قضاءوقدر کے فوائد کا تذکرہ کیا  یہ وہاں  علماء نے  اس حساس مسئلے  کو صحیح طور پر نہ سمجھنے  کو انتہائی خطرناک  بھی قرار دیا ہے اسی لئے   ان کے فوائد کے ساتھ ساتھ  احتمالی خطرات سے ہمیں آگاہ کیا ہے
“آیت اللہ مصباح یزدی فرمات ہیں “ہمیں  مسئلہ قضاءوقدر  کی منحرف تفسیر سے  بچنے  اور اجتناب کرنے کے حوالے سے تاکید  کرنی ہوگی
کیونکہ  ان کی غلط تفسیر اور تشریح  انسان کو سست اور کاہل  اور ذلت ورسوائی سے دوچار کرتی ہے  اسی طرح انسان کو ظلم وستم  پر خاموش رکھنے پر مجبور کرتی ہے  اور انسان  اپنی مسئولیت سے  بھاگتا ہے  ( اور ان سب کو  قضاء وقدر الہی پر چھوڑ کر خود اپنی  جان چھڑاتا ہےمثلا اگر ایک  اسٹونڈ کا  امتحان سرپہ آیا ہوا ہو اور وہ پرچے کی تیاری کئے بغیر  یہ کہے کہ جو تقدیر الہی میں ہے وہی ہوگا   یہ قضاءوقدرکی کج فہمی کی بین مثال   ہے جبکہ کی ہم نے پہلے عرض کیا کہ بہت ساری  قضاءوقدر اور تقدیر  قابل تغییر ہیں اور معلق ہیں  انسان  کے اعمال اور رفتار سے وابستہ ہیں  )
جب کہ  ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیئے  کی سعادت اور شقاوت  ابدی (حتی دنیاوی )بھی  انسان کے لئے  اس کے اعمال اوررفتار اختیاری کے نتیجے میں  مل جاتی ہیں  رب العزت ارشاد فرماتا ہے” ہر شخص جو نیک عمل کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بدی کرتا ہے اس کا انجا م بھی اسی کو بھگتنا ہے، “(17)
” اور یہ کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے “(18) (19)

 
“بداء”

قضاء وقدر کی بحث میں  آخری اور انتہائی اہم  مسئلہ   “بداء ” ہے  اور بداء شیعہ عقائد میں سے ہے  اور اس اسلامی معارف میں ایک انتہائی  عمیق ،دقیق اور گہرا مسئلہ   ہے  قرآنی آیات اور اہل بیت علیھم السلام کی روایات  کی روشنی میں   “بداء” شیعان اہل بیت علیھم السلام  کے اختیار میں قرار دی گئی ہے  تو سب سے پہلے ہم  کلمۃ  “بداء” کے معنی ومفہوم کو سمجھتے ہیں پھر اصل  بحث کی طرف جائینگے

بداء لغت میں

بداء عربی لفظ ہے جس کا معنی  مخفی چیز کا ظاہر ہونا  ہے  یا مجھول چیز کا معلوم  ہونا    اور یہ کلمہ عربی میں کبھی کبھار پشیمانی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے راغب اصفھانی  کتاب  “مفردات  القرآن” میں اس کا معنی یوں بیان کرتے ہیں ” بدا الشيء بدواً و بداءً : أي ظهر ظهورا بيّناً ” (20) یعنی کسی چیز کا بداء   سے مراد اس کا  آشکار اور ظاہر ہونا ہے  یعنی ایک چھپی ہوئی چیز کے بارے میں  اطلاع حاصل کرے تو لغت میں بداء کہا جاتا ہے مثلاایک شخص  ایک ایسی روڈ پر ڈرائیونگ کررہا ہو کہ سامنے ایک کلومیٹر کے بعد اس کو کچھ نظر نہیں آرہا ہو اور وہ انتہائی سپیڈ سے جارہا ہو اچانک اسکو روڈ کے سائیڈ پر نصب شدہ بورڈ یا کسی طریقے سے معلوم ہوا کہ آگے خطرنا موڑ ہے تولئے وہ گاڑی کی اسپیڈ کم کرکے احتیاط سے گاڑی چلانا شروع کرتا ہے  اسی کو  لغت  بداء کہا جاتا ہے  

بداء لغوی  قرآن کریم میں

قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں بداء  لغت  کے معنی میں استعمال ہوا ہے  یہاں پر بعض  کا ہم تذکرہ کرینگے
1:- “اور اللہ کی طرف سے وہ امر ان پر ظاہر ہو کر رہے گا جس کا انہوں نے خیال بھی نہیں کیا تھا”(21)
2:-” بلکہ ان پر وہ سب کچھ واضح ہو گیا جسے یہ پہلے چھپا رکھتے تھے”(22)
3:-” اور ان کی بری کمائی بھی ان پر ظاہر ہو جائے گی اور جس بات کی وہ ہنسی اڑاتے تھے وہ انہیں گھیر لے گی”(23)
4:-” پھر فریب سے انہیں (اس طرف) مائل کر دیا، جب انہوں نے درخت کو چکھ لیا تو ان کے شرم کے مقامات ان کے لیے نمایاں ہو گئے اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر جوڑنے لگے اور ان کے رب نے انہیں پکارا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تمہیں بتایا نہ تھا کہ شیطان یقینا تمہارا کھلا دشمن ہے؟”(24)ان تمام آیات میں لفظ بداء اپنے لغت والے معنی میں استعمال ہوا ہے   
پس اگر کوئی خداوند کے متعلق بداء  لغوی  معنی میں نسبت دے تو  یقینا  خداوند کے علم اور ذات پر نقص لازم آئے گا اور یہ صحیح نہیں ہے اور اہل سنت نے ائمہ علیھم السلام کے زمانے سے بداء کے اسی  لغوی معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے تک جو شیعوں کو خدا وند کی جہالت پر اعتقاد رکھنے کے حوالے سے مورد الزام قراردے رہے ہیں  جب شیعہ ان کے الزامات اور تہمتوں سے بری ہیں  ائمہ علیھم السلام کی روایات اور قرآنی آیات سے بداء کا اعتقاد ثابت ہے لیکن لغوی معنی میں نہیں  آیۃ اللہ ناصر مکارم شیرازی حفظہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں “اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان معنی میں ”بداء“ خداوندعالم کے بارے میں صحیح نہیں ہے، اور کوئی بھی عاقل انسان خدا کے بارے میں یہ احتمال نہیں دے سکتا کہ اس سے کوئی چیز مخفی اور پوشیدہ ہو، اور ایک مدت گزرنے کے بعد خدا کے لئے وہ چیز واضح ہوجائے، اصولاً یہ چیز کھلا ہوا کفر اور خدا کے بارے میں بہت بُری بات ہے، کیونکہ اس سے خداوندعالم کی ذات پاک کی طرف جہل و نادانی کی نسبت دینا اور اس کی ذات اقدس کو محل تغیر و حوادث ماننا لازم آتاہے، لہٰذا ہر گزایسا نہیں ہے کہ شیعہ اثنا عشری خداوندعالم کی ذات مقدس کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہوں”(25)

بداء کا اصطایحی معنی (بداء کا معنی شیعوں کے نزدیک)

شیعہ علماء کی اصطلاح میں ایک انسان کے نیک اور پسندیدہ اعمال کی وجہ سے اس کی تقدیر و سرنوشت میں تبدیلی کو ”بداء” کہا جاتا ہے.
گذشتہ مباحث میں  قضاء وقدر الہی اور لوح محفوظ  اور اسکے ضمن میں دیگر جو الواح ہیں ان کے مختلف نام ذکر ہوئے ہیں   کبھی قابل تغییر اور غیر حتمی لوح کو ” لوح المحو والاثبات” سے بھی تعبیر  کی گئی ہے  یعنی اس  لوح پر انسان کے متعلق  بہت ساری تقدیرات  لکھی ہوئی ہیں لیکن  معلق ہیں ،حتمی نہیں ہیں ، وابستہ رکھی گئی ہیں انسان کے اعمال ورفتار پر  اور یہ سب بھی قضاء وقدر الہی کے دائرے میں   ہیں  گویا خدا وند متعال انسان کے اعمال ورفتار کو  دیکھتے ہوئے  اس غیر حتمی اور لوح المحو الاثبات پر  لکھی گئی تقدیر کو تبیدیل اور تغییر دیتا ہے  اور اسی کو “بداء ” کہا جاتا ہے یہاں پر یہ بات قابل ذکر  ہے کہ بداء کا معنی اگر لغوی  اعتبار سے خدا کی طرف نسبت دی جائے تو وہ مجازی اور علمی اصطلاح میں توسعی  طور پر ہے  یعنی حقیقت میں یہاں پر بداء انسانوں کو حاصل ہوتا ہے نہ خدا وند متعال جس کے پاس علم بے پایاں ہے ذات عین علم ہے اس کے علم سے کسی بھی مخلوق حتی انبیاء اور اوصیاء کا علم قابل مقائسہ نہیں ہے بلکہ خدا “ابداء ” کرتا ہے یعنی چھپی ہوئی چیز کو ظاہر کرتا ہے تو بداء حاصل ہونے  والا انسان ہے  اور بداء کرنے والا خدا ہے تو خدا کی نسبت  بداء یہان پر مجازی ہے   یہ بات قرآنی آیات اور ائمہ علیھم السلام کی بے شمار روایات سے ثابت ہے  ہم اختصار کو مدنظررکھتے ہوئے ان کا تذکرہ چھوڑ دیتے ہیں

تین اہم نکتے

مذکورہ  بالا بیان  کی روشنی یہاں تین مسلم نکتے  قرآن کریم اور آئمہ علیھم السلام کی روایات کی روشنی میں ہم  ذکر کرینگے  وہ یہ ہیں
1:- خداوند متعال ہرچیز کی نسبت عالم ہیں اور علم ما کان ومایکون  کا مالک ہے
2:- قرآن کریم اور ائمہ علیھم السلام کی روایات میں  بہت سارے کلمات مجازی استعمال ہوئے ہیں
3:-قرآن کریم اور روایات کی رشنی میں اکثر چیزیں قطعی ، اورحتمی نہیں ہوتی بلکہ  مختلف شرائط اور انسان کے اعمال ورفتار سے  مربوط ہیں اور انسان اپنے اعمال ورفتار کے ذریعے ان میں تبدیلیاں لاسکتا ہے

بداء اصطلاحی قرآن کریم میں

قرآن کریم میں  بہت ساری آیات ہیں
1:-” اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے”(26)
2:-” اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے خبردار کیا کہ اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب یقینا سخت ہے”(27)
3:-” اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے کہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے”(28)

بداء روایات  معصومین علیھم السلام کی روشنی میں

چند روایات جو  عقیدہ بداء پر صراحت  اور  ان اعمال پر دلالت کرتی ہیں جن سے بداء ثابت ہوتا ہے
1:- “مَاعَرفَ اللهُ حَقّ معرفتِه مَنْ لَمْ یعرفه بِالبداءِ”(29)جو شخص خدا کو ”بداء“ کے ذریعہ سے نہ پہچانے اس نے خدا کو صحیح طریقہ سے نہیں پہچانا”
2:- “عن أبي عبد الله  عليه السَّلام قال : ” ما بعث الله عَزَّ و جَلَّ نبياً حتى يأخذ عليه ثلاث خصال : الإقرار بالعبودية ، و خلع الأنداد ، و إن الله يُقدّم ما يشاء و يؤخّر ما يشاء “(30) امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے ” خدا وند متعال نے کسی نبی کو مبعوث  نہیں فرمایا  مگر   ان سے تین خصلتوں کا وعدہ لیا  خدا کی بندگی کا اقرار اور  شرک سے بیزاری اور  اس بات پر ایمان  کہ خدا جس چاہے  مقدم کردیتا ہے اور جس کو چاہیے مؤخر کردیتا ہے”
3:- ” ما عُبد الله عَزَّ و جَلَّ بشيءٍ مثل البداء “(31)” بداء کی طرح کسی بھی چیز کے ذریعے  خدا کی عبادت نہیں کی گئی”
4:- ” قال الإمام الباقر عليه السَّلام “صلة الرحم تُزكّي الأعمال ، و تُنمّي الأموال ، و تدفع البلوى ، و تيسّر الحساب ، و تُنْسيءُ في الأجل ” یعنی امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ” صلہ رحم  اعمال  کو نیک بنا دیتا ہے اور اموال میں اضافہ کردیتا ہے اور بلاؤں کو دفع کرتا ہے اور حساب کو آسان بنادیتا ہے  اور انسان کی موت کو ٹال دیتا ہے “(32)
5:- قال الإمام الصادق  عليه السَّلام ” إن الدعاء يردّ القضاء ، و إن المؤمن ليذنب فيُحرم بذنبه الرزق ” (33)امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ” دعا تقدیر کو ٹالتی ہے اگر مومن گناہ کرے تو اس گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم ہوتا ہے
6:- قال الامام الرّضا (علیه السلام): یکون الرجل یصل رحمه فیکون قد بقی من عمره ثلاث سنین فیصیرها الله ثلاثین سنه(34) امام رضا علیہ السلام  نے فرمایا  ایک شخص اکر صلہ رحم انجام دے تو اگر اس کی عمر کے تین سال  باقی رہ گئے ہوں تو خداوند ان کو تیس سال میں  تبدیل کرتا ہے

نتیجہ

مذکورہ بالا  قرآنی آیات کی روشنی میں “بداء” کے بارے میں کوئی شک وشبہ  باقی نہیں رہتا اور اس کا انسان کی زندگی اور تربیت میں کتنا اثر  بھی واضح طور پر سامنے آجاتا  ہے  
والحمد لله رب العالمین
نوٹ : ان  مباحث میں کتاب صراط مستقیم  تالیف  شیخ محمد ہادی نبوی سے  کمال استفادہ ہوچکا ہے
————
16:- (مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ0لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ) سورہ حدید آیت  22-23
17:- ( لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ) سورہ بقرہ آیت 286
18:- ( وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى) سورہ نجم آیت 39
19:-  دروس فی العقیدۃ الاسلامیۃ – آیت اللہ مصباح یزدی صفحہ 156
20:- مفردات القرآن –راغب اصفہانی صفحہ 40
21:-( وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ)سورہ زمر آیت 47
22:- (بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُواْ يُخْفُونَ مِن قَبْلُ) سورہ انعام آیت 28
23:-( وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُون) سورہ  زمر آیت 48
24:-( فَدَلاَّهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَاتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَآنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ) سورہ اعراف  آیت 22
25:- ایک سو دس سوال وجواب – آیت اللہ مکارم شیرازی
26:- (إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ)سورہ  رعد آیت 11
27:-( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ)
28:-( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ اٴُمُّ الْکِتَابِ)سورہ رعد آیت 39
29:- ایک سو دس سوال وجواب – آیت اللہ مکارم
30:- الكافي : ج1 صفحہ 147
31:- التوحيد- صدوق  صفحہ 332
32:- اصول کافی ج 2 صفحہ 150
33:-بحار الانوار ج 90 باب ذکر ودعاء
34:- الکافی، ج 2، ص

تبصرے
Loading...